Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
97 - 151
مسئلہ۱۰۸: ازرامپور محلہ گنج از جانب سبزہ فروشاں معرفت سدن کنجڑا ۴شعبان ۱۳۳۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسمی اﷲ دین کےذمہ مسمی بھورے چودھری کی دو اشرفیاں مبلغ تیس روپیہ کی واجب الادا ہیں جب اس نے طلب کیں تب جواب دیا کہ میں بھورے چودھر کو عبدالکریم اور نور محمد اور نسوہ کے سامنے دے چکا جب اس نے دریافت کیا تو انہوں نے بالاتفاق کہا کہ ہمارے سامنے ہر گز تم نے نہیں دیں تم غلط کہتے ہو جب دیکھا کہ سب نے انکار کیا اور میرا جھوٹ کھلا تو اﷲ دین نے کہا اچھا میں ان اشرفیوں کے مبلغ تیس روپیہ بر وقف حساب کتاب کے مجرادوں گا اور یہ اقرار چند آدمیوں کے سامنے کیا کہ جس میں چھد ا اور کلن اور اشخاص مذکورین موجود تھے پھر جب وقت حساب کا ہوا تو پھر انکار کردیا اور اس اقرار سے رجوع کیا اور قسم کاکر کہتا ہے کہ میں تو تینوں شخصوں مذکورین کے سامنے اداکرچکا میں نہیں دوں گا، تو اب ایسی صورت میں جب اقرار گواہوں کے سامنے اشرفیوں کے تیس روپیہ اداکرنے کی بابت کرچکا اور پھر انکار کیا تو یہ انکار بعد الاقرار معتبر ہوگا یا وہی اقرا ر مقدم کہ جس کا ثبوت گواہوں سے ہے قائم رہے گا اور اﷲ دین کے ذمہ تیس روپیہ اشرفیوں کے بھورے چودھری کے واجب الادا ہوں گے یا نہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب:  یہ امر دین ہے اور معاملہ حقو ق العباد کا ہے احتیاط لازم ہے یہاں جو بھورے چودھری نے آکر بیان کیا اس میں یہ سوال تھا کہ اﷲدین قسم کھاتا ہے اس کی قسم معتبر ہے یا نہیں اور اس کا جواب دیا گیا تھا کہ جب وہ ادا کردینا بتاتا ہے کہ دین کا اقرار کرچکا اور ادا کا دعوٰی کیا تو اب وہ مدعی ہے اور چودھری مدعا علیہ۔ اور مدعی کی قسم معتبر نہیں بلکہ وہ گواہوں سے ثبوت دے کہ ادا کرچکا اگر ثبوت نہ دے سکے اور چودھری کا حلف مانگے تو چودھری پر حلف آئے گا کہ مجھے ادا نہ کئے میرا مطالبہ اس پر اب تک ہے اگر چودھری قسم سے انکار کرے تو کچھ نہ پائے اور قسم کھالے تو ڈگری دیا جائے۔ رہے چودھری کے گواہ کہ تونے نہیں دئے اصلاً معتبر نہیں کہ شہادت نفی ہے اورنفی پر گواہی مقبول نہیں اور یہاں یہ ٹھہرانا کہ گواہ کے ہوتے حلف کی ضرورت نہیں محض بے معنی ہے، نہ چودھری پر گواہ ہیں نہ اﷲ دین پر حلف۔
وھذاکلہ ظاھر لمن لہ ادنی المام بخدمۃ الفقہ الشریف فلم یکن لیقع فیہ الارتیاب ولکن لاحول ولاقوۃ الابتوفیق العزیز الوھاب۔
یہ تمام ظاہر ہے اس شخص پر جس کو فقہ شریف کی خدمت میں ادنی حصہ بھی ہے تو اس میں شک نہیں ہونا چاہئے، لیکن اقدام  اور قوت اﷲ تعالٰی کی توفیق کے بغیر نہیں۔(ت)

