Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
93 - 151
مسئلہ ۹۵ تا ۱۰۱ : از دولت پور ضلع بلند شہر مرسلہ رئیس بشیرمحمد خان صاحب ۵شعبان ۱۳۲۹ھ

(۱) کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دو شخصوں میں زر مہر کا جھگڑا ہے ان دونوں شخصوں نے اہل اسلام کے دو شخصوں کو پنچ اور ایک کو سر پنچ اس جھگڑے کے فیصلے کے واسطے باقاعدہ بنادیا، پنچان و سر پنچ صاحب نے بالاتفاق اپنی اور نیز اپنی جماعت کثیر اہل اسلام پابند صوم وصلٰوۃ سے ایک فیصلہ تجویز کردیا، فیصلہ سنانے کے قبل پنچان و سر پنچ ونیز دیگر شریک رائے اہل اسلام نے ہر دو فریق کو کہ جن کی جانب سے پنچ و سر پنچ بنائے گئے تھے یہ تجویز سنادی کہ جو فیصلہ ہم دو فریق کو سنادیں گے وہ تم دونوں کو بخوشی خاطر قبول و منظور ہوگا یانہیں،اور اس فیصلہ میں خواہ کسی فریق کا کیسا ہی نقصان کثیر ہو وہ برداشت کرنا ہوگا ہر دو فریق نے نہایت رضامندی سے اس تجویز کو قبول اور منظور کا کیا اس کے بعد پنچان و سر پنچ صاحب نے بآواز بلند مجمع کثیر میں اس فیصلہ کو جو باہم نزاعی تھا سنایا ایک فرقہ نے اس کو منظور کرلیا اور ایک فرقہ نے اس کو نامنظور کیا، اب جس فرقہ نے اس کو نامنظور کیا تو ازروئے شرع شریف کے اس معاہدہ کی تکمیل جو بروقت فیصلہ سنانے کے ہر دو فریق سے منظور کرالی تھی اس پر عمل کرنا چاہئے یانہیں؟

(۲) دو شخصوں میں تبادلہ جائداد پر جھگڑا تھا ان دونوں شخصوں نے اس کے فیصلہ کے واسطے دو پنچ اور 

ایک سر پنچ بنائے، پنچ و سر پنچ صاحبان نے دونوں شخصوں سے چار چار ہزار روپیہ جمع کرالیا اور ایک جماعت کثیر اہل اسلام کے روبرو حلف شرعی وخدا و رسول کو درمیان و کلام مجید درمیان کرکے یہ وعدہ ہر دو شخصوں سے کرالیا کہ جو تم دونوں شخصوں میں سے ہمارا فیصلہ کیا ہوا نہ مانے گا ہم اس کا روپیہ ضرور دوسرے کو دے دیں گے ان دونوں شخصوں نے جن کی جائداد کا جھگڑا تھا اس بات کو قبول و منظور کرلیا ارو پختہ عہد و پیمان شرعی کے ساتھ یہ کہہ دیا کہ اگر ہم میں سے جو کوئی فیصلہ کئے ہوئے کو نہ مانے اس کا روپیہ آپ دوسرے کو دینا، ہم کو یہ بات قبول و منظور ہے، اب پنچان وسرپنچ صاحبان نے اپنا فیصلہ کیا ہو ا دونوں شخصوں کو سنایا، ایک نے منظور کرلیا اور ایک نے نہیں منظور کیا، جس نے کہ نہیں منظور کیا اس کا روپیہ حسب وعدہ  نیز  پنچ یا سر پنچ صاحبان کے دوسرے کو دینا جائز ہے یانہیں؟

(۳) اگر کسی شخص کو پنچ یا سر پنچ کسی فیصلہ کےلیے بنایا جائے تو وہ صرف یکطرفیء شہادت و ثبوت خفیہ پر اپنی تجویز لکھ سکتا ہے یانہیں اورایسی تجویز جائز ہے یانہیں؟

(۴) اگر پنچ سر پنچ نے ایک فریق سےجو بوجہ طمع ناجائز کے ساز و اتفاق کرکے فریق دعوم کے خلاف فیصلہ دیا ہو تو ایسے شخصوں کا فیصلہ کیا ہوا ازروئے شرع جائز ہوگا یاناجائز؟

