فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
6 - 120
مسئلہ ۱۱: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس باب میں کہ محمد علی خاں ومظہر حسین خان وسید ضیاء الحق ومسماۃ نجم النساء بیگم چارشخصوں نے اولا بتاریخ ۱۱ مارچ ۱۹۰۸ء کو ایک جائداد کےدو سہام منجملہ سات سہام کے مسمی امداد الرحمان باعث مشترکا بحصہ مساوی خریدے پھر ۱۶ /اگست ۱۹۰۸ء کو اشخاص مذکورہ نے چار سھام اسی جائداد کے منجملہ سات سھام کے مسمٰی عبدالرحمن بائع سے بحصہ مساوی مول لئے اور ایک سہم منجملہ سات سہام کے سید سکندر علی نے بلقیس بیگم سے ۱۳ اگست ۱۹۰۸ء کو خریدکیا پھر باہم ہر چہار مشتریان چھ سہام کے جو ذریعہ بیعنامہ ۱۱ مارچ ۱۹۰۸ء ، ۱۶ اگست ۱۹۰۸ خریدی گئی تھی ایک تقسیم نامہ لکھا گیا جس میں ہر ایک شریک کا ڈیڑھ ڈیڑھ سہام قائم ہوکر چارقطعہ معین ہوگئے جو محمد علی خاں ومظہر حسین خان وسید ضیاء الحق نے تو محکمہ رجسٹری میں تصدیق کرادیا لیکن مسماۃ (عہ) احد الشراکاء نے تقسیم نامہ مذکورہ کسی وجہ تصدیق نہیں کرایا جس کی وجہ سے ہر ایک شرہک کا حصہ جدا جدا تقسیم نہ ہوسکا۔
عہ: اصل میں قلم ناسخ سے نجم النساء کا لفظ چھوٹ گیا ہے ۱۲
بعدہ، احمد علی خاں برادر محمد علی خاں نے بعینامہ دوسہام کا منجملہ چار سہام فروخت شدہ ۱۶ اگست ۱۹۰۸ء کے ایک شخص مسمٰی فیض الرحمان سے بنام اپنے لکھا لیا بعدہ، احمد علی خاں برادر محمد علی خاں مرگیا۔ اب محمد علی خاں یہ کہتاہے کہ بیعنامہ ۱۶اگست ۱۹۰۸ بابت چارسہام کے بنام چاروں مشتریان ناجائز ہوا۔ عبادالرحمن خان نے ہم کو دھوکا دے کر چار سہام کا بیعنامہ کیا ہے درحقیقت وہ مالک دو سھام کا تھا اس لئے میں ایک سہام کا ذریعہ شرا اور دو سہام کا ذریعہ ارث برادری کے مالک ہوں اور باقی تینوں شرکاء بھی ایک ایک سہمکے مالک ہیں ڈیڑھ ڈیڑھ سھام کے مالک نہیں ہیں ہر سہ شرکاء بقیہ یہ کہتے ہیں کہ جب محمد علی خاں نے چار سھام بشرکت باقی تین مشتریان کے بحصہ مساوی خریدے تو اس خرید کے ذریعہ سے عباد الرحمن بائع کی ملکیت محمد علی خاں نے تسلیم کرلی اور سب شرکاء کا مساوی حصہ بھی تسلیم کرلیااور یہ اقرار نامہ بھی ڈیڑھ ڈیڑھ سہام ہر ایک شریک کا تسلیم کرلیا اور ہر ایک شریک کی ملکیت ڈیڑھ ڈیڑھ سہام کا اقرار کرلیا، اب ہر ایک شریک کے ڈیڑھ ڈیڑھ سہام سے محمد علی خاں کا انکار جائز نہیں ہے مظہر حسین خان احدا الشرکاء نے جو نالش تقسیم ڈیڑھ سہام بنام بقیہ تین شریکوں کے عدالت دیوانی میں دائر کی تو محمد علی نے خاں احد الشریک نے وہی عذرات پیش کئے بالاخر عدالت دیوانی سے یہ تجویز فرماگیا بیعنامہ مصدقہ ۱۶ اگست ۱۹۰۸ء اقراری عبادالرحمن میں خود محمد علی خاں مدعا علیہ زمرہ مشتریان میں داخل ہے اور شرعا بیعنامہ عاقدین پر حجت ہے اس لئے وہ محمد علی خاں مذکور پر بھی حجت ہے پس جس طرح محمد علی خاں مدعا علیہ نے بذریعہ بیعنامہ عباد الرحمن بائع کی چارسہام مملوک ہونا تسلیم کیا اسی طرح ان چار سہام میں سے ہر ہر مشتری کی ملک بقدر ایک ایک سہم تسلیم کرلیا اورا ب اس سے انحراف کا مدعا علیہ مذکور کو کوئی حق نہیں۔ انکار بعد الاقرار شرعا معتبر (نہیں عہ) ہے،