اس قدر صورت کا تو حکم یہ تھا اور سال میں اکثر عبارات سائلین اپنے فہم کے لائق بالمعنی نقل کرتے ہیں اور جہاں اختلاف لفظ سے حکم بدلتا ہے وہاں ان کے سبب دقت واقع ہوتی ہے اور حق رسی دشوار ہوجاتی ہے خصوصاً بہت خدا ناترس وکلائے مفتعلہ ساختہ الفاظ تعلیم کرتے ہیں جن سے کمی پوری ہوجائے اور یہ سخت مزلہ اقدام ہے والعیاذ باﷲ تعالٰی ، پس اگرشہادت عادلہ شرعیہ متفقہ سے ثابت ہوا کہ اﷲ دین نے وہ لفظ کہے کہ اچھا میں ان اشرفویں کے تیس روپے وقت حساب مجرادوں گا، یہ تو ضرور اقرار ہے کہ اسی زر مدعٰی کا دینا مانتا ہے اور اقرار کے بعد انکار مسموع نہیں، روپے دینا ہوں گے، اور اگر انتا کہنا ثابت ہوکہ اچھا میں تیس روپے وقت حساب مجرادوں گا تو اسے اقرار ٹھہرانا محل تامل ہے، ظاہر عبارت سوال یہ ہے کہ یہ کلام مبتداء ہے اور مجرادوں گا وعدہ ہے اور وعدہ کہ کلام مبتدا میں ہو اقرار نہیں اور اچھا کہ بعد منازعت کہا معنی قبول عطا قطعاللنزاع کا احتمال رکھتا ہے اور قبول عطا قبول وجوب نہیں اور اقرار قبول وجوب ہے اور اب زرمدعی کی طرف اشارہ اور مجرا دینا دادنی ہونا چاہتا ہے اور کلام مبتداء میں کوئی مال دادنی ماننا بھی اقرار نہیں
فلیثبت فیہ۔
فتاوٰی قاضی خان میں ہے :
الاصل فیہ ان الکلام اذاخرج علی وجہ الکنایۃ عن المال الذی ادعاہ المدعی یکون اقرارا، رجل قال لغیرہ اقض الالف التی لی علیک فقال ساعطیکھا اوغدا اعطیکہا اوفاتزنہا اوانتقدھا کان اقرارا  بالملک، ولو قال اتزن او انتقد لایکون اقرارا ۱؎۔
قاعدہ یہ ہے کہ مدعی علیہ کی ایسی کلام جس سے مدعی کے دعوی مال کا کنایہ بنتا ہو تو وہ اقرار ہوگا ایک شخص دوسرے کو کہے کہ وہ ہزار جو میرا تیرے ذمہ ہے اس کو ادا کر، تو وہ جواب میں کہے یہ دوں گا یا یہ کل دوں گا ،یا ان کو وزن کر، یا انکوگنتی کر، تو یہ مدعی کی ملکیت کا اقرار ہوگا، اور اگر یوں کہے میں وزن کرتا ہوں یا گنتی کرتا ہوں تو یہ اقرار نہ ہوگا(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الاقرار     فصل فیما یکون الاقرار     نولکشور لکھنؤ     ۳/ ۶۱۳)
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
اذا قال مرا بفلان دہ درم دادنی ست قال لایلزمہ شئی مالم یقل ھو علی اوفی رقبتی اوذمتی او ھو دین واجب او حق لازم کذافی الظہیریۃ۲؎۔ واﷲ تعالٰی  اعلم۔
اگر کسی نے یوں کہا مجھے فلاں کے دس درہم دینے ہیں، تو اس سے کچھ لازم نہ ہوگا جب تک میرے ذمہ یا مجھ پر، یامیری گردن پر،یا وہ قرض واجب یا حق لازم، کے الفاظ نہ کہے،ظہیریہ میں یونہی ہے واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الاقرار   الباب الثانی         نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۵۷)
مسئلہ۱۰۹: مسئولہ محمد عبدالقیوم صاحب زمیندار قادر پور  پرگنہ سرونج ریست دارالاسلام ٹونک ۲۳/ربیع الاول ۱۳۳۲ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں، زید کی بیوی ہندہ اپنے شوہر کی تیرہ چودہ برس بعد ایک دستاویز جو کہ بحیثیت ہبہ کے ہے پیش کرتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ میرے شوہر نے اپنی حیات میں یہ دستاویز مجھے لکھ دی تھی اس پر ایک مفتی کے دستخط بھی ہیں لیکن باضابطہ اس کی تصدیق سرکاری دفتر میں نہیں ہوئی ہے نہ وہ اصل دستاویز یا اس کی نقل سرکاری دفتر میں رکھی گئی ہے البتہ مفی صاحب کے دستخط بحیثیت تصدیق کے ہیں ونیز اس جائداد کا جھگڑا بعد انتقال زید کے ہوا تھا لیکن اس وقت اس نے اس تحریر کو پیش نہیں کیا ایسی صورت میں وہ دستاویز مانی جانے کے قابل ہوسکتی ہے اور شریعت پاک اس تصدیق شدہ دستاویز ونیز متذکرہ کو جس کی نقل یا اصل سرکاری دفتر میں نہیں رکھی گئی ہے صحیح تسلیم فرماکر ہندہ کو فائدہ بخش سکتے ہیں۔ بیان کرو تم اور اجر پاؤتم فقط۔
الجواب 

