فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
8 - 120
مسئلہ ۱۷: از ریاست رامپور پیش کردہ مفتی عبدالقادر خان صاحب حاکم ریاست ۱۹ ربیع الاول شریف ۱۳۳۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہوا اس کی دو زوجہ ہندہ اور زبیدہ تھیں۔ زبیدہ کا انتقال اس کی زندگی میں ہوگیا تھا مگر چنداوالادیں اس کے بطن سے تھیں اور ہندہ اسکی بیوہ اب تک موجود ہے اور اس سے بھی چند اولادیں ہیں۔ زبیدہ اور ہندہ کی اولادوں میں بعض بالغ ہیں اور بعض نابالغ، پس بعد فوت زید کے اس کی بیوہ نے بوجہ نااتفاقی جملہ وارثان کے اپنے دین مہر کی نالش دائر کرکے عدالت سے متروکہ زید پر ڈگری حاصل کرلی، لیکن ابھی تک ڈگری کا اجراء نہیں ہوا تھا کہ جملہ وارثان میں اتفاق ہوگیا اور ہندہ نے ایک اقرار نامہ متروکہ زید کے بابت رجسٹری میں تصدیق کرادیا جس کی نقل شامل سوال ھذا ہے، اس کے بموجب عملدرآمد ہوگیا اور اپنے تین سہام میں سے ہندہ نے دو سہام بدست بکر کے بالعوض ڈھائی سو روپیہ کے رہن بھی کردیئے، اس کے ایک سال کے بعد اب ہندہ اسی متروکہ پر جس کے بابت اقرارنامہ تصدیق کراکر رجسٹری کراچکی ہے اور عمل درآمد بھی ہوچکا ہے اپنی وہی ڈگری دین مہر کی جاری کرانا چاہتی ہے جس میں سراسر حق تلفی نابالغان متصور ہے اور خلاف اس اقرار نامہ کے اس متروکہ پر اس کا اثر پڑتاہے، دیافت طلب یہ امر ہے کہ ایسے حالت میں ہندہ کو یہ حق حاصل ہے کہ ڈگری جس کا تصفیہ کرچکی ہے جاری کراکر اسی متروکہ کو نیلام کراکے نابالغان کی جائداد کو نقصان پہنچائے یانہیں؟ بینواتوجروا
الجواب: چند ہفتے ہوئے یہ سوال اور اس پر محبنا مولوی نواب سلطان احمد خاں صاحب کالکھا ہوا جواب سائل نے پیش کیا اس کے ساتھ کوئی نقل اقرار نامہ نہ تھی عبارت سوال سے کہ اسی متروکہ کو نیلام کراکے نابالغان کی جائداد کو نقصان پہنچائے واضح تھا کہ متروکہ جائداد ہے سائل سے مقدار مہر ڈگری شدہ ومقدار جائداد متروکہ دریافت کی ، اس نے بیان کی اس کے بیان کے حوالہ سے یہ عبارت اس جواب پر لکھ دی گئی۔
''بیان سائل سے معلوم ہوا کہ مہر کی ڈگری تین ہزار کی ہوئی اور جائداد وتقریبا چارہزار کی ہے لہذا ہندہ کا تین سہام پر فیصلہ کرلینا حق نابالغان پر کچھ برااثر نہیں ڈالتا بلکہ ان کو مفید ہے لہذا صلح نافذ ہے اور اب ہندہ کو اس سے رجوع کرنے کا اختیار نہیں'' واللہ تعالٰی اعلم۔
کاغذ فتوی میں جگہ نہ تھی یہ عبارت حاشیہ پر لکھی گئی، سائل نے کہا یہ کچہری میں پیش ہوگا، حسب دستور لکھ کر مہر ہوجاتی۔ کہا گیا نقل کر لاؤ نقل آئی جس میں سائل نے جواب نواب صاحب بھی باقی نہ رکھا سوال اور صرف یہاں کی تحریر نقل کردی ، مہر کردی گئی۔ اب یہ سوال مع نقل تقسیم نامہ پیش ہوا جس میں مقدار مہر کا کوئی ذکر نہیں اور جائداد متروکہ تین ہزار کی مالیت بتائی ہے اور اس کے دیکھنے سے واضح ہوا کہ متروکہ صرف جائداد نہیں بلکہ پانسو روپیہ متوفی کا یافتنی ایک عورت کے ذمہ دین ہے وہ بھی شامل ترکہ ہے اور تقسیم میں یہ تحریر ہے کہ:
