فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
9 - 151
مسئلہ ۱۴و۱۵: مسئولہ سراج الدین جج بہاولپور (پنجاب)۱۵/شعبان المکرم شنبہ۱۳۳۴ھ
بسم اﷲالرحمٰن الرحیم، بعالی خدمت جناب مولوی احمد رضاخان صاحب مدفیوضکم کیا فرماتے ہیں علمائے دین اور مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ آیا مسلمان مرد عورت کے نکاح اثبات میں غیر مسلم کی شہادت پر حصر کرنا
جائز ہے، حسب ذیل صورتوں میں کس طرح حکم دینا چاہئے:
(ا) ایک مسلم مرد کا نکاح ایک مسلمہ عورت کے ساتھ ہوا، گواہان ایجاب وقبول میں ایک گواہ یا دونوں گواہ غیر مسلم ہیں، آیا نکاح ثابت قرار دیا جاسکتا ہے؟
(ب) انعقاد نکاح کے وقت کی کئی شہادات ہیں لیکن غیر مسلم گواہ بروئے شہرت عامہ اس مسلم کا مسلمہ کے ساتھ نکاح سننا بیان کرتے ہیں، آیا ایسی صورت میں نکاح ثابت قرار دیا جاسکتا ہے؟بینواتوجروا
الجواب: نہ پہلی صورت میں نکاح ثابت ہوسکتا ہے،
درمختار میں ہے:
شرط حضورشاہدین مسلمیں لنکاح مسلمۃ۲؎۔ مسلمان عورت کے نکاح کے لئے دو مسلمان گواہوں کا موجود ہونا شرط ہے(ت)
(۲؎ درمختار کتاب النکاح مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۸۷۔۱۸۶)
نہ دوسری صورت میں مانا جاسکتا ہے، درمختار میں ہے:
الشہادۃ شرطہا الولایۃ فیشترط الاسلام لوالمدعی علیہ مسلما۳؎۔
شہادت کی شرط ولایت ہے چنانچہ مدعی علیہ اگر مسلمان ہو تو شاہد کا مسلمان ہونا شرط ہوگا۔(ت)
(۳؎ درمختار کتاب الشہادات مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۹۰)
اور قاعدہ کلیہ کہ کسی مسلمان مرد خواہ عورت پر نکاح، طلاق، بیع، ہبہ، اجارہ، وصیت، جہاں بھر کے کسی معاملہ میں کافر کی شہادت اصلاً کسی طرح مسموع نہیں،
قال اﷲ تعالٰی ولن یجعل اﷲ للکٰفرین علی المؤمنین سبیلا۴؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا:اﷲتعالٰی کافروں کیلئے مومنوں پر ہرگز کوئی سبیل نہ بنائیگا۔واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۴؎ القرآن الکریم ۴ / ۱۴۱)
مسئلہ۱۶: ازریاست رامپور مرسلہ جناب امداد حسین صاحب مورخہ ۳/جمادی الآخر ۱۳۳۸ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بشیر نے اپنی زوجہ مسماۃ اکبری کی رخصت کا دعوٰی کچہری دیوانی میں مسماۃ اکبری اوراس کی دادی مسماۃ عجوبہ پر کہ جس نے مسماۃ اکبری کو روک لیا تھا کیا، مسماۃ اکبری نے باوجود اطلاع کچہری کے جواب دہی نہیں کی بلکہ سکوت کیا مسماۃ عجوبہ کچہری میں جوابدہ ہوئی اور منکر نکاح ہوئی، بشیر سے ثبوت نکاح طلب کیا گیا، اس نے پانچ گواہ پیش کئے تین گواہوں نے کہ جن کے نام عبدالعزیز، میرنجی، ننھے ہیں اس امر کی شہادت ادا کی مسماۃ اکبری نے ہمارے سامنے جھنا چودھری کو اپنے نکاح کے واسطے وکیل کیا، جھنا چودھری نے نکاح بشیر کے ساتھ پڑھوادیا نکاح ہوگیا اور چندہ میاں اور احسان ہر دو گواہوں نے یہ گواہی دی کہ جھنا چودھری نے ہمارے سامنے مسماۃ اکبری بنت علی حسین کا نکاح بشیر ولد منا کے ساتھ پڑھوایا اور بشیرنے قبول کیا، اب دریافت طلب امریہ ہے کہ گواہان مذکورمیں یہ اختلاف ہیں کہ ایک نے بیان کیاہے کہ مسماۃاکبری پستہ قد ہے دوسرے نے لانباقد بیان کیا ہے ایک نے دالان میں ایک نے آنگن میں جو ملے ہوئے نکاح ہونا بیان کیا ہے، ایک نے عمر دس بارہ سال اور باقیوں نے عمر بیس اور پچیس سال بیان کی ہے، آیا ان اختلافات کی وجہ سے شہادت قابل قبول ہے یانہیں؟اور باوجود سکوت مسماۃ اکبری اور مسماۃ عجوبہ نسبت عمر قابل قبول شرعاً ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب: یہ باتیں زائد ہیں ان میں اختلاف سے شہادت پر کوئی اثر نہیں پڑتا جبکہ شہودثقات وعدول وقابل قبول ہوں، اور اگر ایسے نہیں اور حاکم نے انہیں متہم سمجھا اور ایسے اختلافوں کی بنا پر ان کی شہادتیں رد کردیں تو اسے اس کا اختیار ہے۔
عالمگیریہ میں محیط سے ہے:
