Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
84 - 151
الجواب
اللھم ھدایۃ الحق والصواب
 (یااﷲ !حق اور درستی عطا فرما۔ت) قبل اس کے کہ ہم بتوفیق الٰہی یہاں حکم شرعی بیان کریں اتنی گزارش فریقین مقدمہ وحکام سب سے ضرور کہ معاملہ اہل اسلام کا ہے ریاست مسلمانوں کی ہے ، ابتداءً ہی ہر فریق پر فرض تھا کہ حکم شرع پر گردن رکھتا ، حکام پر فرض تھا کہ شرع مطہر کے موافق فیصلہ کرتے ۔
قال اﷲ تعالٰی
فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجد وافی انفسھم حرجا مماقضیت ویسلموا تسلیما۱؎۔
 (اﷲ تعالٰی نے فرمایا) اے نبی ! تیرے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک اپنی باہمی نزاع میں تجھے حاکم نہ بنائیں پھر جو کچھ تو حکم فرمائے اس سے اپنے دلوں میں تنگی نہ پائیں اور دل سے مان لیں۔
 (۱؎ القرآن الکریم ۴/ ۶۵)
وقال تعالٰی
الم ترالی الذین یزعمون انھم اٰمنوابما انزل الیک وما انزل من قبلک یریدون ان یتحاکمواالی الطاغوت وقد امروان یکفر وابہ ویرید الشیطٰن ان یضلھم ضلٰلا بعیدا۲؎۔
 (اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا:) کیا تونے انہیں نہ دیکھا جن کا دعوٰی ہے کہ وہ ایمان لائے قرآن مجید اور اگلی کتابوں پر، پھر یہ چاہتے ہیں کہ مخالفان خداو رسول کی بات پر فیصلہ رکھیں حالانکہ انہیں تو ان سے منکر ہونے کاحکم تھا اور شیطان چاہتا ہے انہیں دور کی گمراہی میں ڈال دے(ت)
 (  ۲؎ القرآن الکریم۴/ ۶۰)
وقال تعالٰی
یٰایھاالذین اٰمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتبعو اخطوات الشیطٰن انہ لکم عدو مبین۱؎۔
 (اور اﷲ تعالی نے فرمایا:) اے ایمان والو اسلام میں پورے پورے آجاؤ یعنی ہر بات میں احکام اسلام ہی کی پیروی کرو اور شیطانی راہ کے پیچھے نہ جاؤ بیشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔
 (۱؎ القرآ ن الکریم    ۲/ ۲۰۸   )
وقال تعالٰی
ومن لم یحکم بما انزل اﷲ فاولٰئک ھم الفٰسقون۲؎۔ وقال تعالٰی فاولٰئک ھم الظلمون۳؎۔
 (اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا) جو شریعت مطہرہ کے مطابق حکم نہ کریں تو وہی لوگ فاسق ہیں(اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا) وہی لوگ ظالم ہیں۔
 ( ۲؎ القرآن الکریم ۵/ ۴۷)(۳؎ القرآ ن الکریم   ۵/ ۴۵)
اب کہ معاملہ ثالثی تک پہنچا اور اہل علم ثالث کئے گئے اور ان سے فتوٰی طلب ہوا تو خود ہی تمام بادی چھنٹ گئی اور صرف شرع مطہر پر بنائے کار رہی ولہذا اقرار نامہ میں فریقین نے لکھ دیا تھا کہ ''کل مقدمہ سپرد ثالثان کرکے اعتراضات قانونی اوررواجی چھوڑدئے گئے ہیں'' اب صرف اتنا دیکھنا رہا کہ فتوائے ثالثان صحیح و مطابق قواعد شرعیہ ہے یانہیں، اور اس جانچ میں صرف قواعد شریعت مطہرہ پر نظر لازم ، قانونی یارواجی جھگڑوں کی طرف اصلاً التفات نہیں، نہ یہ کہ معاذاﷲ شرعی احکام کو تاویلات دور از کار کرکے قانون ورواج کی طرف ڈھالنا کہ یہ ان تمام آیات کریمہ کے صریح مخالف ہوگا، واﷲ الہادی۔
