Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲(کتاب الطہارۃ)
1 - 176
بِسْمِ اللّٰہِ الرَحْمٰنِ الرَّحِیمِ

باب المیاہ

(پانیوں کا بیان)
مسئلہ ۲۳  : ۲۷ صفر    ۱۳۰۵ھ :کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بقیہ آبِ وضو سے کہ برتن میں رہ جائے وضو جائز ہے یا نہیں اور اگر پہلا وضو کرنے میں کچھ پانی ہاتھ سے اُس میں گر پڑا تو کیا حکم ہے۔ بینّوا توجروا۔
الجواب :بقیہ(۱) آبِ وضو کہ برتن میں رہ جاتا ہے مائے مستعمل نہیں بلکہ وہ پانی ہے جو استعمال سے بچ رہا اُس سے وضو میں کوئی حرج نہیں اور مائے مستعمل(۲) اگر غیر مستعمل میں مل جائے تو مذہب صحیح میں اُس سے وضو جائز ہے جب تک مائے مستعمل غیر مستعمل سے زائد نہ ہوجائے اگرچہ مستعمل پانی دھار بندھ کر گراہو، اور بعض نے کہا اس صورت میں بھی مستعمل فاسد کردے گا اور وضو جائز نہ ہوگا اگرچہ غیر مستعمل زائد ہو مگر ترجیح مذہبِ اول کو ہے۔
فی فتاوی الخلاصۃ جنب اغتسل فانتقض من غسلہ شیئ فی انائہ لم یفسد علیہ الماء اما اذا کان یسیل منہ سیلانا افسدہ وکذا حوض الحمام علی ھذا وعلی قول محمّد لایفسدہ مالم یغلب علیہ یعنی لایخرجہ من الطھوریۃ ۱؎
فتاوٰی خلاصہ میں ہے اگر جُنبی شخص کے جسم سے بوقتِ غسل کچھ چھینٹے برتن میں گر گئے تو پانی ناپاک نہ ہوگا، ہاں اگر باقاعدہ بَہہ کر پانی گرا تو ناپاک ہوگا اور حمام کے حوض کا بھی یہی حکم ہے اور امام محمد کا قول ہے کہ صرف اُسی وقت ناپاک ہوگا جب وہ پاک پانی پر غالب ہوجائے
 (۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی        کتاب الطہارت    ۱/۸)
وفی الدر المختار یرفع الحدث بماء مطلق لابماء مغلوب بمستعمل بالاجزاء فان المطلق اکثر من النصف جاز التطہیر بالکل والا لا علی ما حققہ فی البحر والنھر والمنح ۲؎ اھ۔ ملتقطا واللّٰہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم۔
اور دُرِّمختار میں ہے کہ مطلق پانی سے حَدَث کو زائل کرے نہ کہ اُس پانی سے جس پر مستعمل پانی غالب ہو اگر مطلق پانی آدھے سے زائد ہو تو کل سے پاکی حاصل کرنا جائز ہے ورنہ نہیں، بحر، نہر اور منح میں یہی تحقیق ہے اھ ملتقطا۔(ت)
 (۲؎ الدرالمختار        باب المیاہ    مطبوعہ مجتبائی دہلی    ۱/۳۴)
مسئلہ ۲۴ :   از غازی آباد وضلع میرٹھ محلہ باغ مرسلہ حامد حسن صاحب ۵ رمضان المبارک ۱۳۱۵ھ

استنجا(۱) یعنی پیشاب پاخانے کے بچے ہوئے پانی سے وضو جائز ہے یا نہیں اور وضو کی حرمت میں اس وجہ سے کچھ فرق تو نہیں آتا یا کیا؟ بینوا توجروا
الجواب :ئز ہے اور اس میں حرمتِ وضو کا کچھ خلاف نہیں کہ یہ پانی استعمال میں نہ آیا کما لایخفی واللہ اعلم بالصواب۔

مسئلہ ۲۵ : ۲۰ جمادی الاخری ۱۳۲۱ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پانی بارش کا جو خاص شہر میں برستا ہے اور نالی وغیرہ دھو کر باہر چلا جاتا ہے پاک ہے یا نہیں، اُس سے وضو درست ہے یا نہیں، اُس پانی کو جاریہ کہیں گے یا نہیں۔ بینوا توجروا
الجواب

جس(۲) وقت بارش ہورہی ہے اور وہ پانی بہہ رہا ہے ضرور مائے جاری ہے اور وہ ہرگز ناپاک نہیں ہوسکتا جب تک نجاست کی کوئی صفت مثلاً بُو یا رنگ اُس میں ظاہر نہ ہو صرف نجاستوں پر اس کا گزرتا ہوا جانا اُس کی نجاست کا موجب نہیں فان الماء الجاری یطھر بعضہ بعضا(جاری پانی کا ایک حصّہ دوسرے کو پاک کردیتا ہے۔ ت) رہا اُس سے وضو، اگر کسی نجاست مرئیہ کے اجزا اُس میں ایسے بہتے جارہے ہیں کہ جو حصہ پانی کا اُس سے لیا جائے ایک آدھ ذرّہ اس میں بھی آئے گا جب تو یقینا حرام وناجائز ہے وضو نہ ہوگا اور بدن ناپاک ہوجائے گا کہ حکم طہارت بوجہ جریان تھا جب پانی برتن یا چُلّو میں لیا جریان منقطع ہوا اور نجاست کا ذرّہ موجود ہے اب پانی نجس ہوگیا اور اگر ایسا نہیں جب بھی بلا ضرورت اُس سے احتراز چاہئے کہ نالیوں کا پانی غالباً اجزائے نجاست سے خالی نہیں ہوتا اور عام طبائع میں اُس کا ¬استقذار یعنی اُس سے تنفّر اُس سے گھن کرنا اُسے نا پسند رکھنا ہے اور ایسے امر سے شرعاً احتراز مطلوب، احادیث میں ہے:
ایاک وما یسوء الاذن ۱؎ ۔ ایاک وما یعتذر منہ ۲؎ بشرواولاتنفروا ۳؎۔
بُری بات سننے سے بچو۔ اور اس بات سے کہ بعد میں عذر کی ضرورت ہو، خوشخبری سناؤ نفرت نہ پھیلاؤ۔(ت)
 (۱؎ مسند امام احمد    عن ابی الغادیۃ    مطبوعہ بیروت    ۴/۷۶) 

(۲؎ جامع الصغیر مع فیض القدیر         مطبوعہ بیروت    ۳/۱۱۷)

(۳؎ جامع للبخاری    کتاب العلم        قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/۱۶)
اور اگر بارش ہوچکی اور پانی ٹھہر گیا اور اب اُس میں اجزائے نجاست ظاہر ہیں یا نالی کے پیٹ میں نجاست کی رنگت یا بُو تھی اور بارش اتنی نہ ہوئی کہ اُسے بالکل صاف کردیتی انقطاع کے بعد وہ رنگ یا بُو ہنوز باقی ہے تو اب یہ پانی ناپاک ہے اور اگر نالی صاف تھی یا مینہ نے بالکل صاف کردی اور پانی میں بھی کوئی جزء نجاست محسوس نہیں تو پاک ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم
Flag Counter