Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
88 - 151
کاغذ سوم صلحنامہ پیر بدر الدین
 (۱۴) یہ کاغذمدعیوں کا سب سے زیادہ مابہ الاستناد ہے ہر محکمہ میں اپنے دعوٰی کی بناء اسی پر رکھی ہے اورعموماً فیصلہ کرنے والوں نے بھی اسے کوئی بڑی چیز سمجھا یہاں تک کہ اگر خلاف بھی کیا تو نہ بربنائے اعتباری بلکہ اور وجوہ سے، اس سب کا منشاوہی ہے کہ آج کل ہندیوں کے ذہن میں رواج قانون کے باعث قانونی باتیں اصول مسلمہ کے طور پر جمی ہوئی ہیں اگرچہ شرع مطہر میں ان کی کچھ اصل نہ ہو مدعیان و قانونی حکام سے تعجب، عجب تو ان اہل علم سے ہے جن سے شرعی سوال ہوا اورشریعت کا حکم دریافت کیاگیا اور ان سے جن کو شرعی فیصلہ کے لئے مقدمہ سپرد ہوا اور جن سے فریقین نے صاف کہہ دیا کہ قانونی رواجی باتیں چھوڑ دی گئیں محض احکام شرعیہ سے فیصلہ کرو تاہم ان صاحبوں نے توجہ نہ فرمائی اور اپنے فتوٰی اور اپنے فیصلہ میں ایسی چیز معتبر مانی جو شرعاً محض بے بنیاد ہے ہم نمبر۸ میں فتاوٰی قاضی خاں و فتاوٰی خیریہ واشباہ والنظائر سے لکھ آئے کہ قاضی صرف تین طور پر حکم دے سکتا ہے یا تو گواہان شرعی قائم ہوں یا مدعا علیہ دعوٰی تسلیم کرلے یا اس پر حلف رکھاجائے اور وہ قسم سے انکار کردے ان کے سوا نرا کاغذ کوئی چیز نہیں، نہ اس پر عمل ہوسکے۔ 

نیز فتاوٰی خیریہ  جلد ۲صر ۱۱میں ہے:
المقرعند علماء الحنفیۃ انہ لااعتبار بمجرد الخط ولا التفات الیہ اذحجج الشرع ثلاثۃ وھی البینۃ اوالاقرار والنکول کماصرح بہ فی اقرارالخانیۃ فلا اعتبار بمجرد المحضر المذکور ولا التفات الیہ الااذا ثبت مضمونہ بالوجہ الشرعی اعنی باحدی الحجج الشرعیۃ المشار الیہا۱؎۔
علماء احناف کے ہاں طے شدہ ہے کہ محض خط قابل التفات ہے اور نہ ہی قابل اعتبار ہے کیونکہ شرعی دلائل صرف تین ہیں: گواہی، اقرار اور قسم سے انکار، جیسا کہ خانیہ نے اقرار کی بحث میں تصریح کی ہے لہذا محضر نامہ مذکور قابل اعتبار اور قابل التفات نہ ہوگا سوائے اس کے کہ اس کا مضمون شرعی طریقہ یعنی مذکور شرعی دلائل سے ثابت ہوجائے (ت)
 (۱؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب ادب القاضی     دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۱۲)
نیز اسی کے صفحہ ۲۲جلد ۲ میں ہے:
ابرز کتاب من السجل فوجد فیہ کذا و کذا ولیس الموجود فیہ سوی خط فی ورق لیس من حجج الشرعی فی شیئ۲؎(ملتقطا)
قاضی نے پہلے ریکارڈ میں سے چٹھی نکالی اس میں کوئی مضمون لکھا ورق پایا تو وہ شرعی دلیل کے بغیر حجت نہ بنے گا(ملتقطا)۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی خیریہ    کتاب ادب القاضی باب خلل المحاضروالسجلات    ۲/ ۲۴)
جوہرہ نیرہ ج ۳ص ۲۴۵ میں ہے:
ولا یقبل الکتاب الابشہادۃ رجلین او رجل وامرأتین لان الکتاب یشبہ الکتاب فلا یثبت الابحجۃ تامۃ ۱؎اھ۔
کوئی مکتوب دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت کے بغیر مقبول نہ ہوگا کیونکہ مکتوب دوسرے مکتوب کے مشابہ ہوتا ہے لہذا شرعی حجت کے بغیر پایہ  ثبوت کو نہ پہنچے گا اھ (ت)
 (۱؎ الجوہرۃ النیرۃ     کتاب آداب القاضی     مکتبہ امدادیہ ملتان    ۲/ ۳۴۵)
دیکھو کیسی صاف تصریحیں ہیں کہ ایسی جملہ تحریرات نرے کاغذ ہیں جن میں سیاہی سے نقش بنے ہوئے ہیں اور  وہ شرع میں حجت ہونا درکنار اصلاً التفات کے قابل نہیں۔

