Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
91 - 151
سند ہفتم شہادات
(۳۳) شہادتوں پر مولوی عطا محمد صاحب کا اعتراض بہت حق و بجا ہے فی الواقع شر ع مطہر نے حقو ق العباد میں لفظ اشھد یا اس کا ترجمہ کہ گواہی می دہم یا گواہی دیتاہوں رکن شہادت قرار دیا ہے بغیر اس کے ہر گز شہادت متحقق نہیں ہوسکتی، خالی خبر ہوگی جو یہاں اصلاً قابل التفات نہیں، تمام کتب مذہب میں اس کی تصریح ہے، ہدایہ جلد دوم ص۱۰۱میں ہے :
  ولابد فی ذٰلک کلہ من العدالۃ ولفظۃ الشہادۃ فان لم یذکر الشاھد لفظۃ الشھادۃ وقال اعلم او اتیقن لم تقبل شہادتہ۱؎۔
ان سب میں عدالت اور لفظ شہادت ضروری ہے اگر گواہ نے لفظ شہادت نہ کہا اورمیں جانتا ہوں یا مجھے یقین ہے کہا تو شہادت مقبول نہ ہوگی۔(ت)
 (۱؎ الہدایۃ     کتاب الشہادۃ     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۵۵)
اسی میں ہے :
امالفظۃ الشہادۃ فلان النصوص نطقت باشتراطہا اذا الامر فیہا بھذہ اللفظۃ ولان فیہا زیادۃ توکید فان قولہ اشھد من الفاظ الیمین (کقولہ اشھد باﷲ) فکان الامتناع عن الکذب بھذہ اللفظۃ اشد   ۱؎۔
لفظ شہادت تو اس لئے کہ تمام نصوص نے اسکو شرط کہا ہے کیونکہ شہادت کا حکم اسی لفظ سے بیان ہوا ہے اور اس لئے کہ اس لفظ میں تاکید زیادہ ہے کیونکہ شاہد کا اشھد کہنا، یہ قسم کے الفاط میں سے ہے(جیسے اشھدباﷲ قسم ہے) لہذا اس لفظ میں جھوٹ سے امتناع زیادہ قوی ہے۔(ت)
(۱؎ الہدایۃ     کتاب الشہادۃ    مطبع یوسفی     ۳/ ۱۵۵)
فتح القدیر جلد ۶صفحہ ۱۰۰میں ہے :
  وقد وقع الامر بلفظ الشہادۃ فی قولہ تعالٰی واقیمو الشہادۃ ﷲ وقولہ علیہ الصلوۃ والسلام اذا رأیت مثل الشمس فاشھد فلزم لذلک لفظ الشہادۃ ۲؎۔
اﷲ تعالٰی کے ارشاد اقیمو الشہادۃ (شہادت قائم کرو) او رحضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ارشاد اذ رأ یت مثل الشمس فاشھد (یعنی جب سورج کی مثل دیکھ لے تو شہادت دے) تو اس سے لفظ شہادت لازم ہوا کیونکہ یہاں لفظ شہادت سے حکم دیا گیا ہے۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر     کتاب الشہادات    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶/ ۴۵۶)
فتاوٰی عالمگیریہ جلد ۳ صفحہ۴۵۰میں ہے :
واما رکنہا فلفظ اشھد بمعنی الخبردون القسم ھکذا فی التبیین۳؎۔
لیکن شہادت کا رکن، تو لفظ اشھد بمعنی خبر ہے بمعنی قسم نہیں ہے، تبیین میں یونہی ہے(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات   الباب الاول    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۵۰)
اسی طرح بحرالرائق جلد ہفتم ص۶۱ میں ہے، درمختار وردالمحتار وقرۃ العیون کی عبارتیں فتوائے مولوی عطا محمد صاحب میں گزریں اور خود تکثیر عبارات کی کیا حاجت جبکہ علماء نے قرآن عظیم ہی کا نص اس پر ذکرفرمایا۔
 (۳۴)صاحب افسر مال کا فقرہ نمبر۲۵ میں اس ناممکن الجواب اعتراض پر یہ اعتذار پیش کرنا کہ فقہاءنے لفظ اشھد کی شرط تو ضرور لگائی مگر اس کی علت یہی ہے کہ اشھد میں معنی قسم ہیں تو معنی قسم جس لفظ سے پورے کرلئے جائیں شرط حاصل ہوجائے گی سخت عجیب ہے جس کی نظیر یہی ہوسکتی ہے کہ نماز کے لئے شرع میں ہیئت تو ضرور مقرر ہے جس میں قیام و رکوع و سجود وقعود وغیرہا ارکان ہیں مگران سب سے مقصود تعطیم الٰہی ہے تو وہ جس طرح حاصل ہو نماز ادا ہوجائے گی کچھ ان ارکان کی ضرور نہیں، شہادت میںلفظ اشھد شرط نہیں بلکہ فقہاء نے اسے رکن شہادت لکھا ہے جیسا کہ تبیین الحقائق وبحرالرائق وعالمگیریہ سے گزرا اور کوئی شے بغیر اپنے رکن کے متحق نہیں ہوسکتی۔
