Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
90 - 151
کاغذ چہارم شجرہ نسب
 (۲۲) شجرہ نسب جو منٹگمری سے آیا اس کی نسبت علاوہ ان اعتراضوں کے جو ایسے کاغذات کی نسبت مکرر گزر چکے اور ثابت کردیا گیا کہ وہ شرعاً استناد درکنار التفات کے بھی قابل نہیں یہ شجرہ حاکم کی کسی اپنی تحقیقات پر مبنی نہیں بلکہ اسی صلحنامہ بدر الدین پر اس کی بناء ہے اور ہم دلائل قاہرہ سے ثابت کرآئے کہ وہ اپنی ذاتی نامعتبری کے علاوہ ثبوت نسب کے بارہ میں محض مہمل ہے تو یہ شجرہ کہ اس پر مبنی تھا اسی کی طرح باطل و بے عمل ہے ہاں جائداد انگریزی میں بدر الدین کی طرف سے قطع نزاع کے لئے اس کے یہ الفاظ قابل لحاظ ہیں کہ ''حصہ ملکیت بر خلاف حصہ جدی کے'' رسمی قرار پایا۔
کاغذ پنجم نمبر۹ اظہار منچن آباد
 (۲۳) کاغذات کے متعلق جو نفیس جلیل ابحاث شرعیہ ہم بار بار لکھ آئے اور ثابت کر آئے کہ شرع مطہر ایسے نرے کاغذی جمع خرچ پر اصلاً لحاظ نہیں فرماتی وہی بحثیں اس کاغذ کے بھی مہمل وبیکار ہونے کے لئے کافی تھیں مگر اس کاغذ کی حالت نے ان عظیم بحثوں کی اور بھی تائید وتصدیق کردی اور خود ہی ایک واضح نظیر ہو زبان حال سے صاف بتادیا کہ دیکھو شرع مطہر حکیم ہے وہ ایسی وجوہ سے نری کاغذی بات کو نا معتبر فرماتی ہے یکم جون ۱۸۹۳ء کو اﷲ بخش نے تحصیل منچن آباد میں درخواست دی کاردار صاحب نے طلبی فریقین کا حکم دیا۱۳/جون کو پھر پیشی ہوئی اب مکرر حکم طلبی تحریر سہوا ۲۹/ اگست کو پیشی ہوئی اور کار دار صاحب نے لکھا کہ اب تک نہ فریقین آئے نہ کوئی رپورٹ پیش کار کی شامل ہوئی اب حکم تاکیدی طلبی کا بھیجا گیا ۶/ستمبر کو باخذ مچلکہ طلبی ہوئی ۷/ستمبر کو فریقین کی اطلاع یابی اور سراج الدین کی بیماری کاعذر تحریر ہوا ۸/ستمبر کو پیش کار نے اسی مضمون کی رپورٹ تحصیل میں بھیجی ادھر تو یہ کارروائی ہو رہی ہے ادھر ۲۲ اگست کو بدر الدین اور سراج الدین حاضر ہوگئے اظہار بھی دے گئے حکم بھی ہوچکا مقدمہ ختم چکا مقدمہ ختم بھی ہوگیا مسل داخل دفتر بھی ہوگئی اور ۲۹ اگست کو پھر کاردار صاحب شاکی ہیں کہ ۱۳ / جون سے اب تک کوئی نہیں آیا اس خواب پریشان کی کیا تعبیر کہی جائے ۲۲ سے ۲۹ تک ایسی مدت بھی تو طویل نہ گزری تھی کہ کاردار صاحب اور تمام اہل محکمہ کسی کو یاد نہ رہا کہ ابھی فریقین حاضر ہوکر اظہار دے چکے ہیں مقدمہ ختم ہوچکا ہے اب یہ دوبارہ پیشی کیسی اور مکرر طلبی کس لئے، او مچلکوں کی شدت کس بناپر، ناچار صاحب افسر مال کو بھی فقرہ نمبر۱۰ میں تسلیم کرنا پڑا کہ اہلمدا ایسی بدعنوانیاں بطور خود کرلیتے ہیں حاکم کو اطلاع بھی نہیں ہوتی اور احکام جاری