(۱۵) دو اوین قضاۃ یعنی دفتر حکام لیجے توہم نمبر۸،۹میں ردالمحتار و ہدایہ و فتح القدیر وخیریہ سے بیان کر آئے کہ دفتر حکام وہی معتبر ہے جو خاص ان کی حفاظت میں ان کے مہر و نشان کے نیچے ہو اور یہ کہ آج کل کے محافظ دفتر ی مسلمانوں کے ساتھ بھی خاص نہیں نہ کہ ثقہ عادل کے ساتھ اور نہ کہ جو نقل فریق کے ہاتھ میں ہو ہر گز قابل اعتماد نہیں۔

(۱۶) نمبر۸ میں یہ بھی گزرا کہ دفتر حکام کا اعتبار بھی بضرورت ان مقدمات میں ہے جن کو زمانہ دراز گزرا اوران پر ثبوت شرعی نہیں مل سکتا جہاں کا معاملہ تازہ ہے حاکم خود اپنے دفتر پر کارروائی نہ کرے گا بلکہ انہیں طرق شرعیہ بینہ و اقرار ونکول کی طرف رجوع ضروری ہوگی اس پر ردالمحتار کی عبارت گزری،

 نیز اسی میں ہے:
لا بد من تقییدہ بتقادم العھد کما قلنا توفیقا بین کلامھم۲؎۔
قدیم زمانہ کی قید ضروری ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے فقہاء کرام کے کلام میں تطبیق دیتے ہوئے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار         کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۹)
(۱۷) خود صاحب افسر مال نے ان کاغذات کا بہت اچھا فیصلہ کردیا کہ انہیں کتاب القاضی الی القاضی کے باب سے سمجھا جائے واقعی کچہری سے آئی ہوئی نقلیں اگر محمول ہوسکتی ہیں تو اسی پر اور تمام کتب مذہب کا اتفاق ہے کہ کتاب القاضی الی القاضی بے شہادت عادلہ کاملہ ہر گز معتبر نہیں اگرچہ اس پر قاضی کے دستخط اور دارالقضاء کی مہر بھی ہو، اس پر عبارات کتب نمبر۱۱میں گزریں۔

(۱۸) بلکہ انصافاً صلحنامہ کی عبارت کتاب القاضی الی القاضی کی حد تک پہنچ ہی نہیں سکتی، شہادت ہونا نہ ہونا بالائے طاق، صلحنامہ نہ حاکم نے خود لکھا، نہ اسکے سامنے لکھا گیا، نہ مسل میں یہی بیان ہے کہ پیر بدر الدین نے حاکم کے سامنے اس کے لکھنے یا اس پر دستخط کرنے سے اقرار کیا بلکہ حاکم کے سامنے استفسار پر جواس کابیان ہو نا ذکر کیا جاتا ہے اور جس پر فریق کی تصدیق بھی موجود ہے وہ بیان تحریر صلحنامہ سے قاصر ہے صلحنامہ میں کل جائداد ریاست وانگریزی کی نسبت تصفیہ ہونا مذکور ہے اور بیان استفسار میں صرف جائداد وعلاقہ انگریزی ذکر ہے جسے شبہ کیا جاسکتا ہے کہ پیر بدر الدین نے قطع نزاع و رفع فسادکے لئے جائداد علاقہ انگریزی میں مدعیوں کو دوخمس دینا گوارا کرلیا کہ وہ قلیل وکم حیثیت ہے بڑاحصہ اس کا اور ریاست کی وافر جائداد اپنے اور اپنے بھائی کے لئے کافی سمجھی، راضی نامہ میں کاتب نے خود فریق کی تحریک سے تمام جائداد ذکر کردیا ہو تو وہ کچھ مؤثر نہیں ہوسکتا ہمارے علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اعتبار اس کا ہے جو تمسک لکھانے والے نے اپنی زبان سے کہا اس کا کچھ اعتبار نہیں جو کاتب نے لکھا، 