اب ہم بیان حکم شرعی کی طرف توجہ ہوتے ہیں وباﷲ التوفیق ، کاغذات ملاحظہ ہوئے یہ فیصلہ کہ ثالثوں نے کیا اور اسی پر افسر مال نے مدار حکم رکھا شرعاً محض باطل ہے اس کا بطلان بہت وجہ سے ہے، ایک یہ کہ فیصلہ کرنے والے شرعاً ثالث ہی نہ تھے، نہ ان کو اصلاً فیصلہ کا اختیار تھا نہ ان کا فیصہ کسی راہ چلتے اجنبی کی بات سے زیادہ وقعت رکھتا ہے۔

دوم اگر وہ ثالث فرض بھی کئے جائیں جب بھی انہیں خاص اس فیصلہ کا اختیار نہ تھا جو انہوں نے دیا۔

سوم اس سے بھی قطع نظر ہو تو ان کا فیصلہ بوجہ باہمی اختلاف رائے کے نامعتبر ہے۔

چہارم ان سب سے در گزر یے اور نفس فیصلہ کو دیکھئے جو تین ثالثوں نے کیا تو وہ خود ہی یکسر مخالف شرع واقع ہوا____اب ان سب وجوہ کو بتوفیق اﷲ تعالٰی بیان کرتے ہیں:
وجہ اول:  پنچوں کو فیصلہ کا اختیار اس وقت ہوتا ہے کہ ان کے حکم دینے تک فریقین ان کے پنچ ہونے پر راضی رہیں، اگر ایک فریق بھی پنچ کے حکم دینے سے ایک آن پہلے اس کی ثالثی پر ناراضی ظاہر کرے فوراً وہ ثالثی سے نکل جائے گا اور اسے حکم دینے کا کچھ اختیار نہ رہے گا اور حکم دے تو اصلاً نہ سنا جائیگا یہاں تک کہ ہمارے علماء فرماتے ہیں اگر تمام ترتیب و تکمیل مقدمہ کے بعد جب صرف حکم دینے کی دیر رہی تھی ثالث نے ایک فریق سے کہامیرے نزدیک حجت تجھ پر قائم ہوگئی میں تجھ پر حکم دیا چاہتا ہوں اس نے کہا میں تیرے ثالثی سے راضی نہیں، بس یہ کہتے ہی ثالث کو اختیار جاتا رہا اب وہ کچھ حکم نہیں کرسکتا۔ 

درمختار جلد ۴ صفحہ ۵۲۰میں ہے:
(ینفرد احدھما بنقضہ) ای التحکیم بعد وقوعہ۱؎۔
ثالث بننے والے کے فیصلہ کو ایک فریق بھی رد کرسکتا ہے۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب القضاء     باب التحکیم    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۸۲)
ردالمحتار جلد ۴صفحہ ۵۴۲ میں ہے:
لکل منھما عزلہ قبل الحکم۲؎۔
ثالث کے فیصلہ سے قبل کوئی ایک فریق بھی ثالث کو معزول کرسکتاہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء  باب التحکیم  داراحیاء التراث العربی بیروت ۴/ ۳۵۰)
فتاوٰی عالمگیری جلد ۳ ص ۱۲۱ میں محیط سے ہے:
لو وجہ الحکم القضاء علی احدھما یرید بہ ان الحکم قال لاحد الخصمین قامت عندی الحجۃ بما ادعی علیک من الحق ثم ان الذی توجہ علیہ الحکم عزلہ ثم حکم علیہ بعد ذٰلک لاینفذ حکمہ علیہ۳؎۔
اگر حکم کسی ایک فریق پر فیصلہ متوجہ کرے، سے مراد یہ ہے کہ حکم ایک فریق کوکہے کہ دعوٰی کرنیوالے کی حجت میں تجھ پر قائم سمجھتا ہوں کہ حق ہے پھر یہ فریق اس کو معزول کردے اور اس کے باوجود حکم اس فریق کے خلاف فیصلہ دے دے تو وہ فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ  کتاب القضاء     باب التحکیم     الباب الرابعون والعشرون     نورانی کتب خانہ قصہ خوانی پشاور     ۳/ ۳۹۸)
