فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۹(کتاب الوکالہ، کتاب الاقرار، کتاب الصلح، کتاب المضاربہ، کتاب الامانات، کتاب العاریہ، کتاب الہبہ، کتاب الاجارہ، کتاب الاکراہ، کتاب الحجر )
10 - 120
مسئلہ ۲۳: کیا ارشاد ہے علمائے دین کا اس مسئلہ میں کہ رب المال اور مضارب میں وقت دینے مال کے نفع کی تعیین ہوجانی چاہئے کہ مضارب نفع میں سے نصف لے گا یا ثلث وغیرہ یا بعد حصول نفع کے دونوں باہم تراضی سے طے کرلیں اگربوقت مال دینے کے طے کریں تو اسی جلسہ میں ہو، اگر جلسہ بدل جائے تو حرج تو نہیں رب المال نے مضارب کو ایک شہر معین میں بھیجا اس نے وہاں جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہاں فروخت کرنے میں کوئی فائدہ نہ ہوگا تو اب اس کو کیا کرنا چاہئے۔ رب المال کے پاس واپس جانے یا دوسرے شہر میں جہاں مناسب جانے کام کرے۔ یا شہر معین میں فروخت کرتے کرتے مال بچ رہا تو مابقی کو لوٹا لائے یا دوسری جگہ مناسب پر فروخت کردے۔ اگر رب المال وقت عقد کے توسیع کردے کہ جہاں مناسب سمجھے بیچے اور جو بات مفید دیکھے وہ کرے تو اس کے اختیارات وسیع ہوجائیں گے یا نہیں۔ رب المال کے ذمہ سفر خرچ وخورد ونوش مضارب کا ہے اس سے مراد طعام بقدرضرورت ہے یا دیگر اشیاء بھی مثلا اس کا جی چاہا فصل کی کوئی شیئ کھالی یا روٹی سالن کافی تھا کہ اس نے پلاؤ زردہ کھایا یا کسی مسکین کو خیرات میں کچھ دیا یا لباس کی ضرورت پر کپڑا خرید کر استعمال کیا مثلا ٹوپی کافی ہوسکتی تھی کہ اس نے عمامہ خریدا یا اس کی حیثیت کے موافق ایک آنہ کی ٹوپی مناسب تھی کہ اس نے چارآنے کی خریدی۔
الجواب: نفع میں جو حصہ شائعہ مضارب کا تعین نفس عقدمیں ضرورہے۔ اگر عقد بلا تعیین حصہ شائعہ کیا مثلا تجھے مضارب کیاا س شرط پر کہ کچھ نفع مجھے دے دیا کر نا اس شرط پر کہ جتنا چاہوں اتنا نفع تجھے دیا کروں تو عقد فاسد وحرام ہے۔ بلکہ اگر یوں کہا کہ زید وعمر میں باہم جتنے نفع پر مضاربت ہوئی ہے اسی قدر پر میں نے تجھ سے مضاربت کی اور عاقدین میں ایک کو اس کی مقدار معلوم نہیں۔ عقد فاسد ہوگا اگر چہ دوسرے کو معلوم ہو، ہاں اسی جلسہ میں تعیین کرلیں یا علم ہوجائے توجائز ہوجائے
لان المجلس یجمع الکلمات
(کیونکہ مجلس متفرق کلام کی جامع ہوتی ہے۔ ت) تبدل جلسہ ہوتے ہی فساد متقرر اور گناہ مستقر ہوجائے گا
والمسائل کلہا معلومۃ من الفقہ
( یہ تمام مسائل فقہ میں واضح ہیں۔ ت)
درمختار میں ہے :
شرطہا کون الربح بینہا شائعا فلو عین قدرا فسدت وکون نصیب کل منہما معلوما عند العقد ۱؎۔
مفاربت میں نفع غیر معین مقدار ہونا شرط ہے اور اگر کوئی معین مقدار طے ہوئی تو مضاربت فاسد ہوگی اور عقد کے وقت دونوں کا حصہ معلوم بھی شرط ہے۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب المضاربۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۴۷۔ ۱۴۶)
