Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
7 - 120
کتاب الصلحِ

(صلح کا بیان)

مسئلہ ۱۵: ۱۸ جمادی الآخرہ ۱۳۰۵ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کلو نے دو زوجہ رینا ومنی اور بطن منی سے دختر صغرٰی اور دو بھائی چھٹن، عبداللہ۔ اور تین بہنیں چھوٹی، ملوکی، سینا۔ اور چودہ سو روپے نقد اور کچھ غلہ اور پونے دو سو روپے ایک شخص پر قرض چھوڑ کر انتقال کیا، عبداللہ نے مال متروکہ میں سے سو روپے نقد لے کر باقی وارثوں سے فیصلہ کرلیا کہ اب مجھے ترکہ سے کچھ تعلق نہیں۔ پھر ملوکی نے دو پسرامام بخش ویار محمد اور دو دختر کہ ان کانام بھی رینا ومنٰی ہے چھوڑ کر وفات پائی، اس صورت میں ترکہ کلو کا کس طرح منقسم ہوگا، اور کلو نے اپنا ایک بھتیجا بیٹا کرکے پالا تھا وہ بھی وارث ہوگا یانہیں۔ بینوا توجروا (بیان کیجئے اجر دئے جاؤ گے۔ ت)
الجواب: صورت مستفسرہ میں وہ فیصلہ کہ عبداللہ نے کیا دو وجہ سے باطل ہے،
اما اولا فلمکان الدین فی الترکۃ وقد صالح علی ان لایکون لہ حق فی شیئ مما بقی فینتظم العین والدین جمیعا والصلح عن دین باطل الا بین الدائن ومدیونہ، فی الدارالمختار بطل الصلح ان اخرج احد الورثۃ وفی الترکۃ دیون بشرط ان تکون الدین لبقیتہم لان تملیک الدین من غیر من علیہ الدین باطل ۱؎ اھ
لیکن اولا اس لئے کہ ترکہ میں قرض ہے اور اس نے صلح باقی تمام ترکہ سے لاتعلق پر کی ہے تویہ موجود مال اور قرض دونوں کو شامل ہے جبکہ قرض پر قرضخواہ اور مقروض کے بغیر ہر ایک کی صلح باطل ہے، درمختارمیں ہے جب ترکہ میں قرض شامل ہوں تو کسی ایک وارث کو بقیہ ترکہ سے لاتعلق کرکے باقی وارثوں کے لئے کرنے کی، صلح باطل ہے کیونکہ مقروض کے غیر کو قرض کا مالک بنانا باطل ہے اھ،
 (۱؎ درمختار    کتاب الصلح     فصل فی التخارج    مطبع مجتبائی دہلی        ۲ /۱۴۵)
اقول:  ولا یقتصر الفساد علی التصریح بھٰذا الشرط کما یوھمہ ظاھر تقیید التنویر بل ھو ومایؤدی مؤداہ سواء فان المدار علی وقوع تملیک الدیون من غیر المدیون وھو حاصل فیما لوصالح بشیئ عن کل مابقی من الترکۃ کما قررنا ویرشدک الیہ ما فی ردالمحتار لوظہر فیہا دین ان کان الصلح وقع علی غیر الدین لایفسد وان وقع علی جمیع الترکۃ یفسد کما لو کان الدین ظاھرا وقت الصلح ۲؎ اھ ملخصا، فقد جعل الصلح علی جمیع الترکۃ کالصلح بتصریح الشرط المذکور  وبالجملۃ فالفساد لایتوقف علی التنصیص بادخال الدین فی الصلح بل الجواز متوقف علی الافصاح باخراجہ ولہذا قال البزازی کما فی الشامی ان کان مخرجا من الصلح لایفسد و الا یفسد ۳؎ اھ علق الصحۃ علی الاخراج وعمم فی الباقی الفساد،
