Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
94 - 151
مسئلہ۱۰۲ :  از رامپور چوک حیدر علی خاں مرسلہ محمد ایاز صاحب ٹھیکیدار     ۱/رمضان ۱۳۲۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید نے دعوٰی  زر قرضہ اپنے کا بنام بکر دائر کیا حاکم نے ڈگری زر قرضہ بنام بکر صادر فرمایا مگر اپنی تجویز میں قسط بندی کردی،دریافت طلب یہ امر ہے کہ شرعاً حاکم کو بدون رضامندی مدعی اختیار قسط بندی کا حاصل ہے یانہیں؟
الجواب: حاکم کو نہ ہرگز اپنی طرف سے قسط بندی بے رضائے مدعی کردینے کا اختیار نہ اس کی اس قسط بندی کاکوئی اعتبار، بلکہ وہ ایک لغو بات محض ناقابل التفات ہے، حاکم کا فرض ہے کہ جب دعوٰی  اس کے نزدیک ثابت ہوجائے فوراً مطابق دعوٰی  حکم دے اگر تاخیر کرے گا فاسق و معزول و مستحق تعزیر ہوگا۔
الاولٰی  لرجاء الصلح بین الاقارب الثانیۃ اذا استھل المدعی  کما فی الاشباہ ۱؎ولاحاجۃ الی استثناء ثالثۃ ذکرھا وھو ما اذاکان عندہ فیہ ریبۃ لان الکلام اذا اثبت الامر۔
مہلت دینا اقارب میں صلح ہے یا مدعی جب اس کا اظہار کرے، جیسا کہ الاشباہ میں ہے، اور تیسرے کےاستثناء کی حاجت نہیں ہے اور وہ یہ کہ جب قاضی کو اس میں شک ہو، کیونکہ یہ کلام اس صورت میں ہے جب قاضی کے ہاں معاملہ ثابت ہوجائے۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب القضاۃ والشہادات    ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۳۶۰)
نہ کہ بر خلاف دعوٰی  اپنی طرف سے کوئی بات بڑھادے۔غمز العیون میں ہے:
یجب علی القاضی الحکم بمقتضی الدعوی عند قیام البینۃ علی سبیل الفور فلو اخر اثم ویعزل ویعزر کما فی جامع الفصولین۲؎۔
قاضی پر لازم ہے کہ دعوٰی  پر گواہی مل جانے پر اس کے مطابق فیصلہ فوراً کردے اگر تاخیر کریگا تو گنہگار ہوگا اور معزولی اور تعزیر کا مستحق ہوگاجیسا کہ جامع الفصولین میں ہے۔(ت)
 (۲؎ غمز عیون البصائر مع الاشباہ والنظائر     الفن الثانی  کتاب القضاۃ والشہادات    ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۳۶۰)
قسط بندی ایک قسم اجل ہے اور اجل حق مدیون ہے۔ 

ہدایہ وخانیہ واشباہ وغیرہا میں ہے :
الأجل حق المدیون فلہ ان یسقطہ۳؎۔
      مہلت مقروض ومدیون کا حق ہے تو اسی کو ساقط کرنے کا حق ہے۔(ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب المداینات   ادارۃ القرآن کراچی   ۲ /۴۸)
تو یہ مدیون کے لئے ایک ایسے حق کاثابت کرنا ہے جس کا کوئی ثبوت نہ تھا، نہ بینہ نہ اقرار نہ نکول، تو بلا ثبوت اچبات محض باطل و نامقبول، 

خانیہ واشباہ وخیریہ وغیرہا میں ہے :
  القاضی لایقضی الابالحجۃ وھی البینۃ اوالاقرار  او النکول۴؎۔
قاضی صرف دلیل پر فیصلہ کرسکتا ہے اور وہ صرف گواہی، اقرار اور قسم سے انکار ہے۔(ت)
 (۴؎الاشباہ والنظائر     الفن الثانی    کتاب القضاۃ والشہادات    ادارۃ القرآن کراچی     ۱ /۳۳۸)
طرفہ یہ کہ ثبوت درکنار خود مدیون جس کے لئے حاکم نے یہ حق ثابت کرنا چاہا اس حق کا پنے لئے مدعی نہ تھا مدعا علیہ نے کب کہا تھا کہ یہ مطالبہ مجھ پر قسط بندی سے واجب ہے اور ظاہر ہے کہ دعوٰی  شرط قضا  ہے لادعوی خود قضاء کربیھٹنے کا حاکم کو کیا اختیار ہے اور اگر مراد انشاء تنجیم ہو یعنی دین تو مؤجل باقساط نہ تھا مگر میں اس کی قسط بندی کرتا ہوں تو یہ منصب قضاء سے محض بیگانہ ایک مشورہ ہے جس کا قبول کرنا کسی پر واجب نہیں،نہ اسے پرائے مال پر کچھ اختیار ہے، نہ یہ کہ جبر پہنچتا ہے کہ مال تو تیرا واجب ہے مگر ابھی نہ لے، غایت یہ کہ مدیون کو بزعم خود کم استطاعت سمجھا ہو مگر یہ سمجھ بھی محض بے اصل ہے، بیان سائل سے معلوم ہوا کہ یہ دین ایک عقد بیع کا ثمن تھا اور ایسے حالت میں اسے بلا بینہ ناقابل ادا مان لینا صحیح نہیں۔ 

