Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
89 - 151
 (۱۹) ان سب امور سے اگر قطع نظر بھی کی جائے تو اس کا حاصل کتنا، صرف اس قدر کہ پیر بدر الدین نے مدعیوں کو اپنا بھائی تسلیم کیا مولوی عطا محمد صاحب کا اس پر اعتراض بہت صحیح ہے کہ جب وارث متعدد ہوں تو ایک کے اقرار سے مورث پر نسب نہیں ثابت ہوسکتایہ اگرچہ خود اپنے اقرار پر ماخوذ ہو جبکہ اس پر قائم رہے مگر دوسروں پر اس کا اثر کچھ نہیں پڑسکتا امام ابویوسف کی روایت اول تو خلاف مذہب امام اعظم مختار ہونی مسلم نہیں، نہ بہ اخذ الکرخی کہنے سے اس کا مفتی بہ ہونا ثابت، اور یہ ایک لفظ دیکھنا او ظاہر المتون علی ترجیح قولہما چھوڑ دینا بس عجیب ہے۔

ثانیاً وہ روایت صراحۃً اس صورت میں ہے کہ ایک ہی وارث ہو اور وہ دوسرے کی نسبت وراثت کا اقرار کرے اور دو یا زیادہ وارثوں میں سے ایک نے اقرار کیا تو بالاتفاق نسب ثابت نہ ہوگا، ثالثوں کی نظر نے یہاں کوتاہی کی، اسی قرۃ العیون کو اگر ایک ورق  پہلے دیکھتے تو یہ دھوکا نہ ہوتا، وہ عبارت مولوی عطا محمد کے فیصلہ میں گزری، 

اور جامع الفصولین جلد ۲ صفحہ ۴۵میں ہے:
الوارث لو واحدا فاقر بابن اخر للمیت لایثبت نسبہ من المیت خلافا لابی یوسف والشافعی واجمعواانہ یشارکہ فی الارث لنا ان مجرد تحمیل النسب علی الغیر لایقبل کما لو اقربہ فی حیاتہ او علی انسان اٰخر اوکان فی الورثۃ غیرہ۱؎اھ۔
اگر ایک وارث نے میت کے لئے کسی اور بیٹے کا اقرار کیا تو اس کے ایک اقرار سے اس کا نسب میت سے ثابت نہ ہوگا اس میں امام ابویوسف اور امام شافعی رحمہما اﷲ تعالٰی کا خلاف ہے تاہم اس پر سب کا اتفاق ہے کہ وہ مقرلہ وراثت میں شریک ہوگا ہماری دلیل یہ ہے کہ غیر کی طرف نسب منسوب کرنا بغیر دلیل معتبر اور مقبول نہیں جیسا کہ زندہ شخص کی طرف یا دوسرے شخص کا نسب یا وارثوں میں کوئی دوسرا بھی ہواھ (ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل التاسع والعشرون    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۴۵)
ملاحظہ مسل سے واضح ہے کہ اس اقرار میں پیر سراج الدین شریک نہ تھا بلکہ وہ اس تحریر کے وقت موجودبھی  نہ تھا اس کی طرف سے اگر اس اقرار کا رد ثابت نہیں تو اس کی تسلیم کا بھی پتہ نہیں غایت درجہ سکوت ہے، اورشرع کا قاعدہ مقررہے کہ
لاینسب الٰی ساکت قول
 (کسی ساکت کی طرف کوئی قول منسوب نہ ہوگا۔ت) جامع الفصولین واشباہ والنظائر وردالمحتاروغیرہا میں اس کی تصریح ہے یعنی سکوت کرنے والے کو کسی بات کا قائل نہیں ٹھہرایا جاتا مستثنٰی صورتیں جو ان کتابوں اور ان کے شروح وحواشی میں ذکر کی ہیں یہ مسئلہ ان میں داخل نہیں۔ اظہار تحصیل منچن آباد سے جو صاحب افسر مال نے پیر سراج الدین کا بھی اس اقرار کو تسلیم کرنا نکالا ہے اس کا حال ان شاء اﷲ عنقریب آتا ہے۔
 (۲۰) شرع مطہر میں ایسے رشتے کا اقرار جس میں اپنے غیر پر نسب لازم کرنا ہو جیسے کسی کو اپنا بھائی بتانا کہ اس میں باپ پر نسب لازم کیا گیا خود اس مقر کے مال میں بھی اتنا ضعیف و کمزور مانا گیا ہے کہ جب تک کوئی دور کے رشتہ کا ضعیف ساضعیف وارث موجود ہو بلکہ کوئی رشتہ دار بھی نہیں صرف مولی الموالاۃ ہو اس وقت تک یہ شخص جس کے نسب کا اقرار کیا ہے خود مقر کے ترکہ میں سے کچھ نہیں پاسکتا تمام کتب میں اس کی تصریح ہے ایسے واضح اور مشہور مسئلہ کو چھوڑ کر روایت امام ابویوسف کے وہ معنی قرار دینا اور اسے مفتی بہ ٹھہرانا سخت عجیب ہے،

