Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
86 - 151
یعنی ظاہر سے سند لانا مدعا علیہ کو مفید ہوسکتا ہے مدعی کو اصلاً مفید نہیں اور یہاں اﷲ بخش والٰہی بخش مدعی ہیں توظاہر انہیں کیا بکار آمد ہوسکتا ہے اگر کہئے رواج عام کی تاریخ ۱۸۷۲ءاورنکاح کی تاریخ ۱۲۸۶ھ کہ مولوی نورالدین نکاح خوان نے اپنی تحریر میں لکھائی دونوں کے ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت تحریر رواج رنگ بھری نکاح پیر صدرالدین میں تھی تو اس کا جواب عنقریب آتا ہے کہ تحریر مولوی نورالدین اصلاً شہادت میں لئے جانے کے قابل نہیں نہ اس پر کوئی التفات ہوسکتا ہے اور یہ امر خود مفتی موصوف کو بھی مسلم ہے۔

(۵) ثانیاً رواج عام کی عبارت تویہ کہہ رہی ہے کہ وہ عورت جس کی نسبت اقرار تھا رنگ بھری نہ تھی کوئی اور تھی اس میں عورت کو بیوہ لکھاہے اور بیوہ وہ جس کا شوہر مرگیا ہو ، رنگ بھری کنچنی تھی پیر صدر الدین سے نکاح کے ہونے تک اسی اپنے پیشہ ناجائز میں تھی ایسی عورت کو بیوہ نہیں کہتے۔ حسن اتفاق سے ۱۵/ شعبان معظم ۲۷؁ روز چہار شنبہ کو فریق دوم شیخ اﷲ بخش بھی منچن آباد سے ہمارے پاس آئے ہم نے اس خیال پر کہ شاید اہل پنجاب میں بیوہ کا کوئی اور محاورہ ہو فریق اول ان کے ہمراہی سے پہلے ہی دریافت کرلیا تھا مزید اطمینان کے لئے ان فریق دوم سے بھی استفسار کیا انہوں نے بھی جواب دیا کہ بیوہ اسی کو کہتے ہیں جس کا پہلا خاوند مرگیا ہو، ہم نے پوچھا تمہاری والدہ کا پیر صدرالدین سے پہلے کسی اور شخص سے نکاح ہوا تھا، کہا کوئی نہیں، تو صاف ظاہر ہوا کہ رواج عام کی تحریر رنگ بھری سے متعلق نہیں، اس کا جواب فریق دوم کو کچھ بن نہ آیا مگر احمد شاہ فریق اول کی طرف اشارہ کرکے کہا یہی بتادے کہ پیر صد رالدین نے اور کسی عورت سے نکاح کیا تھا، اس کا جواب ان کو دے دیا گیا کہ تم مدعی ہوتمہاری دلیل کی تصحیح تمہارے ذمہ ہے مدعا علیہ پر اس کا کوئی بارثبوت نہیں، ہوگئی کوئی عورت بیوہ جس سے پیر صدر الدین نے نکاح کیا اور لاولد مرگئی ہو۔

(۶) فرض کیجئے کہ رواج عام میں رنگ بھری کاصاف نام اور پورا پتہ لکھا ہوتا پھر بھی کیا کام آتا، یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا تھا کہ رنگ بھری کی جو اولاد ہو مطلقاً پیر صدر الدین کی وارث ہوگی اگرچہ نطفہ پیر صدر الدین سے نہ ہو، آخر رنگ بھری کا بیٹا اﷲ دتا بھی تو ہے اسے کیوں نہیں وارث ٹھہراتے، تو بالضرورۃ مطلب یہ ہے کہ رنگ بھری کی جو اولاد نطفہ پیر صدر الدین سے ہو وہ پیر موصوف کی وارث ہوگی ، اب یہ بیان ایک شرطیہ کی حیثیت میں آگیا جس سے یہ بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ پیر صدر الدین کے رنگ بھری سے کوئی اولاد ہے بھی یا نہیں، اگر فرض کیجئے کہ رنگ بھری کے بچہ سرے سے ہوتا ہی نہیں جب