ہندیہ میں ہے :
دفع الٰی غیرہ الف درہم مضاربۃ علی مثل ما شرط فلان لفلان من الربح فان عَلِمَ رب المال والمضارب بما شرط فلان لفلان من الربح تجوز المضاربۃ وان لم یعلما لاتجوز وکذا اذا علم احدھما وجہل الاخر ھٰکذا فی المحیط، ولو دفع الیہ مضاربۃ علی ان یعطی المضارب رب المال ماشاء من الربح فھذہ مضاربۃ فاسدۃ کذا فی المبسوط ۲؎۔
کسی نے دوسرے کو ہزار درہم مضاربت کے طورپر دیا کہ جیسے جیسے فلاں فلاں نے آپس میں نفع شرط کیا اس شرط کے مطابق یہ عقد ہے تو اگر رب المال اور مضارب دونوں کو ان کی شرط معلوم تھی تو یہ مضاربت جائز ہوگی اور ان کو فلاں فلاں کی شرط معلوم نہ تھی تو جائز نہ ہوگی اور یونہی اگر ایک کو وہ شرط معلوم تھی اور دوسرے کو معلوم نہ تھی۔ محیط میں یوں ہے اور اگر دوسرے کو مضاربت کے لئے اس شرط پر مال دیا کہ مضارب جو چاہے نفع میں سے رب المال کو دے تو یہ مضاربت فاسدہوگی جیسا کہ مبسوط میں ہے۔ (ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیۃ کتاب المضاربۃ الباب الثانی نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۲۸۸)
مضارب جہاں مناسب جانے مال لے جاسکتاہے اس میں اذن رب المال کی حاجت نہیں جبکہ رب المال اسے مقید نہ کردے۔ ہاں مقید کردے گا کہ اسی شہر یا خاص فلاں شہر ہی میں خرید وفروخت کرویا صرف فلاں موسم میں یا خاص فلاں شخص یا اشخاص سے، یا خاص فلاں مال کی تجارت کرو تو مضارب اس کے اتباع کا پابند ہوجائیگا مخالفت کرے گا تو تاوان دے گا اگرچہ رب المال نے عقد مضاربت کے بعد یہ تقییدات کردی ہو۔ جب تک روپیہ بدستور باقی ہے ابھی مضارب نے اس سے مال نہ خریدا۔ خریداری کے بعد پھر رب المال مطلق ومقید نہیں کرسکتا۔
درمختارمیں ہے :
یملک المضارب فی المطلقۃ التی لم تقید بمکان او زمان اونوع (ای اوشخص ش) البیع بنقد ونسیئۃ متعارفۃ و الشراء والتوکیل بہما والسفر برا و بحرا لا تجاوز بلدا وسلعۃ اووقف اوشخص عینہ المالک لان المضاربۃ تقبل التقیید المفید ولو بعد العقد مالم یصرالمال عرضا لانہ حینئذ لایملک عزلہ فلا یملک تخصیصہ فان فعل ضمن بالمخالفۃ ۱؎ اھ ملتقطا۔
مضاربہ مطلقہ جو کسی مکان، زمان، قسم (یا شخص ش) سے مقید نہ ہو تو اس میں مضارب کو ہر طرح بیع نقد، ادھار معروف اور خریدنے اور بیع وشراء میں وکیل بنانے اور بری وبحری سفر کرنے کا اختیار ہوگا اور اگر مالک نے علاقہ، سامان، وقف یا شخص کو معین کردیا تو مضارب اس پابندی سے تجاوز نہیں کرسکتا، کیونکہ مال کے سامان تجارت بننے سے قبل مضاربت مفید پابندی کے قابل ہے اگرچہ یہ پابندی عقد کے بعدلگائی ہو مگر مال جب سامان تجارت میں بدل جائے تو اس وقت پابندی موثر نہ ہوگی کیونکہ اس موقعہ پر مالک مضارب کو معزول کرنے کا اختیار نہیں رکھتا تو کسی تخصیص وپابندی کا مالک بھی نہ ہوگا۔ اگر مالک نے قیود کا پابند کیا ہو تو مضارب مخالفت کرنے پر مال کا ضامن ہوگا اھ ملتقطا (ت)