 طحطاوی ج ۴ ص۳۷۳ میں ہے:
ان کان للمقر وارث معلوم غیرالزوجین قریب او بعید فھو اولی بالمیراث من المقر لہ لانہ لما لم یثبت نسبہ منہ لایزاحم الوارث المعروف ولا مزاحمۃ اذاکان الوارث احد الزوجین وان لم یکن لہ وارث مزاحم استحق المقر لہ میراثہ لان للمقر ولایۃ التصرف فی مال نفسہ عدم الوارث۱؎۔
اگر اقرار کرنے والے کے اپنے قریب بعید کوئی بھی زوجین کے علاوہ معروف وارث موجود ہوں تو مقرلہ کی نسبت وہ معروف وارث وراثت کا زیادہ حقدار ہے کیونکہ جب مقرلہ کا نسب ثابت نہیں ہے تو وہ معروف ورثاء کے مقابل نہیں آسکتا، اور جب زوجین میں سے کوئی ایک دوسرے کا وارث ہوتو وہاں کوئی مزاحمت نہ ہوگی، اور اگر ان مقرلہ کے مقابل کوئی بھی معروف وارث نہ ہوتو پھر مقرلہ مقر کی وراثت کا حقدار ہے کیونکہ مقر کو اپنے مال میں تصرف کی ولایت ہے۔(ت)
(۱؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار    کتاب الفرائض     دارالمعرفۃ بیروت    ۴/ ۳۷۳)
جامع الرموز صفحہ ۶۱۳میں ہے:
ولواقر رجل بنسب من غیر ولادقریب بینھما کالاخ والعم والجد وابن الابن لایصح اقرارہ بالنسب۲؎۔
اگر مقر (اقرار کرنیوالے) نے ولادت کے علاوہ کسی قریبی رشتہ کا اقرار کیا جیسے بھائی،چچا، دادا پوتا ہونے کا۔ تو یہ اقرار نسب صحیح نہ ہوگا۔(ت)
 (۲؎ جامع الرمو ز    کتاب الاقرار     مکتبۃ الاسلامیہ     گنبد قاموس ایران     ۳/ ۴۵۸)
ایضاح شرح اصلاح للعلامۃ ابن کمال پاشا قلمی ص ۴۲۶میں ہے:
لایصح لما فیہ من تحمیل النسب علی غیر فلا یرث الاعند عدم وارث معروف قریبا کان او بعیدا۳؎۔
صحیح اس لئے نہیں کہ اس میں غیر پر نسب ٹھونسنا ہے تو کسی قریب یا بعید معروف وارث کی عدم موجودگی میں ہی مقرلہ وارث ہوسکے گا
 (۳؎ ایضاح شرح اصلاح)
اگر ایک اس کے اقرار سے نسب ثابت ہوجاتا تو وارث قوی کا ضعیف تر وارث سے محرورم کردینا کیا معنی رکھتا بلکہ واجب ہوتا کہ اس سے نیچے درجے کے جتنے ورثاء ہوں سب اس کے آگے محروم ہوں لیکن ایسا قطعاً نہیں تو ثابت ہوا کہ نسب ثابت نہ ہوا۔
 (۲۱) ایسے نسب کا اقرار اگرچہ مقر کے مال پر نافذ ہومگر یہ ایک فقہی فتوٰی ہے اور حکم یا قاضی کو مطلقاً اختیار نہیں ہوتا کہ وہ صورت میں جو حکم مسئلہ پائیں اس پر فیصلہ کردیں ان کا حکم اس حدتک محدود رہتا ہے جس قدر انہیں قاضی یا حکم کرنے والے نے اختیار دیا ہے مثلاً تقلید قضا میں سلطان نے یہ قید لگادی کہ تجھے فلاں روزقضا کا اختیار دیا تو اسی دن اس کا حکم حکم قاضی ٹھہرے گا دوسرے دن کچھ نہیں، یا یہ تخصیص کردی کہ تجھے فلاں مکان میں اختیار قضا ہے تو وہ اس مکان کے اندر ہی قاضی رہے گا اس سے باہر کچھ اختیار نہیں رکھتا، یا یہ شرط لگادی کہ تجھے فلاں فلاں قبیلے یا فلاں فلاں اشخاص پر قاضی کیا تو وہ انہیں کا فیصلہ کرسکتا ہے ان کے ماوراء میں مثل اور رعایا کےہے علٰی ہذا القیاس جو قید لگادی جائے اس کے ساتھ مقید رہے گا کہ  وہ بذات خود والی نہیں بلکہ دوسرے کے ولایت دینے سے ولایت پاتا ہے تو وہ جس شرط کے ساتھ اختیار دے گا اسی کے ساتھ مختص رہے گا بعینہ یہی حال حکم کا ہے قاضی کی تولیت جانب فریقین سے تو فریقین ثالثوں کوجن شرائط کا پا بند کرینگے اسی قدر انہیں اختیار فیصلہ ہوگا باقی میں وہ ایک راہ چلتے اجنبی کے مثل ہیں، 

