فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
11 - 120
مسئلہ ۲۴: از موضع سابق
جواب کی بعض عبارات کی تشریح مطلوب ہے:
(۱) جبکہ مضارب کو اختیار دے دیا کہ جہاں چاہے کام کر، اور اس نے شہرہی میں فروخت کرنا شروع کیا اور مضارب فقیر ہے یعنی اپنے پاس سے خرچ نہیں کرسکتا تو اس صورت میں اس کا نفقہ رب المال کے ذمہ ہوگا یا نہیں قال یہ خرچ مال پر ڈالا جائے گا جو اسے مجراد ے کر بچا وہ نفع سمجھا جائیگا اقول اس کی دو صورتیں اس وقت خیال میں آتی ہیں ایک یہ کہ رب المال نے ایک مجمل رقم مضارب کو دی تھی اس نے اس میں سے اکثر کامال خریدا اور قلیل اپنے خرچ کے واسطے رکھ لی، جب یہ خرچ ہوگئی مال کی آمدنی میں سے صرف میں لایا، دوسرے یہ کہ رب المال نے ایک رقم معین مال خریدنے کے واسطے دی، مضارب نے اس سب کا مال خریداا ور سفر خرچ وغیرہ اپنے گھر سے کیا۔ ان دو صورتوں میں تو بیشک مضارب مصارف مجرا کرکے نفع کی تقسیم کرے۔ تیسری صورت یہ کہ رب المال نے ایک رقم خاص واسطے خریداموال کے معین کردی اور ایک رقم خاص واسطے نفع وسفر خرچ وغیرہ کے دے دی تو اب یہ مصارف مال مضاربت پر کیوں پڑیں گے۔ بلکہ اس رقم صرف میں سے بعد خرچ کے جتنا بچ رہے گا وہ واپس دینا ہوگا ہاں اگر رقم سب صرف میں آگئی اور کچھ زائد خرچ کرنے کی ضرورت ہوئی تو اب جو کچھ خرچ ہو وہ مال مضاربت پرپڑے روپیہ بدستور رہنے کی صور ت میں جیسے اخیتار مطلق کو مقید کرسکتاہے یوں ہی مقید کو مطلق بھی کرسکتاہے یانہیں؟ افیدونا رحمکم اﷲ تعالٰی
الجواب
(۱) جب تک اپنے وطن میں ہوگا نفقہ نہ پائے گا اگر چہ خرید وفروخت وکار مضاربت کرتا رہے اگر چہ رب المال دوسری جگہ کا ساکن ہو اور وہیں اس سے عقد مضاربت کیا ہو، اسے سفرخرچ دیا جاتاہے اوریہ جب تک وطن میں ہے مسافر نہیں۔ اسی طرح اگر اس کے غیر وطن میں رب المال نے اسے روپیہ دیا یہ وہاں بطور مسافرت گیا ہوا تھا تو فی الحال جب تک اس شہر میں ہے نفقہ نہ پائے گا اگر چہ کار مضاربت انجام دے کہ اس بار اس کا یہ سفر مضاربت کے لیے نہ تھا بلکہ قبل عقد مضاربت تھا ، ہاں جب وہاں سے چلا جائے گا اور پھر بغرض مضاربت وہاں آئے گا تو سفر خرچ پائے گا کہ اب یہ سفر بغرض مضاربت ہے بخلاف وطن مضارب کہ اگر جائے مضاربت سے سفر ہی کرکے خاص کار مضاربت ہی کے لئے اپنے وطن کو آئے جب تک وطن میں رہے گا نفقہ نہ ملے گا کہ وطن میں آدمی کسی طرح آئے مسافر نہیں رہ سکتا۔
بدائع ومحیط و فتاوٰی ظہیریہ وبحرالرائق وردالمحتارمیں ہے :
