Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
4 - 120
اور زید کا کہنا ''میں اپنی زوجہ کو اختیار دیتاہوں کہ دین مہر اپنامیری جائداد منقولہ وغیر منقولہ سے وصول کرلے'' ہر گز اس معنٰی میں نص نہ تھا جو زوجہ نے خواہی نخواہی قرار دے لئے، کہاں جائداد سے وصول کرنا ور کہاں عین جائداد اپنے دین میں لینا آخر علماء یہی عامہ کتب میں فرماتے ہیں کہ ترکہ سے پہلے میت کے دیون ادا کئے جائیں پھر ثلث مابقی سے وصایا ، کیا اس کے یہ معنی کہ عین جائداد متروکہ دائنین وموصٰی لہم کو دے دی جائے جو معنی ادا کے کلام علماء میں ہیں بعینہٖ وہی معنی وصول کرلینے کے کلام زید میں، مع ھذا عین بعوض دین دینا نہیں مگر
بیع لکونہ مبادلۃ مال بمال
(مال کامال سے تبادلہ ہونے کی وجہ سے۔ ت) او رمرض نہ بالفعل وارث کے ہاتھ بیع کرسکتاہے جب تک باقی ورثہ اجازت نہ دیں۔ 

جامع الفصولین میں ہے :
اعطاھا بیتا عوض مہر مثلہا لم یجز اذا البیع من الوارث لم یجز فی المرض ولم بثمن المثل ۲؎ (الا اذا اجاز وارثہ)
   خاوند نے مرض موت میں بیوی کو مہر کے عوض مکان دیا تو جائز نہیں کیونکہ مرض موت میں کسی وارث کو بیع کردینا جائز ہے اگر چہ وہ بیع مساوی ثمن کے عوض ہو، ہاں اگر باقی ورثاء جائز کردیں تو جائز ہوجائے گی۔ (ت)
(۲؎ جامع الفصولین     الفصل الرابع والثلاثون      کتاب النکاح    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲ /۲۳۴)
نہ وارث کے لئے وصیت کا اختیار رکھتاہے کہ فلاں شئی اس کے ہاتھ بیع کی جائے یا یہ خود اپنے ہاتھ بیع کرلے
الا لاوصیۃ لوارث الا ان یجیز ھا الورثۃ
(خبردار، وارث کے لئے وصیت جا ئز نہیں مگر جب ورثاء جائز قرار دیں تو جائز ہوگی۔ت) بہر حال زید کا کلام بھی کچھ بکار آمدنہیں، بالجملہ اگر دین ترکہ کو محیط نہیں جب تو امر نہایت ظاہر کہ دین غیر مستعرق مانع ملک ورثہ نہیں ہوتا۔

 اشباہ کے قول فی الدین میں ہے :
قدمنا انہ لایمنع ملک الوارث للترکۃ ان لم یکن مستغرقا ویمنعہ ان کان مستغرقا ۱؎
. ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ جب ترکہ قرض میں مستغرق نہ ہو تو وارث کے مالک بننے کو مانع نہیں ہاں اگر ترکہ قرض میں مستغرق ہو تو س کی ملکیت میں رکاوٹ بنے گا۔ (ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث القول فی الدین    ادارۃ القرآن  کراچی    ۲ /۲۱۵)
تو زوجہ ملک ورثہ بے رضائے ورثہ کیونکر بطور خود بالجبر لے سکتی ہے اور اگر محیط ہے تاہم ورثہ شارعا اختیار رکھتے ہیں کہ دین اپنے پاس سے اداکرکے ترکہ کو خالص کرلیں۔ 

