فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
5 - 120
مسئلہ ۸: از رام پور متصل شفاخانہ کلاں سرکاری
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مثلا زید وغیرہ نے کرایہ کی زمین میں مکان تعمیر کیا اور زمین آبچک نہیں چھوڑی، مسمی عمرو جارکہ جس کے مکان کی زمین میں اولتی ٹپکتی مزاحم ومانع ہوا تو زید نے بمعیت مالک زمین میر محلہ کہ جس کی زمین میں زید نے مکان تعمیر کیا تھا سات گرہ زمین واسطے آبچک بجہت عاریت کے استدعا کی چونکہ عمرو کی زمین زر خرید تھی اور ایک اقرار نامہ اس مضمون کا لکھ دیا کہ تعدادی ہفت گرہ زمین عمرو سے واسطے آبچک بجہت عاریت کے مستعارلی ہم نے ،اور جس وقت عمرو یاوارثان عمرو چاہیں زمین آبچک مذکورہ رجوع کرکے بیدخل کردیں ہم مستعیران یا وارثان مستعیران دعوی ملکیت زمین وباحق آبچک یا بیدخل ہونے میں کوئی عذرو حیلہ کریں تو عندالشرع نامسموع وباطل ہوگا اوراقرار نامہ مع گواہی ومواہیر اہل ثقہ ومیر محلہ یعنی مالک زمین مکان زید مذکور مثبت ہیں اور اقرر نامہ کو تخمینا ساٹھ باسٹھ برس کا زمانہ گزرا ہوگا حتی کہ معیر ومستعیران فوت ہوگئے زمین کرایہ مذکورہ کہ جس میں زید وغیرہ نے مکان تعمیر کیا تھا وارثان زید نے اب وہ زمین خریدلی باوصفٖ ہمسائیگی وجارکے بیعنامہ پر گواہی وارثان عمرو معیر مذکور نہیں ہے فی الحال وارثان مستعیر نے جو مکان منہدم ہوگیا ہے از سر نو تعمیر کرناچاہا تو وارثان معیر نے کہا کہ زمین آبچک بجہت (عہ)چھوڑ کے تعمیر کردیااولتی ہمارے مکان کی طرف نہ ٹپکا ؤ، تم کو خوب معلوم ہے کہ ہمارے مورث نے عاریت زمین آبچک تمھارے مورث کو دی تھی بنا اول سے بھی ہم کو بہت ضرر تھا اب بناء نو سے نہایت ضرر ہوگا اور پاخانہ کا راستہ تمام گھر کے آدمیوں کا ہے اور اولتی پاخانہ میں بیٹھنے سے سر پر گرتی ہے ہم آبچک مذکور کو رجوع کرتے ہیں اور ہمارا اس طر ف مکان بنانے کا بھی ارادہ ہے وارثان مستعیر بمعائنہ اقرار نامہ مذکورہ بالا کے چند اشخاص کے روبرو اقبال واقرار کیا کہ ہم بموجب اقرارنامہ یعنی مورث مستعیر کی اولتی وارثان معیرکے مکان کی طرف نہ ٹپکائیں گے اور اپنا مکان بالکل پختہ بنادیں گے ،بعد تیاری مکان وارثان مستعیراغوائے بعض کسان اولتی طرف مکان وارثان معیر ٹپکانا چاہتے ہیں اور اپنے اقرار سے کہ چندآدمی ثقہ کے روبرو کیا تھا کہ اولتی طرف مکان وارثان معیرنہ ٹپکا وینگے اب منحرف ہوتے ہیں اقرار چند آدمیوں کے سامنے کرکے انکار کرنا مقبول ہے یامردود۔پس عندالشرع شریف دخل رجوع عاریت کا وارثان معیرکو حاصل ہے یا نہیں؟
عہ: فی الاصل ھکذا اظنہ پچھیت ای خلف الدار۔
اصل میں اسی طرح ہے میرے گمان میں یہ الفاظ پچھیت ہے یعنی گھر کے پیچھے۔ (ت)
الجواب
وارثان معیرکو بلاشبہ عاریت میں رجوع کاا ختیار ہے اور وارثان مستعیر پر واپس دینافرض ہےجبکہ عاریت ثابت ہے۔
قال اﷲ تعالٰی ان اﷲ یامرکم ان تؤدوا الامانات الی اھلہا ۱؎۔
اللہ تعالٰی نے فرمایا: اللہ تعالٰی حکم فرماتاہے کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کے سپرد کردو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۵۸)
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : علی الید مااخذت حتی تردھا ۲؎۔ ہاتھ نے جولیا وہ اس کا ذمہ دار ہے جب تک واپس نہ کرے۔ (ت)
(۲؎ سنن ابن ماجہ ابواب الصدقات باب العاریۃ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص۱۷۵)
باقی ان کا کہناکہ اس طرف اولتی نہ ٹپکائیں گے اقرار نہیں وعدہ ہے او ر وعدہ کے ایفاء پرحکما جبرنہیں۔
اشباہ وعالمگیریہ وغیرہا میں ہے :
لاجبر علی الوفاء بالوعد ۳؎۔
وعدہ کے ایفاء پر جبر نہیں۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الدعوٰی الباب الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۴۱ و ۴۲۷)
(العقود الدریۃ مسائل وفوائد شتی من الحظروالاباحۃ ارگ بازار قندہار افغانستان ۲ /۳۵۳)
