فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
3 - 120
تو بطور خود اخذ عین بعوض دین تجارت بے تراضی ہے کہ بنصوص قطعی قرآن عظیم ممنوع وناجائز ۔
یایھاالذین اٰمنوا لاتاکلوا اموالکم بینکم بالباطل الا ان تکون تجارۃ عن تراض منکم ۱؎۔
ہمارے رب تعالٰی نے فرمایا: اے ایمان والو! آپس کے مال کوناجائز طریقے سے نہ کھاؤ مگریہ کہ رضا مندی پر مبنی تجارت ہو۔ (ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۴ /۲۹)
ہدایہ میں بیع مال مدیون بے رضائے مدیون کی نسبت فرمایا :
انہ تجارۃ لاعن تراض فیکون باطلا بالنص ۲؎۔
کہ یہ رضامندی کے بغیر تجارت ہے تواس کا باطل ہونا نص سے ثابت ہے۔ (ت)
(۲؎ الہدایہ کتاب الحجر باب الحجر بسبب الدین مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۳۵۶)
اسی لئے ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ دائن مال مدین (عہ) سے خلاف جنس دین بے رضائے مدیون، دین میں نہیں لے سکتا،
عہ: فی الاصل ھکذا لعلہ مدیون۔
ہدایہ میں ہے :
ان کان دینہ دراہم ولہ عروض لم یکن لصاحب الدین ان یاخذہ جبرا۳؎ اھ ملتقطا۔
اگر اس پر دراہم قرض ہیں جبکہ اس کے اس موجود صرف سامان ہے تو قرض خواہ کو وہ سامان جبرا حاصل کرنا جائز نہیں اھ ملتقطا (ت)
(۳؎الہدایہ کتاب الحجر باب الحجر بسبب الدین مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۳۵۷)
اور عبارت وصایائے خلاصہ :
المرأۃ تاخذ مہرہا من الترکۃ من غیر رضا الورثۃ ان کانت الترکۃ دراھم او دنانیر وان کانت شیأا مما یحتاج الی البیع تبیع ماکان اصلح ویستوفیہ صداقتہا سواء کانت الوصیۃ من جہۃ زوجہا اولم تکن وتاخذ من غیر رضا الورثۃ ۴؎۔
اگر ترکہ میں دراہم یا دینار ہیں تو بیوی ترکہ سے اپنا مہر ورثاء کی رضامندی کے بغیر حاصل کرسکتی ہےاور اگر وہ ترکہ ایسا سامان ہے جس کی فروخت کرنے کی ضرورت ہے تو بیوی مناسب نقد پر فروخت کرے اور پنا مہر پورا کرلے خواہ خاوند کی طرف سے وصیت ہویا نہ ہو، اور بیوی ورثاء کی رضاء کے بغیر حاصل کرے۔ (ت)
(۴؎ خلاصۃ الفتاوٰی کتاب الوصایا الفصل السابع مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۴ /۲۴۱)
کہ اس قبضہ کی تجویز جو مفید زوجہ خیال کی گئی ہرگز مفیدنہیں بلکہ صاف خلاف پر نص ہے۔
الاتری انہ رحمہ اﷲ تعالٰی خص اخذ العین بما اذا کانت الترکۃ دراھم اودنانیر وفی غیرہ انما اجازا لاستیفاء بالبیع لااخذ العین فی الدین ونص انہ لابدفیہ من البیع حیث قال وان کانت شیئا مما یحتاج الی البیع ۱؎ الخ۔ فمعنی قولہ وتأخذ الثانی تأخذ المہر من الثمن وان لم یرض الورثۃ بل اظن وارجو ان اکون فی ظنی صادقا ان ''لا'' سقطت من تاخذ الثانی من قلم الناسخ وانما العبارۃ ''ولاتاخذ من غیر رضا الورثۃ'' اذبہ یحسن المقابلۃ بین ھذا وبین ماقدم من قولہ ''تاخذ من غیر رضا الورثۃ ان کانت دراھم اودنانیر'' فالمعنی تبیع وتستوفی قہرا علیہم ولا تاخذ العین الابرضا ھم فلتراجع نسخ الخلاصۃ فان النسخۃ التی عندی قد تقطعت اوراقہا من ھذا المقام ومن المحال ان یکون المرأۃ تاخذ العین من غیر رضاہم فانہ علی ھذا لایبقی الفرق بین النقد وغیرہ وھوانما فتح الکلام علی التفرقۃ فلو کان مرادہ ھذا لقال ''تاخذ الترکۃ فی مہرھا و لو عروضا وعقارا وان لم یرض الورثۃ''،
