فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
9 - 120
کتاب المضاربۃ
(مضاربت کا بیان)
مسئلہ ۱۹ : از میران پور کٹرہ ضلع شاہجہان پور مسئولہ محمد صدیق بیگ صاحب ۲۵ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کسی اہل ہنود کو روپیہ تجارت کے لئے دیا جائے او ر اس طرح پر کہ وہ کہے کہ جو نفع ہو اس میں سے نصف نصف تقسیم کرلیں گے۔ اکثر اس طریقہ سے روپیہ دیا بھی تھا۔
الجواب: یہ طریقہ مضاربت کا ہے۔ مسلمان کے ساتھ بھی جائز ہے۔ مگر اس پر نقصان کی شرط حرام ہے۔ اور ہندو کے ساتھ شرط نقصان بھی کرلینا جائز۔ لانہ من عقد فاسد وھم لیسوابا ھل ذمۃ ولا مستامنین۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
کیونکہ یہ عقد فاسد ہے اور یہ ہند و نہ تو ذمی ہیں او رنہ ہی مستامن ہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۲۰: ا زموضع مخدوم پور دیہہ ڈاکخانہ مخدوم پور گیا ضلع گیا مرسلہ سید مخدوم بخش صاحب حنفی ۲۹ شوال ۱۳۱۵ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص تجارت کرتاہے دوسرے لوگو ں کے روپے سے اس طریقہ پر کہ ہر سال بعد تمام اخراجات کے جو نفع ہوتا ہے اس میں سے ایک رُبع خود اجرت محنت لیتاہے اور بقیہ تین رُبع میں جن لوگوں کا روپیہ ہے انہیں دیتاہے۔ اگر یہ شخص شرکاء سے یہ معاہدہ کرے کہ اگر تم کو ہر سال ایک معین مقدار مثلا بارہ روپے فیصدی سے کم نفع ہوگا تو اس کمی کو ہم پورا کردیں گے اور اس سے زیادہ جو کچھ نفع ہو وہ بھی تمہارا ہے آیا اس معاہدے کے سبب سے نفع تجارت داخل رباہو جائے گایا نہیں؟ امید کہ جواب باصواب مسئلہ کے بحوالہ کتب فقہیہ بقید ابواب وفصول وصفحہ ومطبع سرفراز فرمائیں گے۔ بینوا توجروا
الجواب: یہ معاہدہ حرام ہے۔ مال والے اور یہ تاجر سب گنہگارہوں گے اگر چہ کبھی کمی نہ واقع ہو اور کمی جو یہ پوری کرے گا اس کا پورا کرنا اسے حرام ہے اور اس زیادت کا لینا ان مال والوں کو حرام و رباہے۔
درمختار، صدر کتاب المضاربہ، جلد چہارم وردالمحتار مطبع قسطنطنیہ ص ۷۴۲ ذکر شرائط مفادات میں ہے:
فریقین میں شائع ہونا (مقدار عین نہ ہونا) اگر کوئی مقدار معین ہوئی تو مضاربت فاسد ہوگی اور عقد کے وقت دونوں کا حصہ معلوم ہونا۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب المضاربۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۴۷۔ ۱۴۶)
ہندیۃ کتاب المضاربۃ باب اول مطبع قاہرہ ملک مصر جلد چہارم ص ۲۸۷میں ہے :
فان قال علی ان لک من الربح مائۃ درہم اوشرط مع النصف اوالثلث عشرۃ دراہم لاتصح المضاربۃ کذا فی محیط السرخسی ۲؎۔
اگر ایک نے دوسرے کو کہا نفع میں ایک سو درہم تیرے ہونگے یا نصف یا ثلث کے ساتھ مزید دس درہم کی شرط لگائی تو مضاربت صحیح نہ ہوگی۔ محیط سرخسی میں ایسے ہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوی ہندیۃ کتاب المضاربۃ الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۲۸۷)
ہدایہ کتاب البیوع باب الربا مطبع مصطفائی جلد دوم ص ۴۳ میں ہے : الربا ھو الفضل المستحق لاحد المتعاقدین فی المعاوضۃ الخال عن عوض شرط فیہ ۳؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
سود یہ ہے کہ عقد معاوضہ میں کسی فریق کے لئے ایسی زیادتی کی شرط ٹھہرانا جو عوض سے خالی ہو۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۳؎ الہدایۃ کتاب البیوع باب الربوٰ مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۸۰)