اقول: (میں کہتاہوں کہ)فساد کا انحصار اس تصریح کردہ شرط پر نہیں جیسا کہ تنویر الابصار کے قید کے بیان پر ظاہرا وہم ہوتاہے بلکہ یہ اور جو اس کا ہم معنی ہو متساوی الحکم ہیں کیونکہ فساد کا دار ومدار غیر مقروض کو قرض کا مالک بنانا ہے اور وہ باقی وارثوں کو ترکہ کی کسی شئی پر صلح میں حاصل ہے جیساکہ ہم نے تقریر کی ہے اور اس میں ردالمحتار کا بیان تیری رہنمائی کرے گا کہ اگر ترکہ میں دین معلوم ہے اور صلح دین کے غیر پر ہوئی تو فاسد نہ ہوگی، اور اگر تمام ترکہ پر صلح ہوئی تو فاسد ہوگی جیسا کہ صلح کے وقت دین ظاہر ہونے پر وہ فاسد ہوتی ہے اھ ملخصا۔ تو ردالمحتار نے جمیع ترکہ پر صلح کر شرط مذکور پر صریحاصلح جیسا قرار دیا خلاصہ یہ ہے کہ صراحتا  قرض کو صلح میں شامل کرنے پر فساد موقوف نہیں بلکہ صلح کا جواز صراحتا قرض کو صلح سے خارج کرنے پر موقوف ہے جیسا کہ فتاوٰی شامی میں البزازی کا قول ہے کہ قرض کو صلح سے خارج کیا تو صلح فاسد نہ ہوگی ورنہ فاسد ہوگی اھ ، انہوں نے جواز کو صراحتا قرض کے خارج ہونے پر معلق فرمایا اور باقی تمام صورتوں کو فساد میں شامل فرمایا۔
 (۲؎ و ۳؎ ردالمحتار     کتاب الصلح       داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۴۸۳)
ثم رأیت التصریح بہ فی الہندیۃ عن الظہیریۃ حیث قال ان کان فی الترکۃ دین علی الناس فصولحت (یعنی المرأۃ) علی الکل علی ان یکون نصیبہا من الدین للورثۃ او صولحت عن الترکۃ ولم ینطقوا بشیئ اٰخر کان الصلح باطلا اھ ۱؎، واما ثانیا فلان نصیب عبداﷲ من نقود الترکۃ اکثر مما صالح علیہ وذٰلک لان حصتہ من الف واربعمائۃ مثلا وھی سبعا لباقی بعد اخراج الفرضین مائۃ وخمسون درھما وانما اعطی مائۃ فکان البقیۃ شروا مائۃ وخمسین درھما وزیادۃ بمائۃ درھم وھذا ھوا لربا المحرم قال فی الدرالمختار اخرجت الورثۃ احد ہم عن نقدین وغیرہما باحدا النقدین لایصح الا ان یکون مااعطی لہ اکثر من حصتہ من ذٰلک الجنس تحرز عن الربا ۲؎ اھ ملخصا ،
پھر میں نے ظہریہ کے حوالہ سے ہندیہ میں اس پر تصریح دیکھی جہاں انہوں نے فرمایا کہ اگر ترکہ میں لوگوں پرقرض بھی شامل ہے اور بیوی سے یہ صلح ہوئی کہ باقی تمام ترکہ حتی کہ قرض میں بیوی کا حصہ یہ سب ورثاء کا ہوگا یا ورثاء نے بیوی کی باقی تمام ترکہ سے لاتعلقی پر صلح اور اس سے زائد کوئی وضاحت نہ کی تو صلح باطل ہوگی اھ لیکن ثانیا اس لئے کہ عبداللہ کا نقد ترکہ میں صلح کی مقدار کے مقابلہ میں حصہ زیادہ بنتاہے یہ اس لئے کہ مثلا چودہ سو نقدمیں سے بیوی اور بیٹی کے دو فرض (حصے) نکالنے کے بعد عبداللہ کلا حصہ دو ساتے جو کہ ڈیڑھ سو درہم ہیں جبکہ عبداللہ کو صرف ایک سودیا گیا تو باقی ورثاء نے گویا ڈیڑھ سو اور کچھ زائد کو ایک  سو درہم کے بدلہ میں خریدا اوریہ حرام و سود ہے۔ درمختارمیں فرمایا کہ ورثاء نے ایک وارث کو سونا وچاندی (نقدین) اور دیگر ترکہ سے سونا یا چاندی میں سے ایک پر صلح کرکے خارج کیا تو یہ صلح صحیح نہ ہوگی مگر اس صورت میں جبکہ جس نقد پر صلح کی ہو اس میں اس کے حصہ سے زائد اس کو دیا گیا ہوتاکہ ربا سے بچاؤ ہوسکے اھ ملخصا۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ   کتاب الصلح   الباب الخامس عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۲۶۹)

