Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
95 - 151
مسئلہ۱۰۵: ازرامپور محلہ بارہ دری محمود خاں مسئولہ جناب عبداﷲ خان صاحب ۲۹/جمادی الآخر ۱۳۳۰ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین درمیان اس مسئلہ کے کہ ہندہ تین نابالغ لڑکے لڑکیوں کی نانی ہے اور زید ان نابالغ بچوں کا باپ ہے، سعیدہ ان نابالغ بچوں کی ماں، زوجہ فوت ہوگئی، ان نابالغ بچوں کی جائداد غیر منقولہ علاقہ انگریزی میں واقع ہے۔ ہندہ نے اس جائداد کی نگرانی وغیرہ کے لئے برضامندی زید سرٹیفکیٹ ولایت حاصل کرلیاہے۔اب ہندہ نے بولایت انہیں نابالغان اور باستدلال حصول سرٹیفکیٹ از علاقہ انگریزی زید پر نابالغان کی طرف سے مہر کی نالش کی ہے۔ زید نے عدالت ججی ریاست رامپور میں ان نابالغ بچوں کی ولی دوران مقدمہ ہونے کی درخواست کی ہے، اور بکر باپ زید کا یعنی دادا نابالغان درخواست کرتا ہے کہ شرعاً مجھے حق ولایت نابالغان حاصل ہے لہذا دوران مقدمہ کے لئے ولی نابالغان مقرر کردیا جاؤں۔ یہ تینوں درخواستیں متضاد ہیں۔ مفتیان شرع متین سے یہ دریافت طلب امر ہے کہ مسماۃ ہندہ جو سرٹیفکیٹ ولایت باجازت باپ نابالغان علاقہ انگریزی میں حاصل کرچکی اس کی ولایت ریاست ہذا کے مقدمات میں مقابل زید مدعا علیہ قائم و برقرار رہے گی یا زید مدعا علیہ ولی دوران مقدمہ ان نابالغ بچوں کا مقرر ہوسکتا ہے، یا بکر دادا ولی دوران مقدمہ مقرر ہوسکتا ہے  اس کی نسبت دو صورتیں ہیں اگر زید ولی مقرر نہ ہو تب یہ ولی قائم ہوسکے گا یا زید کے ولی قائم ہونے کی حالت میں اس کو حق ولایت نابالغان حاصل ہے بصراحت روایات کتب فقہ جواب عنایت ہو۔ فقط المرقوم ۱۱جون ۱۹۱۲ء
الجواب : صورت مستفسرہ میں نہ نانی کوئی شے ہے نہ وہ سرٹیفکیٹ کوئی چیز، نہ زید اپنی ولایت منتقل کرسکتا تھا نہ باپ کے ہوتے دادا کوا ستحقاق ولایت ہے۔ یہ کارروائیاں سب مہمل و بے معنی ہیں ہاں اگر زید پر سعیدہ کا مہر آتا ہو اور انکار کرے توقاضی شرع اپنی طرف سے جسے چاہے نابالغوں پر وصی کرے یہ وصی دعوی کرسکے گا، اور اگر زید مہر کا مقر ہے جب تو ا س پر نابالغوں کی طرف سے دعوی مہرنانی کرے خواہ دادا خواہ کوئی اصلاً قابل سماعت نہیں۔ 