اشباہ کے قول فی الملک میں ہے :
للوراث استخلاص الترکۃ بقضاء الدین ولومستغرقا ۲؎۔
وارث کو قرض اد ا کرکے ترکہ کو خلاص کراناجائز ہے اگر چہ ترکہ قرض میں مستغرق ہو۔ (ت)
 (۲؎الاشباہ والنظائر    القول فی الملک        ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۰۵)
تو ان کی بے رضا قبضہ کرلینے میں اس کے اس حق کا ابطال ہے اور یہ جائز نہیں۔ ولہذا علامہ حموی نے تصریح فرمائی کہ قاضی جب ترکہ کو دین محیط میں بیچے تو بیع بحضور ورثہ ہونا چاہئے کہ وہ حق استخلاص رکھتے ہیں
قال فی الاشباہ لاینفذ بیع الوارث الترکۃ المستغرقۃ بالدین وانما یبیعہ القاضی ۳؎ اھ فقال فی الغمز ینبغی ان یکون البیع بحضرۃ الورثۃ لما لہم من حق امساکھا وقضاء الدین من مالھم ۴؎ الخ۔
الاشباہ میں فرمایا کہ دین میں مستغرق ترکہ کو وارث کا فروخت کرنا جائز نہیں اور صرف قاضی اسے فروخت کرسکتاہے اھ تو غمز العیون میں فرمایا مناسب ہے کہ قاضی کی بیع ورثاء کی موجودگی میں ہو کیونکہ ورثاء کو حق ہے کہ قرض میں اپنا مال دے کر ترکہ کو روک لیں۔ (ت)
 (۳؎الاشباہ والنظائر    القول فی الملک    ادارۃ القرآن کراچی     ۲ /۲۰۵)

(۴؎ غمز العیون البصائر مع الاشباہ      القول فی الملک        ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۰۵)
پس روشن ہوگیا کہ قبضہ زوجہ محض بے جاہ وبے معنی ہے،
وھھنا فتوی للاخصب ماانا بغافل عنہا ولا ناس لہا لکنہا محمولۃ عندی علی اموال خفیۃ یظفر بہا الدائن الاٰئس من الوصول الی حقہ دون الظاھرۃ والاسترسال فی تحقیقہ یطول فلتضرب عنہا الذکر صفحا اقتداء بجمیع ائمتنا الاقدمین وجماھیر الاجلۃ المتأخرین حیث لا تیر لہا فی کلامہم عینا ولا اثرا ولا ذکرا ولا خبرا کیف وقد وقعت مخالفۃ للمذہب المجمع علیہ بین ائمتنا ومضادۃ لما اطبقت علیہ المتون قاطبۃ مع الشروح والفتاوی من کتب مذھبنا نعم لاباس بالمصیر الیہاعندی الضرورۃ دفعا للحرج وذٰلک انما یکون عندا الیأس مع القدرۃ علی الاستیفاء بالاخذ وقلما یجتمعان الا فی مال خفی کما لایخفی علی ذی فہم ذکی، واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدۃ اتم واحکم۔
یہاں الاخصب کا فتوٰی ہے جس سے میں غافل نہیں اور بھولا بھی نہیں لیکن میرے نزدیک اس فتوٰی کا محمل وہ مخفی اموال ہیں جن پر وصولی سے مایوس قرضخواہ قابو پالے نہ کہ اموال ظاہرہ اس کی واضح تحقیق طویل ہے اس لئے متقدمین تمام ائمہ اور جلیل القدر جمہور متاخرین کی اقتداء میں اس سے پہلو تہی مناسب کیونکہ آپ ان کے کلام میں اس کا ذکر، حکایت اور خبر تک نہ پائیں گے، اور ہو بھی کیسے جبکہ یہ بات ہمارے ائمہ کے متفق علیہ مذھب کے مخالف اور تمام متون بمع شروح وفتاوٰی ہمارے مذھب کی کتب سے متضادہے، ہاں دفع حرج کے لئے ضرورت کے وقت اس کو اپنانے میں کوئی مضائقہ نہیں اور یہ اس وقت جب وصولی سے مایوسی ہو اوراپنے حق کو حاصل کرنے پر قدرت بھی ہو، اور یہ دونوں باتیں اموال خفیہ کے بغیر بہت کم مجمتمع ہوتی ہیں جیسا کہ ذکی فہم والے پرمخفی نہیں۔ واللہ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔ (ت)
مسئلہ ۶: ۱۰ ذیقعدہ ۱۳۱۲ھ 

