Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
87 - 151
 (۱۱) صاحب افسر مال نے فقرہ نمبر۲۵ میں ایسے کاغذات کو کتاب القاضی الی القاضی کے قبیل سے مان کر معتبر ٹھہرانا چاہاہے، یہ فقرہ بہت قابل قدر ہے، ہم بخوبی تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے کاغذات جو کچہریوں سے آئیں کتاب القاضی الی القاضی کے قبیل سے ٹھہرائے جائیں مگر اب یہ دیکھنا رہا کہ کتاب القاضی القاضی کن شرائط سے مقبول ہوسکتی ہے، تمام کتب میں تصریح ہے کہ اس کا قبول صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ قاضی شرع جسے سلطان اسلام نے فصل مقدمات کے لئے مقرر کیا ہو اس کے سامنے مثلاً کوئی شرعی گواہی گزری اس نے دوسرے شہر کے قاضی شرع کے نام خط لکھا کہ میرے سامنے اس مضمون پر شہادت شرعیہ قائم ہوئی اور اس خط میں اپنا اور مکتوب الیہ کا نام و نشان پورا لکھا جس سے امتیاز کافی واقع ہو اور وہ خط دو گواہان عادل کے سپرد کیا کہ یہ میرا خط قاضی فلاں شہر کے نام ہے وہ باحتیاط اس قاضی کے پاس لائے اور شہاد ت ادا کی کہ آپ کے نام یہ خط فلاں قاضی فلاں شہر نے ہم کودیا اور ہمیں گواہ کیا کہ یہ خط اس کا ہے اب یہ قاضی اگر اس شہادت کو اپنے مذہب کے مطابق ثبوت کےلئے کافی سمجھے تو اس پر عمل کرسکتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ قاضی کاتب خط لکھ کر ان گواہوں کوسنا دے یا اس کا مضمون بتا دے او خط بند کرکے ان کے سامنے سر بمہر کردے، اور اول یہ کہ اس کا مضمون ایک کھلے ہوئے پرچہ پر الگ لکھ کر بھی ان شہود کو دے دے کہ اسے یاد کرتے رہیں یہ آکر مضمون پر بھی گواہی دیں کہ خط میں یہ لکھا ہے اور سربمہر خط اس قاضی کے حوالے کریں یہ زیادہ احتیاط کے لئے ہے ورنہ خیراسی قدر کافی ہے کہ دو مردوں یا ایک مرد دو عورتوں عادل کے خط سپرد کرکے گواہ کرلے اور وہ باحتیاط یہاں لاکر شہادت دیں بغیر اس کے اگر خط ڈاک میں ڈال دیا یا اپنے آدمی کے ہاتھ بھیج دیا تو ہر گز مقبول نہیں اگرچہ وہ خط اسی قاضی کا معلوم ہوتا ہو اور اس پر اس کی اور محکمہ قضا کی مہر بھی لگی ہو اور اس کے سوا اور شرائط بھی ہیں کہ ہم نے اپنے فتاوٰی کتاب الصوم میں ذکر کیں۔ 

درمختار میں ہے :
القاضی یکتب الی القاضی وان لم یحکم کتب الشہادۃ لیحکم المکتوب الیہ بھا علی رأیہ وقرأ  الکتاب علیہم اواعلمھم بما فیہ وختم عندھم وسلم الیہم بعدکتابۃ عنوانہ وھوان یکتب فیہ اسمہ واسم المکتوب الیہ وشھرتھما واکتفی الثانی بان یشھد ھم انہ کتابہ و علیہ الفتوی ولا یقبل کتاب من محکم بل من قاض مولی من قبل الامام ۱؎(ملخصاً)۔