کردیتے ہیں اور خود ہی حکم اخیر بھی لکھ دیتے ہیں کبھی یہ کہ داخل دفتر ہو کبھی یہ کہ بندوبست میں پیروی کرو اور یہ بھی تصریح فرمائی کہ دفتر والوں سے سازش ہوکر بھی ایسی کارروائیوں ہوجاتی ہیں اور یہ بھی کہ یہ میدان اہلمدوں کی سبز چراگاہ ہے جب یہ سب کچھ ثابت ہے تو کون سی دلیل قائم ہے کہ یہ دوبارہ طلبی اور بار بار کی پیشیوں کے احکام بھی اہلمدوں کے بطور خود لکھے ہوئے ہیں اور ۲۲ / اگست کا اظہار و حکم ان کی سبز چراگاہ سے دور و محفوظ ہے حاکم دستخطوں کو دیکھاجائے تو وہ ان احکام پر بھی ہیں نہ نرے دستخط شرع میں کوئی حجت کہ سیکڑوں بن سکتے ہیں،اوپر متعدد کتابوں سے اس کی تصریح گزری غرض دفتر والوں کو خود مختاریاں مانے بغیر چارہ نہیں اور انہیں پیش خویش کچھ تحریروں سے خاص کرلینے اور فلاں کو ان سے محفوظ ماننے کی کوئی وجہ نہیں، یہی شناعتیں توہیں جن کے سبب شرع مطہر نے ان کا دربا ہی جلادیا اور سبز چراگاہوں کا راستہ یک قلم بند فرمایا۔
 (۲۴) پھر اس پر کار دار صاحب کا جو حکم بتایا جاتا ہے کتنے مزہ کا ہے ایک فریق داخل خارج کی درخواست کرتا ہے دوسرے کو کہتے ہو کہ وہ بلا عذر کررہا ہے پھر بندوبست میں درخواست دینے پر اسے ملتوی کرنا کیا معنی رکھتا ہے یہ اظہار اگر واقعی ہوتا تو کار دار صاحب فوراً حکم انتقال دیتے اور اسی کا موقع تھا جیسا کہ خودصاحب افسر مال کو فقرہ نمبر۱۰ میں تسلیم ہے کہ ''کاردا رکو انتقال کا حکم دینا تھا''غرض یہ حکم اگرچہ فریقین راضی ہوں مگر انتقال ابھی نہ ہونا چاہئے بلکہ بندوبست جاری ہے اس میں درخواست دو ایک ایسا عجیب حکم ہے جس کی نظیر انہیں سبز چراگاہوں میں مل سکتی ہے جاہلوں تک میں تو مثل مشہور ہے کہ دو دل راضی تو کیا گرے گا قاضی۔ لہذا قرین قیاس یہی ہے کہ ۸/ستمبر تک فریقین کی حاضری نہ ہوئی جیسا کہ مسل سے واضح ہے او یہ ۲۲/ اگست کا اظہار اور بے معنی حکم اسی دفتری سازشوں او سبز چراگاہوں کی سیاہ کاری ہے۔
 (۲۵) لطف یہ کہ بندوبست اس تاریخ سے پہلے کبھی کا ختم ہوچکا تھا اور کار دار صاحب یہ ہدایت کریں کہ بندوبست جاری ہے اس میں درخواست دو، دیکھو فیصلہ صاحب افسر مال فقرہ نمبر۴ پھر اگر یہاں تسلیم کیا جائے کہ بندوبست اس وقت جاری تو مدعیوں کا اس میں درخواست نہ دینا کیا معنی، بدر الدین وسراج الدین کی رضامندی کو وہ ایک بار آزما چکے تھے کہ بقول ان کے راضی نامہ کرکے کار بند نہ ہوئے او ان کا اندراج نام نہ کرایا جس پر انہیں تحصیل میں عرضی دینی پڑی کیا انہوں نے نہ سنا تھا کہ آز مودہ را آزمودن جہل ست (آزمائے ہوئے کو آزمانا جہالت ہے۔