(۲؎ درمختار    کتاب الصلح    فصل فی التخارج    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۴۵)
و ھذ اظاھر اذا لم یکن للازواج مہر علی المورث فان کان وکان بحیث یکون حصۃ عبداﷲ مما یبقی بعد اداء الدین اقل من مائۃ تکون الترکۃ مشغولۃ بالدین مانع بنفسہ عن صحۃ الصلح الا اذا عزل مقدار مابقی بہ و اجری الصلح فی مابقی ، فی الشامیۃ عن البزازیۃ عن شمس الاسلام التخارج لایصح اذا کان علی المیت دین ای یطلبہ رب الدین لان حکم الشرع ان یکون الدین علی جمیع الورثۃ ۱؎ اھ۔ وقد کنت اوضحت معنی قولہ ای یطلبہ رب الدین فیما علقتہ علی ھوامش ردالمحتار ثم رأیت التصریح بعینہٖ فی الہندیۃ عن الظہیریۃ و نصھا ان کان علیہ دین فصولحت المرأۃ عن ثمنہا علی شئی لا یجوز ھذا الصلح لان الدین فی الترکۃ  وان قل یمنع جوازالتصرف فان طلبوا الجواز فطریق ذٰلک ان یضمن الوارث دین المیت یشترط ان لایرجع فی الترکۃ اویضمن اجنبی بشرط براءۃ المیت او یؤدوادین المیت من مال اٰخر ثم یصالحوھا عن ثمنھا او صداقھا علی نحوما قلنا وان لم یضمن الوارث ولکن عزلوا عینا فیہا لدین المیت وفاء ثم صالحوہا فی الباقی علی نحوما قلنا جاز اھ ۱؎۔
یہ بیان اس صورت میں ظاہر ہے کہ جب مورث کے ذمہ بیویوں کا مہر نہ ہو، اگراس کے ذمہ مہر باقی ہو تو اب ترکہ میں سے یہ دین ادا کرنے کے بعد عبداللہ کا ترکہ میں حصہ ایک سو درہم سے کم ہوجائے تو بھی ترکہ کا دین میں مشغول ہونا صلح کی صحت سے مانع ہے الا یہ کہ قرض ودین کو منہا کرنے کے بعد مابقی پر صلح ہو تو جائز ہوگی۔ فتاوٰی شامیہ میں بزازیہ سے شمس الاسلام کے حوالے سے ہے کہ کسی وارث کو صلح کے طورپر وارثت سے خارج کرنا صحیح نہیں جبکہ میت پر کوئی دین ہو یعنی قرضخواہ کا مطالبہ ہو کیونکہ شرعی حکم یہ ہے کہ میت پر دین تمام ورثاء کے ذمہ ہوتاہے اھ ، حالانکہ میں نے ان کے قول کہ ''قرض خواہ طالب ہو'' کا معنی ردالمحتار پر اپنے حاشیہ میں واضح کردیا تھا۔ پھر میں نے بعینہٖ اس کی تصریح ہندیہ میں ظہیریہ کے حوالہ سے دیکھی جس کی عبارت یہ ہے اگر میت پر قرض ہو اور بیوی سے کسی چیز کے بدلے اس کے مہر کی رقم پر صلح کرلی گئی ہو یہ صلح جائز نہ ہوگی کیونکی ترکہ پر قرض کم بھی ہو تو وہ تصرف کے جواز سے مانع ہے اور ورثاء جواز کے طالب ہوں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی وارث میت کے قرض کا ضامن بن جائے اس شرط کے ساتھ کہ وہ اس ضمان میں ترکہ سے کچھ نہ لے گا ، یا کوئی اجنبی شخص اس شرط پر ضامن ہوجائے کہ ضمان سے میت بَری ہے یا ورثاء میت کا دَین اپنے کسی اور مال سے اداکرکے پھر بیوی سے اس کی رقم کے بدلے صلح کرلیں جیسا کہ ہم نے بتایا اور اگر کوئی وارث ضامن نہ بنے لیکن پہلے عین ترکہ میں سے میت پرقرض کی مقدار علیحدہ کرلیں پھر باقی میں بیوی سے صلح کا عمل کریں جیسے ہم نے بتایا ہے، تو جائز ہے۔ اھ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الصلح         فصل فی التخارج    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۴۸۱)