(۱؎ درمختار کتاب المضاربۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۴۷)
رب المال اگر مضارب کی رائے پر چھوڑ دے کہ جو مناسب جانے کرے تو ضرور اس کے بعض اختیارات وسیع ہوجائیں گے مثلا مطلق مضاربت میں اسے یہ اختیار نہ ہوتا کہ دوسرے کو اپنی طرف سے یہ مال مضاربت دے یا راس المال اپنے روپے میں ملالے اور جب رب المال نے یہ کہا کہ تیری رائے پر چھوڑا تو ان امور کا بھی مختار ہوجائیگا ہاں کسی کو روپیہ قرض دینا یا کسی سے قرض لینا اب بھی جائز نہ ہوگا جب کہ مالک صراحۃً اس کا اذن نہ دے۔
درمختار میں ہے :
لایملک المضاربۃ والشرکۃ والخلط بمال نفسہ الا باذن او اِعْمَل برایک اذ الشیئ لایتضمن مثلہ ولا الاقراض والا ستدانۃ وان قیل لہ اِعْمَل برایک لانہما لیسا من صنیع التجار فلم یدخلا فی التعمیم مالم ینص المالک علیہما فیملکھما ۱؎ (ملخصا)
مضارب مالک کی اجازت کے بغیر آگے مضاربہ، شرکت اور اپنے مال کے ساتھ خلط کرنے کا مالک نہ بنے گا۔ اجازت یا اپنی رائے سے عمل کر، کہہ دینے سے مالک بن سکے گا کیونکہ کوئی چیزاپنی مثل کو متضمن نہیں ہوتی اور اپنی رائے سے عمل کر۔ کہہ دینے کے باوجود مضارب قرض دینےاورا دھار دینے کا مجاز نہ ہوگا کیونکہ یہ دونوں عمل تجار کا طریقہ نہیں تودی ہوئی تعمیم میں یہ چیزیں شامل نہ ہوں گی جب تک مالک ان دونوں کی تصریح نہ کردے ۔ اگر ان کی تصریح کردی تو ان کا مجاز بنے گا (ملخصا) ۔ (ت)
(۱؎ درمختار کتاب المضاربۃ مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۴۷)
مضاربۃ صحیحہ میں جبکہ مضارب مال مضاربت لے کر بغرض مضاربت سفر کرے اگرچہ ایک ہی دن کا سفر ہو تو ایام سفر کا نفقہ، کھانا۔ پینا۔ پہننا، سواری، بچھونا، تکیہ، تیل، بتی، کپڑوں کی دھلائی، خط بنوائی، خدمت گزاری کی اُجرت ، سواری کا دانہ، چارہ، سرا کی کوٹھری، چارپائی کا کرایہ، اور ان کے مثل ہر معمولی ودوامی حاجت حسب عادت تجار بقدر معروف مضارب پر ہوگی یہ خرچ مال پر ڈالا جائیگا جو اسے مجرا دے کر بچا وہ نفع سمجھا جائے گا اور اگر نفع نہ ہوا تو یہ خرچ اصل مال پر پڑے گا اور مضارب اس کا کچھ عوض نہ دے گا۔
درمختار میں ہے:
واذا سافرولو یوماً فطعامہ وشرابہ و کسوتہ ورکوبہ ولوبکراء وکل مایحتاج فی عادۃ التجار بالمعروف فی مالہا لو صحیحۃ لا فاسدۃ لانہ اجیرفلا نفقۃ لہ وان عمل فی المصر فنفقتہ فی مالہ کدوائہ علی الظاہرا مااذا نوی الاقامۃ بمصر ولم یتخذہ دارافلہ النفقۃ ابن(عہ) ملک ویاخذ المالک قدر ماانفقہ المضارب من راس المال ان کان ثمہ ربح فلا شیئ علی المضارب ۲؎ (ملخصا)