بھی واجب العرض میں یہ لکھا سکتے تھے کہ نطفہ پیر صدر الدین سے اس کی اولاد پیر موصوف کی وارث ہوگی جس کا مطلب وہی ہوتا ہے کہ اگر ہو، اور اس میں سر یہ ہے کہ رواج عام وواجب العرض ایک قاعدہ وقانون وضع کرنا ہوتا ہے جس پر آئندہ جزئیات کی بنا ہو جیسا کہ خود صاحب افسر مال نے فقرہ نمبر۱۲ میں فرمایا کہ''یہ ایک رواج عام مثال قرار دی گئی جس پر آئندہ فیصلجات خاندان کی وراثت کا مدار ہے'' اور ظاہر ہے کہ ایسی عام باتیں حکم شرطیہ میں ہوتی ہیں یعنی ایسا ہو تو یہ ہوگا نہ کہ کسی واقعہ کی خبر دینا کہ ایسا ہوگیا مثلاً درمختار جلد سوم صفحہ ۴۶۲میں ہے:
مایکون کفرااتفاقا یبطل العمل والنکاح واولادہ اولادزنا۱؎۔
یعنی جو بات بالاتفاق کفر ہے وہ اعمال ونکاح سب کو باطل کردیتی ہےاور اس کی اولاد والد الزنا ہے۔
 (۱؎ درمختار     کتاب الجہاد        باب المرتد    مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۳۵۹)
اس کے یہ معنی نہیں کہ جس سے کلمہ کفر صادر ہو خواہی نخواہی اس کےلئے کوئی منکوحہ واولاد ہے بلکہ وہی مطلب ہے کہ اگر اس کے کوئی منکوحہ ہو تو نکاح جاتارہے گا اگر اس سے بعد اس سے اولاد ہوگی تو ولد الزنا ہوگی بعینہ یہاں بھی یہی معنی ہیں۔ نظیر کےلئے بیان واقعہ تو وہ کہ پیر صدر الدین نے ایسی عورت سے نکاح کرلیا ہے پھر وہی قانونی حکم پر تفریع ہے کہ پیر صدر الدین سے اگر اس کے اولاد ہوئی تو وارث ہوگی ظاہر ہے کہ اس قدر محصل رواج تسلیم کرنے بھی کچھ ثابت نہ ہوا کہ اﷲ بخش والٰہی بخش کس کے نطفہ سے ہیں، عبارت رواج عام بر تقدیر تصریح نام بھی اتنا بتاتی کہ اولاد رنگ بھری جو نطفہ پیر صدر الدین سے وارث ہوگی یہ کس نے بتایا کہ یہ دونوں نطفہ پیر صد ر الدین سے ہیں تو تحریر رواج عام سے استناد محض بے معنی ہے۔

(۷) یہاں سخت استعجاب اس کا ہے کہ فیصلہ صاحب افسر مال فقرہ نمبر۱۲ میں عبارت رواج عام سے ایک فقرہ یہ نقل ہوا ہے کہ ''اس کی اولاد نرینہ موجود ہے'' اور یہی فقرہ لطافت علی صاحب تحصیلدار انگریزی کے فیصلہ میں ہے ہمارے سامنے رواج عام کی دو نقلیں باضابطہ موجود ہیں ایک ضلع منٹگمری سے آئی ہوئی اور دوسری ریاست سے لیکن دونوں میں اس فقرے کا اصلاً پتہ نہیں اب اصل عبارت رواج عام اگر فی الواقع اس فقرے سے خالی ہے جب تو امر ظاہر ہے ورنہ اس کا ہونا ان وجوہ کا سبب جو اوپر گزریں اور آئندہ آتی ہیں ثبوت نسب مدعیان میں تو بکار آمد نہیں مگر ایسی تحریرات کے نامعتبر وساقط ہونے کے لیے جس کی بحث ہم ابھی کیا چاہتے ہیں ایک کافی نظیر قابل یا دداشت ہے۔

(۸) یہ سب اس وقت ہے کہ وہ نقل جو مدعیوں نے پیش کی شرعاً سند میں لے لینے کے قابل فرض کرلی جائے ورنہ درحقیقت وہ محض لاشیئ ہے، مولوی عطا محمد صاحب کا اس پر اعتراض بہت ٹھیک ہے فی الواقع محاضرہ سجلات جہاں قابل اعتبار ہوتے بھی ہیں تو اسی قدر کہ حاکم مجوز اپنے دفتر پر جو اس کے حفظ میں اس کے مہر و نشان کے ساتھ زیر نگہبانی ہے اعتماد کرسکتا ہے مدعی مدعا علیہ جو کاغذ پیش کریں بے شہادت مقبولہ شرعیہ اصلاً قابل التفات نہیں، 