خانیہ وہندیہ وغیرہما میں ہے :
ان کان الدین واجباً بدلاً عما ھو مال کا لقرض وثمن المبیع القول قول مدعی الیسار مروی ذٰلک عن ابی حنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ و علیہ الفتوٰی  لان قدرتہ کانت ثابتۃ بالمبدل فلا یقبل قولہ فی زوال تلک القدرۃ ۱؎۔
اگر وصولی کسی مالی بدل کی وجہ سے ضرورت ہو مثلاً قرض یا مبیع کا ثمن ہے تو قابل ادائیگی ہونے کی بات مانی جائے گی، یہی امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی ہے اور اسی پر فتوی ہے کہ کیونکہ مبدل حاصل کرلینے سے مدیون کی قدرت ادائیگی ثابت ہے لہذا اس قدرت کے زوال کی بات نہ سنی جائیگی۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی  ہندیۃ بحوالہ قاضی خاں کتاب ادب القاضی الباب السادس  والعشرون     نورانی کتب خانہ کراچی    ۳ /۴۱۳)
اس انشائے تاجیل کا حاصل اگر دائن کو منع کرنا ہے تو یکمشت اپنادین نہ لے تو یہ حرمکلف پر حجر بلا وجہ شرعی ہے اور وہ باطل ہے اور اگر اس کا حاصل مدیون سے یہ  کہنا ہے کہ تو مثلاً مہینہ پیچھے اتنا ادا کیا کر، تو ایسا دائن خود کہے تو تاجیل نہ ہوگی اور جس وقت چاہے یکمشت لے سکے گا نہ کہ غیر دائن جسے دین سے کوئی تعلق نہیں پرائے دین کو مؤجل کردے۔

اشباہ میں ہے :
قال الدائن للمدیون اذھب واعطنی کل شھر کذا فلیس بتاجیل لانہ امر بالاعطاء۲؎۔ واﷲ تعالٰی  اعلم۔ اگر وصولی کرنے والا مدیون سے کہے کہ جا ماہانہ اتنی قسط دے دیا کر، تو یہ مہلت کا بیان نہیں ہے کیونکہ یہ ادائیگی کا حکم ہے۔واﷲتعالٰی  اعلم(ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثالث    القول فی الدین    ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۱۳)
مسئلہ۱۰۳: ازشہر بریلی محلہ روہیلے ٹولہ     مسئولہ جناب ملک اعجاز ولی خاں صاحب زید مجدہم ۱/رمضان ۱۳۲۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید بنام بکر بابت غلہ قیمتی(صہ ؂۷/) بایں دعویدار ہے کہ میرا غلہ ناجائز طور پر لے لیا ہے دلایا جائے، بکر کو لینے غلہ سے اقبال ہے مگر وہ کہتا ہے کہ میرا قرضہ بذمہ زید چاہئیے تھا میں نے یہ غلہ قیمتی(صہ ؂۷/)مذکورہ بالا اپنے قرضہ میں لیا ہے اس قسم کا بیان بکر انکار دعوٰی  مدعی ہے یانہیں، وار زید ثبوت نہ پیش کرکے خواستگار حلف بکر کہے تو بکر پر شرعاً حلف متوجہ ہوتا ہے یانہیں؟
بینوبالکتاب وتوجروایوم الحساب
 (کتاب یعنی قرآن کریم سے بیان کیجئے روز حساب اجردئے جاؤ گے۔ت)
الجواب : صورت مستفسرہ میں بکر دعوٰی  زید یعنی غلہ لے لینے کا مقر اور اپنے قرضہ کا مدعی ہے یہاں نہ زید کے ذمہ کوئی ثبوت دینا رہا نہ بکر پرحلف آسکتا ہے،
لانہ مقر و مدع وکلاھما لاحلف علہما واﷲ تعالٰی  اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
 کیونکہ یہ اقرار کرنے یا دعوٰی  کرنے والا ہے جبکہ ان دونوں پر قسم نہیں ہے واﷲ تعالٰی  اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔(ت)
مسئلہ۱۰۴: از قصبہ شاہ آباد ضلع ریاست رامپور     مرسلہ قمر علی خاں عرف چند اخاں ۱۸/ربیع الاول ۱۳۳۰ھ 