جب مضارب سفر کرے خواہ ایک دن کا ہو تو خوراک، شراب، لباس، سواری جب کرایہ کی ہو، اورتمام اخراجات جو تجار کی عادت معروفہ ہوں وہ سب مضاربت کے مال سے ہوں گے بشرطیکہ مضاربت صحیح ہو فاسد نہ ہو کیونکہ فاسد ہو تو مضارب اجیر ہے نفقہ کا مستحق نہ ہوگا، اور اگر وہاں شہر میں ہی کام کیا تو اپنے مال سے نفقہ برداشت کریگا جیسا کہ علاج کی صوت میں ظاہر قول کی بناء پر خود کرے گا۔ اور سفر کے دوران کسی شہر میں اقامت کی نیت کی لیکن مستقل وطن نہ بنایا تب بھی نفقہ مضارب پر ہوگا (ابن ملک) اور اگر مضاربت میں نفع حاصل ہوا اور مضارب نے راس المال (اصل مال) سے نفقہ کیا تو مالک اتنا خرچہ نفع سے وصول کرلے گا تو مضارب کے ذمہ کچھ نہ آئے گا۔ ملخصا (ت)
عہ: لعل المراد منہ عبداللطیف ابن عبدالعزیز الشہیر بابن ملک۔
(۲؎درمختار فصل فی المتفرقات مطبع مجتبائی دہلی ۲ /۱۵۰)
مگر بقدر معروف کی قید لگی ہوئی ہے روٹی سالن معروف تھا تو پلاؤ زردہ کی اجازت نہیں۔ ٹوپی کی عادت ہے عمامہ نہیں لے سکتا ایک آنہ کی ٹوپی معتاد ہے دو آنہ کی نہ لے گا۔ فصل کے میوے، برف کی قلفیاں، مٹھائی کے دونے، سوڈے کی بوتلیں، یہ اپنی جیب خاص سے کھائے پئے، مال مضاربت پر حوائج ڈالتے ہیں یہ حوائج نہیں۔ اسی طرح کنگھی، سُرمہ، پھلیل، دوامال مضاربت سے نہ کرے گا۔
عالمگیری میں ہے :
النفقۃ ھی مایصرف الی الحاجۃ الراتبۃ وھی الطعام والشراب والکسوۃ وفراش ینام علیہ والرکوب وعلف دابتہ، محیط السرخسی، وغسل ثیابہ والدھن فی موضع یحتاج الیہ واجرۃ الحمام والحلاق وانما یطلق فی جمیع ذٰلک بالمعروف حتی یضمن الفضل ان جاوزہ ھکذا فی الکافی، وروی عن ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی انہ سئل عن اللحم فقال کما کان یاکل، ذخیرۃ، واما الدواء والحجامۃ والکحل ونحو ذٰلک فی مالہ خاصۃ دون مال المضاربۃ، ولو استاجرا جیرا یخدمہ فی سفرہ احتسب بذٰلک علی المضاربۃ، مبسوط ۱؎، واﷲ تعالٰی اعلم۔
نفقہ وہ عام حاجت کے مصارف ہیں اور وہ کھانا، پینا، لباس، بستر زیر استعمال، سواری، جانور کی خوراک ہے، محیط سرخسی، اور کپڑوں کی دھلائی، ضرورت کے مقام پر تیل، حجام کی اُجرت ان تمام امور کی معروف اجازت ہوگی حتی کہ اگر معروف مقدار سے زائد خرچ کیا تو ضامن ہوگا کافی میں یوں ہے، اور امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالٰی سے مروی ہے کہ ان سے خوراک میں گوشت کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ہاں جو کھانے کی اسے عادت ہو، ذخیرہ، لیکن ذاتی دوائی، سینگی لگانے اور سُرمہ وغیرہ جیسی چیزیں مضارب کے اپنے ذاتی مال سے ہونگی مضاربت سے نہ ہونگی، اور اگر سفر کے دوران خدمت کے لئے اجیر کرایہ پر رکھا تو یہ مضاربت کے حساب سے ہوگا، مبسوط، واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب المضاربۃ الباب الثانی عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۱۳۔ ۳۱۲)