Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
98 - 151
مسئلہ۱۱۱: مرسلہ میاں جان شاہ خلیفہ و جانشین حضرت حاجی غلام احمد صاحب مرید میاں احمد علی شاہ صاحب سکینہ ریاست رامپو ر محلہ بذریہ ہمت خاں ۱۸/ذی قعدہ ۱۳۳۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید لاوارث نے اپنے مکان مملوکہ و مقبوضہ کی نسبت اپنے مریدوں سے ایک مرید بکر نامی کو جودس سال کی عمر سے اس کی اطاعت و خدمت گزاری شبانہ روز بسر کرتا تھا خرقہ خلافت وتبرکات وغیرہ عطا فرما کر اس کو اپنی سجادہ نشینی کی خدمت تفویض کی اور ساتھ ہی اس کو یہ وصیت کی کہ یہ مکان تجھ کو ہبہ کرتا ہوں میرے انتقال کے بعد تم اس مکان میں اپنی سکونت رکھ کر مکان مذکورہ میں میرا اور میرے پیر ومرشد نیز دیگر اولیاء و پیران عظام کی علی الدوام فاتحہ عرس بطریق فقراء اپنے اہتمام سے سال بسال کرتے رہنا، اور میرے مرید بغرض شرکت عرس بیر ونجات وغیرہ سے آئیں ان کو مکان مسطور میں مقیم کرکے ان کے خوردنوش کا بھی انتظام کرنا اور جس طرح کہ میں اورادو اشغال وچلہ کشی وغیرہ خود کرتا اور اپنے مریدوں وغیرہ کو تلقین اورسلسلہ وطریقہ پیری ومریدی وغیرہ کی تعلیم دیتارہتا ہوں یہی معمول رکھنا، اور زید نے بخیال کم استطاعتی و بے بضاعتی اپنے سجادہ نشین بکر کے مکان مذکور کی نسبت بیع کی ممانعت کرکے رہن کی اجازت دی ،بعد اس وصیت کے زید نے مکان مذکورہ پر بکر کا قبضہ کامل طور سے کرادیا، بکر ایک تارک الدنیا فقیر ہے، وصیت پیر و مرشد کو بجان و دل قبول ومنظور کرلیا اور زید نے اس وصیت کے کئی سال بعد سفر آخرت اختیار کا بکر زید کی وصیت کے موافق زمانہ اٹھارہ سال سے مکان مذکور  پر بلا شرکت غیرے قابض ومتصرف ہے اور جملہ خدمات کی بجاآوری میں مامورومشغول ہے بلکہ بسبب انہدام مکان مذبور ونیز برائے سرانجام فاتحہ عرس بباعث تنگدستی مکان مسطور کو رہن کرکے حسب وصیت زید جمیع امورات مفوضہ کو بجا لانا مقدم سمجھا ہے ان امور متذکرہ بالا کے اکثر وبیشتر لوگ واہل محلہ بخوبی واقف وشاہد ہیں، اب ایک عمرو نامی شخص دینا دار جو اپنے کو متولی زید کے پیر ومرشد کے مزار کا قرار دیتا ہے بوجہ طمع نفسانی وبحرص مفاد دنیا وی اس وصیت زیدکو اٹھارہ سال کے بعد کالعدم ظاہرکرکے یہ کہتا ہے کہ زید مجھ کو یہ وصیت کر گیا ہے کہ مکان مسطور فروخت کرکے میرے پیر ومرشد کے مزار کی مرمت وروشنی وغیرہ کرنا، پس صورت مذکورہ بالا میں مکان مقبوضہ اٹھارہ سالہ مواہبہ شرعاً قبضہ بکر سے علیحدہ ہو کر فروخت ہوسکتا ہے یا نہیں اور خواہش نفسانی عمرو دنیادار کی موافق شرع شریف کے جائز ہے یاناجائز؟
الجواب 

سائل مظہر ہےکہ عمرو  وہیں کا ساکن ہے اور مدت دراز سے زید کو اس مکان پر قبضہ کے تصرفات مالکانہ مثل ہدم وتعمیر وغیرہ کرتے دیکھ رہا ہے اور اب تک ساکت رہا اب ۱۸سال کے بعد اس وصیت کا مدعی ہوا، پس صورت مستفسرہ میں عمرو کادعوٰی اصلاً قابل سماعت نہیں۔ 