 (۳۵) سخت عجب یہ ہے کہ کتابیں صاف تصریحیں کررہی ہیں اور کوئی لفظ اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا، درمختار سے گزرا:
ھذہ المعانی مفقودۃ فی غیرہ فتعین۱؎۔
یہ معنی اس کے غیرمیں مفقود ہے تو یہ متعین ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار  کتاب الشہادات  مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۹۰)
اسی طرح بحرالرائق جلد ۷ ص۶۱میں قرۃ العیون سے گزرا:
لایقوم غیرھا مقامھا۲؎
 (دوسرا اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا ہے۔ت)
 (۲؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الشہادات      مصطفی البابی مصر    ۱/ ۵۶)
بحرالرائق جلد ۷ ص۶۸ میں ہے:
شرط لجمیع انواعھا لفط اشھد بالمضارع فلا یقوم غیرہ  مقامہ  وقدمنا  ان  لفظہا  رکن ۳؎۔
تمام اقسام شہادت میں لفظ اشھد مضارع ہے لہذا دوسرا لفظ اس کے قائم مقام نہیں ہوسکتا جبکہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ یہی لفظ رکن ہے۔(ت)
(۳؎ بحرالرائق   کتاب الشہادات     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۶۲)
پھر اس کا مطلب یہ ٹھہرانا کہ کچھ اس لفظ کی خصوصیت نہیں بالکل دن کو رات سے تفسیر کرنا ہوگا
(۳۶) یہ بھی محض غلط ہے کہ اس کی علت معنی قسم ہے بلکہ معانی کثیرہ کا اجتماع جن میں سے ایک معنی قسم بھی ہے، درمختارکی عبارت گزری :
لتضمنہ معنی مشاھدۃ وقسم واخبار للحال۴؎۔
کہ مشاہدہ قسم اورحال کے معنی کو متضمن ہے۔(ت)
(۴؎ درمختار   کتاب الشہادات  مطبع مجتبائی دہلی  ۲/ ۹۰)
فتح القدیر جلد ۶ صفحہ ۱۱میں ہے:
لفظۃ الشہادۃ اقوی فی افادۃ تاکید متعلقھا من غیرھا من الالفاظ کا علم واتیقن لما فیہا من اقتضاء معنی المشاھدۃ والمعاینۃ التی مرجعھاالحس۱؎۔
شہادت کا لفظ اپنے متعلق کی تاکید میں دوسرے ہم معنٰی الفاط کی نسبت اقوی ہے جیسے کہ لفظ، میں جانتا ہوں مجھے یقین ہے، کہ مقابلہ میں، کیونکہ شہادت کا لفظ مشاہدہ اور معاینہ جس کا مرجع حس ہے، کو چاہتا ہے۔(ت)
 (۱؎ فتح القدیر    کتاب الشہادات    المکتبۃ النوریۃ الرضویہ سکھر    ۶/ ۴۵۶)
بلکہ عالمگیری سے گزرا کہ اشھد بمعنی خبررکن ہے نہ بمعنی قسم۔
 (۳۷) یہ بھی ہر گز مسلم نہیں کہ کچہریوں میں حلف کے معنی پورے کرا لئے جاتے ہیں کہیں یہ کہلوایا جاتا ہے سچ کہوں گا خدا میری مدد کرے، کہیں یوں کہ خدا کو حاضر ناظر جان کر سچ کہوں گا ان الفاط کو یمین سے کچھ تعلق نہیں اور اگر وہی لفظ کہلوائے جائیں جو صاحب افسر مال نے لکھے کہ خدا کی قسم میں سچ کہوں گا تو یہ یمین منعقدہ ہوئی یعنی آئندہ کی نسبت جس کے خلاف کرنے پر پندرہ سیر گیہوں یاتین روزوں میں کام نکل سکتا ہے بخلاف اشھد کہ اس میں یمین غموس ہے کہ سلطنت ہفت اقلیم یا لاکھ روزے بھی اس کا کفارہ نہیں ہوسکتے تو اس میں اس کے معنی کا ادا ہوجانا کیونکر ممکن۔
Flag Counter