عہ: یہاں بھی قلم ناسخ سے لفظ معتبر ''نہیں'' چھوٹ گیا۔۱۲
اسی کے ساتھ تقسیم نامہ مصدقہ ۱۶ اگست ۱۹۰۸ء مشمولہ مثل میں محمد علی خاں مذکور نے ہر ہر شریک کا ڈیڑھ ڈیڑھ سہام بالتصریح تسلیم کرلیا ب اس کا مدعی کو صرف ایک سہم کا مالک بتانا محض اتلاف حق پر مبنی ہے اس لئے دعوی مدعی نسبت دخلیابی ڈیڑھ سہام منجملہ سات سہام کے بذریعہ تقسیم وعلیحدگی حصہ مدعی از چار سہام مشترک بنام مدعا علیہم ڈگری ہو، خرچہ مدعی ذمہ محمد علی خان مدعا علیہ عائد ہو۔ بعد قائم وثابت ہوجانے ڈیڑھ سہام ہر ایک شرکاء اربعہ عدالت دیوانی کے فیصلہ سے پونے دو سال بعد محمد علی خاں احدالشریک نے ہر ایک شرکاء ثلثہ کا ایک ایک سہم اور اپنے تین سہام قائم کرکے نالش تقسیم خلاف بیعنامہ جات و اقرار نامہ وفیصلہ عدالت دیوانی دائر کی اس لئے استفسارامور ذیل کا مطلوب ہے :
(۱) انکارملکیت کسی شخص کا بعد اقرار ملکیت شخص مذکور کے شرعاً جائز ہے یانہیں؟
(۲)بیعنامہ عاقدین پر شرعا حجت ہوتاہے یانہیں؟
(۳) محمد علی خاں کو شرعا یہ حق حاصل ہے یانہیں کہ اس بیعنامہ کو جس میںوہ خود ہی مشتری ہے اور اقرار نامہ تقسیم کو جو بحق ہر سہ مشتریان وہ تحریر وتکمیل وتصدیق کراچکا ہے باطل وناجائز قرار دے کر ہر سہ مشتریان دیگر کی ملکیت ڈیڑھ ڈیڑھ سہام سے بعد اقرار کے انکار کرسکے۔
الجواب
مدت ہوئی کہ یہ سوال آیا تھا اور سائلوں سے دریافت کیا گیاتھا کہ جو فیاض الرحمن نے احمد علی خان کے نام بیع کیا آیا اس کا کوئی مقدمہ دار القضاء تک پہنچا اور بحکم قاضی وہ سہام ملک فیاض الرحمن قرار پاکر ملک احمد علی خاں ٹھہری یا یونہی خانگی طور پر محمد علی خاں نے اس بیع کو مان لیا مگر اس کا کوئی جواب نہ ملا، اب ملاحظہ تجویز سے ظاہر یہی ہوتاہے کہ استحقاق احمد علی خاں بذریعہ قضا ثابت نہ کیا گیا کہ محمد علی خاں شرعا مکذب ہوجاتا بلکہ اس نے بطور خود اپنے نفع کے لئے استحقاق تسلیم کرلیا اگر ایسا ہے تو تجویز کہ ذی علم مفتی صاحب نے دی بالکل حق وبجا ہے محمد علی خاں کو اپنے اقرار سے پھرنے کا کوئی اخیتار نہیں۔
لاعذر لمن اقر ۱؎ من سعی فی نقض ماتم من جہتہ فسعیہ مردود علیہ ۲؎۔
جس نے اقرار کیااس کا کوئی عذر قبول نہیں، جو شخص اپنی طرف سے تام کئے ہوئے معاملہ کو توڑنے کی سعی کرے تو اس کی یہ سعی مردود ہوگی۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الاقرار داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۵۶)
(۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب القضاء والشہادات الخ ادارۃ القرآن کراچی ۱ /۳۷۰)
اشباہ میں ہے :
اذا اقربشیئ ثم ادعی الخطألم تقبل ۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم
جب کسی چیز کا اقرار کرے پھر اس اقرار کو خطا قرار دے تو خطا قرار دینا قبول نہ ہوگا۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۳؎الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب الاقرار ادارۃ القرآن کراچی ۲ /۲۰)
