Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
92 - 151
 (۳۸) دوسرالفظ صاحب افسر مال نے یہ لکھا کہ خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر شہادت دوں گا یہ بھی ایک وعدہ ہے جو کسی اشھد کے معنی پورے نہیں کرسکتا، علماء تصریح فرماتے ہیں کہ شہادت بلفظ مضارع بمعنی حال لازم ہے درمختارسے ابھی گزرا
واخبار للحال۲؎
 (حال کی خبر دینا ہے۔ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۰)
ردالمحتار ج ۴ص۵۷۳میں ہے :
فلو قال شھدت لایجوز لان الماضی موضوع للاخبار عماوقع فیکون غیر مخبر فی الحال۳؎۔
اگر اس نے ''شھدت''بلفظ ماضی کہا تو ناجائز ہے کیونکہ ماضی گزشتہ واقعہ کی خبر کے لئے وضع کیا گیا ہے تو یہ ماضی، حال کی خبر نہ دے گا۔(ت)
(۳؎ ردالمختار     کتاب الشہادات      داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۷۰)
جب صیغہ ماضی معتبر نہ ہوا جو یمین میں مثل صیغہ حال ہے
حلفت باﷲ اور احلف باﷲ
کاایک ہی حکم ہے توشہادت دوں گا صیغہ استقبال کیا حیثیت رکھتا ہے جس کا حاصل یہ ہوگاکہ یہ قسم کھاؤں گا کیا اس کہنے سے قسم ہوجاتی ہے یا جھوٹ سے باز رہ سکتا ہے۔
 (۳۹) اور اصل حقیقت امر یہ ہےکہ تعین لفظ اشھد میں جو علتیں توجیہیں بیان میں آئیں از قبیل نکات و لطائف ہیں وہ ایک حکم تعبدی ہے یعنی شرع مطہر نے خاص اسی لفظ کو معین فرمادیا تو اب اس سے تجاوز جائز نہیں،

 ردالمحتار جلد ۴ص۵۷۳ وبحرالرائق جلد ۷ص۶۰۔۶۱میں ہے :
اقتصر علیہ اتباعا للماثور ولایخلو عن معنی التعبد اذلم ینقل غیرہ ۱؎۔
اس نے اس پر اقتصار کیا، منقول و ماثور کی پیروی کرتے ہوئے جبکہ یہ تعبد کے معنی سے خالی نہیں، اور اس کا غیر منقول نہیں۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار بحوالہ البحرا لرائق         کتاب الشہادات     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۷۰)
تو اس کی علت تلاش کرنا اور اس کا دوسری جگہ اجرا چاہنا سرے سے باطل ہوگیا، ان تقریرات سے آفتاب کی طرح روشن ہوا کہ ہندہ کچہریوں میں جہاں لفط اشھد نہیں کہلواتے اور ان بے معنی الفاظ مذکورہ یا ان کے امثال سے حلف لیتے ہیں وہ زنہار اصول شرع سے مطابقت نہیں کھاسکتا ہے، شیئ اگر اپنی ضد سے مکمل ہوسکتی ہو، دن کی اگر رات سے تکمیل ہوسکتی ہو تو ان الفاط میں اصول شرع کو مکمل سمجھ سکیں، انگریزی وہندی کچہریوں میں مثبت سمجھے ہوئے دعوے اگر شرعاً غیر مثبت ٹھہریں تو کیااستحالہ ہے بلکہ اصول شرع کے اتباع نہ کرنے سے شرعاً ان کا غیر مثبت ہونا خود ہی لازم، نہ یہ کہ ان کو مثبت بنانے کےلئے اصول شرع تبدیل کردئیے جائیں، یہاں کی کچہریوں میں کفار کی گواہیاں مسلمانوں پر عموماً سنی جاتی ہے اور ان پر فیصلے ہوتے ہیں او روہ دعوے مثبت ٹہرائے جاتے ہیں اسے کون سے اصول شرع سے تطبیق دی جائے گی حالانکہ رب العزت جل وعلا فرماتا ہے:
لن یجعل اﷲ للکفرین علی المؤمنین سبیلا۲؎۔
اﷲ کافروں کو مسلمانوں پر کوئی راہ نہ دے گا۔(ت)
(۲؎ القرآن الکریم ۴/ ۱۴۱)
خو د صاحب افسر اپنے اسی فیصلہ فقرہ نمبر ۱۳ میں فرماتے ہیں:''قبضہ کی باتب ریلا رام پیشکار اور غلام حیدر خاں پیشکار کی شہادت شامل مسل ہے اور ان کی شہادت سے ثابت ہے کہ قبضۃ رہا پس دو معزز راہلکاروں کی شہادت معتبر شہادت ہے ہمارا فرض ہے کہ اس کو قبول کریں اور یقین کے ساتھ قبول کریں''حالانکہ شرع مطہر اسے حرام بتاتی ہے فاسق کی نسبت تو ارشاد ہوا :