جامع الصغار فصل النکاح میں ہے :
ماتت عن زوج واولاد صغار وعلی الزوج المھر فان اقرالزوج بالمھر لم یؤخذ منہ لان الاب یملک حفظ مال صغیرہ وان انکر ینصب القاضی وصیا فیثبت علیہ المھر ویؤخذ منہ ویدفع الی الوصی فانہ بانکارہ تظہر خیانتہ و عند ظہور الخیانۃ یکون للقاضی ولایۃ دفع مال الصغیرالی وصی غیرہ۱؎۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی  اعلم۔
بیوی نے خاوند اور نابالغ بچے وارث چھوڑے اور خاوند کے ذمہ مہر باقی ہے اگر خاوند مہرکا اقرار کرتا ہے تو خاوند سے مہر وصول نہ کیا جائے کیونکہ اپنے نابالغ بچوں کے مال کا وہی محافظ ہے او اگر خاوند اپنے ذمہ مہر کا انکار کرے تو قاضی بچوں کے حق میں کسی کو وصی بناکر مہرو ثابت کردے تو خاوند سے مہر وصول کرکے وصی کے سپرد کرے کیونکہ خاوندکے انکار سے اس کی خیانت واضح ہوگئی جبکہ خیانت کے ظاہر ہوجانے پر قاضی اختیار مل جاتاہے کہ بچوں کا مال وصیہ کے سپر کردے۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی  اعلم(ت)
 (۱؎ جامع الصغارعلی ہامش جامع الفصولین     آداب الاوصیاء      فصل النکاح     اسلامی کتب خانہ کراچی  ۲ /۱۱۴)
مسئلہ۱۰۶:  ازریاست رامپور  متصل اصطبل سرکاری عید گاہ دروازہ مرسلہ حن جہاں بیگم ۱۵/رجب ۱۳۳۰ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہندہ نانی نابالغین نے نابالغین کی طرف سے بر فاقت ابن زید نابالغان کے باپ پر نابالغین کی والدہ متوفیہ کے دین مہر کی نالش کی ہے اور زید دین مہر سے منکر ہے اور چاہتا ہے کہ میں ولی دوران مقدمہ مقرر کیا جاؤں اور نیز والد زید بھی خواستگار ہے حالانکہ دادا کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے اور خوف تلف جائداد نابالغین کا پورا اندیشہ ہے اور نانی مشفقہ امینہ ہے اورمصلحہ ہے پس استفسار اس امر کا ہے کہ ان تینوں میں سے ولی دوران مقدمہ کون ہوسکتا ہے؟بینواتوجروا۔
الجواب

صورت مستفسرہ میں جبکہ زید مہر کا منکر ہے تو وہ اس مقدمہ میں ہر گز ولی نہیں ہوسکتا بلکہ حاکم پر لازم ہے کہ کسی دوسرے امین متدین کار گزار کو نابالغوں پر وصی کرے اگر دادا ٹھیک نہیں اور اس سے ضرر نابالغان کا اندیشہ ہے اور نانی امکینہ مصلحہ مشفقہ ہے تو وہی باپ داداسے احق ہے ورنہ قاضی شرع جس کو مناسب جانے۔ 