فی نوادر ابن سماعۃ عن ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی قال ابوحنیفۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ اذااتھمت الشہود فرقت بینھم ولاالتفت الٰی اختلافھم فی لبس الثیاب وعددمن کان معھم من الرجال والنساء ولاالی اختلاف المواضع بعد ان تکون الشہادۃ علی الاقوال، وان کان الشہادۃ علی الافعال فالاختلاف فی المواضع اختلاف فی الشہادۃ قال ابویوسف اذااتھمتھم و رأیت الریبۃ فظننت انھم شہود الزور افرق بینھم واسألھم عن المواضع والثیاب ومن کان معھم، فاذااختلفوا فی ذٰلک فھذاعندی اختلاف ابطل بہ الشہادۃ کذافی المحیط۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
نوادر ابن سماعہ میں امام ابویوسف رحمۃ اﷲتعالٰی علیہ سے مروی ہے امام ابوحنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا اگر گواہوں پر تہمت پاؤں تو ان میں تفریق کردوں گا اور ایسے اختلاف کی طرف التفات نہیں کروں گا کہ ان کا لباس کیا تھا اور ان کے ساتھ کتنے مرد اور عورتیں تھیں اور نہ ہی جگہوں کے اختلاف کی طرف التفات کروں گا بشرطیکہ شہادت اقوال پر ہو، اور اگر شہادت افعال پر ہو تو جگہوں کا اختلاف شہادت میں قرار پائے گا۔ امام ابویوسف رحمۃ اﷲ تعالی علیہ نے کہا کہ اگر گواہوں کے بارے میں میرے دل میں کوئی تہمت اور شک آئے اور میرا گمان ہوکہ یہ جھوٹے گواہ ہیں تو میں ان کو جدا جدا کروں گا اور ان سے لباس، جگہ اور ان کے ساتھ موجود افراد کے بارے میں پوچھوں گا اگر اس میں ان کے بیان مختلف ہوئے تو میرے نزدیک یہ گواہی میں اختلاف ہے جس کی بنیاد پر میں گواہی مسترد کردوں گا، محیط۔واﷲتعالٰی اعلم(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب ادب القاضی الباب الخامس عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۳/ ۳۴۵)
مسئلہ۱۷: ازملک بنگال معرفت محمد شجاعت علی خان طالب علم مدرسہ منظر اسلام ۲۵ربیع الاول۱۳۳۹ھ
برائے شہادت طلاق نادانستی چیست؟ بینواتوجروا۔
شہادت طلاق میں تاخیر اور کوتاہی کا کیا حکم ہے؟بیان کرو اجر پاؤ گے۔(ت)
الجواب: اگر طلاق رجعت است بتاخیر شہادت آثم نشود مگر آنکہ بدانکہ رجعت نکرد وعدت گزشت و باز بے نکاح تصرف میخواہد آنگاہ تاخیر روانیست، ہمچناں اگر طلاق بائن است وبے تجدید نکاح دست از تصرف ندارد یا مغلظہ است، بے تحلیل بحبالہ نکاح آوردن خواہد ادائے شہادت بے دعوٰی ہیچ مدعی فرض ست واگر بے عذر تاخیر کند مردود الشہادۃ بوددر اشباہ است شاہد الحسبۃ اذااخر شہادتہ بلا عذر یفسق ولاتقبل شہادتہ۲؎
اگر طلاق رجعی ہے تو گواہی میں تاخیر کرنے سے گنہگار نہ ہوگا مگر وہ شخص جو جانتا ہے کہ خاوند نے رجوع نہیں کیا اور عدت گزرچکی ہے اور وہ بغیرنکاح جدید اس عورت کو اپنے تصرف میں لانا چاہتا ہے تو اس صورت میں تاخیر شہادت جائز نہیں، اسی طرح طلاق بائن کی صورت میں اگر خاوند تجدید نکاح کے بغیر تصرف سے دستبردار نہیں ہوتا یا طلاق مغلظہ دی ہے اور حلالہ کے بغیر دوبارہ اس کو نکاح میں لانا چاہتا ہے تو ایسی صورت میں کسی مدعی کے دعوٰی کے بغیر ہی شہادت کی ادائیگی فرض ہے اگر بلاعذر تاخیر کرے گا تو مردود الشہادۃ ہوجائیگا،
(۲؎ الاشباہ والنظائر الفن الثانی کتاب القضاوالشہادات والد عاوی ادارۃ القرآن کراچی ۱/ ۳۹۴)
کما فی القنیۃدرقنیہ قولے آوردہ است کہ مدتش پنج روز ست وصواب آنست کہ مدار بر تاخیر از وقت حاجت ست کم باش بابیش کما بینہ فی غمز العیون۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اشباہ میں ہے کہ شاہد حسبہ(لوجہ اﷲ گواہی دینے والا) اور بلاعذر گواہی میں تاخیر کرے تو فاسق ہوجانے کی وجہ سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جائیگی جیساکہ قنیہ میں ہے، ور قنیہ میں یہ قول مذکور ہے کہ اس تاخیر کی مدت پانچ دن ہے۔ صحیح یہ ہے کہ حکم مذکور کا مدار بوقت ضرورت گواہی میں تاخیر پر ہے چاہے مدت کم ہو یا زیادہ، جیساکہ غمز العیون من بیان کیا ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔(ت)