یایھاالذین اٰمنواان جاء کم فاسق بنباءٍ فتبینواا تصیبواقوما بجہالۃ فتصبحوا علی مافعلتم نٰدمین۱؎۔
 اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کو بے جانے ایذا نہ دے بیٹھو  پھر اپنے کئے پر پچھتاتے رہ جاؤ۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم     ۴۹/ ۶)
نہ کہ کفار والعیاذ باﷲ العزیز الغفار۔
(۴۰) صاحب افسر مال فقرہ نمبر۸ میں اس شہادت مدعیان کو متواتر حقیقی بناتے ہیں کہ ''یہ شہادت تو اتر تک پہنچ چکی ہے جس کے خلاف ہونے کا احتمال نہیں'' اور عجب یہ کہ مدعیوں کے تیس گواہ کے مقابل مدعا علیہ کے پینتالیس گواہوں کو لفظ''چند کس'' سے تعبیر فرماتے ہیں جس کی انتہا نو تک ہے یہ مجمل جرح کہ وہ یا اجیرہیں یا اس فریق کے جتھے والے، ہر طرف کے گواہوں پر ہوسکتی ہے جو ان میں معزز ہوئے ان پر طرفداری اور باقیوں کو اجورہ داری کا الزام لگا دینا کیا دشوار ہے، ان الزامات کی راہ تو شرع مطہر نے گواہوں میں عادل ہونے کی شرط لگا کر بند فرمائی تھی جب یہ شرط اٹھ گئی بلکہ گواہ کے مسلمان ہونے کی بھی قید نہ رہی تو ہر گونہ الزام آسان ہے جس میں دونوں فریق کی حالت یکساں ہے بلکہ اس نوٹ کی بناء پر جو صاحب افسر مال نے اپنے آخر فیصلہ میں دیا جس میں مدعیوں کو اخلاقاً و عادۃً مدعاعلیہ سے بہت بہتر بتایا اور مدعا علیہ کو چلباز کمینہ کا آدمی شریر وغیرہا الفاط سخیف، سے یاد فرمایا احتمال طرفداری گواہان مدعیان کی طرف زیادہ قائم ہوتا ہے ظاہر ہے کہ خوش اخلاق و نکوسیر آدمی کا جتھا بھاری ہوتا ہے، مکار شریر چالباز سے لوگ نفرت کرتے ہیں اگرچہ لطافت علی صاحب تحصیلدار نے جو تحقیقات موقع لکھی وہ اس کا عکس ظاہر کرتے ہیں اور عمزز خاندان چشتیاں کو مدعیوں سے نفرت بتاتے ہیں بہر حال یہ زائد وخارج از بحث باتیں ہیں، کلام اس میں ہے کہ وہ تواتر جس میں خلاف کا احتمال بھی نہ رہے اس کے یہ معنی نہیں جسمیں فریقین کے انتخاب کوکوئی دخل ہو ہر فریق اپنی مرضی کے گواہ چھانٹ چھانٹ کر اسم نویسی کرائے یہ تیس بتائے وہ پینتالیس لے آئے بلکہ تواتر کے یہ معنی ہیں کہ وہاں کے تمام لوگ چھوٹے بڑے عالم جاہل سب اس امر سے واقف ہوں، عام لوگ یک زبان و متفق اللسان ایک ہی بات کہیں۔
فتاوٰی عالمگیری جلد ۳ ص۱۵۲ میں اس کے معنی یہ لکھے ہیں کہ :
ان تاتی العامۃ وتشھد بذٰلک فیؤخذ بشہادتھم کذافی الذخیرۃ۲؎۔
اگر عام لوگ یہی بات کہیں اور یہی شہادت دیں تو یہ شہادت قبول کرلی جائے گی جیسا کہ ذخیرہ میں ہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور     ۳/ ۵۱۴)
نیز اسی کے صفحہ ۱۵۳ پر اس کی تشریح یوں فرمائی:
کونہ ظاھرا مستفیضا یعرفہ کل صغیر و کبیر وکل عالم و جاہل کذافی الذخیرۃ ۱؎۔
اس کے ظاہر مستفیض ہونے کی وجہ سے کہ اس کو ہر بڑا چھوٹا، عالم اور جاہل جانتا ہے جیسا کہ ذخیرہ میں ہے ۔ (ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۱۵)
ظاہر ہے کہ یہاں ایسا نہیں، فہرست گواہان کے ملاحظہ سے ظاہر ہے کہ ایک ہی خاندان کے لوگ مدعی کے گواہ ہیں کچھ لوگ مدعا علیہ کے، ایک ہی بستی کہ کچھ لوگ ادھر کے شاہد ہیں کچھ لوگ ادھر کے، ایک بھائی ادھر کا گواہ تو دوسرا حقیقی بھائی دوسری طرف کا۔ بھانجا مدعیوں کا گواہ ہے تو ماموں مدعا علیہ کا۔ تواتر حقیقی کی صورت ہوتی تو معاملہ بدیہیات سے ہوجاتا کہ متواترات اقسام بدیہی سے ہیں اور بدیہی پر دلیل قائم کرنا بے معنی، تو صاحب افسر مال کو اپنا فیصلہ میں ۷ نمبر ابتدائی کے علاوہ کہ متعلق واقعات ہیں اکیس نمبر بحث کے کیوں لکھنے پڑتے یا ادھر تو اتر ہوجاتا تو ہم کو ۲۱ کے مقابل ۴۲نمبر لکھنے کی کیا ضرورت ہوتی۔ 