جامع احکام الصغار میں ہے :
ماتت عن زوج واولاد صغار وعلی الزوج المھر فانکر ینصب القاضی وصیا فیثبت علیہ المھر ویؤخذ منہ وید فع الی الوصی فانہ بانکارہ تظہر خیانتہ وعند ظہور الخیانۃ یکون للقاضی ولایۃ دفع مال الصغیرہ الی وصی غیرہ۱؎۔
بیوی نے خاوند اور نابالغ بچے وارث چھوڑے او خاوند کے ذمہ مہرباقی ہے اور خاوند انکار کرتا ہے تو قاضی کسی کو وصی مقررکے جو مہر کو ثابت کرکے وصول کرے کیونکہ مہر کا انکار کرکے خاوند نے خیانت کردی جبکہ خیاسنت کے ظہور پر قاضی کو مال وصول کرکے کسی وصی کو دینے کا اکتیار مل جاتا ہے۔(ت)
 (۱؎ جامع الصغارعلی ہامش جامع الفصولین آداب الاوصیاء فصل النکاح     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲ /۱۱۴)
اسی عبارت سے واضح ہوا کہ اگر قاضی کے نزدیک ثابت ہوجائے کہ مہر آتا تھا اور زید م،نکر کہوا تو نہ فقط اس مقدمہ یا مہر کے بارہ میں بلکہ تمام اموال نابالغان سے زید کی ولایت اٹھادی جائےگی
لظہور خیانتہ وانعدام صیانتہ فخرج عن امانتہ
 (خیانت ظاہر ہونے اور حفاظ ت معدوم ہوجانے پر امانت سے محروم ہوگیا۔ت) اور جملہ اموال نابالگان نانی مصلحہ امینہ کو سپر د کئے جائیں گے یا جورائے قاضی میں اصلح وانسب ہو۔واﷲ تعالٰی  اعلم۔
مسئلہ۱۰۷: ازریاست رامپور     محلہ گھیر شرف الدین خاں متصل فیلخانہ کہنہ مسئولہ غلام جعفر خان صاحب ۱۸/محرم الحرام۱۳۳۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی منکوحہ مدخولہ بہا کو طلاق مغلظہ دی بعد ازاں منکوحہ زید بدیں بیان دعویدار ہوئی کہ بوقت عقد نکاح مبلغ سوالاکھ روپیہ اور پچیس اشرفیاں محمد شاہی تعداد دین مہر مقرر ہوئے تھے اور یہ کل دین مہر بذمہ زید اس وقت تک واجب الادا ہے بناء بریں میرا کل دین مہر زید سے دلایاجائے زید مدعا علیہ مجیب ہوا کہ تعداد دین مہر یاد نہیں کہ بوقت عقد نکاح کس قدر مسمی ہوا تھا مگر نکاح ہو اور مدعیہ نے کل دین مہر یا فتنی اپنا بزمانہ حلالت مدعا علیہ اﷲ کے واسطے معاف وابراکردیا مدعیہ نے چندع کس گواہ پیش کئے اور سب نے بیان کیاکہ بوقت عقد نکاح سوالاکھ روپیہ اور پچیس اشرفیاں محمد شاہی دین مہر کے مقرر ہوئے تھے اور کسی گواہ نے یہ بیان نہیں کیا کہ دین مہر اب تک بذمہ زید مدعا علیہ واجب الاداد ہے صرف گواہان مدعیہ نے اسی قدر بیان کیا کہ سوالاکھ روپے اور پچیس اشرفیاں محمد شاہی وقت عقد نکاح کے دین مہر مقررہوا تھا تو ایسی حالت میں گواہی گوہان مدعیہ کے معتبر ہوں گی یا نہیں اور مدعیہ دلاپانے مہر مذکورہ کے مستحق ہوگی یانہیں، اور اگر عورت ثبوت مہر پر گواہ پیش کرے اور مرد ابراء مہر پر گواہ پیش کرے تو شرعاً کس کے گواہ اولٰی  بالقبول ہوتے ہیں۔بینواتوجروا۔
الجواب: صورت مسئولہ میں موافق روایت مفتٰی  بہا کے شرعاً شہادت گواہان مدعیہ معتبر او رمقبول نہیں اور مدعیہ دلاپانے مہر کے مستحق نہیں،
قال فی درر الاحکام ناقلا عن العنایۃ ادعت المرأۃ الف المھر بانھا واجبۃ علی الزوج الٰی  یومنا ھذا وقال الزوج انک قد ابرأتنی منھا فاقامت المرأۃ شہودا و شھد وابالف المھر ولم یبینوا انھا واجبۃ علیہ الٰی  یومنا ھذالم تقبل شہادتھم علی الاصح۱؎۔ واﷲ تعالٰی  اعلم۔ العبد المجیب محمد شجاعت علی مدرس مدرسہ ارشاد العلوم۔
درر الحکام میں عنایہ سے منقول ہے عورت نے خاوند پر مہر کے ہزار کا دعوٰی  کیا کہ آج اس کے زمہ ہے اور خاوند کہتا ہے کہ تونے اس میں کچھ سے مجھے بری کردیا ہے تو عورت نے گواہ پیش کئے جنہوں نے ہزار مہرکی گواہی دین اوربیان میں انہوں نے آج تک باقی ہونے کی بات نہ کی تو صحیح قول کے مطابق یہ گواہی قبول نہ ہوگی۔ واﷲ تعالٰی  اعلم العبد المجیب محمد شجاعت علی مدرس مدرسہ ارشاد العلوم (ت)
(۱؎ الدر رالحکام )
الجواب صحیح محمد عبدالغفار خاں 

الجواب صواب ابوالافضال محمد فضل حق۔

فی الواقع صورت مسئولہ عنہ شہادت شہود مدعیہ ناکفی اور بروقت تعارض شہود اثبات مہر وابراء کے شہود ابراء اولی بالقبول ہیں۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی  اعلم محمد منور العلی
Flag Counter