لو اخذ مالا بالکوفۃ وھومن اھل البصرۃ وکان قدم الکوفۃ مسافرا فلا نفقۃ لہ فی المال مادام فی الکوفۃفاذاخرج منہا مسافرا فلہ النفقۃ حتی یاتی البصرۃ لان خروجہ لاجل المال ولاینفق من المال مادام بالبصرۃ لان البصرۃ وطن اصلی لہ فکانت اقامتہ فیہ لاجل الوطن لا لاجل المال فاذا خرج من البصرۃ لہ وان ینفق ایضا مااقام بالکوفۃ حتی یعود الی البصرۃ لان وطنہ بالکوفۃ کان وطن اقامۃ یبطل بالسفر فاذا عاد الیہاولیس لہ بہا وطن کانت اقامتہ فیہا لاجل المال ۱؎۔
اگر مضارب نے مالک سے کوفہ میں مال وصول کیا جبکہ مضارب بصرہ کارہنے والا ہے وہ کوفہ میں بطور مسافر آیا تھا تو جب تک وہ کوفہ میں قیام پذیر رہے گا اس وقت تک مال مضاربت پر اس کا نفقہ نہ آئے گا تو جب وہاں سے سفر کرتے ہوئے نکلے گا تو بصرہ پہنچنے تک اس کا نفقہ ہوگا کیونکہ اس کا اب کوفہ سے نکلنا مضارب کے طوپر ہے اور پھر جب تک بصرہ میں رہے گا وہ خرچہ نہ پائے گا کیونکہ بصرہ اس کا وطن اصلی ہے تویہاں اس کی اقامت وطن کی وجہ سے ہے مضاربت کے لئے نہیں۔ توا ب اگر وہ بصرہ سے نکل کر کوفہ آیا تو واپس بصرہ پہنچنے تک نفقہ اس کا حق ہے کیونکہ پہلے کوفہ میں اس کا قیام وطن اقامت کے طور پر تھا تو وہاں سے سفر کرنے پر وہ وطن باطل ہوگیا تو اب دوبارہ اس کا کوفہ آنا مضاربت کے لئے کیونکہ کوفہ اس کا وطن نہیں تو وہاں اس کا قیام صرف مال کے لئے ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب المضاربۃ فصل فی المتفرقات داراحیاء التراث العربی بروت ۴ /۴۹۰)
(۲) مجمل رقم دینا بے معنی ہے مضاربت میں راس المال کا معلوم ہونا شرط ہے ورنہ عقد فاسد وگناہ ہوگا۔ عالمگیری میں ہے :
اما شرائطہا الصحیحۃ فمنہا ان یکون راس المال معلوما عند العقد حتی لایقعان فی المنازعۃ فی الثانی ۲؎ الخ۔
مضاربت کے صحیح شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ عقد کے وقت راس المال کا معلوم ہونا ہے تاکہ بعد میں دونوں کا اختلاف نہ ہو الخ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب المضاربۃ الباب الاول نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۸۶۔ ۲۸۵)
(۳) مضارب اگر اپنے پاس سے خرچ کرے گا جب بھی مال مضاربت سے مجرا پائے گا مگر رب المال سے مجرا لینے کا حق نہیں رکھتا یہاں تک کہ اگر مال مضاربت تلف ہوجائے تو اس کا خرچ بھی گیا۔ رب المال سے اس کا مطالبہ نہ کرسکے گا۔
عالمگیری میں ہے :
ان انفق المضارب من مال نفسہ اواستدان علی المضاربۃ رجع فی مال المضاربۃ بذٰلک ویبدأ براس المال ثم یثنی بالنفقۃ ثم یثلث بالربح وان ھلک مال المضاربۃ لم یرجع علی رب المال بشیئ کذا فی الذخیرۃ ۱؎۔