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ زید و عمرو وبکر نے چند دیہات سرکاری اجارہ پر لئے بعد کو باہم شرکاء میں تقسیم دیہات آپس میں ہوگئی جس کے حصہ میں جو دیہہ آیا وہ اس کی ادائے جمع سرکاری کا ذمہ دار رہا اقرار نامہ تقسیم لکھ کر تصدیق ہوگئی، اس اقرار نامہ میں زید نے یہ لکھا کہ میں ایک ہزار روپے کمی قرعہ یعنی توفیر کے بکر کو باقساط ادا کروں گا، اب بکر اس ایک ہزار روپے کا دعویدار ہے، زید عذر کرتا ہے کہ ایک رقم مبہم کا مجھ سے اقرار کرالیا ہے ہر شخص اپنے حصہ کے دیہات پر قابض ہے، یہ ہزار مجھ پر کیسے چاہئیں، جو دیہات مدعی کےلئے نامزد ہوئے وہ بقبضہ مدعی ہیں بعد تقسیم میرے قبضہ میں نہ آئے نہ ان کی توفیر مجھے ملی ان کی توفیر بکر مدعی پاتا ہے لہذازر توفیر بذمہ مدعا علیہ کیسے چاہئے، دریافت طلب یہ امر ہے کہ شرعاً ایسا اقرار مقر پرلازم الوفاء ہے یانہیں؟ نقل اقرارنامہ ہمرشتہ سوال ہے۔
الجواب : ملاحظہ اقرارنامہ وبیان سائل سے واضح ہوا کہ یہ دیہات ریاست سے ان تین شخصوں نے مستاجرانہ لئے تھے ریاست نے زر منافع ۱۵ ہزار پیشگی ان سے لیا اس میں سے قریب نصف زید نے دےدیا اور بکر نے کہ ہندو ہے کچھ نہ دیا مگر ریاست زر مستاجری پر ضمانت لیتی ہے یہ کفالت تنہا جائداد بکر سے ہوئی لہذا اسے شریک کیا گیا وقت تقسیم)/ کا حصہ زید کا قرار پایا ار ۴ /۔۴/ کا باقی شریکوں کا۔ جو دیہات بکر کو دئے گئے ان کی چونی میں کہ بکر کو ملتی بقدر ایک ہزار روپے کمی تھی لہذا زید نے یہ اقرار نامہ لکھ دیا، یہ نہ کوئی عقد شرعی ہے نہ اقرار شرعی نہ بکر کا زید پر کچھ آتا ہے نہ زید کہتا ہے کہ اس کا مجھ پر اتنا آتا ہے  نہ کسی ثالث کا دین کہ بکر پر آتا ہو زید ا سکی کفالت کرتا ہے محض ایک مہمل تحریر ہے جس کا حاصل ایک وعدہ بے معنی سے زائد نہیں ایسے وعدہ کی وفا پر جبر نہیں ہوسکتا نہ بکر کو اصلاً مطالبہ کا استحقاق ہے۔

 ہندیہ واشباہ وبزازیہ وغیرہما میں ہے :
لاجبر علی الوفاء بالوعد۱ ؎۔ واﷲ تعالٰی  اعلم۔
وعدہ وفائی پر جبرنہیں۔ واﷲتعالٰی  اعلم(ت)
 (۱؎ فتاوٰی  ہندیہ    کتاب الاجارہ     الباب السابع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۴۲۷)

(الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الحظر والاباحہ    دارالقرآن کراچی    ۲ /۱۱۰)

(العقود الدریۃ        مسائل و فوائد شتی من الحظر والاباحۃ    ارگ بازار قندھار افغانستان     ۲ /۳۵۳)
Flag Counter