(۵)اگر کوئی شخص قرآن مجید ہاتھ میں لے کر قسم کھائے اور پھر اس قسم کے خلاف کرے تو ایسا شخص قابل قاضی وحاکم بنانے کے ہے یانہیں اور اس کا فیصلہ مانا جاسکتا ہے یانہیں؟

(۶)حاکم وقاضی کو شہادت لینا باقاعدہ ضرور ہے یانہیں یا صرف اس کا ذاتی علم فیصلہ کرنے کے واسطے جائز ہے یاناجائز؟

(۷) ازروئے شرع شریف کے رشوت لینا کیسا گناہ ہے اور رشوت لینے والا حاکم وقاضی و شاہد معتبر ہے یاغیرمعتبر، اس کا فیصلہ کیا ہوا قابل تسلیم ہے یانہیں؟
الجواب 

(۱)اگر فیصلہ مطابق شرع ہو ہر فریق کو ماننا لازم ہے اور باطل وخلاف شرع ہو تو کسی پر اس کی پابندی نہیں،
قال اﷲ تعالٰی
ان الحکم الا ﷲ ۱؎۔
اﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے: حکم صرف اﷲ تعالٰی کا ہے۔(ت)
(۱؎ القرآن الکریم ۶ / ۵۷)
اور ماننے نہ ماننے پر کوئی خاص معاہدہ کرلیا ہو تو اس کی پابندی ضروری نہیں کہ ایک مہمل شرط ہے کوئی عقد شرعی نہیں۔
شرط اﷲ احق واوثق۱؎قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲتعالی کی شرط کردہ زیادہ پختہ اور قوی حق ہے، یہ رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الولاء    قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۳۷۷)
 (۲) وہ شرط حرام با طل تھی اور وہ روپیہ ہر ایک کو اس کا واپس دینا فرض اور دوسرے کو دینا حرام ،
قال اﷲتعالٰی
لاتاکلوااموالکم بینکم بالباطل۲؎
واﷲتعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: آپس میں ایک دوسرے کے مال کو باطل طور پر مت کھاؤ۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ القرآن الکریم     ۲/ ۱۸۸)
(۳) شہادت شرع میں صرف مدعی سے لیجاتی ہے مدعا علیہ سے گواہ لینا کچھ ضرور نہیں اور گواہان قبول شرعی کے ساتھ اگر کسی خفیہ تحقیقات سے اطمینان کرلیا تو اس میں بھی حرج نہیں۔ 

رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
البینۃعلی المدعی والیمین علی من انکر۳؎۔ رواہ الدارقطنی والبیہقی وابن عساکر عن عبداﷲبن عمررضی اﷲ تعالٰی عنہما قال النووی سند البیھقی حسن وصحیح۔
گواہی مدعی کے ذمہ اور قسم منکر پر ہے۔ اس کو دار قطنی بیہقی اور ابن عساکر نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے۔ امام نووی نے فرمایا: بیہقی کی سند حسن اور صحیح ہے۔(ت)
 (۳؎ صحیح البخاری     کتاب الرہن     ۱/ ۲۴۲ و جامع الترمذی ابواب الاحکام     ۱/ ۱۶۰    وسنن الدار قطنی ۴/ ۲۱۸)

(السنن الکبری للبیہقی    کتاب الدعوی البینات     دارالفکر بیروت    ۱۰/ ۲۵۲)
ہاں اگر حاکم نے خلاف شرع ناجائز ہے بے ضابطہ کارروائی کی تو وہ جس حد کی ناجائز ہوگی اس کے قابل اس پر حکم ہوگا سائل نے کوئی تفصیل نہ بیان کی کہ صورت خاصہ کا حکم دیا جاتا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔

(۴) اظہار سائل سے معلوم ہوا کہ طمع ناجائز سے مراد کچھ لے کر فیصلہ دینا ہے ایسا فیصلہ مطلقاً مردودوبے اعتبار ہے۔ 

فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:
اجمعو اانہ اذاارتشی لاینفذ قضاؤہ فیما ارتشی۱؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
فقہاء نے اجماع کیا ہے کہ قاضی نے جس فیصلہ میں رشوت لی ہے وہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضیخان    کتاب الدعوٰی والبینات    نولکشور لکھنؤ    ۳/ ۴۶۰)
(۵) حلف کا حکم جواب سوال چہارم میں گزرا، اگر شرعاً اس قسم کا خلاف اسے کرنا چاہئے تھا تو اس پر کچھ الزام نہیں اور وہ حاکم وقاضی بنائے جانے میں مخل نہیں اور اگر ناجائز تھا توایسے کو قاضی و حاکم نہ بنایا جائے اور اگر بنایا گیا تو اس کا فیصلہ اب بھی مانا جائے گا اگر مطابق شرع ہو، 

فتح القدیر میں ہے:
ان الفسق لایوجب العزل فولایتہ قائمۃ وقضائہ بحق فلم لاینفذ۲؎واﷲتعالٰی اعلم۔
قاضی کا فسق موجب عزل نہیں تو اس کی ولایت قائم اور فیصلہ حق ہے تو کیونکر نافذ نہ ہو، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۲؎ فتح القدیر    کتاب ادب القاضی     المکتبۃ النوریۃ الرضویہ سکھر    ۶/ ۳۵۸)
 (۶) فتوٰی اس پر ہے کہ قاضی وحاکم کا ذاتی علم فیصلہ کے واسطے کافی نہیں، نہ اسے اس پر فیصلہ دیناجائز، 

اشباہ میں ہے:
الفتوی علی عدم العمل بعلم القاضی فی زماننا کما فی جامع الفصولین۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
ہمارے زمانہ میں آج فتوٰی یہ ہے کہ قاضی کے علم پر مبنی فیصلہ پر عمل جائز نہیں ہے جیسا کہ جامع الفصولین میں ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر    الفن الثانی     کتاب القضاء والشہادات    ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۵۳)
 (۷) رشوت لینا مطلقاً گناہ کبیرہ ہے لینے والا حرامخوار ہے مستحق سخت عذاب نار ہے، دینا اگر بمجبوری اپنے اوپر سے دفع ظلم کو ہو تو حرج نہیں اور اپناآتا وصول کرنے کو ہو تو حرام ہے اور لینے دینے والا دونوں جہنمی ہیں اور دوسرے کا حق دبانے یا اور کسی طرح ظلم کرنے کے لئے دے تو سخت تر حرام اور مستحق اشد غضب وانتقام ہے،
فی وصایا الھندیۃ عن فتاوی الامام قاضیخاں ان بذل المال لاستخراج حق لہ علی اٰخر رشوۃ وان بذل لدفع الظلم عن نفسہ وما لہ لایکون رشوۃ اھ ۱؎ والمسألۃ تحتاج الٰی زیادۃ تقریر وتحریر وتنقیح وتنقیر لاتفرغ لہ الاٰن وباﷲ التوفیق۔
ہندیہ کے وصایا میں امام قاضی خاں کے فتاوٰی سے منقول ہے کہ دوسرے پر اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے مال خرچ کرے تو رشوت ہے اور اگر اپنے پر ہونے والے ظلم یا اپنے مال پر ناجائز دخل کو ختم کرنے کے لئے مال خرچ کرے تو یہ رشوت نہ ہوگی اھ، اور یہ مسئلہ تقریر، چھان بین، تنقیح اور تحقیق کوچاہتا ہے جس کی فی الحال فرصت نہں۔ وبا ﷲ التوفیق (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الوصایا      الباب التاسع فی الوصی الخ    نورانی کتب خانہ پشاور  ۶/ ۱۵۰)
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لعن اﷲ الراشی والمرتشی والرائش الذی یمشی بینھما ۲؎۔ رواہ الامام احمد عن ثوبان رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
اﷲ کی لعنت رشوت دینے والے اور لینے والے اور ان کے دلال پر۔ اسے امام احمد رحمہ اﷲ تعالٰی نے ثوبان رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کیا(ت)قاضی و شاہد کا مسئلہ جواب ششم و ہفتم میں گزرا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۲؎ مسند احمد    ترجمہ حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ    دارالفکر بیروت     ۵/ ۲۷۹)
Flag Counter