یہاں کہ احمد شاہ نے قبل حکم ثالثان ثالثی سے اپنی ناراضی بذریعہ عرضی ظاہرکی ثالثی فوراً منسوخ ہوگئی اور ثالثوں کا فیصلہ ایسا ہی ہوگیا جیسے راہ چلتا کوئی اجنبی کچھ کہہ جائے اور اس کی نسبت یہ عذر کہ درخواست تقرر ثالثان احمد شاہ کی دستخطی ہے کچھ بکار آمد نہیں، احمد شاہ نے عرضی میں فقط یہی بیان نہ کیا کہ مجھ سے جبراً تقرر ثالثان کرالیا ہے میں رضا مند نہ تھا بلکہ صاف لکھ دیا ہے کہ ''سائل بالکل رضامند نہیں جیسا کہ پہلے رضامندنہ تھا'' اس کا اس قدر لکھنا منسوخی ثالثی کےلئے کافی ہے پس ثالثی باطل محض ہوگئی اور یہ فیصلہ اصلاً قابل التفات نہیں۔
وجہ دوم: بالفرض اگر ثالثی باقی بھی رہتی تو ملاحظہ مسل سے ظاہر کہ مدعا علیہم میں ایک لڑکا خدابخش نابالغ بھی ہے اور جب کہ فیصلہ بحق مدعیان دیا گیا تو اس کا ضرر اسے بھی پہنچے گا اور ثالثوں کو کوئی اختیار نہیں کہ ایسا فیصلہ دیں جس کا اثر نابالغ پر پڑے ۔ 

ردالمحتار میں جلد ۴ص۵۴۲ میں ہے:
لایصح حکمہ بما فیہ ضرر علی الصغیر بخلاف القاضی ۱؎۔
نابالغ کے خلاف ضرر رساں فیصلہ حکم نہیں دے سکتا بخلاف قاضی کہ وہ ایسا کرسکتا ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب القضاء    باب التحکیم    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۴۹)
اور وجہ اس کی ظاہر کہ ثالثی کا حاصل فریقین کا باہمی ایک صلح کرلینا ہے احمد شاہ کو کیا اختیارکہ ایسی صلح کرے جس سے اس کے نابالغ بھائی کو نقصان پہنچے۔ 

درمختار صفحہ ۳۵۳ میں ہے:
(التحکیم) صلح معنی فلا یصح تعلیقہ ولا اضافتہ عند الثانی وعلیہ الفتوی کمافی قضاء الخانیۃ۲؎۔
تحکیم یعنی کسی کو ثالث بنانا معنیً صلح ہے لہذا اس کی تعلیق واضافت جائز نہیں، یہ امام ثانی یعنی امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک ہے اور اسی پر فتوٰی ہے، جیسا کہ خانیہ کی قضا میں ہے۔(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب البیوع    باب المتفرقات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۵۳)
ردالمحتار میں ہے:
قال فی الدرر فانہ تولیۃ صورۃ وصلح معنی اذلا یصار الیہ الابتراضیہما لقطع الخصومۃ بینھما۳؎۔
درر میں فرمایا: یہ صورتاً تولیت ہے اور معناً صلح ہے کیونکہ اس سے دونوں فریقوں کی رضامندی سے ان کے جھگڑے کو ختم کرنا مطلوب ہوتا ہے۔(ت)
 (۳؎ ردالمحتار      کتاب البیوع     باب مایبطل بالشرط الفاسد الخ     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۲۲۸)
وجہ سوم: ہم پہلے کہہ چکے ہیں اور خود فریقین نے تسلیم کیا کہ قانونی ورواجی باتیں سب بالائے طاق رکھی گئیں معاملہ صرف شریعت مطہرہ کے سپرد ہے اور یہی فرض تھا، اب شرع مطہر کا حکم سنئے ثالثی جب متعدد اشخاص کے سپردکی جائے تو ان کا وہی حکم مسلم وقابل اعتبار ہوگا جو وہ سب باتفاق رائے فیصلہ کریں اور اختلاف پڑے تو ان میں کسی کا حکم قابل لحاظ نہیں ایسے مقامات میں کثرت رائے پر نظر نہیں ہوسکتی جہاں کوئی اختیار متعدد اشخاص کو سپرد کیا گیا ہو مثلاً چند شخصوں کو وکیل کیا تو ان سب کی رائے متفق ہونا ضرور ہے یا متعدد اشخاص کو اپنے مال کا وصی کیا تو جو تصرف ہوگا سب کی مجموعی رائے سے ہوسکے گا یا چند اشخاص کو وقف کا متولی کیا تو اس میں بھی بعض یا اکثر کی رائے سے کچھ نہ ہوسکے گا جب تک سب کی رائے متفق نہ ہو بعینہ یہی حالت ثالثوں کی ہے اور ان سب کی وجہ یہی ہے کہ اختیار دینے والا مجموع کی رائے پر راضی ہوا تھانہ کہ بعض کی۔ 