''باہم منمقرہ ودیگر وارثان اس طرح رضامند ہوگئے کہ کل متروکہ متوفی مالیتی تین ہزار پانچ سو روپے کی تقسیم اس طورپر ہوئی کہ زرثمن پانسو روپے مذکور برائے صرف شادی وحیدن بیگم بنت متوفٰی بطنی زوجہ اولٰی کو دئے گئے اور بقیہ تین ہزار دس سہام ہو کر تین سہام منمقرہ کے حصے میں آئے الٰی آخرہ۔''
باقی سات سہام میں دو سہام متوفی کے پسر کو دئے ہیں اور ایک ایک اس کی چار دختران موجودہ کو جن میں دو کہ بطن ہندہ مقرہ سے ہیں نابالغہ ہیں اور یک سہام متوفی کی پانچویں دختر متوفیہ کے وارثوں کو ظاہر ہے کہ اس صلح سے ہر نابالغہ کو اپنے حق سے کئی حصے زائد پہنچا تو صلح ان کے حق میں بہت نافع تھی اس کا حکم وہی تھا کہ نافذ ہے اور ہندہ کو رجوع کا اختیار نہیں اس لئے سوال میں ذکر دین نہ تھا بلکہ جائداد ونیلام کے الفاظ تھے کہ دین سے علاقہ نہیں رکھتے۔ ایسی صور ت میں مفتی عقد صحیح ہی پر حمل کرے گا۔
درمختارمیں ہے :
لو لم یذکر فی صک التخارج ان فی الترکۃ دینا ام لا فالصک صحیح وکذا لو لم یذکرہ فی الفتوی فیفتی بالصحۃ ویحمل علی وجود شرائطہا، مجمع الفتاوٰی ۱؎۔
اگر لاتعلقی کے صلح نامہ میں ترکہ میں قرض ہونے نہ ہونے کا ذکر نہ ہو تو صلح نامہ صحیح ہے اور یوں ہی اگر فتوٰی میں اس کا ذکر نہ ہو تو صحت کا فتوٰی ہوگا اور اس کو صحت کی شرائط کے وجود پر محمول کیا جائے گا۔ مجمع الفتاوٰی۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلح فصل فی التخارج مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۴۶)
مگر اب ملاحظہ تقسیم نامہ سے ظاہر ہو اکہ ترکہ میں دین بھی ہے اور وہ صلح سے جدا نہ کیا گیا بلکہ یوں داخل کیا گیا کہ احدا لورثہ وحیدن بیگم کو اس کا مالک ٹھہرایا تو یہ غیر مدیون کو دین کا مالک کرنا ہوا او روہ باطل ہے تو صلح کا یہ حصہ باطل ہوا، اور جبکہ عقد واحد ہے تواس کے بطلان نے بقیہ صلح کی طرف سرایت کی اور تمام صلح وتقسیم باطل ہوگئی،
درمختارمیں ہے :
بطل الصلح ان اخرج احد الورثۃ وفی الترکۃ دیون بشرط ان تکون الدیون لبقیتہم لان تملیک الدین من غیر من علیہ الدین باطل ۱؎۔
ترکہ میں دین ہو تو کسی وارث کی لاتعلقی کی صلح اس شرط پر دین باقی وارثوں کے حصہ میں ہیں تو یہ صلح باطل ہے کیونکہ مقروض کے غیر کو قرض کا مالک بنانا باطل ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الصلح فصل فی التخارج مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۴۵)
ردالمحتارمیں ہے :
ثم یتعدی البطلان الی الکل لان الصفقۃ واحدۃ ۲؎۔
پھریہ بطلان تمام میں سرایت کرے گا کیونکہ معاملہ ایک ہے۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الصلح فصل فی التخارج داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۸۱)