بزازیہ اور قرۃ العیون ج ۴ص۶۰۰ میں ہے :
فی المحیط ان تواتر عندالناس وعلم الکل یقضی بفراغ ذمتہ لانہ یلزم تکذیب الثابت بالضرورۃ والضروریات ممالم یدخلھا شک۲؎اھ۔
محیط میں ہے اگر لوگوں میں تواتر ہے اور سب جانتے ہیں تو اس کے ذمہ کی فراغت کاحکم کردیا جائے گا کیونکہ یہ بدیہی طور پر ثابت ہے اور اسے نہ ماننے پر ضروری معلوم شدہ کی تکذیب لازم آئے گی جبکہ ضروری بدیہی امور میں شک کا دخل نہیں ہوسکتا۔(ت)
(۲؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الشہادات     باب القبول وعدمہ    مصطفی البابی مصر     ۱/ ۱۴۱)
 (۴۱) اگر ۳۰گواہ ہونے کے سبب شہادت مدعیان متواتر ہوگئی تو شہادت مدعاعلیہ بدرجہ اولٰی متواتر ہوگی کہ اس کے ۴۵ گواہ ہیں اور اب وہ اعتراض جو ثالثوں اور مجوز نے فقرہ نمبر۲۲ میں اس پر کیا کہ وہ شہادت نفی ہے اور نفی پر شہادت مقبول نہیں باطل ہوجائے گا کہ شہادت جب متواتر ہو یقینا مقبول ہے اگرچہ نفی پر ہو۔ 

فتاوٰی ظہیریہ وفتاوٰی بزازیہ واشباہ والنظائر صفحہ ۲۱۴ میں ہے :
تقبل بینۃ النفی المتواتر۳؎
 (نفی پر متواتر بات کو بطور دلیل قبول کیا جائیگا۔ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر   بحوالہ ظہیریہ وبزازیہ     الفن الثانی     کتاب القضاء والشہادۃ     ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۵۲)
درمختار جلد ۲ص۶۰۰میں ہے :
شہادۃ النفی المتواتر مقبول ۴؎۔
متواتر نفی کو شہادت کے طور قبول کیا جائے گا۔ (ت)
 (۴؎ درمختار        کتاب الشہادات     باب الفضول عدمہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۸)
 (۴۲) بحمد اﷲتعالٰی آفتاب سے زیادہ روشن ہوا کہ ثالثوں نے جتنی سندوں پر بنائے فیصلہ رکھی سب محض ناکارہ و بے اعتبار ہیں، روئداد مسل مدعیوں کا نسب اصلاً ثابت نہیں کرتی سخت محل افسوس یہ ہے کہ ثالث صاحبوں نے خود یہ سمجھ لیا تھا کہ مسل کے موجودہ کاغذات وشہادات ناکافی ہیں اور بے تحقیقات مزیدکے حقیقت معاملہ سمجھ میں نہیں آسکتی، ملاحظہ ہو رپورٹ ثالثان کاغذنمبر۲۰گزارش ہے کہ سوائے تحقیقات جدید کے مظہران فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں،، یہاں ثالثوں نے روئداد مسل پر فیصلہ کرنے سے صاف صاف استعفا دے دیا یا باوصف اس کے بلا تحقیق جدید فیصلہ کیا اس سے زیادہ عجیب تر یہ ہے کہ صاحب افسر مال خود موقع پر تحقیقات کےلئے تشریف لے گئے اور علاقہ کے تمام سر برآوردہ اشخاص اور چشتیوں کوطلب کیا مگر بے تحیقیقات جدیدکہ اسی کی شرعاً ضرورت تھی معاملہ بربنائے روئداد ناکافی مسل سپرد ثالثان کرادیا۔ دیکھو فیصلہ افسر فقرہ نمبر۲۴، میں نہیں کہتا کہ مدعیوں کا اولاد پیر صدر الدین نہ ہونا ثابت ہے غیب کا علم اﷲ عزوجل کو ہے ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ان کا اولاد پیر صدر الدین ہو ثابت نہیں تمام کاغذات و شہادات موجودہ مسل ان کا نسب ثابت کرنے میں عاجز و قاصر ہیں، ان کا دعوٰی نامسموع ہونے کے لئے ثبوت عدم درکار نہیں عدم ثبوت کافی ہے اور وہ بلاشبہہ حاصل، لہذا دعوٰی مدعیان باطل، یہاں اور ابحاث فقہیہ بھی باقی ہیں مگر جس قدر گزارش ہوا ذی انصاف متبع شرع کے لئے اس قدر بہت ہے۔ وباﷲ التوفیق، واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
Flag Counter