ردالمحتار جلد ۴ ص۴۷۸میں ہے:
الدیوان وضع لیکون حجۃ عند الحاجۃ فیجعل فی یدمن لہ ولایۃ القضاء وما فی یدالخصم لایؤمن علیہ التغییر بزیادۃ او نقصان۱؎۔
کاغذی ریکارڈ حاجت کے وقت دلیل بنانے کےلئے تیار کیا جاتا ہے اس لئے ایسے شخص کے قبضہ میں ہونا چاہئے جو قضاء کی ولایت والا ہو اور جو مخالف فریق کے قبضہ میں ہو وہ کمی بیشی سے محفوظ نہیں ۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۸)
نیز صفحہ مذکورہ میں ہے:
قال ابو العباس یجوز الرجوع فی الحکم الٰی دواوین من کان قبلہ من الامناء اھ ای لان سجل القاضی لایزور عادۃ حیث کان محفوظا عند الامناء ، بخلاف ماکان بید الخصم۲؎۔
ابو العباس نے فرمایا: سابق امین لوگوں کے ریکارڈ کی طرف کسی حکم میں رجوع کیا جاسکتا ہے اھ ، یعنی اس لئے کہ قاضی کا دفتری ریکارڈ جعل سازی سے عادتاً محفوظ ہے جب وہ امین لوگوں کے پاس محفوظ ہو بخلاف جب وہ مخالف فریق کے قبضہ میں ہو۔(ت)
 (۲؎ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت        ۴/ ۳۰۹)
اسی کی جلد مذکور صفحہ ۵۴۹میں ہے:
ویجب تقییدہ ایضا بما اذاکان دفترہ محفوظا عندہ فلو کانت کتابتہ فیما علیہ فی دفتر خصمہ فالظاہر انہ لا یعمل بہ خلاف لما بحثہ ط لان الخط مما یزور وکذا لوکان لہ کاتب والد فاتر عند الکاتب لاحتمال کون الکاتب کتب ذٰلک علیہ بلا علمہ۱؎۔
یہ قید بھی ضروری ہے کہ جب وہ ریکارڈ قاضی کے  پاس محفوظ ہو، تو اگر ایک کے خلاف تحریر ریکارڈ اس کے مخالف کے پاس ہو تو ظاہر یہ ہے کہ اس پر عمل نہ ہوگا۔ طحطاوی کی بحث اس کے خلاف ہے کیونکہ خط میں جعلسازی ہوسکتی ہے اور یوں ہی اگر قاضی کا کاتب ہو اور ریکارڈ کاتب کے پاس ہو تو احتمال ہے کہ کاتب نے قاضی کے علم کے بغیر دوسرے کے خلاف لکھ دیا ہو۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     باب کتاب القاضی الی القاضی     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۵۴)
فتاوٰی خیریہ ج ۲ص۱۷میں ہے:
والخط یعتمد علیہ ولا یعمل بہ ولا یعمل بمکتوب الوقف الذی علیہ خطوط القضاۃ الماضیین لان القاضی لایقضی الابحجۃ وھی البینۃ والاقرار والنکول کمافی الاقرار الخانیۃ۲؎۔
خط پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس پر عمل کیا جاسکتا ہے اور گزشتہ قاضیوں کے خط سے لکھا ہوا وقف نامہ قابل عمل نہیں کیونکہ فیصلہ حجت کی بناء پر ہی قاضی کرسکتا ہے اور شرعی حجت صرف گواہی ، اقرار اور قسم سے انکار ہے جیسا کہ خانیہ کی بحث اقرار میں ہے(ت) بعینہ اسی طرح اشباہ والنظائر صفحہ ۲۰۵ میں ہے.