اگر مضارب نے اپنے ذاتی مال سے نفقہ لیا یا اس نے مضاربت کے معاملہ میں قرض لیا تو وہ اسےمضاربت کے مال سے وصول کرے گا یہ مجرائی اولا راس المال سے پھر ثانیا نفقہ سے اور پھر ثالثا نفع سے ہوگی اور اگر مضاربت کا تمام مال ہلاک ہوجائے تو مضارب کچھ بھی رب المال سے وصول نہ کرسکے گا، ذخیرہ میں یوں ہے۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب المضاربۃ الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۳۱۳)
یاحق یاصاحب کل حق بغناک وفقرنا تجاوز عمالک من الحقوق علینا و بکرمک تحمل عناما لعبید فانک اکرم الاکرمین وصلی اﷲ تعالٰی علٰی اکرم الخلق محمد واٰلہ الکرماء اجمعین اٰمین والحمد ﷲ رب العالمین ، واﷲ تعالٰی اعلم۔
یاذات حق، اے ہر حق کے مالک، اپنے غنا اور ہمارے فقرکے وسیلہ سے ہمارے ذمہ جو بھی تیرے حقوق ہیں معاف فرما، اوراپنے کرم کے ذریعہ اپنے بندوں کے حقوق کو ہم سے ختم فرما، کیونکہ تو تمام کریموں سے بڑا کریم ہے اور اللہ تعالٰی کی رحمتیں مخلوق کے بڑے کریم محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر اور ان کی کرم والی سب آل پر، آمین، الحمد للہ رب العلمین، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
مسئلہ ۲۵: از الہ آباد محلہ حمام حکیم سید قنبر علی صاحب ۲۱ ربیع الآخر ۱۳۳۶ھ
زید نے خالد کو جو کہ سوداگر ہے پانچ سو روپے بدیں معاہدہ قرض دیا کہ اس پانسو روپے سے خالد جو کاروبار تجارت مناسب جانے کرے اور جو منافعہ تجارت ہو اس مں سے صرف ایک آنہ فی روپیہ زید کو دے باقی کل رقم منافع خالد اپنے حق المحنت میں لے اور جو نقصان تجارت میں ہو اس میں بعد فہمید وحساب وکتاب زید صرف فی روپیہ کے حساب سے اصل میں مجرا دے گا، باقی کل تاوان خالد ادا کرے گا، ایسا معاہدہ داخل سود وناجائز ہے یانہیں؟ بینوا توجروا
الجواب: ایسا معاہدہ بلاشبہ ناجائز ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ ۲۶: از پاٹن شمال گجرات مرسلہ عبدالقادر محمد فضل صاحب ۱۳ ربیع الاول شریف ۱۳۳۸ھ
ماقولکم نفع الانام بکم فی زید وعمرو اتفقا علی ان یتجرا بان یکون راس المال من زید وان یکون عمرو مضاربا وشرع عمرو فی العمل فانتخب التجارۃ بالربح اولا عقب الحساب بینہا اقتسما علی موجب شرطہما ثم اضاف ما نابہ من الربح علی مال زید واخذ فی اسباب التصرف وسار ینفق من مال الشرکۃ علی نفسہ ماکلہ ومشربہ وکسوتہ ویھب ویتصدق ویزور النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ویحج کل ذٰلک بغیر اذن شریکہ ولہ یظھر الربح بل لحق راس المال خسارۃ فہل یضمن عمرو ما انفق فی الوجوہ المذکورۃ حیث کان ذٰلک بغیر اذن الشریک یکون الضمان فی مالہ خاصۃ ام یکون دینا اذا بقی، افتونا ماجورین۔