اشباہ والنظائر صفحہ ۲۵۱میں ہے:
الشیئ المفوض الی اثنین لایملکہ احدھما کالو کیلین والوصیین والناظرین و القاضیین والحکمین۱؎۔
جو چیز دو کو تفویض کی جائے ایک واحد مالک نہ ہوگا جیساکہ دو وکیل ، دو وصی ، دو منتظم دو قاضی اور دو ثالث ۔(ت)
 (۱؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب الوکالۃ     ادارۃ القرآن کراچی     ۲/ ۱۶تا۱۸)
ہدایہ جلد دوم ص ۱۳۲میں ہے:
اذاوکل وکیلین فلیس لاحد ھما ان یتصرف فیما وکلا بہ دون الاٰخر وھذا فی تصرف یحتاج فیہ الی الرأی کالبیع والخلع وغیر ذلک لان الموکل رضی برأیھما لابرأی احدھما۲؎۔
جب کسی نے دو وکیل بنائے تو جس معاملہ میں دونوں وکیل ہیں، ایک وکیل دوسرے کے بغیر اس میں تصرف نہیں کرسکتا ، یہ ان امور میں ہے جن میں مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے بیع اور خلع وغیرہ، کیونکہ موکل دونوں کی رائے پر راضی ہے ایک کی رائے پر نہیں (ت)
 (۲؎ الہدایۃ     کتاب الوکالۃ فصل فی تصرف الوکیلین     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۹۱)
اسی کے صفحہ ۵۶۷ میں ہے:
الولایۃ ثبتت بالتفویض فیراعی وصف التفویض وھو وصف الاجتماع اذھو شرط مفید۳؎۔
ولایت تفویض سے ثابت ہوتی ہے لہذا تفویض کے وصف کی رعایت ضروری ہے اور یہ دونوں کی اجتماعی رائے کا وصف ہے(ت)
 (۳؎ الہدایہ     کتاب الوصایا     باب الوصی وما یملکہ    مطبع یوسفی لکھنؤ     ۴/ ۶۹۰)
اسی کے صفحہ ۹۲ میں ہے:
لو حکما رجلین لا بد من اجتما عھما لانہ امر یحتاج فیہ الی الرأی۱؎۔
اگر دونوں فریقوں نے دو ثالث بنائے تو دونوں کی اجتماعی ثالثی ضرور ہے کیونکہ یہ ایسا معاملہ ہے جس میں مشورہ کی ضرورت ہوتی ہے۔(ت)
 (۱؎ الہدایۃ     کتاب القضاۃ     باب التحکیم     مطبع یوسفی لکھنؤ     ۳ /۱۴۴)
ان عبارات میں دوکاذکر صرف تصویر مسئلہ ہے قید حکم نہیں کہ دلیل مذکورہدایہ دو اور دس سب کو شامل ہے، لاجرم ادب الاوصیاء ہامش جامع الفصولین جلد دوم صفحہ ۳۴۵میں ہے:
فی الخانیۃ وغیرہا ان حکم ھذاالفصل انہ لایتمکن احد الوصیین اوالاوصیاء من التصرف بدون حضور رأی الباقی الافیما لابدمنہ اولا یکون فیہ مدخل للرأی وھو اشیاء معدودۃ۲؎الخ۔
خانیہ وغیرہ میں ہے کہ اس معاملہ کا حکم یہ ہے کہ دو یا زیادہ وصی میں سے کسی ایک کو باقیوں کے بغیر تصرف کا حق نہیں مگر جب کوئی اہم مجبوری ہو یا معاملہ ایسا ہو جس میں مشورہ کی ضرور ت نہ ہو جبکہ یہ چند امور ہی ہیں الخ۔(ت)
 (۲؎ آداب الاوصیاء علی ہامش جامع الفصولین    فصل فی تعدد الاوصیاء     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲/ ۳۴۵)