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفیتان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حسینی بیگم بریلوی نے بارادہ حج بیت اللہ شریف کو جاتے وقت بیس روپیہ اور ایک جگنو طلائی اور ایک زنجیر نقرئی بمبئی میں پاس جمیل النساء کے بایں شرط بطور امانت چھوڑی کہ جس وقت جو شے میں طلب کروں تم بھیج دینا۔ اور درصورت میرے مرجانے کے وہ بیت اللہ شریف میں خیرات کردینا۔ اس کے بعد مکہ معظمہ پہنچ کر بیس روپے حسینی بیگم نے جمیل النساء سے منگوالئے اور جگنو اور زنجیر جمیل النساء کے پاس امانت رہا، اور زنجیر کی نسبت کہا تھا کہ یہ میری ایک نواسی کی ہے سہواً میرے ہاتھ چلی آئی ہے، اب حسینی بیگم کا مکہ شریف میں انتقال ہوگیا لہذا زروئے شرع شریف کے جگنو اور زنجیر کا کیا کا جائے گا اور یہ بھی کہا تھا کہ میرے وارث کو مت دینا۔ بینوا تو جروا۔
الجواب

 یہاں دو چیزیں ہیں، زنجیر کا نواسی کے لئے اقرار اور جگنو کی نسبت کی  خیرات کی وصیت سائل مظہر کی حسینی بیگم کی تین نواسیاں ہیں ان سے کہا گیا تو سب نے انکار کیا کہ وہ زنجیر ہماری نہیں پس صورت مستفسرہ میں اگرچہ بربنائے قول اصح کہ مقرلہ کی جہالت غیر فاحشہ مانع صحت اقرار نہیں کیا۔ نص علیہ فی الہندیۃ من التبیین (ہندیہ میں تبیین الحقائق کے حوالے سے اس پر تصریح فرمائی گئی ہے۔ ت) اقرار مذکورہ صحیح واقع ہوا مگر جبکہ نواسیوں نے انکار کردیا رد ہوگیا۔ یہاں تک کہ اب نواسیاں تصدیق بھی کردیں تاہم معتبر نہ ہوگی۔
         فی الدرالمختار المقرلہ اذا کذب المقر بطل اقرارہ لما تقررانہ یرتد بالرد الافی ست ۱؎ الخ وفیہ لورد المقرلہ اقرارہ ثم قبل لایصح ۲؎ الخ۔
درمختارمیں ہے کہ مقرلہ جب مقرکو جھوٹا قرار دے تو مقر کا اقرار باطل قرار پاتاہے کیونکہ ثابت شدہ امر ہے کہ مقر کا اقرار مقرلہ کے رد کرنے سے رد ہوجاتاہے ماسوائے چھ امور کے الخ، اورا س میں یہ بھی ہے کہ جب مقرلہ اقرار کو رد کرکے پھر بعدمیں اسے صحیح قرار دے تو یہ تصحیح جائز نہیں۔ الخ (ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الاقرار  فصل فی مسائل شتّٰی    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۳۹)