اور جب صلح باطل ہوئی تو اس کی بناء پر جو باہمی ابراء ٹھہرا تھا کہ'' بعد تقسیم مذکورہ بالا ایک وارث کو دوسرے کے حصہ سے کوئی تعلق نہ رہا اگر بعد تقسیم ایک شخص دوسرے پر دعوٰی کرے تو ناجائز ہوگا۔ یہ بھی باطل ہوگیا۔
لا لما فی الاشباہ اذا بطل الشیئ بطل مافی ضمنہ وھو معنی قولہم اذا بطل المتضمن بالکسر بطل المتضمن بالفتح قالوا لوابراءہ اواقرلہ ضمن عقد فاسد فسد الابراء کما فی البزازیۃ ۱؎ اھ لان ھٰذا الابراء یکتب فی الصک عادۃ بعد ماجرٰی بینہم الصلح فلم یثبت کونہ فی صلب عقد الصلح حتی یکون متضمنا بالفتح ولا لما فی غمز العیون عن الزاہدی عن استاذہ بدیع الدین انہ اختیار ان الاقرار وان لم یکن فی صلب عقد الصلح لکنہ بناء علی الصلح الفاسد لایمنع الدعوٰی بعد ذٰلک ۱؎ اھ لان حکم الاقرار لایجب ان یکون حکم الابراء فان الاقرار تملیک من وجہ فیحتمل الارتفاع والابراء اسقاط والساقط لایعود بل لما فی الاشباہ من قولہم المبنی علی الفاسد فاسد ۲؎ اھ حتی لو اقر بطلاق زوجتہ ظانا الوقوع بافتاء المفتی فتبیین عدمہ لم یقح کما فی الاشباہ۳؎ والدر وغیرھما۔
الاشباہ میں مذکور کی وجہ سے نہیں کہ جب کوئی چیز باطل ہوتی ہے تو اس کے ضمن والے امور بھی باطل ہوتے ہیں، فقہاء کے قول کہ جب متضمن (کسرہ کے ساتھ) بطل ہو تو متضمن (فتح کے ساتھ) بھی باطل ہوتاہے ۔ انہوں نے فرمایا (اگر معاملہ میں فریقین نے معاہدہ کیا) کہ اگر اس کو مالک نے بری کردیا یا اس کے حق میں اقرار کیا تو یہ ضامن ہوگا، تو یہ عقد فاسدہوگا، براءت بھی فاسد ہوگی جیسا کہ بزازیہ میں ہے اھ ، کیونکہ ایسی براءت صلح نامہ میں عقد صلح کے بعد لکھنے کی عادت ہے تو صلب عقد میں اس کا پایا جانا ثابت نہ ہوگا تاکہ اس کے ضمن میں پائی جانے والی متضمن (بالفتح) ہوسکے ، اورنہ ہی غمز العیون میں مذکور کی وجہ سے انہوں نے زاہدی سے ان کے استاد بدیع الدین کے حوالے سے ذکر کیا کہ ان کا مختار یہ ہے کہ اقرار اگر چہ عقد صلح کے صلب میں نہ ہو تو بھی بعد میں دعوٰی کے لئے مانع نہیں کیونکہ اس کی بناء فاسد صلح پر ہے اھ کیونکہ ضروری نہیں کہ جو اقرار کا حکم ہے وہ بَری کرنے کاحکم ہو، کیونکہ اقرار من وجہ تملیک ہے جو کہ ختم ہوسکتی ہے جبکہ ابراء وہ تو اسقاط کا نام ہے جو بحال نہیں ہوسکتا۔ بلکہ اشباہ میں مذکور فقہاء کے اس قول کی وجہ سے کہ ''فاسد پر مبنی چیز بھی فاسد ہوتی ہے '' اھ حتی کہ اگر کسی نے اپنی بیوی کی طلاق کا اقرار اس گما ن پر کیا کہ مفتی کے فتوٰی سے فوطلاق ہوگئی جبکہ بعدمیں واضح ہوگیا کہ ایسا نہیں ہے تو اس اقرار سے طلاق نہ ہوگی جیسا کہ اشباہ اور درمختاروغیرہما میں ہے۔
(۳؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث قواعد فوائد شتی الخ ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۷۰)