کوئی دستاویز ثبوت میں پیش نہیں کی جاسکتی جب تک اس کے ساتھ شہادت نہ ہو۔ علماء فرماتے ہیں :
لایعمل بالکتاب لان الخط یشبہ الخط والخاتم یشبہ الخاتم کما فی الاشباہ والھدایۃ والھندیۃ وغیرہا ۱؎۔
لکھائی پر عمل واجب نہیں کیونکہ خط ایک دوسرے کے مشابہ ہوتا ہےا اور مہر دوسری مہر کے مشابہ ہوتی ہے جیسا کہ اشباہ، ہدایہ اور ہندیہ وغیرہا میں ہے۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائرمع غمز عیون البصائر     کتاب القضاء والشہادات    ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۳۳۸)

(الہدایہ     کتاب القاضی الی القاضی     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۳۹و۱۵۷)

(فتاوٰی ہندیہ     کتاب القضاء     الباب الثالث والعشرون     نورانی کتبخانہ پشاور    ۳ /۳۸۱)
خصوصاً اس حالت میں کہ بعد موت جھگڑا بھی ہوا اور اس نے دستاویز پیش نہ کی اب اتنی برسوں کے بعدظاہر کرتی ہے دستاویز درکنار ایسا دعوٰی ہی قابل سماعت نہیں،
بہ یفتی قطعا للتزویر والتلبیس کما فی الخیریۃ۲؎والعقود الدریۃ وغیرھما۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اسی پر فتوی ہے تاکہ جعلسازی اور تلبیس کا خاتمہ ہوسکے جیسا کہ خیریہ، عقود الدریہ وغیرہما میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی     دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۴۸)
مسئلہ۱۱۰:مرسلہ قاضی حسام الدین صاحب از تعلقہ را دیر ضلع مشرقی خاندیس     ۱۵جمادی الاولٰی ۱۳۳۲ھ

ایک شخص فوت ہوا اور اس کے تین لڑکے عاقل و بالغ ہیں اور لیاقت میں تینوں مساوی ہیں تو ایسی حالت میں قضاۃ کا کون مستحق ہے، خلف اکبر کا رتبہ وحق برادران خورد سے کم ہے یا زیادہ؟
الجواب

کوئی منصب نہ میراث ہے، نہ بڑے چھوٹے پر موقوف، جولائق تر ہو وہ کیا جائے، اور سب مساوی ہوں تو منصب دینے والا جسے چاہے دے دے، اور اگر ان سب سے کوئی اجنبی زیادہ لائق ہے تو وہی مستحق ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter