Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
99 - 151
الجواب

دلیل کہ زیدنے بیان کی، بجائے خود صحیح ہے۔ خصائص بے دلیل صحیح اختصاص ثابت نہیں ہوتے، 

مواہب شریف میں ہے :
الخصائص لا تثبت الابدلیل صحیح قالہ فی شرح تقریب الاسانید ۱؎۔
خصائص صحیح دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہوتے، یہ بات انہوں نے تقریب الاسانید کی شرح میں ذکر کی ہے۔(ت)
 (۱؎ المواہب اللدنیہ     المقصد الرابع    الفصل الثانی    المکتب الاسلامی بیروت    ۲ /۶۰۰)
اسی طرح فتح الباری وغیرہ میں ہے، یوں تو ہر فضل عطائی حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ہی سے خاص ہے کہ وہی اصل و منبع ومبدء  و مرجع ہر فضل ہیں؂
وکل آی اتی الرسل الکرام بھا     فانما اتصلت من نورہ بھم۲؎

انما مثلواصفاتک للنا        س کما مثل النجوم الماء ۳؎
 (جو معجزات مرسلین لائے ہیں وہ آپ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے ان تک پہنچے وہ لوگوں کے لئے آپ کی صفات مظہر بنے جس طرح ستاروں کیلئے پانی مظہر بنتا ہے۔ت)
 (۲؎المواہب اللدنیہ     المقصد الرابع    الفصل الثانی    المکتب الاسلامی بیروت   ۲ /۵۸۲)

(۳؎ المجموعۃ النبہانیہ فی المدائح النبویہ     حرف الہمزہ     دارالمعرفت بیروت    ۱ /۷۷)
مگر حقائق عطایائے محمدیہ میں یہ فضل کہ بعد مشورہ بھی اپنی رائے پر اعتماد جائز ہو علمائے کرام نے خصائص حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے نہ گنا البتہ وجوب مشورہ کوخصائص والا سے شمارکیا
کمافی انموذج اللبیب للامام السیوطی والمواھب للامام القسطلانی
(جس طرح کہ امام سیوطی کی انموذنج اللبیب اور امام قسطلانی کی مواہب میں ہے۔ت) بلکہ ہمارے علمائے کرام نے ہر حاکم ذی رائے کےلئے اس کے عموم کی تصریح فمائی کہ مشورہ کرے پھر عمل اپنی ہی رائے پر کرے اگرچہ سب رائے دہندوں کے خلاف ہو یعنی جبکہ مشورہ سے اپنی رائے کی غلطی ظاہر نہ ہو، رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم تو محتاج مشورہ نہیں بلکہ ہرامر میں اپنے رب کے سوا تمام جہان سے غنی وبے نیاز ہیں حضور کا مشورہ فرمانا غلاموں کے اعزاز بڑھانے اور انہیں طریقہ اجتہاد سکھانے امت کے لئے سنت قائم فرمانے کے لئے تھا وہ خودفرماتے صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم:
اما ان اﷲ ورسولہ لغنیان عنہا ولکن جعلہا اﷲ رحمۃ لامتی فمن استشار منھم لم یعدم رشدا و من ترکہا لم یعدم غیا ۱؎۔ رواہ ابن عدی والبیہقی فی الشعب بسند حسن عن ابن عباس رضی اﷲ تعالی عنہما۔
واضح ہو کہ اﷲتعالٰی اور اس کا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مشورہ سے مستغنی ہیں لیکن اﷲ تعالٰی نے مشورہ کو میری امت کیلئے رحمت بنایا ہے تو جو مشورہ کرے گا وہ رہنمائی کو معدوم نہ پائے گا او رجو نہ کرے گا وہ خطا کو معدوم نہ پائے گا۔ اس کو ابن عدی اور بیہقی نے شعب میں سند حسن کے ساتھ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔(ت)
 (۱؎ شعب الایمان للبیہقی    حدیث۷۵۴۲    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۷ /۶۶)

(درمنثور بحوالہ البیہقی وابن عدی    وشاور ھم فی الامر کے تحت     مکتبہ آیۃ اﷲ العظمی قم ایران      ۲ /۹۰)
امام حسن بصری فرماتے ہیں:
قد علم اﷲ انہ مابہ الیہم من حاجۃ، ولکنہ اراد ان یستن بہ من بعدہ۲؎رواہ سعید بن منصور فی سننہ وابن المنذر وابی حاتم والبیہقی۔
اﷲ تعالٰی جانتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو ان کے مشورہ کی حاجت نہیں لیکن ارادہ فرمایا کہ آپ کے بعد آپ کی سنت جاری کی جائے، اس کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں اور ابن منذر، بیہقی اور ابوحاتم نے روایات کیا ہے۔(ت)
 (۲؎ المواہب الدنیہ     المقصد الرابع     الفصل الثانی     المکتب الاسلامی بیروت        ۲ /۶۰۱)
امت کے لئے فائدہ مشورہ یہ ہےکہ تلاحق انظار وافکار سے بارہا وہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ صاحب رائے کی نظرمیں نہ تھی س کا انتظار ہے اور بعد مشورہ بھی کوئی جدید امر کہ اپنی رائے میں ترمیم کرنا واضح نہ ہوا تو رائے روشن مشورہ بے ضیاء سے احق بالا تباع ہے۔

 رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
استفت قلبک وان افتاک المفتون۱؎رواہ البخاری واحمد فی التاریخ عن وابصۃ بن معبد الجھنی رضی اﷲ تعالٰی  عنہ۔
اپنے دل سے فتوی لے اگرچہ مفتی حضرات تجھے فتوٰی دیں۔ اس کو بخاری نے تاریخ اور احمدنے حضرت وابصہ بن معبد جہنی رضی اﷲتعالٰی عنہ سے روایت کیا ہے۔(ت)
 (۱؎ کنز العمال     بحوالہ تخ     حدیث ۲۹۳۴۰    موسسۃ الرسالہ بیروت    ۱۰ /۲۵۰)

(مسند احمد بن حنبل     مروی ازوابصہ بن معبد    المکتب الاسلامیہ بیروت    ۴ /۲۲۸)
ہمارے امام رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے نزدیک اس کے حق میں کثرت رائے کا کچھ اعتبار نہیں بلکہ ذی رائے ہے تو اپنی ہی رائے کا اتباع کرے اگرچہ تمام رائے دہندہ خلاف پر ہوں اور غیر کے لئے بھی یہ ہے کہ جوان میں اعلٰی وافقہ واورع ہے اس کی رائے پر چلے اگرچہ وہ اکیلا اور اس کے خلاف پر کثیر ہوں۔ 