اسی کے صفحہ ۳۵۲میں ہدایہ سے ہے:
اقر الوصیان بان معھما ثالثا یملک القاضی نصب الثلث معھما اعترافا بالعجز عن التصرف۳؎۔
دو وصیوں نے اپنے ساتھ تیسرے وصی کا بھی اقرار کیا ہو تو قاضی کو اختیار ہوگا کہ وہ کسی تیسرے کو ان کے ساتھ مقرر کرے کیونکہ ان دونوں نے تصرف سے اپنے عجز کا اعتراف کیا ہے۔(ت)
 (۳؎آداب الاوصیاء علی ہامش جامع الفصولین    فصل فی تعدد الاوصیاء     اسلامی کتب خانہ کراچی  ۲/ ۳۵۳)
یہ مسئلہ ہدایہ کتاب الشہادۃ صفحہ ۱۰۹ میں ہے:
ونصھا الوصیان اذا اقراان معھما ثالثا یملک القاضی نصب ثالث معھما لعجز ھما عن التصرف باعترافھما۴؎۔
اس کی عبارت یہ ہے دو وصیوں نے اقرار کیا کہ ان کے ساتھ تیسرا بھی ہے تو قاضی کو اختیار ہوگا کہ کسی تیسرے کو ان دونوں کے ساتھ مقرر کرے کیونکہ انہوں نے خود اپنے اعتراف سے تصرف سے عجز ظاہر کیاہے۔(ت)
 (۴؎ الہدایۃ     کتاب الشہادات باب من یقبل شہادتہ ومن لایقبل     مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳/ ۱۶۴)
عنایہ ہامش الفتح ج ۶ص۴۶ میں ہے:
شہادتھما بثالث معہما اعتراف بعجزھما عن التصرف لعدم استقلا لھما بہ۱؎۔
اپنے ساتھ تیسرے کے بارے میں ان کی شہادت اس بات کااعتراف ہے کہ وہ تصرف میں عاجزہیں کیونکہ وہ اس میں استقلال نہیں رکھتے ۔(ت)
(۱؎ العنایہ علی ہامش فتح القدیر     کتاب الشہادات     باب من یقبل شہادتہ ومن لایقبل     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶/ ۴۹۳)
فتح القدیر جلد مذکور صفحہ ۴۷میں ہے:
وصیاالمیت لما شھدابالثالث فقد اعترفا بعجز شرعی منھما عن التصرف الاان یکون ھو معھما۲؎۔
میت کے دو وصی ہیں انہوں نے جب اعتراف کیا کہ ہمارے ساتھ تیسرا ہے تو انہوں نے اپنے شرعی عجز کا اظہار کردیا کہ تیسرے کے بغیر ہم تصرف نہیں کرسکتے ۔(ت)
(۲؎ فتح القدیر    کتاب الشہادات     باب من یقبل شہادتہ ومن لایقبل     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر     ۶/ ۴۹۴)
نیز اشباہ صفحہ ۱۴۸ میں ہے:
ماثبت لجماعۃ فھو بینھم علی سبیل الاشتراک الا فی مسائل ۳؎۔ الٰی اٰخرہ وعد ثلثا لیس ھذہ منھا۔
جو امر جماعت کے لئے ثابت ہو تو وہ پوری جماعت اس میں شریک ہوگی ماسوائے چند مسائل کے جن کا عد د تین ہے یہ مسئلہ ان میں سے نہیں۔(ت)
 (۳؎ الاشباہ والنظائر     الفن الثانی کتاب النکاح     ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۱/ ۲۴۴)
تو یہاں کہ اختلاف رائے واقع ہوا ثالثوں میں کسی کا فیصلہ معتبر نہ رہا۔

وجہ چہارم : اگر یہ وجوہ کچھ بھی نہ ہوتے تو فیصلہ خود اصول شرعی کے بالکل خلاف ہوا ہے روئداد مسل اثبات نسب اﷲ بخش والٰہی بخش میں شرعاً محض ناکافی ہے ثالثوں نے اسکےلئے سات چیزوں سے استناد کیا چھ ثبوت تحریری یعنی کاغذات نمبرا ، ۲، ۳، ۵، ۹، ۱۱جن کا خلاصہ سوال میں گزرا اور ساتواں ثبوت زبانی یعنی شہادات مگر بہت افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ان میں ایک بھی میزان شرع پر کامل و کافی نہیں۔
Flag Counter