فتاوٰی امام شیخ الاسلام ابوعبداﷲ محمد بن عبداﷲ عزی تمر تاشی میں ہے:
سئل عن عجل لہ بیت فی داریسکنہ مدۃ تزید علٰی  ثلث سنوات ولہ جار بجانبہ والرجل المذکور فی البیت متصرف فی البیت المزبور ھدما وعمارۃ مع اطلاع جارہ علی تصرفہ فی المدۃ فھل اذا ادعی البیت اوبعضہ بعد ماذکر من تصرف الرجل المذکور فی البیت ھدماً وبناءً فی المدۃ المذکورۃ تسمع دعواہ ام الاجاب، لاتسمع دعواہ علٰی  ماعلیہ الفتوی ۱؎۔
سوال ہو ا ایسے شخص کے متعلق کہ ایک حویلی کے کمرہ میں تین سال سے زائد مدت سے مقیم ہے۔اور شخص مذکور اس کمرہ میں ہر طرف کا تصرف گرانا، بنانا کرتا چلا آرہا ہے اس کے پڑوس میں دوسرا شخص ہے جو مذکورہ مدت سے اس کے تصرفات مذکور کو دیکھ رہا ہے، تو کیا اس پڑوسی کو اس کمرہ کے کل یا بعض پر دعوٰی کا حق ہے باوجود یکہ وہ سب کچھ تصرفات دیکھتا رہا ہو۔ جواب دیا کہ اس دعوٰی سماعت نہ ہوگی مفتی بہ قول کے مطابق(ت)
(۱؎ العقود الدریہ     بحوالہ فتاوٰی غزی     کتاب الدعوٰی     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
وجیز کردری میں ہے :
علیہ الفتوی قطعا للاطماع الفاسدۃ ۲؎
 (اس پر فتوٰی فاسد طمع کو ختم کرنے کےلئے ہے۔ت)
(۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیہ     کتاب النکاح     الفصل التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۲۶)
ردالمحتار میں ہے :
مجرد السکوت عند الاطلاع علی التصرف مانع من الدعوی، قولہ زرعا وبناء المراد بہ کل تصرف لایطلق الاللمالک فھما من قبیل التمثل، قولہ لاتسمع دعواہ ای دعوی الاجنبی ولو جارا ۳؎۔
تصرفات مذکورہ پر اطلاع کے باوجود خاموشی دعوی کےلئے مانع ہے، ماتن کا قول''زراعت وتعمیر'' سے مراد تمام ایسے تصرفات جوصرف مالک کےلئے جائز ہیں یہ دونوں بطور تمثیل ذکر کئے، اس کا قول اس کا دعوٰی نہ سنا جائے گا یعنی ہر اجنبی کا خواہ پڑوسی ہو۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار    مسائل شتی    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵/۴۷۴)
عقود الدریہ میں ہے:
مجرد الاطلاع علی التصرف مانع من الدعوی، ولم یقیدوہ بمدۃ ولابموت، ولیس مبنیا علی المنع السلطانی بل ھو حکم اجتہادی نص علیہ الفقہاء ۴؎،ملتقطا، واﷲ تعالٰی اعلم۔
تصرفات پر اطلاع ہی دعوٰی سے مانع ہے کسی مدت یا موت کی قید کے بغیر یہ بات فقہاء نے ذکر ہے، یہ حکم سرکاری پابندی کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ اجتہادی حکم ہے جس کو فقہاء نے بالاتفاق بیان کیا ہے ملتقطا، واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
 (۴؎ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ     کتاب الدعوی    ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۴)
مسئلہ۱۱۲: ازانجمن نعمانیہ لاہور۱۳/ذی الحجہ ۱۳۳۲ھ