ت) اب دونوں بھائی اقرار لکھا چلے اور بندوبست جاری تھا تو مدعی ہر گز اپنا کام پختہ کرلینے سے نہ بیٹھتے، پھر خوبی یہ کہ جب چھ سال بعد بندوبست جدید میں غلطی کی اصلاح چاہی تو اس درخواست میں بھی مدعیوں نے اس اقرار وتسلیم ہر دو بردران کا کوئی ذکر نہ کیا بلکہ صلحنامہ منٹگمری ہی کو دستاویز بنایا اگر تحصیل منچن آباد میں دونوں بھائیوں نے یوں بلا عذر ان کے نام انتقال تسلیم کرلیا ہو تو سب سے زیادہ بنائے کا ر اسی پر رکھنی تھی نہ یہ کہ درخواست میں اس کا نام تک نہیں۔
 (۲۶) صاحب افسر مال فقرہ نمبر۱۰میں اپنے یہاں کے محکموں کے سخت شاکی ہیں اور وہاں کے انتقالات کو بہت سنگلاخ دشوار گزارراہ بتاتے ہیں مگر سختیاں وہیں پیش آتی ہیں جہاں منازعت ہو مزاحمت ہو، کیا اس کی کوئی نظیہر بتائی جاسکتی ہے کہ فریقین راضی نامہ کرلیں ایک فریق اس کا اجرا چاہے دوسرا بلا عذر قبول کرلے باینہمہ بار بار کی تحریکوں کے بعد سولہ سال تک معاملہ ہنوز روز اول رہے یہ اسی امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر واقع ہو تو اس قدر ہوگا کہ پیر بدر الدین نے جھگڑا کاٹنے کےلئے علاقہ انگریزی کی تھوڑی جائداد سے چھوٹا حصہ رسمی طور کا جیسا مصالحتوں میں ہوتا ہے، نہ جدی حصہ جیسا برا بر کے بھائیوں کو دیا جاتا ہے مدعیوں کو دینا گوارا کیا، پیر سراج الدین نے بھی اس پر سکوت کیا مگر ریاست کی جائداد نہ کبھی دینی چاہی نہ اس میں مزاحمت ترک کی نہ مدعیوں کے پاس کوئی کافی ثبوت تھا وہ ارادہ کرتے تھے اور بیٹھ رہتے تھے تحصیل منچن آباد میں درخواست دی اور حاضر نہ ہوئے، بقول مدعیان محکمہ بندوبست کی ہدایت ہوئی اور وہاں نہ گئے اس کے بعد تحصیل میں پھر درخواست دی اور پیروی کو نہ آئے یہ سب قرائن ان کے بے اصلی دعوٰی کے ہیں اور کچھ بھی قرینہ نہ ہوتا تو بار ثبوت ان کے ذمہ تھا جس سے وہ آج تک سبکدوش نہ ہوئے بالجملہ اس کاغذ پنجم کی حالت سب سے زیادہ ردی ہے ثبوت میں اس کانام لینا شرع تو شرع عقل عرفی سے بھی میل نہیں رکھتا۔
کاغذ ششم نمبر۱۱ تحریری نور الدین
 (۲۷) نرے کاغذ کی بے اعتباری تو دلائل قاہرہ سے بار بار ہم ثابت کر آئے مگر یہ کاغذ ایک شہادت ہے کوئی فیصلہ نہیں کسی کاغذ محکمہ کی نقل نہیں کوئی تمسک نہیں جن میں کاغذی ثبوت برخالف اصول شرع آجکل قابل توجہ سمجے گئے ہیں جو کسی واقعہ کی شہادت ادا کرنا چاہے وہ ایک پرچہ پر لکھ کر کسی فریق کو دے دے اور فریق اسے محکمہ میں پیش کرے کہ یہ فلاں کا بیان ہے جس کے ساتھ اتنی شہادت بھی نہ ہو کہ فلاں نے ہمارے سامنے یہ کاغذ لکھا یہ دستخط اسی کے ہیں اس نےہمارے سامنے کئے محض فریق کے زبانی بیان پر  وہ کاغذ شہادت میں لے لیا جائے ایسا تو شایدقانون و رواج میں بھی نہ ہوگا شرع کا حکم تو پہلے ہی سن چکے کہ بجوئے نخرند۔