(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ        کتاب الصلح     الباب الخامس عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴/۲۶۹)
پس صورت مستفسرہ میں برتقدیر صدق مستفتی وعدم موانع ارث وانحصار ورثہ فی المذکورین وصحت ترتیب اموات اگر زنان کلو دونوں خواہ ایک کا مہر یا اس کے سوا اور کچھ دین ذمہ کلو ہو تو پہلے ادا کریں جو بچے اس کے تہائی سے کلو کی وصیت اگر اس نے کی ہو نافذ کرکے باقی کو ایک سو بارہ سہام پر تقسیم کریں سات سات کلو کی ہز زوجہ اور چھپن صغرٰی اور بارہ بارہ  چُھٹن وعبداللہ اور چھ چھ چھوٹی سینا اور دو دو امام بخش و یارمحمد اور ایک ایک دختران ملو کی کودیں اگر عبداللہ کو اس تقسیم میں سو روپے سے زیادہ پہنچیں تو اس کا حصہ پورا کردیں اورکم ملیں تو جتنا زیادہ پہنچ گیا ہے واپس لیں اورکلو کا بھتیجا جسے اس نے بیٹا کرکے پالا اصلا وارث نہیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۱۶:

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے زوجہ شہزادی بیگم اور نظام بیگم پدر حیدر علی دختر اعجاز فاطمہ وارث اور چارہزار دو سو باون روپیہ نقد ایک مکان قیمتی ڈیڑھ ہزار روپیہ کا چھوڑ کر انتقال کرگیا شہزادی بیگم کا مہر پانچ ہزار روپے تھا اس کے سوا کوئی قرضہ زید پر نہ تھا اور نہ کچھ متروکہ زید ہے ، باہم جملہ ورثاء مذکورین میں یہ فیصلہ وقرارداد ہوا کہ نظام بیگم وحیدر علی ساڑھے سات سو روپے لےلیں اور بقیہ زر نقد ومکان دختر وزوجہ کے حصص شرعی میں اور زوجہ کے مہر میں کردیں زوجہ بھی اس پر راضی ہوئی اب دعوٰی مہر نہ رہا، پس صورت مستفسرہ میں وہ مکان اور بقیہ روپیہ تین ہزار پانسو دو زوجہ دختر میں کس طرح تقیسم ہوگا؟ بینوا توجروا
الجواب: زوجہ دختر کا مہر وحصتین کے عوض مکان وبقیہ زر پر راضی ہونا تین احتمال رکھتاہے:

(۱) زوجہ مہر سے دست بردار ہوئی اور اس بقیہ کو اپنی اور دختر پر حسب وارثت تقسیم ہونے پررضا دی، اس صورت میں اس باقی کے ۵ سہام ہوکر ایک زوجہ اور چار دختر کو ملیں۔

(۲)یہ قرار پایا کہ اس بقیہ سے زوجہ اپنا کل مہر لے لے جو بچے زن ودختر میں وراثۃ تقسیم ہو اس صورت میں بقیہ سے پانچ ہزار مہر کے زوجہ لے گی اور دوایک روپے کی جو مالیت بچی زن ودختر میں انھیں پانچ سہام پر تقسیم ہوجائیگی لیکن اس تقدیر پر دختر کا وقت فیصلہ بالغہ اور اس معنی پر راضی ہونا ضرور ہوگا۔

(۳) یہ ٹھہرا کہ باقی مذکور مہر وحصہ زوجہ وحصہ دختر سب پر حصہ رسد منقسم ہو، اس صورت میں مکان و زر بقیہ سب کے ۸۵۹۵ سہام ہوکر ۵۷۱۹ زوجہ کو ملیں اور ۲۸۷۶ دختر کو ملیں۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter