Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
85 - 151
کاغذ اول رپورٹ پٹواری

(۱) فتوائے ثالثان کا بیان کہ''پٹواری کے سامنے سراج الدین و بدرالدین نے مدعیان کو اپنے بھائی لکھوائے ہیں''سخت عجب ہے اولاً وہ اگر ہے تو صرف بدرالدین کا بیان جس میں اظہار سراج الدین کانام نہ نشان۔

(۲) اس کے کس لفط کس حرف میں بدرالدین نے اﷲ بخش والٰہی بخش کو اپنا بھائی کہا اس نے تو صاف اس کے خلاف یہ بیان کیا کہ وہ دونوں قبل از نکاح پیدا ہوئے ہیں اس سے اتنا بھی نہ کھلا کہ نطفہ پیر صدرالدین سے پیداہوئے ۔ کنچنیان جو بلا نکاح رکھی جاتی ہیں مقید نہیں ہوتیں کیا خبر ان کی اولاد کس سے ہے ، نہ ہر گز اس بیان میں پیر بدر الدین نے معاذاﷲصراحۃً اپنے باپ کو زنا کی طرف نسبت کیا کنچنی کو لے کر چلا جانا گانا ناچ دیکھنے سننے کے لئے بھی ہوسکتا ہے کچھ زنا ہی ضرور نہیں، اور بفرض غلط اگر بدر الدین کی یہی مراد مانی جائے تو بھی ان کے بھائی ہونے کا اقرار کہاں ہوا، ایسی اولا بے نکاح کو شرع اس صاحب نطفہ کی اولاد کب مانتی ہے، رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الولد للفراش وللعاھر الحجر۱؎۔
بچہ اس کا جس کا نکاح ہے اور زانی کیلئے پتھر۔
 (۱؎ صحیح البخاری     کتاب البیوع    وکتاب الوصایا     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۷۶و۳۸۳)

(مسند امام احمد بن حنبل     ترجمہ حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ     دارالفکرو بیروت     ۱/ ۵۹)
(۳) بالفرض اس میں اگر سراج الدین کا بھی نام ہوتا اور بھائی ماننے کی صریح تصریح بھی جب بھی کیا حجت ہوسکتا ہے کہ یہ نہ سراج الدین کا بیان ہے نہ بدرالدین کا ، بلکہ ایک پٹواری کا قول ہے کہ انہوں نے ایسا بیان کیا جس کی عدالت بھی معلوم نہیں ، کیا شرع میں کسی کا اقرا رایک شخص واحد مجہول العدالۃ کے بیان سے ثابت ہوسکتا ہے' ہرگز نہیں،
قال اﷲ تعالٰی واشھدو اذوی عدل منکم۲؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اپنے میں سے دو عادل گواہ بناؤ۔(ت)
 (۲؎ القرآن الکریم    ۶۵/ ۲)
پٹواریوں کی سیکڑوں رپورٹیں اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے خلاف واقع گزرا کرتی ہیں ہر شخص جسے زمین داری سے تعلق رہا ہے اسے اپنے تجربے سے جانتا ہے میں نہیں کہتا کہ عنایت اﷲ نے ایسا کیا مگر تحسین ظن اور چیز ہے اور حجت شرعیہ دوسری چیز۔
کاغذ دوم رواج عام
(۴) رواج کی نسبت ثالثوں کا فرمانا کہ اس میں مدعیوں کو پیر صدر الدین نے وارث لکھا ہےبہت سخت عجب ہے رواج عام کی عبارت سامنے موجود ہے اس میں نہ مدعیوں کا نام ہے نہ مدعیوں کی ماں کا نام صرف اس قدر ہے کہ'' صدر الدین نے ہمراہ عورت بیوہ قوم پیرنی کے نکاح کرلیا ہے اولاد اس کی بعد وفات صاحب جائداد کے مالک ہوگی'' اس سے کیاثابت ہوا کہ کون عورت اور کس کی اولاد یہ اقرار اگر ہے تو محض مجہول کے لئے ہے جس کی جہالت سخت فاحشہ ہے بیوہ عورت قوم پیرنی لاکھوں ہیں اور ایسے مجہول کے لئے اقرار بالاتفاق باطل ہے۔ 