(۱؎ غمز عیون البصائر الفن الثالث قواعد وفوائد شتی ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۷۰)
(۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الثالث قواعد وفوائد شتی ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۷۱)
(۳؎الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الاقرار ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۱)
اقول : ولایرد علیہ مافی الحموی عن القنیۃ ان ابرأہ بعد الصلح عن جمیع دعواہ وخصوماتہ صحیح وان لم یحکم بصحۃ الصلح ۴؎ اھ لان الابراء عن جمیع الدعاوی والخصومات شیئ زائد علٰی مفاد الصلح فانہ انما یقطع نزاعا خاصا لاکل خصومۃ بل اذا ادعی دارا ثم صالح مثلا علی نصفہا او قیمتہ فانما تجاوز عن نصف دعواہ لاعن جمعیہا لوصول بعضہا الیہ عینا او بدلا، واذاکان ھذا زائداً علی قضیۃ الصلح کان کلاما مستقلا غیر مبتن علی الصلح فلا یضرہ بطلان الصلح ونظیرہ اذا زادفی الکلام علی قدرالجواب لم یجعل مجیب بل صار مبتدئا فلا یعاد السول فیہ کما نصوا علیہ۔
اقول : (میں کہتاہوں) اس پرحموی میں قنیہ کےحوالےسےمذکور بطور اعتراض وارد نہ ہوگاکہ صلح کےبعداس کا تمام دعاوی اور خصومات سے بری کرنا صحیح ہے اگر چہ صلح کے صحیح ہونے کا حکم نہ دیا جائے گا اھ یہ اعتراض اس لئےنہ ہوگا کہ تمام دعادی اور خصومات سے ابراء صلح کے مفاد سے زائد چیز ہے کیونکہ صلح ایک خاص نزاع کو قطع کرتی ہے نہ کہ تمام خصومات کو بلکہ جب کوئی شخص پورے مکان کا دعوٰی کرکے پھر نصف مکان یا نصف کی قیمت پر صلح کرے تو اس نے صلح میں اپنے نصف دعوٰی سے اعراض کیا نہ کہ تمام دعوٰی سے، کیونکہ اس سےاس کو بعض عین یا اس کےبدل کو وصولی ہوئی،تو جب یہ ابراء صلح سےزائد امر ہےتو یہ ایک مستقل کلام ہوگا جو کہ صلح پر مبنی نہ ہوا تو اس لئے صلح کا بطلان اس ابراء کو مضر نہ ہوگا اس کی نظیر یہ ہے کہ جب کوئی کلام قدرجواب سے زائد ہوتو اس کلام والے کو مجیب نہیں بلکہ ایک مستقل ابتداء والا اقرار دیا جاتاہے۔لہذا اس کلام میں سوال کا اعادہ متصورنہیں کیا جاتا جیسا کہ اس پر فقہاء نے نص فرمائی ہے (ت)
(۴؎ غمز عیون البصائر الفن الثالث قواعد فوائد شتی ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۷۰)
لہذا صورت مستفسرہ میں ہندہ کو اجراء ڈگری سے کوئی مانع نہیں
ھذا ماعندی والعلم بالحق عند ربی
(یہ میرے فہم میں ہے جبکہ حق کا علم میرے رب کے پاس ہے۔ ت) واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۸: از رامہ تحصیل گوجر خاں ضلع راوالپنڈی ڈاکخانہ جاتلی۔ مسئولہ تاج محمود صاحب ۱۵ محرم ۱۳۳۹ھ
جو کہ صلح ہے وہ واقع منازعہ حق انسان میں ہے یا حق خدائے تعالٰی میں بھی ہے؟
الجواب: صلح اگر برضا ہے تو عنداللہ بھی ہوگئی اور دب کرہے تو دنیا میں ہوئی آخرت میں مطالبہ باقی ہے واللہ تعالٰی اعلم۔