ایک قاضی اپنے فیصلہ کو نفاذ کیلئے دوسرے قاضی کی طرف بھیجے گا، اور فیصلہ نہ کیا ہوتو شہاد لکھ بھیجے گا تاکہ مکتوب الیہ قاضی شہادت پر اپنی رائے سے فیصلہ دے، بھیجتے وقت قاضی گواہوں کو خط سنائے گا یا اس کا مضمون بتاکر مہر لگائے گا، عنوان اور پتہ لکھ کر گواہوں کے سپرد کردے گا، چٹھی میں اپنا او مکتوب الیہ قاضی کا نام اور گواہوں کی شہادت قلمبند کرے گا جبکہ دوسرا (مکتوب الیہ) قاضی گواہوں سے شہادت لینے پر اکتفاء کرے گا کہ یہ فلاں قاضی کا خط ہے فتوٰی اسی پر ہے صرف باقاعدہ سرکاری قاضی کی چٹھی قبول ہوگی ثالث کی چٹھی قبول نہ ہوگی(ملخصاً)۔ (ت)
(۱؎ درمختار  کتاب القضاء باب کتاب القاضی الی القاضی   مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۴۔۸۳)
درر وغرر میں ہے:
لایقلبہ ایضا الابشہادۃ رجلین اورجل وامرأتین لان الکتاب قدیز ور اذ الخط یشبہ الخط والخاتم یشبہ الخاتم فلایثبت الابحجۃ تامۃ۱؎۔
مکتوب الیہ قاضی چٹھی کو دومردوں یاایک مر داور دو عورتوں کی شہادت کے بغیر قبول نہ کرے گاکیونکہ چٹھی میں جعل سازی ہوسکتی ہے بوجہ اس کے کہ خط خط کے اور مہر مہر کے مشابہ ہوتا ہے لہذا چٹھی کامل شہادت کے بغیر پایہ ثبوت کو نہ پہنچے گی۔(ت)
(۱؎ الدررالحکام فی شرح غررا لاحکام     کتاب القضاء     باب کتاب القاضی     میر محمد کتب خانہ کراچی    ۲/ ۴۱۴)
ظاہر ہے کہ یہ کاغذات اصلاً ان شرائط پر نہیں آتے تو ان کا رد واجب ہوا اور ان کا قبول کرنا محض خلاف شریعت، نمبر۱ کاغذات کے متعلق یہ بیان ہم نے ان چار نمبروں میں کئے ان تمام کاغذات کے رد کو کافی ووافی ہیں جن سے ثالثوں نے استناد کیا ہے لہذا ہمیں آئندہ کاغذات کے متعلق زیادہ بحث کی ضرورت  نہ ہوگی ان چار نمبروں کے بیانات سمجھ لینے والا بے تکلف جان سکتا ہے کہ ان میں سے کوئی کاغذ اس پیمانے پر نہیں جو شریعت مطہرہ میں درکار ہے تو وہ کاغذ بادی سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ میں نہیں کہتا کہ مدعیوں کی طرف کے جو کاغذ ہیں انہیں کی یہ حالت ہے بلکہ فریقین کے کاغذی ثبوت کی یہی کیفیت ہے کہ شریعت مطہرہ کے دربار میں وہ ایک کاغذی ناؤ سے زیادہ نہیں، ہم اگر اپنے بیان میں کسی کاغذ سے استناد کریں گے تو وہ الزاماً ہوگا نہ کہ تحقیقاً۔
 (۱۲) مجھے رواج عام کی نسبت زیادہ تحریر کی ضرورت نہیں البتہ صرف افسر مال کے اس فقرہ نمبر۱۲ کے متعلق کہ''اس تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ کل مالکان کی موجودگی میں یہ واقعہ قلمبند ہوا اور اﷲ بخش و الٰہی بخش کا صحیح النسب ہونا امر محقق تھا اور کسی کو  شک وشبہ نہیں تھا یہاں تک کہ یہ ایک رواج عام مثال قرار دئے گئے جس پر آئندہ فیصلجات خاندان کی وراثت کا مدار ہے، لطافت علی صاحب تحصیلدار کی ایک تحقیقات کا بیان کردینامناسب ہے وہ اپنے فیصلہ ۲۷/ستمبر ۱۹۲۱ء فقہر پنجم میں لکھتے ہیں کہ عام تحقیقات اور موقع سے ظاہر ہے کہ بدر الدین کو خصوصاً اور اقوام چشتی گردونواح کو عموماً بلحاظ اپنی شرافت کے یہ امر نہایت ناگوار ہے کہ پیرنی زادگان یعنی عذر داران کو جائداد میں حصہ دیا جائے''۔ اس تحقیقات کو بیان موصوف صاحب افسر مال سے ملا کر دیکھنا اس خیال کی ایک واضح راہ دیتا ہے کہ مدعیان وہ نہیں جن کی نسبت معززان قوم حصہ دار ہونے پر راضی ہوچکے اور خاندان کے لئے اسے ایک نظیر بناچکے یہ وہی معزز ان قوم تو ہیں جن میں ان کو حصہ دئے جانے پر عام ناراضی ہے تو ضرور ہے کہ وہ مدعیان کو صرف پیرنی زادہ سمجھتے تھے نہ کہ پیر زادہ، اور رواج عام میں اس اولاد پیرنی کی نسبت رضامندی دی گئی ہے جو پیرزادہ یعنی نطفہ پیر صدر الدین سے ہو۔

(۱۳) احمد شاہ کا اس کتاب پر اعتراض نہ کرنا جس سے صاحب افسر مال نے فقرہ نمبر۲۵ میں استناد کیا ہے بالبداہۃ اس بناء پر نہیں کہ وہ اپنے علم ویقین سے جانتا ہے کہ پیر صدر الدین نے یہ تحریر لکھی یا اس پر مہر کی وہ تحریر احمد شاہ کی ولادت سے بھی پہلے کی ہے اس کا سکوت اس عام غلطی کی بناء پر ہے جو آج کل لوگوں میں پھیلی ہوئی ہے کہ ایسے کاغذات کو جو کچہریوں سے بے شرائط کتاب القاضی الی القاضی آتے ہیں رواجاً وقانوناً مستند سمجھے جاتے ہیں اس کے ذہن میں بھی وہی رواج قانون تھا یہ شرعی مسئلہ کہ فتوٰی دینے والے عالموں اور فیصلہ کرنے والے حاکموں پر بھی مخفی رہا،احمد شاہ اسے کیونکر جان سکتاتھا بلکہ اگر اسے معلوم بھی ہوتا جب بھی وہ کچہری میں ایسے اعتراض کا موقع نہ پاتا کہ قانونی بات کی مخالفت پر کیونکر کھڑا ہوسکتا تھا اب کہ بالاتفاق فریقین تمام رواجی وقانونی باتیں ترک کردی گئیں اور معاملہ شریعت مطہرہ کے سپرد ہوا وہ مبنی جس کی بناء پر احمد شاہ معترض نہ ہوا تھا زائل و باطل ہوگیا یہ تو اعتراض سے اس کا سکوت ہے اگر وہ اسی عام غلط فہمی پر بنا کرکے اس کاغذ کے مستند ہونے کی تصریح بھی کردیتا جب بھی وہ اقرار کہ بنائے باطل پر مبنی تھا شرعاً باطل ہوتا، جامع الفصولین واشباہ والنظائر صفحہ ۱۱۹ میں ہے:
اقر بالطلاق بناء علی ما افتی بہ المفتی ثم تبین عدم الوقوع فانہ لایقع۱؎۔
کسی شخص نے مفتی کے فتوٰی کی بناء پر طلاق کا اقرار کیا پھر واضح ہوا کہ طلاق کا وقوع نہیں ہوا تو طلاق واقع نہ ہوگی۔(ت)
(۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الاقرار     ادارۃ القرآن کراچی    ۲/ ۲۱)
یہ بحث یادرکھنے کی ہے کہ اور کاغذات کی نسبت بھی اگر احمد شاہ کے عدم اعتراض سے استناد ہو تو سب کا یہی جواب شافی و کافی ہے۔
Flag Counter