Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
96 - 151
الجواب

صورت مذکورہ میں گواہان زن کی شہادت دربارہ مقدار مہر مسمی مقبول و معتبر ہے جس مقدار کا وہ دعوٰی  کرتی ہے اگر اسکے مہر مثل سے زائد ہے تو ظاہر ہے کہ وہ دربارہ زیادت مدعیہ ہے اور یہ شہادت اسکے دعوٰی  کے مطابق گزری تو بحال استجماع شرائط معروفہ ضرور واجب القبول ہے،
لانھا نورت دعویھا بالبینۃ والبینۃ کا سمھا مبینۃ والثابت بشہادۃ عدلین کالثابت بمشاھدۃ العین۔
کیونکہ بیوی نے اپنا دعوٰی  گواہوں سے واضح کردیا، اور بینہ اپنے نام کی طرح روشن کرنے والا ہوتا ہے اور دو گواہوں عادلوں کی شہادت سے ثابت شدہ چیز ایسے ہے جیسے آنکھ کے مشاہدہ سے ثابت ہوتی ہے۔(ت)

اور اگر مہر مثل کے برابر یااس سے کم ہے کجب بھی شہادت مفید و مقبول ہے اگرچہ عورت اس صورت میں صرف مدعا علیہا ہے کہ اگر گواہ نہ دیتی اسے حلف کرنا پڑتا اور ایسی جگہ حلف سے بچنے کے لئے مدعا علیہ کے گواہ مسموع ہیں،

درر الاحکام باب المہر میں ہے :
ان اقامت بینۃ قبلت وان اقامھا الزوج قبلت ایضالان البینۃ تقبل لرد الیمین کما اذا اقامہ المودع بینۃ علی رد الودیعۃ الی المالک تقبل۱؎۔
اگر بیوی نے گواہی پیش کردی تو مقبول ہوگی اگر خاوند نے پیش کی تو وہ بھی قبول ہوگی کیونکہ قسم کو رد کرنے کے لئے گواہی مقبول ہوگی ہے جیسے امین امانت مالک کو واپس کرنے پر شہادت پیش کرے تو قبول کی جائیگی۔(ت)
 (۱؎ درر الحکام فی شرح غررالاحکام     کتاب النکاح     باب المہر     میر محمد کتب خانہ کراچی    ۱ /۳۴۷)
بلکہ اگر مہر مثل معلوم نہ ہو اور شوہر اس مقدار کو مہر مثل نہ مانے توعورت کو آپ ہی گواہ دینے کی حاجت ہوئی کہ اتنا مہر تھا یہ وہی شہادت ہے جو اس سے شرع طلب فرماتی تو عدقبول کی وجہ کیا ہے یا یہ گواہ دیتی کہ اس کا مہر مثل اس قدر یا اس سے زائد ہے، پھر اسے حلف کرنا پڑتا کہ اس قدر مہر مقر ہوا تھا اس شہادت نے اس شہادت اور حلف دونوں سے غنی کردیا، بہر حال مفید و واجب القبول ہوئی،