(۲؎ فتاوٰی خیریۃ  کتاب القضاء    باب التحکم        دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۱۹)
 ہدایہ جلد دوم ص۱۰۴میں ہے:
انما الخلاف فیما اذاوجد القاضی شہادتہ فی دیوانہ او قضیتہ لان مایکون فی قنطرۃ فھو تحت ختمہ ویومن علیہ من الزیادۃ والنقصان فحصل لہ العلم بذلک، ولا کذٰلک الشہادۃ فی الصک لانہ فی ید غیرہ۳؎۔
اختلاف صرف اس صورت میں ہے کہ جب قاضی ریکارڈ یافیصلہ میں کسی شہادت کو پائے اوراگر ریکارڈ قاضی کے خاص مہر والے بکس میں ہوتو کمی بیشی سے محفوظ سمجھا جائے گا تو اس سے قاضی کو علم ہوجائیگا ، کسی کاغذ پر لکھی ہوئی شہادت کا معاملہ ایسا نہیں کیونکہ وہ غیر کے تصرف میں ہے(ت) اسی طرح ردالمحتار جلد ۴ص۵۸۰ میں ہے۔
 (۳؎ الہدایۃ     کتاب الشہادات     فصل مایتحملہ الشاہد علی ضربین    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۵۷)
فتح القدیر جلد ۵ص۱۹ میں ہے:
انی اری انہ اذاکان محفوظا ما مو نا علیہ من التغیر کان یکون تحت ختمہ فی خریطتہ المحفوظۃ عندہ ان یترجح العمل بھا بخلاف مااذاکان عند غیرہ لان الخط یشبہ الخط۱؎۔
میری رائے ہے کہ یہ جب محفوظ اور تغیر سے اطمینان ہو کہ اس کے پاس محفوظ بیگ مہر زدہ میں ہوتو اس پر عمل کو ترجیح ہے بخلاف جبکہ وہ غیر کے پاس ہو ، کیونکہ خط دوسرے خط کے مشابہ ہوسکتا ہے (ت)
 (۱؎ فتح القدیر     کتاب الشہادات    فصل فی کیفیۃ الاداء    مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶/ ۴۶۵)
 (۹) یہیں سے ظاہر ہوا کہ فیصلہ صاحب افسر مال فقرہ نمبر۲۵میں جو اس کاغذ کے اعتبار پر قول شیخ ابو العباس سے استناد کیابجائے خود نہیں شیخ ابو العباس کے کلام میں کلرکوں یعنی کاتبوں محرروں کا ذکر نہیں بلکہ امناء فرمایا ہے اور اس سے مراد قضاۃ ہیں جس پر قبلہ کا لفظ دال ہے یعنی قاضی اپنے سے پہلے امناء کے دفتروں پر عمل کرسکتا ہے جب کہ وہ ان کے پاس محفوظ رہا ہو،ولہذا درمختار میں اس کے بعد خیریہ سے نقل کیا:
ان کان للوقف کتاب فی سجل القضاۃ وھو فی ایدیھم اتبع مافیہ استحسانا۲؎۔
جب وقف کی کتاب قاضی کے ریکارڈ میں ہو اور اس کی نگرانی اور قبضہ میں ہو تو استحساناً اس  کے مندرجات کی اتباع کی جائیگی (ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۰۹)