آپ کا کیا ارشاد ہے (اللہ تعالٰی آپ کے ذریعہ مخلوق کو نفع دے) اس مسئلہ میں کہ زید اور عمرو نے تجارت کرنے پر بایں طور اتفاق کیا کہ اصل رقم زید کی ہوگی اور عمرو مضارب ہوگا،اور عمرو نے کام شروع کردیا تو اس نے تجارت میں نفع کمایا حساب کے بعد طے شدہ شرط کے مطابق دونوں نے نفع کوتسلیم کرلیا، پھر عمرو نے اپنے حاصل شدہ نفع کو زید کے مال (راس المال) میں شامل کردیا اور کاروباری ذرائع میں مشغول ہوگیا او رمشترکہ مال سے اپنے مصارف کھانے ، پینے، لباس، ہبہ، صدقہ اور حج وزیارت پر صرف کیا اور یہ تمام اخراجات اپنے شریک کی اجازت کے بغیر کئے جبکہ نفع نہ ہو ا بلکہ راس المال میں خسارہ ہوگیا، تو کیامذکورہ مصارف پر اپنے شریک کی اجازت کے بغیر خرچ شدہ مال کا عمرو ضامن ہوگا اور یہ ضمان خاص عمرو کے اپنے مال سے ادا ہوگا یا بقایا ہونے کی صورت میں اس کے ذمہ دین ہوگا، اجر پاتے ہوئے ہمیں فتوٰی دیں۔ (ت)
الجواب: کل ماانفق فی الہبات والصدقات والحج والزیارۃ الشریفۃ یحسب علیہ من مال نفسہ لاشیئ منہ علی صاحبہ وکذا ما انفق علی نفسہ وھو مقیم بمصر المضاربۃ ای البلد الذی اخذ فیہ المال مضاربۃ او بوطنہ سواء کان مولدہ اواتخذہ دارا، وکذا ماانفق فی الخروج الی موضع یغدوالیہ ثم یروح ویبیت باھلہ وکذا جمیع النفقات علی الاطلاق ان کانت المضاربۃ فاسدۃ فانہ لیس فیہا للمضارب الااجر مثل عملہ نعم اذا کانت صحیحۃ وخرج المضارب للتجارۃ الی حیث لایؤویہ اللیل بمنزلہ وان قفل فنفقتہ بالمعروف طعامہ وشرابہ ولباسہ وفراشہ ورکوبہ وخادمہ ونفقۃ خادمہ کل ذلک فی مال المضاربۃ حتی یؤب لاالزائد علی المعروف فانہ مضمون علیہ غیر ان عمرا اضاف الیہ شیئا من مال نفسہ فینقسم النفقات المعروفۃ علی کلا المالین بحسبہما فما اصاب مال المضاربۃ فذٰلک وما اصاب مال عمرو حسب علیہ من مال نفسہ وکل ماذکرنا انہ یحسب علیہ ان کفاہ مالہ فبہا وما فضل وتعدی الی مال المضاربۃ یضمنہ و ھودین علیہ یوخذ منہ حیث لاربح ، ھذا کلہ اذا لم یخلط اوخلط وکان زید قال لہ ان اعمل فیہ کما تری اوکان الخلط ھناک معروفا بین التجار اما اذا عرٰی عن ھذہ الوجود ضمن مال زید تماما لانہ استھلکہ بالخلط بغیر اذن ولاعرف فعاد غاصبا بعد ماکان مضاربا فعلیہ وضیعۃ ولہ ربحہ ولایطہر لہ ربح مال المضاربۃ عندالامام ومحمد رضی اﷲ تعالٰی عنہما فیتصدق بہ الا اذا اختلف الجنس فان الربح لایظہر الا عند اتحادہ فی الدرالمختار اذا سافر ولو یوماً (المرادان لایمکنہ المبیت فی منزلہ فان امکن ان یعود الیہ فی لیلۃ فہو کالمصر لانفقۃ لہ بحر اھ شامی) فطعامہ وشرابہ ، و کسوتہ ورکوبہ ولوبکراء وکل مایحتاجہ فی عادۃ التجار بالمعروف فی مالہا لو صحیحۃ لا فاسدۃ لانہ اجیر فلا نفقۃ لہ وان عمل فی المصر سواء ولد فیہ اواتخذہ دار افنفقتہ فی مالہ کدوائہ ، اما اذا نوی الا قامۃ بمصر ولم یتخذہ دارافلہ النفقۃ مالم یاخذ مالا (یعنی اما اذا کان قد اخذ مال المضاربۃ فی ذلک المصر فلا نفقۃ لہ مادام فیہ ولا یخفی مافیہ من الایجاز الملحق بالغاز اھ شامی،