مسئلہ ۱۲: ۲ ربیع الثانی ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرعی متین اس مسئلہ میں کہ زید نے ایک مکان بکر کے ہاتھ بیع کیا اور قبضہ مبیعہ پر مشتری کا کرادیا اور بیعنامہ تصدیق ورجسٹری کرادیا، بیعنامہ میں مبیعہ کی حد غربی میں زید نے دیوار عمرو تسلیم کی بعد بیع وقبضہ بکر مشتری نے جب عمرو کی دیوار مذکور میں تصرفات ناجائز شروع کئے اور عمرو مانع آیا تب بکر نے زید بائع سے ایک اقرار نامہ بطور تصحیح نامہ اس مضمون سے لکھا یا کہ (بیع کے وقت دیوار غربی کا مشترک ہونا تحریر سے رہ گیا تھا دیورا مذکورمکان مبیعہ ومکان عمرو میں مشترک ہے) سوال یہ ہے کہ بیعنامہ میں عمرو کی دیوار لکھنے سے اقرار نسبت وملکیت عمرو کی ثابت ہوتاہے یانہیں اور بیعنامہ مذکور شرعا عاقدین پر حجت ہے یانہیں اور اقرار نامہ مابعد جو بطور تصحیح نامہ کے مرتب ہوا ہے اس سے کل دیوار مذکور کی بابت عمرو کا زوال ملکیت لازم آتاہے یانہیں اور شرعا یہ انکار بعد الاقرار ہے یانہیں؟
الجواب
تحریر بیعنامہ عاقدیم پر حجت ہے اور اس سے پھر نے کا ان کو کچھ اختیار نہیں جس سے وہ شخص ثالث کوضرر پہنچا سکیں، قاعدہ شرعیہ ہے :
المرء مواخذ باقرارہ ولا عذر لمن اقر ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اقرار کرنے والا شخص اپنے اقرار میں ماخوذہوگا اور اقرار کرنے والے کو عذر کا حق نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ردالمحتار کتاب الاقرار داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۵۶)
مسئلہ ۱۳: از شہر بریلی محلہ ملوکپور مسئولہ احمد حسین صاحب ۵اشوال ۱۳۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسماۃ نے ایک قطعہ جائداد خریدی اور مسماۃ کے چار بیٹے تھے کچھ دنون کے بعد وہ مسماۃ انتقال کرگئیں اور ان چاروں بھائیوں میں آپس میں مقدمہ داری ہوئی اسی جائداد پر جو کہ مسماۃ نے خریدی تھی، اس میں کسی وجہ سے ایک بھائی نے کچہری کے روبرو بیان کیا کہ میں اس جائداد میں حقدار نہیں ہوں میرا حق نہیں ہے ، تو شرعا یہ بیان اس کا لغو ہے یا جائز ہے وہ حقدار اس جائداد میں ہے یانہیں؟
الجواب
وہ اس میں حقدار نہ مانا جاتا
لا عذر لمن اقر ۲؎
(جس نے اقرار کیا اس کا کوئی عذرمقبول نہیں۔ ت)
(۲؎ردالمحتار کتاب الاقرار داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۵۶)
اگر یہ قول کسی مدعی کے مقابل ہوتا، یہاں یہ صورت نہیں ، سائل نے بیان کیا کہ چاروں بھائی اس مکان پر قابض تھے، ایک نے صرف اپنا حصہ تقسیم کرانے کا دعوٰی کیا تھا نہ کہ اوروں کے حصوں کا ، اس کے جواب میں دوسرے نے کہا اس مکاں میں ہمارا حق نہیں یعنی چاروں بھائیوں کانہیں تاکہ وہ تقسیم نہ کراسکے اس صورت میں اس کا یہ کہنا محض لغو ہے اور اس کا حق بدستور باقی ہے۔
عالمگیریہ میں ہے :
اذا قال ذوالید لیس ھذا لی اولیس ملکی اولا حق لی اولیس لی فیہ حق اوماکان لی اونحو ذٰلک ولا منازع حیثما قال ثم ادعی ذٰلک احد فقال ذوالید ھو لی صح ذٰلک منہ والقول قولہ الخ ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