(۲۸) صاحب افسر مال نے فقرہ نمبر۹ میں مولوی نورالدین پیش کردہ مدعا علیہ کو یوں مشکوک ٹھہرایا کہ اس میں اہتمام کیا گیا ایک روپیہ کے کاغذ پر لکھائی گئی حالانکہ فریق مقدمہ جسے رواجاً اپنی سند سمجھے اس میں رواجی استحکام کی کوشش کوئی منشاء شک نہیں ہوسکتی شاید اگرسادہ پرچہ لکھا ہوتا تو اس پر یہ شک ہوتا کہ کچے کاغذ کا کیا اعتبار، مگر انصافاً اگر شک جاتا ہے تو تحریر پیش کردہ مدعیان زیادہ محل ریب ہے نور الدین کی اپنے دل کی لکھی ہوئی اتنی ہی بات ہے جو اس نے تحریر اول میں لکھی کہ نکاح میں نے پڑھایا اور یہ دونوں وقت نکاح موجود تھے اگر اس وقت اس کے ذہن میں یہ ہوتا کہ میرے پڑھائے ہوئے نکاح  سے پہلے خفیہ نکاح ہولیا تھا تو وہ ضرور اسے ذکر کرتا یا کم از کم ایسا لفظ نہ لکھتا جو اس کے علم کے خلاف مدعیوں پر ناحق برا اثر ڈالتا مگر جب وہ تحریر دے چکا اور مدعیوں کو اس سے اپنا ضرر ظاہر ہوا تو تیسرے دن یہ دوسری تحریر پیدا کی گئی یا جس طرح ممکن ہو ا ایک عاجز مولوی سے لی گئی۔
(۲۹) نرے کاغذی ثبوت ماننے والوں کو یہ کہنا پڑے گا کہ دونوں تحریریں مولوی نور الدین کی ہیں او اس نے یا تو پہلی تحریر میں اخفائے حق کیا او مدعا علیہ کی خاطر یا کسی طمع سے مدعیوں کو ضرر پہنچا نا چاہا یا دوسری تحریر میں خلاف حق بات بنائی اور مدعیوں کے لحاظ خواہ کسی لالچ سے مدعا علیہ کو نقصان رسانی چاہی بہر حال اس کی شاہدت ساقط ہوگئی اور اس کی بات قابل التفات نہ رہی۔
(۳۰) بالجملہ مدعیوں کا یہ کاغذ پیش کرنا ان کو نافع تو کچھ نہ ہوا مگر ان کے ضرر کا دروازہ کھول گیا اسی کاغذ سے ظاہر ہوگیا کہ وہ اپنی ماں کے نکاح مشہور کے وقت اپنا موجود ہونا تسلیم کرتے ہیں اور اس لاعلاج مرض کا یوں مداوا چاہتے ہیں کہ نور الدین کہتاتھاکہ پیر صدر الدین نے کہا تھا کہ ایک نکاح خفیہ دعو گواہوں کے سامنے پہلے0 ہولیا تھا نکاح مشہور کے وقت ان کا موجود نہ ہونا تو یہ خودمان چکے، رہا یہ کہ پہلے کوئی خفیہ نکاح ہوا تھا اس کا ثبوت دینا ان پر عائد ہو ا جس سے وہ آج تک عہدہ بر آنہ ہوئے، عہدہ برآ نہ ہونا درکنار س کی طرف رخ بھی نہ کیا اور کیونکر رخ رکتے، وہ جانتے تھے کہ اس کا چارہ ان کی قدرت میں نہیں، کیافقط نور الدین کا بیان نکاح کو ثابت کردے گا کیا شرع میں اس کی کوئی نظیر ہے کہ صرف ایک شاہد کے بیان اقرار سے نکاح ثابت ہوجائے تمام کتب اور خود قرآن عظیم میں تصریح ہے کہ کم از کم دو گواہوں کی ضرورت ہے و مدعیان نہ نکاح مشہور سے پیدا ہوئے نہ نکاح خفیہ ثابت کرسکے پھر کس بنا پر وارث بن بیٹھے۔