ہدایہ جلد دوم صفحہ ۱۶۵میں ہے:
جہالۃ المقربہ لایمنع صحۃ الاقرارلان الحق قدیلزمہ مجھولا بان اتلف مالایدری قیمتہ بخلاف الجہالۃ فی المقرلہ لان المجھول لایصح مستحقا۱؎۔
جس چیز کا اقرار کیا جائے وہ مجہول ہو تو مانع اقرار نہیں کیونکہ حق مجہول ہوتے ہوئے بھی لازم ہوجاتا ہے یوں کہ اقرارکیا کہ چیز تلف کی ہے جس کی قیمت معلوم نہیں بخلاف مقرلہ یعنی جس کے حق میں اقرار کیا ہو کیونکہ مجہول شخص مستحق نہیں بن سکتا۔(ت)
(۱؎ الہدایہ     کتاب الاقرار     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۲۳۰)
بحرالرائق جلد ہفتم ص۲۷۲ میں ہے:
جھالۃ المقر لہ مانعۃ من صحتہ ان تفاحشت کل واحد من الناس علی کذا۲؎۔
مقرلہ کی جہالت فاحشہ اقرار کی صحت کے لئے مانع ہے اس میں تمام لوگ شامل ہیں۔(ت)
 (۲؎ بحرالرائق    کتاب الاقرار    ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷/ ۲۵۰)
تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق جلد پنچم ص۴ میں ہے:
لوکان المقربہ مجہولا لایمنع صحۃ الاقرار بخلاف الجہالۃ فی المقرلہ سواء تفاحشت اولالان المجہول لایصلح مستحقا ھکذا ذکر شمس الائمۃ وذکر شیخ الاسلام فی مبسوطہ والناطفی فی واقعاتہ انہا اذا تفاحشت لایجوزوان لم تتفاحش جاز۳؎۔
اگر مقربہ یعنی جس چیز کا اقرار ہو، مجہول ہو تو وہ اقرار کی صحت کےلئے مانع نہیں بخلاف مقرلہ کے خواہ یہ جہالت وسیع ہو یا نہ ہو کیونکہ مجہول شخص مستحق نہیں ہوسکتا ، شمس الائمہ نے یوں ذکر کیا ہے جبکہ شیخ الاسلام نے اپنی مبسوط میں اور ناطفی نے اپنی واقعات میں فرمایا کہ اگرجہالت فحش ہو تو مانع ہے اور یہ جہالت کھلی نہ ہو تو اقرار جائز ہے۔(ت) اسی طرح فتاوٰی عالمگیریہ جلد چہارم ص۵۹میں ہے:
 (۳؎ تبیین الحقائق     کتاب الاقرار    المطبعۃ الکبری الامیریہ بولاق مصر    ۵/ ۴)
اشباہ والنظائر صفحہ ۲۵۴میں ہے
الاقرار للمجھول باطل۱؎ الخ
(مجہول شخص کےلئے اقرار باطل ہے الخ۔ت)
  (۱؎ الاشباہ والنطائر     الفن الثانی  کتاب الاقرار ادارۃ القرآن کراچی   ۲/ ۲۰)
اس پر ثالث چہارم یعنی مولوی عطا محمد صاحب نے جو یہ خیال کیا کہ'' گواس میں نام اﷲ بخش والٰہی بخش نہیں ہے لیکن چونکہ اولاد بحسب الظاہر رنگ بھری وصدر الدین کی بغیر ان دونوں کے اور کوئی نہیں، لہذا ضرورۃ  یہی تصور کئے جائیں گے ، میں اس کے لئے بھی شرع میں کوئی اصل نہیں پاتا، اولاً کیااگر کوئی اقرار کرے کہ ایک شخص ساکن ہندوستان کے ہزار روپے مجھ پر قرض آتے ہیں تو جو کوئی ہندوستانی اس پر دعویدار ہو کر کھڑا ہوگا ہم باور کرلیں گے کہ وہ یہی ہے جسکی نسبت اقرار کیا تھا نہیں بلکہ ضروراسے ثبوت دینا ہوگا اس قدر شدید جہالت درکنار زید اگر کہے خالد کے مجھ پر سو روپے آتے ہیں پھر خالد نامی ایک شخص مدعی ہو کہ میں خالد ہوں میرے روپے آتے ہیں ہر گز اس قدر سے ثبوت دعوٰی نہ ہوگا اور مقر کااس کے حق میں انکار کرنا حلف کے ساتھ مان لیا جائے گا۔ 

وجیز امام کردری پھر ردالمحتار میں جلد دوم صفحہ ۷۵۵ میں ہے:
اذا اقر بمال لمسمی فادعی رجل انہ ھو وانکر یصدق بالحلف مالہ علی ھذا المال۲؎۔
جب ایک نے کسی مسمی شخص کے حق میں مال کا اقرار کیا اور دوسرے نے دعوٰی کیا وہ مسمٰی میں ہوں لیکن اقرار کرنے والا اس کا انکار کرتا ہے تو انکار کی قسم کے ساتھ تصدیق کی جائے گی مدعی کا اس پریہ مال نہیں ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار)
توجب صراحۃً نام لے دینے سے بھی ثبوت نہ ہوگیا کہ ایک نام کے ہزاروں ہوتے ہیں تو اتنی سخت مجہول بات کہ بیوہ پیرنی کیا مفید ثبو ت ہوسکتی ہے اگر کہئے یہاں ثبوت کا پتہ یوں چلتاہے کہ آخررنگ بھری سے پیر صدر الدین نے نکاح کیاہے اور وہ قوم کی پیرنی ہے یوں ہم نے سمجھ لیا وہ عورت یہی ہے، ہم کہیں گے کیا ثبوت ہے کہ تحریر رواج عام کے وقت رنگ بھری نکاح صد رالدین میں تھی اور ہو بھی توغایت درجہ ایک قرینہ ہے جسے مفتی نے خود ظاہر کیا اور ہدایہ وغیر ہ تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ:
الظاہر یصلح حجۃ للدفع لاللاستحقاق ۱؎۔
ظاہر حال دفاع کی دلیل ہوسکتا ہے۔استحقاق کی نہیں۔(ت)
(۱؎ الہدایہ     کتاب القضاء     فصل فی القضاء بالمواریث    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۴۷)

(ردالمحتار    باب القسامۃ        داراحیاء التراث العربی بیروت        ۵ /۴۰۵)
Flag Counter