ہاں اگرتسلیم کیاہو کہ واقعی یہ زمین زمان مورث سے ہمارے اور ہمارے مورث کے ہاتھ میں عاریت ہے اس کامالک عمرو ہے تو یہ اقرارہے اور اس سے پھرنا کسی طرح جائز نہیں، اگر بشہادت شرعیہ ان کا اقرار ثابت ہوگا وہ ضرور اس کی پابندی پرمجبور کئے جائیں گے۔
لان المرء مواخذ باقرارہ
(کیونکہ اقرار کرنے والا اپنے اقرار پر ماخوذ ہوتاہے۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۹ و ۱۰: از بریلی شہر کہنہ مسئولہ صفدر علی ومبارک علی خاں ربیع الآخر ۱۳۳۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین ان مسائل میں :
(۱) زید نے ۱۶ اپریل ۱۸۱۸ میں ایک ہبہ نامہ بحق اپنے بیٹے عمرو کے کیا اور دستاویز میں یہ اقرار کیا کہ وہ مالک ومختار جائداد ہے ہبہ پورا موہوب لہ کو کر دیا اورقابض ودخیل کرکے دخل اپنا مطلقا اٹھالیا، لہذا اقرار یہ ہے کہ بعد تحریر ہبہ ھذا کے کچھ حق میرا یا قائم مقامان میرے کا اس جائداد موہوبہ میں جزءً وکلاً باقی نہیں رہا بعدہ ۲۱ جون ۱۹۱۲ء میں بعد انتقال عمرو پسر مذکور زیدواہب نے دوسرا ہبہ نامہ اس ایک جز وجائداد موہوبہ کا اپنی مان کر اورہبہ نامہ مذکور کو فرضی ٹھہرا کر بنام اپنے نبیرہ گان پسران متوفی کے کیا اس میں اقرار اول سے رجوع کیا کہ اس جزوجائداد کامیں مالک وقابض ہوں اور ہبہ نامہ اگر چہ بنام عمرو متوفی تحریرکا تھا مگر قبضہ نہں دیا اس لئے وہ انتقال شرعا باطل وکالعدم ہے، آیا یہ رجوع زید صحیح ہے یا نہیں؟
(۲) دوسرے ۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو عمرو نے ایک بیعنامہ چند مواضع کا بنام اپنے والد زید کے کیا جس کے متعلق ۱۱ جنوری ۱۹۰۸ء کو زید نے ایک اقرار نامہ بایں الفاظ تحریر کیا کہ بیعنامہ مذکور محض فرضی تھا اور س کے ذریعے سے کوئی انتقال ملکیت بحق میرے وقوع میں نہیں آیا اور کل جائداد مندرجہ بیعنامہ مذکور کا مالک وقابض واقعی میرا لڑکا عمرو ہے مجھے کوئی دعوی ملکیت نہ اب ہے اور نہ آئندہ ہوگا پھر بعد وفات عمرو زید نے ایک ہبہ نامہ اپنے نبیرہ گان کے بوجہ مساوی بالاشتراک کیاا ور اس میں بیعنامہ عمرو مورخہ ۷ اکتوبر ۱۹۰۴ء کو اصلی واقعی مانا ہے لہذا اس صورت میں بیعنامہ عمرو فرضی متصورہوگا یا واقعی وہ جائداد ورثائے عمرو کی ملک ٹھہرے گی یا ورثائے زید متوفی کی، اور یہ ہبہ زید کا مشاع ہونے کے بعث باطل ہوگا یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
شریعت مطہر ہ کا قاعدہ ہےکہ کوئی مقر اقرار کرکے اپنے اقرار سے پھر نہیں سکتا نہ اس کے خلاف اسکی بات تسلیم ہوسکے۔ ہدایہ واشباہ ودرمختاروغیرہا عامہ اسفار میںہے
لاعذر لمن اقر ۱؎
(اقرار کرنے والے کو عذر کا حق نہیں۔ ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الاقرار داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۴۵۶)
دستاویز اول میں جبکہ صاف اقرار کیا کہ میں نے موہوب لہ کو قابض ودخیل کرکے اپنا دخل مطلقا اٹھالیا تو اب بعد موت موہوب لہ یہ کہنا کہ میں نے قبضہ نہیں دیا تھا محض باطل ونامسموع ہے اور پہلی دستاویز ہبہ تام ونافذ وناقابل رجوع ہے۔
درمختارمیں موانع رجوع میں ہے :
المیم موت احد المتعاقدین ۱؎
(م سے مراد عاقدین میں سے ایک کی موت ہے۔ ت)
(۱؎ درمختار کتاب الہبہ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۶۱)
اسی میں ہے:
القاف قرابتہ۲؎
(ق سے مراد اس کی قرابت ہے۔ ت)
(۲؎درمختار کتاب الہبہ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۶۳)
یونہی جب اس بیع کی نسبت زید صحیح اقرر کرچکا کہ وہ محض فرضی تھی اور اس کے سبب مجھے کوئی ملک حاصل نہ ہوئی وہ بیعنامہ اس کے اقرار سے باطل ہوگیا اسے اس سے رجوع کا کچھ اختیار نہیں اور یہ ہبہ بنام نبیرگان کیا ہے محض باطل ہے کہ یہ جائداد بوجہ ظہور بطلان بیع ملک عمرو متوفٰی پسر زید ہے زید اس میں سے صرف سدس کا مالک ہے اور اس نے کل کا ہبہ کیا اور اس کا سدس منقسم الممتاز نہ تھا تویہ مشاع ہوا ور اس سدسس میں بھی تمام نہ ہوا اور انتقال زید بلاتقسیم وتسلیم سدس سے باطل ہوگیا۔
درمختارمیں ہے :