 فتاوٰی  امام قاضی خاں وفتاوٰی  عالمگیریہ میں ہے :
ھذااذاکان القاضی یعرف مقدار مھر مثلھا فان کان لایعرف یأمرامناءہ بالسوال ممن یعلم او یکلفہا اقامۃ البینۃ علی ماتدعی۲؎۔
یہ اس صور ت میں جب قاضی مہر مثل کی مقدار جانتا ہو تو اگر اسے معلوم نہ ہو چاہئے کہ وہ اپنے قابل اعتماد عملہ کو کہے کہ وہ معلومات والوں کو پوچھیں یا قاضی عورت کو پابند کرے کہ وہ اپنے مہر مثل کے دعوٰی  کو ثابت کرنے کےلئے گواہ پیش کرے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی  امام قاضی خاں     کتاب الدعوٰی  والبینات     فصل فیما یتعلق بالنکاح الخ نولکشور لکھنؤ    ۴ /۴۹۵)
درمختار میں ہے:
 یشترط فی ثبوت مھر المثل اخبار رجلین اورجل وامرأتین ولفظ الشہادۃ فان لم یوجد شہود عدول فالقول للزوج بیمینہ۱؎۔
مہر مثل ثابت کرنے کے لئے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی اس میں لفظ شہادت شرط ہے اوراگر عادل گواہ نہ ملیں تو خاوند کا قول قسم لے کر تسلیم کیاجائے۔(ت)
(۱؎ درمختار   کتاب النکاح  باب المہر  مطبع مجتبائی دہلی ۱/۲۰۲)
ہدایہ میں ہے:
من تزوج امرأۃ ثم اختلفا فی المھر فالقول قول المرأۃ الی تمام مہر مثلھا۲؎۔
  اگر زوجین مہر میں اختلاف کریں تو مہر مثل کی حد تک بیوی کی بات معتبر ہے(ت)
(۲؎ الہدایہ    کتاب النکاح     باب المہر     المکتبۃ العربیہ کراچی    ۲/ ۳۱۴)
عبارت منسوبہ دررالحکام وعنایہ کہ :
ادعت المراۃ الف المہر بانھا واجبۃ علی الزوج الی یومنا ھذا وقال الزوج انک قد ابرأتنی منہا فاقامت المرأۃ شہودا وشہدوابالف المہر ولم یبینواانھا واجبۃ علیہ الی یومنا ھذالم تقبل شہادتھم علی الاصح۳؎۔
عورت نے ہزار مہر کا دعوٰی  کیا کہ یہ آج تک خاوند کے ذمہ واجب ہے اور خاوند کہتا ہے کہ تونے کچھ سے مجھے بری کردیا ہے تو عورت نے گواہی پیش کی تو گواہوں نے ہزار کی گواہی دی اور آج تک ذمہ واجب ہونے کو بیان نہ کیا تو صحیح قول پر وہ گواہی قبول نہ ہوگی۔(ت)
(۳؎ الدرالحکام )
اگر ان میں اسی طرح ہو جب بھی مسئلہ دائرہ سے متعلق نہیں وہاں کلام اس صورت میں ہے کہ عورت جس مقدار مہر کا دعوٰی  کرتی ہے شوہر کو وہ مقدار تسلیم ہے اور معافی کا مدعی ہے شہود نے اب تک مہر ذمہ شوہر پر واجب ہونے کا ذکر نہ کیا تو ان کی شہادت کو دعوٰی  زوج سے تو کچھ مس نہ ہوا،رہی مقدار مہر زوج کو خود اس کا اقرار تھا اور مقر پر شہادت مسموع نہیں،
الافی اربع لیس ھذا منھا کما فی البحر بل فی کل موضع یتوقع ضررمن غیر المقر لولاھا فیکون ھذااصل کما فیہ ایضا اقول والوجہ فیہ ان الاقرار حجۃ ملزمۃ بنفسہ من دون حاجۃ الی قضاء القاضی ولذایصح فی غیرمجلس القضاء ونصواان القضاء علی المقر قضاء مجازا و الشہادۃ انما ھی یسمعھا القاضی فیلزم فاقامتھا علی المقر سعی فی تحصیل الحاصل وھو باطل بخلاف ما اذا افادت فائدۃ لم یفدھا الاقرار  وھی التعدیۃ لان الاقرار حجۃ قاصرۃ۔
مگر چارمیں کہ یہ ان میں سے نہیں ہے جیساکہ بحر میں ہے بلکہ ہر ایسے مقام میں جہاں اگر گواہی نہ ہو تو وہاں غیر مقر کی طرف سےضررکا خطرہ ہو، تو یہ قاعدہ ہوگا جیسا کہ یہ بھی اسی میں ہے اقول :(میں کہتا ہوں)اس میں وجہ یہ ہے کہ اقرار ایسی حجت ہے جو معاملہ کو خود لازم کرتی ہے بغیر قاضی کی قضاء کے،ا سی لئے یہ اقرار مجلس قضاء کے بغیر بھی صحیح ہوتا ہے او فقہاء نے نص کی ہے اقرار پر قاضی کی کارروائی کو مجازاً قضاء کہا جاتا ہے جبکہ شہادت کو قاضی سن کر حکم کو لازم کرتا ہے تو مقرپر گواہی کو پیش کرنا تحصیل حاصل ہے جو کہ باطل ہے بخلاف اس صورت کے جس میں شہادت سے ایسا فائدہ حاصل ہو جو اقرا ر سے نہ ہوتا ہوا اوروہ فائدہ حکم کو متعدی بنانا ہے کیونکہ اقرا ر ناقص حجت ہے(ت)
(۱؎ بحرالرائق     کتاب الدعوٰی     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی   ۷/ ۲۰۳)
یہاں تک کہ بعد شہادت اگر مدعا علیہ اقرار کردے تو حاکم بربنائے اقرار حکم کرے گا نہ کہ بر بنائے شہادت۔