(۲؎ درمِختار    کتاب الاقرار  فصل فی مسائل شتّٰی     ۲/ ۱۳۰)
پس وہ زنجیر تو بشرائط فرائض وارث حسینی بیگم کوملے گی۔ رہا جگنو، اگر حسینی بیگم پر کوئی دین نہیں تویہ کل متروکہ کی تہائی ، اور دین ہے تو بعد ادائے دین جس قدر بچے اس کی تہائی سے زائد نہیں یا زائد ہے اور ورثہ وصیت جائز رکھتے ہیں جب توکل جگنو تصدق کردیا جائے ورنہ اس کا اس قدر حصہ جو ثلث مال باقی بعد ادائے دین کے قدرہو تصدق کریں باقی وارث کودیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۷: از ریاست رامپور مرسلہ امیر احمد صاحب ۱۱محرم الحرام ۱۳۱۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس معاملہ میں کہ ایک مسماۃ نے ایک مختار نامہ اس مضمون کا ایک شہر میں تصدیق کرایا کہ میں دوسرے شہر کو بوجہ پورے ہونے ایام حمل کے نہیں جاسکتی ہوں اور اس دوسرے شہر میں مجھ کو ایک اقرار نامہ اس مضمون کا تصدیق کرانامنظور ہےکہ میرے شوہر نے جو زمینداری اس شہرکی اپنے روپیہ سے خرید کر بیعنامہ اس کا میرے نام اسم فرضی کرایا ہے میں اقرار کرتی ہوں اورلکھے دیتی ہوں کہ وہ زمینداری میرے شوہر کی ہے۔ میرا شوہر اس زمیندزری کا اصلی مالک ہے لہذا بدرستی جمیع حواس خمسہ  برضاو رغبت خود اپنی جانب سے فلاں مختار کو مختار خاص اپنا قرار دے کر اقرار کرتی ہوں کہ مختار خاص میرا میری جانب سے اقرار نامہ مضمون مندرجہ بالا کی تصدیق کرادے اور جملہ ساختہ وپرداختہ مختار مذکورکا مثل کردہ ذات خود قبول ومنظورہے۔ پس بعد تصدیق ہونے مختار نامہ کے مختار نے دوسرے شہر میں جاکر اقرار نامہ تصدیق کرادیا اور مضمون اس اقرار نامہ کا مسماۃ کودکھلادیا اور پڑھ کر سنادیا تھا۔ مسماۃ نے سن کر ثبت مہر کی اجازت دی تھی اور مسماۃ علیل نہیں تھی صحیح وسالم تھی بلکہ بہ سواری ڈولی محکمہ رجسٹری میں خود جاکر بزبان خود رجسٹر صدر سے مختار نامہ تصدیق کرایا تھا تکمیل ہونے مختار نامہ مذکور کے ایک روز بعد اولاد پیدا ہوئی تھی اور اولاد کے پیدا ہونے سے ایک ہفتہ بعد اولاد کے پیدا ہونے کی وجہ سے انتقال کیا کیونکہ بہت دشواری سے اولاد ہوئی تھی ہرگاہ بعد فوت مسماۃ مذکورہ وارثان مسماۃ دعوٰی باوجود ہونے دستاویز مصدقہ کے بوراثت حقیت مذکورہ بالا کا کرتے ہیں۔ اس صورت میں وہ کلمات کہ جو اقرار نامہ میں اسم فرضی کے ساتھ ملکیت شوہر اپنے کی ازروئے عدالت تصدیق کرچکی ہے نسبت نہ ہونے دعوٰی کے تحریر ہیں واسطے بری ہونے شوہر مسماۃ کے دعوٰی وراثت سے کافی ہوں گے یا نہ ہوں گے۔ عنداللہ وعندالرسول نظر غور فرماکر عاجز مسکین امیرا حمد پر بروایت صحیح جواب باصواب تحریر فرمائیں کہ موجب ثواب اجر عظیم کا ہوگا۔ بینو اتوجروا
الجواب

صورت مستفسرہ میں جبکہ ثبوت شرعی سے ثابت ہوکہ عورت نے یہ اقرار اپنی صحت میں کیا تو اب شرعا کوئی دعوی وراثت وارثان زن کا جائداد میں مسموع نہیں ہوسکتا اگرچہ تصدیق اقرار نامہ مختار نے دوسرے شہر میں بحالت مرض الموت زن کی ہو کہ شرعا ملک شوہر ثابت ماننے کے لئے یہی لفظ کافی ووافی تھے جوعورت نے بحالت صحت اس مختارنامہ میں لکھے۔ 