معین الحکام میں ہے :
ان کان فی المصر قوم من اھل الفقہ شاورھم لان اﷲ تعالٰی  امر رسولہ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم بذٰلک، فان اتفقوا علی شیئ وکان رأیۃ کرأیھم  فصل الحکم، وان اختلفو ا نظر الی اقرب الاقوال من الحق وامضی ذٰلک وان کان من اھل الاجتہاد، ولا یعتبر السن ولا کثرۃ العدد لان الاصغر والوا حد قد یوفق للصواب فی حادثۃ مالا یوفق الاکبر والجماعۃ۲؎۔
اگر شہر میں اہل فقہ ہوں تو ان سے مشہور ہ کرے کیونکہ اﷲ تعالٰی نے اپنے رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو مشورہ کا حکم فرمایا ہے پس اگر ان کا کسی معاملہ پر اتفاق ہو  اور اس کی رائے انکی رائے کے مطابق ہو تو حکم حاصل ہوگیا اور اگران کا اختلاف ہو تو اقرب الی الحق قول کو پاکر اس پر عمل کرے اگرچہ وہ اہل اجتہاد میں سے ہو ، عمراور عدد کی کثرت کا اعتبار نہیں کیونکہ کبھی کم عمر اور واحد شخص کسی حادثہ میں درستگی کو پالیتا جس کو بڑا اور جماعت نہیں پاتے (ت)
(۲؎ معین الحکام     الرکن الثانی من ارکان القضاء المقتضی بہ   مصطفی البابی مصر ص۲۷)
   اسی طرح محیط پھر ہندیہ میں ہے :
(وزاد) وینبغی ان یکون ھذاعلی قول ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ اما علی قول محمد رحمہ اﷲ تعالٰی  فتعتبر کثرۃ العدد ثم قال وان لم یکن القاضی من اھل الاجتہاد وقد وقع الاختلاف بین اھل الفقہ اخذ بقول من ھوا فقہ واورع عندہ ۱؎۔
اور انہوں نے یہ زائد بات کی کہ یہ امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا قول ہونا مناسب ہے لیکن امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے قول پر کثرت عدد کا اعتبار ہے، اور پھر فرمایا اگر قاضی اہل اجتہاد میں سے نہ ہو تو فقہاء کرام کے اختلاف کی صورت میں زیادہ فقیہ اور پر ہیز گار کے قول کو اپنائے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب ادب القاضی     الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۳۱۴)
نیز معین الحکام میں ہے :
وان اختلفواعلی الامیر فرأی بعضھم رأیا، ورأی بعضھم رأیا غیرہ لم یمل مع اکثر ھم ولکن ینظر فیما اختلفوا فیہ،فمارأہ صوابا قضی بہ وانفذہ، وکذٰلک ینبغی للقاضی ان یفعل ذٰلک اختلف علیہ المشاورون من الفقہاء ۲؎۔
اگر مشورہ دینے والوں میں اختلاف ہو کسی کی رائے کچھ اور کسی کی رائے کچھ ہو تو اکثریت کی رائے پر عمل نہ کرے بلکہ غور کرکے درست رائے قائم کرے اور اس پر عمل کرتے ہوئے فیصلہ دے کر نافذ کردے، اور قاضی کو بھی یہی کرنا چاہئیے جب مشورہ دینے میں فقیہ لوگوں میں اختلاف پایا جائے (ت)
 (۲؎ معین الحکام    فصل فی جمع الفقہاء     للنظر فی حکم القاضی    مصطفی البابی مصر    ص۳۳)
عمروبکر وغیرہماکے استدلال محض باطل ہیں اتباع سواد اعظم کا حکم اور
من شذ شذ من فی النار ۳؎
 (جو جد اہوا وہ جہنم میں گیا۔ت) کی وعید صرف دربارہ عقائد ہے مسائل فرعیہ فقہیہ کو اس سے کچھ علاقہ نہیں،
 (۳؎ مستدرک للحاکم     کتاب العلم         دارالفکر بیروت    ۱ /۱۱۵)
صحابہ کرام سے ائمہ اربعہ تک رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کوئی مجتہد ایسا نہ ہوگا جس کے بعض اقوال خلاف جمہور نہ ہوں، سیدنا ابوذر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا مطلقاً جمع زرکو حرام ٹھہرانا، ابو موسی اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا نوم کو اصلا حدث نہ جاننا ،عبداللہ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما کا مسئلہ ربا ،امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کامسئلہ مدت رضاع، امام شافعی رضی اﷲتعالٰی عنہ کا مسئلہ متروک التسمیہ عمداً،امام مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا مسئلہ طہارت سؤر کلب وتعبد عنسلات سبع،امام احمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا مسئلہ نقض وضو بلحم جز ور وغیرہ ذلک مسائل کثیرہ کو جو اس وعید کا موردجانے خود
شذ فی النار۱؎
 (جو جدا ہو جہنم میں ڈالا گیا۔ت) کا مستحق بلکہ اجماع امت کا مخالف اور
''نولہ ماتولی ونصلہ جہنم وساءت مصیرا۲؎''
 (اس کو پھیر دیں گے جب وہ پھر، ہم اس کو جہنم میں ڈال دیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے۔ ت) کا مستوجب ہوگا اور حدیث اجماع اور بھی بعید تر۔
(۱؎ المستدرک للحاکم   کتاب العلم    دارالفکربیروت    ۱ /۱۱۵)	(۲؎ القرآن الکریم   ۴ /۱۱۵)
اجماع میں ایک وقت کے تمام مجتہدین کا اتفاق درکار ہے ایک کے خلاف سے بھی اجماع نہیں رہتا اور کسی مجلس کے فیصلہ کو اجماع ٹھہرانا سخت سے سخت نادانی ہے، شہر بھر کےفقہاء کا اتفاق تو اجماع درکنار فقیہ کے مقابل اصلاً حجت نہیں ہوتا، نہ کہ اراکین مجلس کا فیصلہ جن میں اکثر بے علم ہوتے ہیں بلکہ بہت جگہ کل۔ 

بدائع میں ہے :
ان اشکل علیہ حکم الحادثۃ استعمل رأیہ فی ذٰلک وعمل بہ والافضل ان یشاور اھل الفقہ فان اختلفوا اخذ بما یؤدی الی الحق ظاھرا و ان اتفقواعلی رأی یخالف رأیہ عمل برأی نفسہ ایضا لکن لاینبغی ان یعجل الخ۳؎(ملخصاً)
اگر کسی حادثہ میں مشکل پیش آئے اپنی رائے کو عمل میں لائے اور افضل یہ ہے کہ اس معاملہ میں اہل فقہ سے مشورہ کرے، اگر ان میں اختلاف ہو توجو ظاہر طور پر حق کے قریب ہوا سے اختیار کرے اور اگر وہ اس کی رائے کے خلاف کسی رائے پر اتفاق کریں تو اس کو اپنی رائے کا ترک جائز نہیں لیکن عجلت مناسب نہیں الخ(ت)
(۳؎ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع    کتاب ادب القاضی     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۷ /۵)
محیط میں ہے :
  اتفقواعلی شیئ ورأی القاضی بخلاف رأیھم لاینبغی ان یترک رأی نفسہ۴؎۔
اگر ان کا اتفاق قاضی کی رائے کے خلاف ہو تو قاضی کو اپنی رائے ترک کرنا جائز نہیں ہے۔(ت)
(۴؎ محیط)
Flag Counter