اور اگر امین سے عام بھی مراد ہو تو دفاتر زمانہ کچھ امنائے شرعیہ ہی کے ہاتھ میں محفوظ نہیں رہتے بلکہ محافظ دفتر وغیر ہم اکثر نا مسلم بھی ہوتے ہیں جو شرعاً کسی طرح امین نہیں ہوسکتے ، نہ ان کی حفاظت پر اعتماد ، نہ ان کے قول یا فعل پر اعتبار ، یہی حالت نقل نویسوں اور قاریوں اور سامعون کی ہے اور جو کوئی کچہریوں کی کارروائی سے آگاہ ہے وہ ایسے کاغذات پر دستخط حکام کی بھی حقیقت جانتا ہے ، کارکن لوگ عام ازیں کہ مسلم ہوں یا کافر، ثقہ ہوں یا فاسق، انہوں نے کام کیا اور کاغذات کا ایک انبار حاکموں کے سامنے دستخطوں کے لئے رکھ دیا، حاکم کو ایک اجمالی حالت کے سوا تفصیل پر بھی پوری اطلاع نہیں ہوتی، نہ کہ نقول کے ایک ایک حرف کا خود مقابلہ کرنا یہ تو قطعاً نہیں ہوتا ، نہ وہ ایسے متفرقات کی طرف توجہ کی فرصت پاسکتے ہیں پھر دستخط حاکم ہونے نے کیا فائدہ دیا، اب یہیں دیکھئےصاحب افسر مال عبارت رواج عام سے یہ فقرہ نقل کرتے ہیں کہ ''اس کی اولاد نرینہ موجود ہے'' اور ہمارے سامنے دو نقلیں باضابطلہ حاضر ہیں، ایک میں بھی ان لفظوں کا پتہ نہیں تو معلوم ہوا کہ نقول میں کمی بیشی ہوجاتی ہے اور وہ صالح اعتمادنہیں۔
 (۱۰) علامہ شامی نے جہاں شیخ ابو العباس کا یہ کلام نقل کیا اس کے متصل ہی یہ افادہ فرمایا کہ دفتر جب بروجہ کامل زیر نگہداشت حاکم محفوظ ہو اس کا اعتبار بھی صرف بضرورت ان مقدمات میں ہے جن کو زمانہ مدید گزرچکا، شاہدوں کا انتقال ہوگیا، تازہ معاملہ ان میں داخل نہیں، وہ شرع کی اسی اصل کلی کے نیچے ہے کہ "لایعتمد علی الخط ولا یعمل بہ" (خط پر اعتماد اور عمل نہ کیا جائیگا۔(ت)نرے کاغذ پر نہ اعتماد ہو نہ اس پر اعتماد ہوسکے،  عبارت شیخ ابوالعباس کے متصل کلام فتاوٰی خیریہ جو ابھی ہم نے ذکر کیا نقل کرکے فرماتے ہیں :
والظاھر ان وجہ الاستحسان ضرورۃ احیاء الاوقاف ونحوھا عند تقادم الزمان بخلاف السجل الجدید لامکان الوقوف علی حقیقۃ مافیہ باقرارالخصم او البینۃ فلذالایعتمد علیہ۱؎۔
استحسان کی وجہ ظاہری طور پر یہ ہے کہ قدیم اوقاف اور اس جیسے امور کو زندہ رکھنے کے لئے ضرورت ہے برخلاف جدید ریکارڈ کےکہ اس میں حقیقت پر اطلاع فریق کے اقرار یا گواہی سے ممکن ہے اس لئے اس پر اعتماد نہیں کیا جائیگا۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۹)
Flag Counter