آپ دیکھ رہے ہیں کہ صاحب خلاصہ رحمہ اللہ تعالٰی نے تخصیص کی ہے کہ اگر ترکہ دراہم ودنیار ہیں تو عین ترکہ کولیناجائز ہے۔ اور اگر ترکہ دراہم ودنانیر کا غیر ہو تو انہوں نے فروخت کرکے حق کی وصولی کو جائز کہاہے نہ کہ اس عین سامان ترکہ کو فروخت کرنے کی ضرورت پرنص فرمائی ہے جہاں انہوں نے فرمایا کہ اگر کوئی ایسی چیز ہو جس کو فروخت کرنے کی ضرورت ہے الخ اور عبارت میں دوسرے ''تاخذ'' کا معنی یہ ہے کہ بیوی اس چیز کے ثمن سے مہر وصول کرے اگر چہ ورثاء کی رضانہ ہو بلکہ میرا ظن ہے اور مجھے امید ہے کہ میں اس ظن میں صادق ہوں، وہ یہ کہ یہاں ''تاخذ'' سے قبل ''لا'' نقل کرنے والے کے قلم سے ساقط ہوگیا ہے جبکہ اصل عبارت یوں تھی: ولاتاخذ من غیر رضا الورثۃ، یعنی ورثاء کی رضا کے بغیر نہ لے۔ کیونکہ یوں اس عبارت کا پہلی عبارت سے مقابلہ درست ہوجاتاہے پہلی عبارت کہ اگر ترکہ دراہم ودینار ہو تو ورثاء کی رضا کے بغیر وصول کرلے تو اب دوسری عبارت کا معنی یہ ہوا کہ سامان کو فروخت کرے اور حق کو اس کے ثمن سے جبرا وصول کرے اور عین سامان کو ان کی مرضی کے بغیر نہ لے۔ آپ خلاصہ کے مختلف نسخوں کی طرف مراجعت کریں میرے پاس جو نسخہ ہے اس مقام کے اوراق اس میں سے کٹے ہوئے ہیں، اور یہ بات محال ہے کہ بیوی ورثاء کی رضا کے بغیر عین سامان کو حاصل کرے کیونکہ اس صورت میں نقد اور غیر نقد کافرق نہ رہے گا حالانکہ صاحب خلاصہ نے یہ کلام دونوں میں فرق کے لئے جاری کیا ہے۔ اگر ان کی مراد یہی ہوتی تو پھر کلام یوں ہونا چاہئے تھا : ''ترکہ سے مہر وصول کرے اگر چہ سامان ہو یا جائداد ہو خواہ ورثاء راضی نہ بھی ہوں''
(۱؎ خلاصۃ الفتاوی کتاب الوصایا الفصل السابع مکتبہ حبییہ کوئٹہ ۴ /۲۴۱)
وبالجملۃ فہذا مما لا یرضٰی بہ فقیہ ثم لاغرض لنا ھہنا یتعلق بنقد مااطلق فی اجازۃ البیع ''وان لم تکن وصیۃ من قبل زوجہا'' والا ففیہ مجال نظر فانہا اذا لم تکن وصیۃ کان بیعہا بیع مال الغیر من دون اذن منہ ولا من الشرع بخلاف بیع الوصی فانہ مختار المالک وبیع القاضی عند الصاحبین فانہ ماذون لہ من جہۃ الشرع دفعا للظلم وایصالا للحق الی المستحق واذا رأینا الامام الاجل فقیہ النفس استاذ صاحب الخلاصۃ مولٰینا القاضی الامام فخر الدین رحمہما اﷲ تعالٰی فرض المسئلۃ فی الخانیۃ فیما اذا کانت المرأۃ وصیۃ حیث افاد واجاد رحمہ الجواد میت اوصی الی امرأتہ وترک مالا وللمرأۃ علیہ مہر ھا ان ترک المیت صامتا(عہ) مثل مہرہ اکان لہا ان تبیع ماکان اصلح للبیع وتستوفی صداقہا من الثمن ۱؎ اھ (ملخصا)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس ظاہر عبارت پر کوئی فقیہ راضی نہ ہوگا پھر مطلق اجازت والی عبارت جس میں ہے اگر چہ خاوند کی وصیت نہ ہو ، سے ہماری غرض کا تعلق نہیں ہے ورنہ یہاں اعتراض کی گنجائش موجود ہے، کیونکہ جب خاوند کی مہر کی ادائیگی کے متعلق وصیت نہیں ہے توپھر بیوی کا سامان کو فروخت کرنا اور شرع کی اجازت کے بغیر فروخت لازم آتاہے بخلاف وصی کا ترکہ کے سامان کو فروخت کرنا کہ اس میں وہ مالک کی طرف سے مختارہے، اور صاحبین کے نزدیک قاضی کے فروخت کرنے کا جواز بھی شرعی طور پر ماذون ہونے کی وجہ سے ہے تاکہ قاضی کے عمل سے ظلم ختم اور مستحق کو حق دیا جاسکے، اور جب ہم نے صاحب خلاصہ کے استاد امام اجل فقیہ النفس مولانا قاضی امام فخر الدین رحمہما اللہ تعالٰی کو دیکھا کہ انہوں نے اس مسئلہ کو خانیہ میں عورت کے وصی ہونے پر بیان فرمایا، جہاں انہوں نے خوب فائدہ مند کلام فرمایا (اللہ تعالٰی ان پر رحم فرمائے)کہ ایک میت نے اپنی بیوی کو وصیت کی اور مال ترکہ چھوڑا جبکہ خود اس بیوی کا میت کے مال میں مہر باقی ہو تو اگر میت نے ترکہ میں صامت مال یعنی نقد وسامان چھوڑا جو مہر کی مثل ہو توبیوی کو (وصی ہونے کی حیثیت سے) اختیار ہوگا کہ وہ مناسب مال کو فروخت کرے اور اپنا حق مہر اس سامان کے ثمن سے پورا کرلے اھ (ملخصا) (ت)
عہ: الصامت من المال الذھب والفضۃ والناطق ھوالحیوان (منجد)۔
صامت مال سے مرادہونا چاندی اور ناطق سے مراد حیوانات ہیں (المنجد) (ت)
(۱؎ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الوصایا فصل فی تصرفات الولی نولکشور لکھنؤ ۴ /۸۵۹)