عقود دریہ میں ہے :
سئل فیما اذا اقرفی صحتہ لدی بینۃ شرعیۃ انہ اشتری المبیع لاختہ والثمن من مالہا واسمہ فی الصک عاریۃ وصدقتہ اختہ علی ذٰلک فہل یعمل باقرارہ المزبور، الجواب نعم ،سئل فی رجل اقرفی صحتہ ان المبلغ المکتتب باسمہ بذمۃ فلان بموجب صک لفلانۃ واسمہ فی صک الدین عاریۃ فہل یکون اقرارہ المذکور صحیحا الجواب نعم ۱؎ (ملخصا)
ان سے سوال ہوا کہ جب کوئی شخص اپنی تندرستی میں شرعی گواہوں کی موجودگی میں یہ اقرار کرے کہ فلاں چیز میں نے اپنی بہن کے لئے اسی کی رقم سے خریدی ہے جبکہ رسید میں میرا نام عاریۃ ہے اور اس کی بہن نے اس بات کی تصدیق کردی ہو تو کیا اس کے مذکورہ اقرار پر عمل کیا جائے گا (تو انہوں نے جواب میں فرمایا) ہاں عمل ہوگا ان سے سوال ہواکہ ایک شخص نے اپنی تندرستی میں اقرار کیا کہ میرے نام کی لکھی ہوئی رسید کہ اتنی رقم فلاں کے ذمہ ہے وہ رقم فلاں عورت کی ہے میرانام رسید میں عاریۃ ہے  تو کیا اس کا مذکور اقرا رصحیح ہوگا؟ الجواب، ہاں صحیح ہے۔ (ملخصا) (ت)
 (۱؎ العقود الدریۃ    کتاب الاقرار    ارگ بازار قندہار افغانستان         ۲/ ۴۶)
شوہر جانتا ہے کہ واقع میں بھی یہ اقرار زن سچاہے فی الحقیقۃ اس کانام فرضی تھا جب تو عنداللہ بھی وہ اس جائداد کا مالک ہے اور ورثہ زن کا دعوٰی باطل ، اور اگر اسے معلوم ہے کہ فی الواقع عورت ہی اس جائداد کی مالکہ تھی یہ اقرار اس نے غلط لکھ دیا اگرچہ اپنی صحت ونفاذ تصرف کی حالت میں برضا ورغبت ہی لکھا تو عنداللہ اس کے لئے اپنے حصہ سے زیادہ حلال نہیں اس پر فرض ہے کہ وارثان شرعی کا حصہ نہ روکے مگر بحالت اقرار مذکور قاضی وحاکم دعوٰی وارثان کو اصلا نہ سنے گا واقع کا علم اللہ عزوجل کو ہے۔
خانیہ و خلاصہ وبزازیہ وانقرویہ وہندیہ وغیرہا عامہ کتب میں ہے :
اقر فی صحتہ وکمال عقلہ ان جمیع ماھوا داخل منزلہ لامرأتہ غیر ماعلیہ من الثیاب ثم مات الرجل وترک ابنا فادعی الا بن ان ذٰلک ترکۃ ابیہ قال ابوالقاسم الصفار ان علمت المرأۃ ان جمیع ما اقرابہ الزوج کان لہا ببیع اوھبۃ کان لہا ان تمنع عن الا بن بحکم اقرار الزوج وان علمت انہ لم یکن بینہما بیع ولاہبۃ لا یصیر ملکا لہا بھٰذا الاقرار ۲؎۔
ایک شخص نے اپنی تندرستی اور کامل عقل میں اقرار کیا کہ میرے لباس کے ماسوامیرے گھرمیں موجود تمام سامان میری بیوی کی ملکیت ہے پھرا قرار کے بعد فوت ہوگیا اور اپنا ایک بیٹا چھوڑا جس نے دعوٰی کیاکہ گھرکاسامان میرے میرے والد کا ترکہ ہے اس پر ابوالقاسم صفار نے فرمایا کہ اگر بیوی اس یقین کا اظہار کرے کہ گھر کا تمام سامان بیع یاہبہ کے طور میری ملکیت ہے تو بیوی کو حق ہوگاکہ خاوند کے اقرار کی بنا پر اس سامان کو بیٹے سے روک لے اور اگر وہ مذکورہ یقین کا اظہار نہ کرپائے تو پھر وہ خاوند کے مذکورہ اقرار کی بناء پر بیوی کی ملکیت نہ بنے گا۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان   کتاب الاقرار   نولکشورلکھنؤ            ۳ /۶۱۶)

(خلاصۃ الفتاوٰی   کتاب الاقرار  الفصل الاول    مکتبہ حبیہ کوئٹہ        ۴ /۱۴۴)

(فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الاقرار    الباب الثانی    نوانی کتب خانہ پشاور        ۴ /۱۶۳)
درمختارمیں ہے :
لواقر کاذبا لم یحل لہ لان الاقرار لیس سببا للملک ۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اگر کوئی جھوٹا اقرار کرے تو مقرلہ کے لئے حلال نہ ہوگا کیونکہ محض اقرارکسی کی ملکیت کا سبب نہیں واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الاقرار    مطبع مجتبائی دہلی    ۲ /۱۳۰)
Flag Counter