 (۳۱) فرض کیجئے کہ نکاح خفیہ مان بھی لیا جائے تو اس کی کوئی مدت بیان میں نہ آئی  کہ کب اور نکاح مشہور سے کتنا پہلے ہوا نورالدین نے صرف چند سال کہا جس کا صدق تین بلکہ اردو کا چند دوسال پر بھی ممکن، اور گواہ نکاح مولوی غلام قادر کا بیان ہے کہ نکاح مشہور کے وقت اﷲ بخش آٹھ سال اور الٰہی بخش چار برس کا تھا غرض اس قدر میں شک نہیں کہ حالت مبہم ہے اور تحریر مولوی نور الدین سے کچھ نہیں ثابت ہوسکتا کہ ان کی ولادت بعد نکاح خفیہ ہوئی، نہ اقرار پیر صدر الدین میں اس کا کچھ تذکرہ، صدرالدین نے اتنا ہی تو کہا کہ پہلے نکاح خفیہ کرچکا ہو، یہ کب کہا کہ مدعی اسی نکاح خفیہ سے پیدا ہیں، مدعی درکنار اس نے نکاح خفیہ و مشہور کے بیچ میں اپنی کوئی اولاد ہونے کا اصلا ذکر نہ کیا پھر خفیہ نکاح سے مدعیوں کا پیر صدر الدین کی اولاد ہونا کیونکر ثابت ہوا عجب ہے کہ صاحب افسر مال نے فقرہ نمبر۹ میں ایسے مہمل کاغذ کوجواب دندان شکن فرمایا جو انصافاً خود اپنے پیش کرنے والے ہی کو ضرر رساں ہے۔

(۳۲) ثالث صاحبان او صاحب افسر مال نے فقرہ نمبر۹و ۲۱میں یہ تو لکھا کہ صحت نکاح کے لئے دو گواہ کافی ہیں اس قدر سے اعلان ہوجاتا ہے، بیشک ہوجاتا ہے اور ضرور کافی ہیں مگر اس طرف کسی صاحب نے توجہ نہ فرمائی کہ دو گواہوں کے سامنے ہونے کا ثبوت بھی تو درکار ہے یا بلاثبوت رجماً بالغیب مان لیاجائےگا کیا ان گواہوں نے خود آکر ثالثوں یا صاحب افسر مال کے سامنے شہادت دی، کیا انہوں نے اپنی شہادت پر دو شاہدعدل اپنے نائب کرکے بھیجے اور انہوں نے بمراعات شرائط شرعیہ شہادۃ علی الشہادۃ اد اکی یا کیاہوا کچھ بھی نہ ہو ا دو گواہ ہونے کاثبوت کیا ہے پیر صدر الدین کا اقرار، ان کے اقرار کا ثبوت کا ہے؟ مولوی نورالدین کا بیان،ان کے بیان کاثبوت کیا ہے؟ ایک کاغذ میں کچھ حرف لکھے ہوئے ہیں، اس کاغذ کا ثبوت کیا ہے؟ صرف مدعیوں کا بیان، توحاصل یہ ٹھہراکہ نری مدعیوں کی زبان نکاح خفیہ کی گواہ ہے اور اسی کی بناء پر اسے مانا گیا ہے حالانکہ
  باطل ست آنچہ مدعی گوید
 (جو کچھ مدعی نے کہا ہے وہ باطل ہے۔ت)

ایسا ثبوت اگر مان لیا جائے تو نرے عرضی دعوٰی ہی پر کیوں نہ مدعیوں کو ڈگری دیا جایا کرے آخر وہ اس میں بھی تو کہا کرتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں ہمارا بیان سچا ہے غرض اس کاغذ کا سند میں نام لینا بھی شرعاً عقلاً عرفاً کسی طرح کوئی معنی نہیں رکھتا۔ الحمدﷲ تمام کاغذی سندوں کے جواب سے فراغ پایا اور واضح ہوگیا کہ ان میں ایک پرچہ بھی قابل استناد نہیں۔ اب امر ہفتم کی طرف چلئے۔
Flag Counter