مسئلہ ۲۱الف: ۷ محرم الحرام ۱۳۱۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے تجارت بمضاربت بکرکے کی یعنی روپیہ زید کا تھا اور زید وبکر کے درمیان یہ اقرار پایا تھا کہ تجارت مذکور میں جو نفع ونقصان ہوگا تو بکر تیسرے حصہ کا نفع ونقصان اپنے ذمہ لے گااور زید دو حصہ، چنانچہ تجارت مذکورہ میں چونکہ قبل آنے مال کے روپیہ زیادہ مال سے ازروئے تخمینہ کے مال والوں کے پاس پہنچ گیا تھا وقت وصول ہونے مال کے روپیہ پہنچے ہوئے سے مال کم آیا۔ اب جو روپیہ کہ باقی مال والوں کے ذمہ رہ گیا ہے تو اس صورت میں اگر وہ روپیہ وصول نہ ہوسکے تو زید بکر سے تیسرے حصہ کے نقصان لینے کا ازروئے شریعت کے مستحق ہے یانہیں؟ دوسرے یہ کہ ایک عرصہ سے بکر بوجہ کوشش وصول کرنے روپیہ مذکور کے اپنی فکر معاش سے بھی معذور ہورہا ہے۔ کچھ اس کا بدلہ زید پر ہے یانہیں؟
تیسرے بکر نے باجازت زید ان اشخاص پر نالش وصول کرنے روپیہ کی کی۔ روپیہ وصول نہ ہوا تو جو خرچہ نالش میں صرف ہوا زید بکر سے اس خرچہ کے بھی تیسرے حصہ کے نقصان لینے کا مستحق ہوگا یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: مضارب کے ذمہ نقصان کی شرط باطل ہے وہ اپنی تعدی ودست درازی وتضییع کے سوا کسی نقصان کا ذمہ دار نہیں جو نقصان واقع ہو سب صاحب مال کی طرف رہے گا، نہ مضاربت صحیحہ میں مضارب اپنی محنت وکوشش کا کوئی بدلہ صاحب مال سے پانے کا مستحق ہے اس کا بدلہ یہی ہے کہ نفع ہو تو حسب قرار داد اس میں شریک ہوگا۔ پس صورت مستفسرہ میں جو روپیہ وصول نہ ہوا یا نالش میں جو خرچہ ہوا زید اس کا کوئی حصہ بکر سے نہیں لے سکتا۔ اور جو محنت بکر پر پڑے وہ اس کا بدلہ زید سے نہیں لے پاسکتا۔
ہندیہ میں ہے:
اما الشروط الفاسدۃ فمنہا ماتبطل المضاربۃ ومنہا مالا تبطلہا و تبطل بنفسہا کذا فی النہایۃ قال القدوری فی کتابہ کل شرط یوجب جہالۃ الربح اوقطع الشرکۃ فی الربح یوجب فساد المضاربۃ ومالا یوجب شیئا من ذٰلک لایوجب فسادھا نحوان یشترطا ان تکون الوضیعۃ علیہما کذا فی الذخیرۃ ۱؎۔
فاسد شرطوں میں سے بعض مضاربت کو باطل کرتی ہیں اور بعض باطل نہیں کرتیں بلکہ یہ خود باطل ہوجاتی ہیں۔ نہایہ میں یوں ہے۔ قدوری نے کتاب المضاربہ میں فرمایا ہر ایسی شرط جو نفع میں جہالت یا نفع میں قطع شرکت کا باعث بنے۔ تو وہ مضاربت کو فاسد کرنے کا موجب بنے گی، اورجو چیز ایسی چیز کا باعث نہ ہو تو مضاربت کو فاسد نہ کرے گی مثلا دونوں نے شرط لگائی کہ نقصان کو دونوں خود برداشت کریں گے جیسا کہ ذخیرہ میں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب المضاربہ باب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۸۸۔ ۲۸۷)
ہدایہ میں ہے :
کل شرط یوجب جہالۃ فی الربح یفسدہ لاختلال مقصودہ وغیر ذٰلک من الشروط الفاسدۃ لایفسدھا ویبطل الشرط کاشتراط الوضیعۃ علی المضارب ۲؎۔
ہر ایسی شرط جو نفع میں جہالت کا موجب بنے وہ مضاربت کو فاسد کردے گی کیونکہ یہ مقصود میں اختلال ہے اور جو شرائط فاسدہ ایسی نہ ہوں وہ مضاربت کو فاسد نہ کریں گی بلکہ خود باطل ہوجائینگی مثلایہ شرط کہ نقصان مضارب پر ہوگا۔ (ت)
ان سے سوال ہوا کہ جب مضارب کو خسارہ ہوا ہو تو کیا رب المال خسارہ میں شریک ہوگا؟ الجواب : ہاں! (ت)