بحرالرائق میں ہے:
لو برھن المدعی ثم اقرالمدعی علیہ بالملک لہ یقضی لہ باقرار لاببینۃ اذ البینۃ انما تقبل علی المنکر لا علی المقرانتہی۲؎اقول:  ووجہہ ظاہر لما قدمنالانہ لما اقرقبل القضاء لزم الحق من دون الزام فلم یبق مساغ لالزام والقضاء بالشہادۃ الزام۔
جب مدعی گواہی پیش کرچکا ہو اور اس کے بعد مدعاعلیہ مدعی کی ملکیت کا اقرار کرے تو قاضی اقرار کی بناء پر فیصلہ دے گا کیونکہ گواہی صرف منکر کے خلاف قبول کی جاتی ہے اقرار پر نہیں اھ اقول: (میں کہتا ہوں) اس کی وجہ ظاہر ہے جس کو ہم نے بیان کیا ہے کہ جب قضاء سے قبل اقرار کردے گا تو حق خود بغیر الزام کے لازم ہوجائے گا تو اقرار کے بعد قاضی کی طرف سے لازم کرنے کا جواز نہیں رہتا جبکہ شہادت کی بنا پر فیصلہ الزام ہوتا ہے۔(ت)
 (۲؎ بحرالرائق   کتاب الدعوٰی     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی     ۷ /۲۰۳)
اس وجہ سے وہاں شہادت زن نامقبول تھی بخلاف مسئلہ دائرہ کے یہاں شوہر اس مقدار مہر کا مقر نہیں تو گواہان سزن ضرور قابل قبول ہیں مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اسی قدر پر عورت کو ڈگری دی جائیگی بلکہ شہور سے ابراء پر گواہ طلب کئے جائیں گے اگر اس نے گوہان شرعی سے ابراء ثابت کردیا اور عورت کی طرف سے اس کا کوئی دفع صحیح نہ پایا گیا یا وہ گواہ نہ دے سکا اور عورت کا حلف چاہا اور عورت نےحلف سے انکار کردیا تو ان دونوں صورتوں میں عورت کا مطالبہ رد کردیاجائے گا اور اگر عورت نے عدم ابراء پر حلف کرلیا تو اپنے پورے مطالبہ کی ڈگری پائے گی جس قدر اس نے شہادت سے ثابت کردیا اب وہ گواہی اس کے کام آئے گی۔

 عقود الدریہ میں ہے :
بینۃ البرائۃ اولی من البینۃ علی المال ان لم یؤرخا او أرخ احدھما فقط اوأرخا سواء، بینۃ المطلوب علی انک اقررت بالبراءۃ اولی من بینۃ الطالب علی انک اقررت بالمال بعد اقراری بالبراءۃ وبینۃ الطالب اولی ان قال انک اقررت بالمال بعد دعواک اقراری بالبراءۃ ۱؎۔
برائۃ پر گواہی مال پر گواہی سے اولٰی  ہے جب دونوں فریق یا ایک فریق نے تاریخ نہ بیان کی ہو یا دونوں نے ایک ہی تاریخ نہ بیان کی ہو مطلوب شخص کی گواہی کہ تونے براءت کا اقرار کیا ہے اولٰی  ہے طالب کی اس گواہی سے کہ تونے مال کا اقرار میرے براءت کے اقرار کے بعد کیا ہے اور طالب کی یہ گواہی اولٰی  ہے کہ تونے مال کا اقرار اپنے اس دعوٰی کے بعد کیا کہ میں نے تیرے لئے براءت کا اقرار کیا ہے۔(ت)
 (۱ ؎ العقود الدریۃ     کتاب الشہادۃ     ارگ بازار قندھار افغانستان    ۲ /۳۵۸)
جامع الفصولین فصل عاشر میں ہے :
بینۃ الابراء اولٰی من بینۃ ان لہ علیہ کذافی الحال۲؎۔
براءت کی گواہی اولٰی  ہے اس گواہی سےکہ اس کے ذمہ فی فی الحال اتنا مال ہے (ت)
 (۲؎ جامع الفصولین       الفصل العاشر        اسلامی کتب خانہ کراچی        ۱ /۱۴۳)
اسی میں وہیں ہے:
الاصل ان الموجب والمسقط اذا تعارضایؤخر المسقط اذا السقط یکون بعد الوجوب۳؎۔
قاعدہ یہ ہے کہ جب موجب اور مسقط کا مقابلہ ہوجائے تو مسقط کو مؤخر قرار دیا جائے گا کیونکہ سقوط بعد ازوجوب ہوتا ہے(ت)
(۳؎جامع الفصولین        الفصل العاشر        اسلامی کتب خانہ کراچی         ۱ /۱۴۷)
یہاں سوال دوم کا جواب بھی واضح ہوگیا کہ بینہ ابراء بینہ وجوب پر مرجح ہے اگرچہ گواہان زن یہ تصریح بھی کردیتے کہ آج تک مہر واجب الاداہے۔
فانھم انما یقولون بالاستصحاب فمعناھا نفی الابراء والایفاء ولا شہادۃ علی الفنی بل انما یرجع نفیھم الی علمھم وعدم العلم لیس علما بالعدم۔ واﷲ وسبحٰنہ وتعالٰی  اعلم۔
کہ وہ استصحاب کا قول کرتے ہیں تو اس کا معنی یہ ہوا کہ براءت  اور ادائیگی نہ ہوئی ہے جبکہ کسی نفی پر شہادت جائز نہیں بلکہ انکی یہ بات ان کے علم کی نفی کی طرف راجع ہوتی ہے جبکہ علم نہ ہونا نہ ہونے کا علم نہیں ہے۔ واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم(ت)
Flag Counter