عمرو نے ہبہ، صدقہ، حج وزیارت پر جو کچھ صرف کیا وہ عمرو کے ذاتی مال سے شمار ہوگا اس میں سے کچھ بھی دوسرے ساتھی پر نہ ہوگا اور یونہی جو کچھ اس نے مضاربہ والے شہر یعنی جس شہر میں اس نے مضاربہ کامال وصول کیا، یا اپنے وطن خواہ اس کا مولد ہو یا وہاں گھر بنالیا ہو، میں اپنی ذات پر خرچ کیا او ریونہی تمام اخراجات علی الاطلاق اگر مضاربہ فاسدہ ہو کیونکہ فساد کی صورت میں مضارب مثلی اجر کے بغیر کسی چیز کا مستحق نہیں ہوتا، ہاں جب مضاربہ صحیح ہو اور مضارب نے تجارت کی غرض سے ایسی جگہ سفر کیا جہاں سے وہ صبح وشام واپس اپنے گھر نہیں پہنچ سکتا تو اس کا معروف نفقہ بطور خوراک ولباس، بستر، سواری، خادم، خادم کا نفقہ یہ سب مضاربت کے مال پر ہوگا حتی کہ واپس گھر پہنچ جائے، معروف سے زائد نفقہ نہ ہو کیونکہ زائد ہو تو اس پر اس کا ضمان لازم ہوگا، علاوہ ازیں عمرو نے اپنا مال چونکہ تجارت میں شامل کرلیا تو اب تمام معروف اخراجات دونوں مالوں پر علی الحساب منقسم ہوں گے جو مضاربت کے حصہ میں آیا وہ مضاربت پر اور اس کے اپنے مال کے حصہ آئے وہ اس پر ہوگا جو ہم نے ذکر کیا کہ حساب سے اخراجات اس کے مال پر، اگر اس کا مال ان اخراجات کو کفایت کرتاہے فبہا ورنہ اخراجات زائد ہونے کی صورت میں جو مضاربت پر پڑے ہیں ان کا وہ ضامن ہوگا اور اس کے ذمہ وہ دین پر ہوں گے اور اس سے وصول کئے جائیں گے جبکہ نفع کامال نہ ہو، یہ تمام بیان ا س صورت میں ہے جبکہ اس نے اپنا ذاتی مال مضاربت کے مال میں خلط نہ کیاہو یا اس نے خلط کردیا اور زید نے اسے کہہ رکھا تھا کہ اپنی رائے سے جو چاہو کرو یا وہاں تجار میں اس طرح خلط کرنا معروف ہے ورنہ اس کے بغیر خلط سے عمرو زیدکے تمام مال کا ضامن ہوگا کیونکہ اجازت او رعرف کے بغیر خلط کرکے اس نے مضاربت کے مال کو ہلاک کردیا اور مضارب کی بجائے وہ غاصب بن گیا اب نفع ونقصان اس کا ہے او رمضاربت سے حاصل شدہ نفع اس کے لئے ،امام ابوحنیفہ اور امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہما کے نزدیک مال مضاربت کا نفع اس کے لئے پاک نہ ہوگا او رصدقہ کرے گا ہاں اگر نفع اور راس المال کی جنس مختلف تو پاک ہوگا، کیونکہ نفع اتحاد وجنس میں ظاہر ہوتاہے۔ درمختار میں ہے جب مضارب سفر خواہ ایک دن کا کرے (اس سے مراد یہ ہے کہ اتنا سفر ہو کہ واپس آکر رات گزارنا ممکن نہ ہو اگر رات گھر آنا ممکن ہو تو یہ اپنے شہر کی طرح ہوگا لہذا وہ نفقہ کا مستحق نہ ہوگا بحر، اھ شامی) تو کھانا، پینا، لباس سواری، اگر کرایہ کی ہو اور تجار میں معروف تمام اخراجات مضاربت پر ہوں گے بشرطیکہ مضاربت صحیح ہوگا فاسد نہ ہو کیونکہ فاسد ہونے کی صورت میں مضارب اجیربن جاتاہے اس کا نفقہ نہیں اور اگر اس نے اپنے وطن جس میں پیدا ہوا یا جس کو اس نے گھر بنالیا وہاں کے اخراجات اس کے اپنے مال سے ہوں گے جیسا کہ علاج معالجہ ذاتی ہوتاہے، اگر سفر کے دوران کسی شہر میں اقامت کی نیت ہو اور وہاں گھر نہ بنایا ہو تو وہاں نفقہ کا مستحق ہوگا بشرطیکہ اس شہر میں اس نے مال مضاربت وصول نہ کیا ہو یعنی اس شہر میں اگر مال وصول کیا تو وہاں بھی نفقہ کا استحقاق نہ ہوگا جب تک وہاں رہے گا، اس کلام میں جو ایجاز ہے مخفی نہیں اھ شامی،
اقول: مثلہ لیس من الایجاز فی شیئ بل وقع من القلم اقتصار امخلا) ولو سافر بمالہ ومالہا اوخلط باذن انفق بالحصۃ واذاقدم رد مابقی ''مجمع'' ویضمن الزائد علی المعروف، ویأخذ المالک قدر ما انفقہ المضارب من راس المال (متعلق بانفق اھ ش) ان کان ثمۃ ربح فان استوفاہ وفضل شیئ اقتسماہ علی الشرط لان ماانفقہ یجعل کالہا لک والہالک یصرف الی الربح وان لم یظہر ربح فلا شیئ علی المضارب ۱؎ اھ (باختصارین) وفیہ لایملک الخلط بمال نفسہ الا باذن اواعمل برأیک ۲؎ اھ (باختصار)۔
اقول: میں کہتاہوں ایسا کلام کسی طرح ایجازنہیں بلکہ یہ مخل قسم کا اقتصار قلم سے صادر ہوا) اگر مضارب نے مضاربت کے مال اور اپنے مال سمیت سفرکیا اور رب المال کی اجازت سے خلط کیا ہو تو خرچہ حصہ کے مطابق ہوگا جب واپس پہنچے تو بقیہ نفقہ واپس کرے، مجمع اور معروف سے زائد خرچہ کا ضامن ہوگا اور راس المال سے زائد خرچہ کو رب المال وصول کرے گا (راس المال کا تعلق انفق سے ہے اھ شامی) اگر اس میں نفع ہو تو اور خرچہ اس سے پورا کرلینے کے بعد کچھ بچا تو دونوں شرط کے مطابق تسلیم کرلیں کیونکہ خرچ شدہ کو ہلاک شدہ قرار دیا جاتاہے اور ہلاک شدہ کو نفع کی طرف پھیرا جاتاہے اور اگر وہاں نفع نہ ہو تو مضارب پر کوئی ذمہ نہیں اھ (باختصارین ) اوراسی میں ہے کہ مضارب کو اپنے مال کے ساتھ خلط کا اختیار نہیں الایہ کہ اجازت صریح ہو یا کہا گیا ہو ''اپنی رائے سے عمل کر'' اھ (باختصار)۔
(۱؎ درمختار کتاب المضاربۃ فصل فی المتفرقات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۵۰)
(ردالمحتار کتاب المضاربۃ فصل فی المتفرقات داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۹۱۔ ۴۹۰)
(۲؎ درمختار کتاب المضاربۃ فصل فی المتفرقات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۱۴۷)