(۳؎ العقود الدریۃ کتاب المضاربہ ارگ بازار قندہار افغانستان ۲ /۷۲)
درمختارمیں ہے :
المضاربۃ ایداع ابتداء وتوکیل مع العمل لتصرفۃ بامرہ وشرکۃ ان ربح وغصب ان خالف وان اجاز رب المال بعدہ واجارۃ فاسدۃ ان فسدت فلا ربح للمضارب حینئذ بل لہ اجر مثل عملہ ۴؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مضاربت ابتداء میں امانت کی کارروائی ہے اور عمل کے بعد وکیل بنانے کا معاملہ بن جاتاہے کیونکہ مضارب رب المال کے حکم سے اس کے مال میں تصرف کرتاہے اور جب نفع حاصل ہوجائے تو شراکت بن جاتی ہے اور اگر مضارب خلاف ورزی کرے تو غصب بن جاتی ہے خواہ بعد میں رب المال اس کارروائی کو جائز بھی کردے۔ اور مضاربت فاسد ہوجائے تو اجارہ فاسدہ بن جاتا ہے۔ اس صورت میں مضارب نفع کا حقدرا نہ ہوگا بلکہ اپنے عمل کے مطابق اجرت کا حقدار ہوگا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۴؎ درمختار کتاب المضاربہ مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۴۶)
مسئلہ ۲۱ ۔ب: ۲۷ محرم الحرام ۱۳۱۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید ایک شخص کے کارخانہ تجارت میں تھوڑے روپے دے کر شریک ہوجانا چاہتاہے اور یہ کہتا ہے کہ چھتیس روپے سال مجھ کو اس کے منافع میں سے دیا کرو اور اس سے زیادہ جو کچھ ہو تم لے لیا کرو بحق مضاربت، اور اگر کم ہو توا س کے بھی تم متحمل ہو۔ شرعا یہ امر جائز ہے یانہیں؟بینوا توجروا۔
نفع میں شرکت ختم ہوجانے کی بناء پر اور نقصان مضارب پر لازم کرنے کی بناء پر جبکہ دونوں صورتیں شرط فاسد ہیں۔ اور پہلی تو مضاربت کے لئے مفسد بھی ہے۔ جیسا کہ فقہاء کرام نے تصریح فرمائی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۲۲: ۱۴ ربیع الآخر ۱۳۱۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے مبلغ ایک سو پچاس روپیہ بکر کو بہ نیت تجارت دئے کیونکہ بکر میز کرسی کا تاجر تھا اس نے مبلغان مذکورہ کا ساٹھ من بیت خریدا اور سال تمام پر ساٹھ روپے منافع ہوئے لیکن بکر زید کو بایں حساب پانچ روپے ماہوار دیتارہا۔ اس عرصہ میں بیت بکر نے بھی خریدا او ر کبھی نہیں خریدا لیکن ہمیشہ پانچ روپے ماہوار دیتا رہا۔ بعد ایک عرصہ کے بکر نے قضا کی۔ ایک وارث بکر نے وہ مبلغان مذکورہ اپنے ذمے لے کر موافق بکر کے پانچ روپے ماہوار دیئے، لیکن چند ماہ کے بعد وارث بکر نے یہ کہا کہ اس طرح روپیہ دینا ماہوار جائز نہیں۔ لہذا جو روپیہ ذمہ بکر کے تھا میں ادا کرتاہوں چونکہ زید ایک ضعیف شخص ہے اور طاقت تجارت وغیرہ کی خود نہیں رکھتا ہے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ یہ روپیہ وارث بکر کے پاس باقی رہے یا شرع مطہر کوئی طریقہ اس ایسا ارشاد فرمائے کہ ہم کو موافق سابق کے یا اس سے کم وبیش ملے۔ بینوا توجروا
الجواب: ایک رقم تعین کردینا کہ نفع ہو یانہ ہو، کم ہو یازائد۔ ہر طرح اس قدر ماہوار دیں گے ضرور حرام ہے بلکہ وارث بکر زر زیدکو تجارت میں لگائے زید نفع ونقصان دونوں کا متحمل رہے۔ نفع ہو تو جس قدر ہواتناہی زید کو دیا جائے اس سے زیادہ اصلا نہ لے۔ یہ بھی اس صورت میں جبکہ وارث بکر محض احسانا اس کا روپیہ تجارت میں لگائے اور اس کے نفع میں اپنا حصہ نہ چاہے ورنہ جو باہم قرارداد ہوجائے اتنا حصہ نفع میں اپنا لے کر باقی زید کو دے واللہ تعالٰی اعلم۔