جب قابض خود کہے کہ یہ میری ملکیت نہیں یامیرا نہیں یا میرا حق نہیں یا میرا نہ ہے اس قسم کے الفاظ کہے، اوریہ الفاظ کہتے وقت کوئی دعویدار نہ بنا، پھر بعد میں ایک شخص نے اس چیز پر دعوٰی کیا تو اس کےجواب میں اب قابض کہے کہ چیزیں میری اپنی ہے تو قابض کی بات صحیح قرار پائے گی اور اس کی وضاحت مان لی جائیگی الخ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الدعوٰی الباب الثامن نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۶۴)
مسئلہ ۱۴: از مراد آباد محلہ کٹھگر بیچ مرسلہ سید شرافت حسین صاحب ۵ ذی الحجہ ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے بعوض مبلغ یکصد روپے کے اپنا حصہ واقعہ مکان بدست مسماۃ ہندہ رہن کیا۔ رہن نامہ میں بوقت تصدیق روبرو رجسٹرار صاحب (صہ معہ) نقد وصول پاکر مبلغ (صہ عہ/) کا رجسٹری سے پہلے وصول پانے کا اقرار کیاہے، اسی تفصیل سے وصول زر رہن کی کیفیت عبارت تصدیق میں درج ہے ہندہ نے واپسی زر رہن کا دعوٰی کیا ہے۔ زید مدعا علیہ نے جواب داخل کیا ہے کہ رہن نامہ فرضی ہے، وجہ تحریر کی یہ ہے کہ مدعا علیہ کے خُسرال والے مُسرتھے کہ زید اپنا حصہ واقعہ مکان مذکوربحق اپنی زوجہ کے تحریر کردیں۔ اس اندیشہ کی وجہ سے بمشورت باہمی فرضی رہن نامہ بنام ہندہ تحریر کردیا گیا تھا (مہ لعہ/) جو رجسٹری میں بذریعہ عمرو وصول پائے تھے وہ روپیہ بیرون رجسٹری عمرو کو مدعا علیہ نے واپس کردئے تھے اور دستاویز مذکورہ کے فرض ہونے کا مدعا علیہ کو بس بیرون کچہری اقرار ہے اس پر کچہری نے صرف ایک تنقیح قائم کی ہے آیا مبلغ (صہ معہ/) منجملہ سو روپیہ زر ہرن کے جو مدعا علیہ کو ذریعہ عمرو روبررو رجسٹرار صاحب مدعیہ سے وصول ہوئے تھے وہ اسی وقت بیرون رجسٹری عمرو مذکور کو واپس دئے تھے ثبوت ذمہ مدعا علیہ،تردید ذمہ مدعیہ، اور روبکار تنقیح مذکورہ میں یہ عبارت بھی درج ہے (مدعا علیہ بہ نسبت وصولیابی مبلغ (صہ عہ/) منجملہ زر رہن کے اقرار کاذبہ کرنا بیان کرتاہے اس کی نسبت مدعا علیہ چاہے تو مدعیہ سے حلف لے سکتاہے ) سوال یہ ہے کہ بحالت مذکورہ مدعیہ پر شرعا حلف عائدہوسکتاہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب: ہاں ہوسکتاہے اب مدعا علیہ حقیقۃ مدعی اور مدعیہ مدعا علیہ ہے
والیمین علی من انکر
(قسم منکر پر ہے۔ت) درمختار میں ہے :
اقر ثم ادعی المقرانہ کاذب فی الاقرار یحلف المقرلہ ان المقرلم یکن کاذبا فی اقرارہ عند الثانی وبہ یفتی ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اقرار کرنے کے بعد اپنے اقرار میں جھوٹا ہونے کا دعوٰی کرے تو مقرلہ سے قسم لی جائے کہ قرار کرنے والا اپنے اقرار میں جھوٹا نہیں ہے۔ یہ حکم امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی کے نزدیک ہے اور اسی پر فتوٰی ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب الاقرار مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۳۳)