امیر یا امام یا صدر قوم کو شرعاً مسلمانوں کا مشورہ لین کے بعد کثرت رائے کا اتباع لازمی ہے یا اس کو اختیار ہوگا کہ وہ اپنی رائے پر عمل کرے خواہ وہ رائے کثرت رائے کے خلاف ہی ہو مثلاً انجمن یا مجلس کی صورت میں اس کے متعلقہ کاموں کے لئے ماتحت مجلسین ہر فن کے ماہرین کی بنادی گئی ہوں اور کل اس عام مجلس کا ایک صدر یا امام یا امیر بھی منظور کرلیا گیا ہو تو خاص فن کی مجلس کے فیصلہ کے خلاف صدر مجلس مذکور کو ان کی رائے حاصل کرلینے کے بعد یہ اختیار ہوگا کہ ان کے فیصلہ کے خلاف حکم دے دے اور وہ قابل اتباع ہویا نہیں، یعنی زید جو اس دعوی کا حامی ہے کہ صدر کو کثرت رائے کا اتباع لازمی نہیں وہ اپنے دعوٰی کے ثبوت میں فخر کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مثاہل پیش کرتا ہے کہ بعض اوقات صحابہ علیہم الرضوان سے مشورہ لینے کے بعد بھی اپنی ذاتی رائے پر عمل کیا اور کلام قدیم میں بھی انہیں الفاظ میں حکم آیا کہ :
وشاورھم فی الامر فاذاعزمت فتوکل علی اﷲ۱؎۔
اور کاموں میں ان سے مشورہ ار جو کسی بات کا ارادہ پکاکرلو تو اﷲ پر بھروسہ کرو۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۳ /۱۵۹)
یعنی اپنی عزیمت پر عمل کرنے کا اختیار دے دیا زید یہ بھی کہتا ہےکہ آج کل مجلسوں میں کثرت رائے کا اتباع ایک زمانہ حال کے غیر مذاہب کے رویہ کا اتباع ہے جو درحقیقت مضر ہوتاہے مثلاً کثرت رائے آج کل کے ایسے مسلمان کی جو مذہبی اتباع میں نہایت کمزور ہوتے ہیں کسی شرع معاملہ میں بوجہ آرام طلبی و مصلحت زمانہ کے خلاف ہوجائے تو کیا ا س شرعی مسئلہ کے خلاف کرنا جائز ہوجائے گا، عمرو بکر وغیرہ زید کے مقابل میں یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ خاصہ حضور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کےلئے تھا بعد میں امت مرحومہ کو اتباع سواد اعظم کا حکم دیاگیا اور
من شذ شذفی النار۲؎
 (جو جماعت سے علیحدہ رہا وہ جہنم میں علیحدہ کیا گیا۔ت) کا وعید سنایا گیا اور
لاتجتمع امتی علی الضلالۃ۳؎
 (میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی۔ت)کہ کسوٹی دی گئی اجماع ادلہ شرعی میں قرار پایا جس پر اہل سنت وجماع کے مذاہب اربعہ کی بنیاد ہے،
 (۲؎ المستدرک للحاکم    کتاب العلم     دارالفکربیروت    ۱ /۱۱۵)

(۳؎المستدرک للحاکم    کتاب العلم     دارالفکربیروت    ۱ /۱۵۔۱۱۴)

(الدرالمنتشرۃ فی الاحادیث المشتہرۃ     حدیث۴۵۹     المکتبۃ الاسلامی بیروت    ص۱۹۰)
نیز زید کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک امر کے متعلق اس کے اہل فن کی مجلسیں مقرر کردی گئی ہوں تو ان کا فیصلہ کیوں اجماع کا حکم نہ رکھے گا اور اس کے خلاف صدر کوعمل کرنے کا کیوں اختیار ہونا چاہئے کیونکہ صدر آخر ایک شخص ہے اس کو ایک مجلس کے متفقہ فیصلہ توڑدینے کا اختیار دینا خالی اذخطر نہیں ہوسکے گا اس کے مفسدہ اور مصلحت پر بھی نظر رہناچاہئے، براہ کرم ان کے جواب سے بادلہ شرعی بہت جلد مطلع فرمادیں۔

                المستفتی              							   المستفتی

سلیم اﷲ خاں جنزل سیکرٹری انجمن نعمانیہ لاہور		    تاج الدین احمد سیکرٹری انجمن نعمانیہ لاہور 

                 المستفتی 

نور بخش فنا نشل سیکرٹری انجمن نعمانیہ لاہور
Flag Counter