فتاوٰی خیریہ جلد ۱ صفحہ ۱۲۸میں ہے:
العبرۃ بما تلفظ بہ الواقف لالما کتب الکاتب فمن عبارات علمائنا العبرۃ لما ھوالواقع فی نفس الامر۱؎اھ۔
واقف کے تلفظ کا اعتبار ہے نہ کہ کاتب کی لکھائی کا جیسا کہ ہمارے علماء کرام کی عبارات میں ہے کہ صرف نفس الامر  میں واقعہ کا اعتبار ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریۃ     کتاب الوقف    دارالفکر بیروت    ۱/ ۴۰۔۱۳۹)
بدر الدین کا لکھا ہوا نام کوئی دلیل شرعی نہیں کہ اسی کے قلم سے ہے، نہ نشان خط ملنے کا کوئی اعتبار، ہدایہ و عالمگیری وغیرہا صدہا کتب مذہب میں تصریح ہے کہ
الخط یشبہ الخط۲؎
 (خط خط کے مشابہ ہوتا ہے۔ت)اس کی کچھ عبارتیں اوپر بھی گزریں،
 (۲؎ الہدایۃ     کتاب الشہادۃ     فصل مایتحملہ الشاہد علی ضربین     مطبع یوسفی لکھنؤ     ۳/ ۱۵۷)
نیز اشباہ والنظائر صفحہ ۳۶۱ وغیرہا میں ہے:
فاستکتب وکان بین الخطین مشابھۃ ظاہرۃ دالۃ علی انھما خط کاتب واحد لایحکم علیہ بالمال فی الصحیح ۳؎۔
اس نے کچھ لکھوایا اور دو خطوں میں واضح مشابہت ہے کہ ایک ہی کاتب کے معلوم ہوتے ہیں تو مالی معاملات میں اس لکھائی پر فیصلہ نہ دیا جائے گا صحیح قول میں۔(ت)
(۳؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثالث     احکام الکتابۃ ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۱۹۸)
اور بالفرض دستخط اسی نے کئے جب بھی کچھ بعید نہیں کہ اس نے صرف جائداد انگریزی کی نسبت کہا اور کاتب نے عمداً یا غلطاً کل کی نسبت لکھ دیا اوراس نے اس اعتماد پر کہ جو میں نے کہا وہی لکھا ہوگا خاص نظر نہ کی اور دستخط کردئے ایسا ہونا کچھ دور نہیں۔ 

ہدایہ جلد دوم ص۵۷۱میں ہے:
اذاکتب کتاب الشراء علی وصی کتب کتاب الوصیۃ علی حدۃ وکتاب الشراء علی حدۃ لان ذٰلک احوط، ولو کتب جملۃ عسی ان یکتب الشاہد شہادتہ فی اٰخرہ من غیر تفصیل فیصیر ذٰلک حملا علی الکذب۱؎۔
کوئی شخص جب وصی کا تقرر کرکے اس کو خریداری کا اختیار لکھوانا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وصیت نامہ اور اس کا اختیار نامہ علیحدہ علیحدہ لکھوائے کیونکہ اس میں احتیاط ہے، اگر دونوں کو اکٹھا لکھوایا تو ہوسکتا ہے کہ گواہ اپنی شہادت آخر میں بغیرتفصیل درج کرے جس کی بناپر وہ تحریر جھوٹ پر محمول ہوجائے۔(ت)
 (۱؎ الہدایہ     کتاب الوصایا    باب الوصی ومایملکہ    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴/ ۶۹۴)
اسی کے ہامش پر کافی اما م نسفی سے ہے:
کتب اشتری من فلان وصی فلان واشھد علیہ قوما وفیہم من لم یشھد علی الایصاء فربما یشھد بالکل فیکون حملالہ علی الکذب۲؎۔
کاتب نے یوں لکھا کہ فلاں نے فلاں سے چیز خریدی اور کچھ لوگوں کی گواہی بھی لکھی اور ان گواہوں میں کوئی ایسا شخص بھی تھا جو وصیت کے وقت موجود نہ تھا تو ہوسکتا ہے کہ وہ خریداری کی شہادت میں وصیت کی شہادت بھی کہہ دے تو اس سے گواہ کو جھوٹ پر آمادہ کرنا لازم آتا ہے۔(ت)
 (۲؎ حواشی الہدایۃ مع الہدایہ  کتاب الوصایا    باب الوصی ومایملکہ    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۴/ ۶۹۴)
کیا ہم علانیہ نہیں دیکھتے ہیں کہ اس نے مجوز کے سامنے صرف جائداد انگریزی کا اقرار کیا ہے تحریر صلحنامہ کے بعد حاکم کے سامنے بیان اس کی تصدیق و تحقیق کےلئے ہوتا ہے نہ یہ کہ فیصلہ تو قرار پایا ہو ایک ہزار پر اور بیان میں اقرار کرے پانچ سو کا پھر فریق بھی سن کر تصدیق کرے کہ یہ بیان صحیح ہے،
Flag Counter