اشباہ ص۲۲۳میں ہے:
القضاء یجوز تخصیصہ وتقییدہ بالزمان والمکان واستثناء بعض الخصومات کما فی الخلاصۃ۱؎۔
قضا کو کسی زمانہ، مکان اور بعض خصومات سے مقید اور مخصوص کرناجائز ہے، جیسا کہ خلاصہ میں ہے۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب القضاء     ادارۃ القرآن کراچی    ۱/ ۳۶۹)
درمختار جلد چہارم ص۵۳میں ہے:
القضاء یتخصص بزمان ومکان و خصومۃ حتی لو امر السلطان لعدم سماع الدعوی بعد خمسۃ عشر سنۃ فسمعھا لم ینفذ۲؎۔
قضاء کو کسی زمانہ مکان اور خصومت سے مختص کرنا جائز ہے حتی کہ اگر سلطان نے پندرہ سال بعد دعوٰی کی سماعت سے روک دیا ہو اور قاضی نے اس مقررہ مدت کے بعد سماعت کی تو نافذ نہ ہوگی۔(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب القضاء     فصل فی الحبس    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۱)
ردالمحتار صفحہ مذکور میں ہے:
قال فی الفتح الولایۃ تقبل التقیید والتعلیق بالشرط کقولہ اذاوصلت الی بلدۃ کذافانت قاضیھا والاضافۃ کجعلتک قاضیافی راس الشھر و والا ستثناء کجعلتک قاضیا الافی قضیۃ فلان ولا تنظر فی قضیۃ کذا۱؎۔(ملخصاً)
فتح میں فرمایا کہ ولایت شرط سے تعلیق و تقیید کو قبول کرسکتی ہے مثلاً سلطان کا یہ کہنا کہ جب تم فلاں شہر پہنچ جاؤ تو تم وہاں کے قاضی ہوجاؤ گے، اور اضافت و نسبت کو بھی قبول کرسکتی ہے کہ میں نے تجھے فلاں ماہ کے شروع سے قاضی بنایا، اور ولایت استثناء کو بھی قبول کرسکتی ہے مثلاً یوں کہہ جائے کہ میں نے تجھے فلاں کیس کے ماسوا میں قاضی بنایا یوں کہ فلاں کیس کو زیر غور نہ لانا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۴۲)
نیز صفحہ۵۳۱میں ہے:
یکون القاضی معزولا عنہا لما علمت ان القضاء یتخصص۲؎۔
قاضی کی قضاء خاص ہوسکتی ہے اس لئے وہ اس تخصیص کی بناء پر معزول ہوتا ہے(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     فصل فی الحبس    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۴۲)
درمختار صفحہ ۵۳۹جلد ۴ میں ہے:
التحکیم تولیۃ الخصمین حاکما یحکم بینھما۳؎۔
ثالثی دو فریقوں کا کسی کو حاکم بنانا کہ وہ ان دونوں میں فیصلہ کرے۔(ت)
 (۳؎ درمختار   کتاب القضاء       باب التحکیم    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۲)
یہاں فریقین نے اقرار نامہ ثالث میں یہ قید لگا دی تھی کہ اگر ان کا شرعاً نسب ثابت نہ ہوتو ان کا میراث سے کچھ تعلق نہ ہوگا اور بشرط اولاد صحیح النسب ہونے کے فتوٰی ثالثان ناطق ہوگا جس کا صاف حاصل یہ تھا کہ نسب ثابت نہ ہو تو دربارہ وراثت انہیں حکم کا اختیار نہیں،ثالث چہارم نے کہ ثبوت نسب نہ مانا اور وراثت مال کی نسبت فیصلہ دیا معلوم نہیں یہ کس اختیار سے تھا یہیں سے ظاہر ہوا کہ صاحب افسر مال کا فقرہ نمبر۲۵ میں فیصلہ ثالث چہارم سے یہ استناد کہ اصل مطلب کی بات یعنی وراثت مال انہوں نے بھی مان لی ہے اسی قدر کافی ہے، ایک محض بے اثر چیز سے استناد ہے۔
Flag Counter