Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
83 - 151
(۱۹) فتوٰی مولوی عطا محمد مشمولہ مسل نمبر ۱۶۔ ملاحظہ مسل سے ظاہر کہ مدعیان نے بابت اثبات نسب ووراثت تین امر پیش کئے ، ایک شہادت ، دوسرا اقرار پیر صدر الدین بذریعہ نقل رواج عام جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اولاد موجودہ صدر الدین ازرنگ بھری وارث ہوں گے اس رواج عام پر مہر صدر الدین بھی ہے گواس میں نام اﷲ بخش والٰہی بخش نہیں لیکن اولاد بحسب الظاہر رنگ بھری و صدر الدین بغیر ان دونوں کے اور کوئی نہیں لہذا ضرورۃً یہی تصور کئے جائیں گے، تیسرا صلحنامہ جس میں بدر الدین کی طرف سے اقرار صریح ہے لیکن اقرار سراج الدین نہیں ثابت ہوتا کہ سراج الدین موقع پر نہ تھا۔ ایسا ہی کسی اور جگہ مسل مقدمہ سے اقرار سراج الدین ثابت نہیں جس وقت تحصیلدار منچن آباد نے مخاطب ہوکر فرمایا تم کو اس ایزادی میں کوئی عذر ہے تو سراج الدین نے بیان کیا کہ کوئی عذر نہیں، اس سے تسلیم صلحنامہ بحق جائداد ثابت ہوتا ہے نہ بحق ثبوت نسب جیسا کہ استفہام تحصیلدار وجواب سے ظاہر ہوتا ہے ۔لیکن احقر کو بہ نسبت ہر ایک امران تینوں میں سے بحق ثبوت نسب اعتراض ہے ۔ امر اول شہادت ۔ رکن شہادت شرع شریف میں لفظ اشھد یا اس کا ہم معنی چنانچہ گواہی میدہم ہے۔ 

درمختار:
رکنہا لفظ اشھد لاغیر لتضمنہ معنی مشاہدۃ وقسم واخبار للحال فکانہ یقول اقسم باﷲ لقد اطلعت علی ذٰلک وان اخبربہ وھذہ المعانی مفقودۃ فی غیرہ فتعین۱؎۔
شہادت کارکن لفظ شہادت ہے دوسرا کوئی لفظ رکن نہیں کیونکہ یہ لفظ مشاہدہ کے معنی اور قسم اور حال کی خبر کو متضمن ہے گویا کہ گواہ نے یوں کہا کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں نے اس واقعہ پر اطلاع پائی میں اس کی خبر دیتا ہوں کہ جبکہ یہ معانی کسی دوسرے لفظ میں نہیں پائے جاتے لہذا یہی لفظ شہادت متعین ہوگا۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الشہادات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۰)
ردالمحتارمیں ہے:
ولایخلو عن معنی لتعبد اذلم ینقل غیرہ۲؎۔
اور شہادت عباد ت سے خالی نہیں جبکہ شارع کی طرف سے دوسرا کوئی لفط اس عبار ت میں منقول نہیں ہوا(ت)
 (۲؎ ردالمحتار    کتاب الشہادات   داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۷۰)
تنویر الابصار :
لزم فی الکل لفظ اشھد بلفظ المضارع بالاجماع لقبولھا والعدالۃ لوجوبہ۳؎۔
تمام گواہیوں میں اشھد کا لفظ مضارع بالاجماع لازم ہے قبولیت کےلئے اور گواہوں کی عدالت وجوب کی بناء پر ضروری ہے(ت)
 (۳؎ درمختار شرح تنویر الابصار کتاب الشہادات   مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۱)
قرۃ العیون میں ہے:
حتی لو قال اعلم او اتیقن لاتقبل شہادتہ لان النصوص ناطقۃ بلفظ الشہادۃ فلا یقوم غیرہا مقامھا۴؎۔
حتی کہ اگر گواہ نے ''میں جانتا ہوں''یا''یقین رکھتا ہوں'' کہہ دیا تو قبول نہ ہوگا کیونکہ تمام نصوص لفظ الشہادۃ کو بیان کررہی ہیں اس کی جگہ دوسرا لفظ قائم مقام نہ بنے گا(ت)
 (۴؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الشہادات    مصطفی البابی مصر    ۱/ ۵۶)
مولوی اسحٰق دہلوی کا غیر ضروری کہنا اشھد کو مخالف نصوص فقہاء وماثور ہے اور بس ظاہر ہے کہ شہادات مندرجہ مسل میں لفظ اشھد یا اس کے ہم معنی کا کہیں نام ونشان نہیں لہذایہ شہادات قبول کرنا شرعاً ناجائز ہے ۔ امر ثانی اقرار صدر الدین مع نقل رواج عام میں یہ اعتراض ہے کہ دفاتر سلطانیہ سجلات محاضر کے امور مندرجہ تب حجت ہوتے ہیں کہ ان کے یا محافظ دفتروں کے ہاتھ محفوظ رہیں۔ اگر فریقین مقدمہ یا اجنبی کے ہاتھ میں آجائیں تو حجت نہیں ہوتے۔
شامی جلد ۴ص۳۲۱:
سجل القاضی لایزورعادۃ حیث کان محفوظا عند الامناء بخلاف ماکان بید الخصم۱؎۔
قاضی کے دفتری امور کے کاغذات جعل سازی سے عادۃ  اس وقت محفوظ ہوتے ہیں جب وہ امین لوگوں کے پاس محفوظ ہوں بخلاف جب وہ مخالف فریق کے ہاتھ میں ہوں۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۰۹)
چونکہ نقل رواج عام بذریعہ مدعیان پہنچی اور اصل سجل کا ملاحظہ نہ ہوا حجت شرعی نہ ہوگی ۔ امر ثالث صلحنامہ میں یہ اعتراض ہے کہ فقط اقرار بدر الدین بہ ثبوت نسب ثابت ہوتا ہے سراج الدین کا اقرار بہ نسب کسی جگہ سے ثابت نہیں،پس اقرار ایک بدر الدین بموجودگی سراج الدین مثبت نسب نہیں ہوسکتا ۔ 

تنویر الابصار :
لو اقر رجل بنسب فیہ تحمیل علی غیرہ لا یصح الاقرار، ومن مات ابوہ فاقر باخ شارکہ فی الارث ولم یثبت نسبہ۲؎۔ (ملخصاً)
اگر ایک شخص کسی کے نسب کا اقرار کرے جس سے دوسرے کے حصہ پر زد پڑے تو یہ اقرارصحیح نہ مانا جائے گا ، اگر کسی کا والد فوت ہوا اور اپنے بھائی کا اقرار کرے تو یہ بھائی اس کے ساتھ وراثت میں شریک ہوگا لیکن اس ایک کے اقرار سے والد سے نسب ثابت نہ ہوگا(ملخصا) ۔(ت)
 (۲؎ درمختار شرح تنویر الابصار     کتاب الاقرار     باب اقرار المریض    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۳۸)
عبارت قرۃ العیون سے مطلب مولوی صاحبان ثابت نہیں، عبارت مذکورہ سے مقصود بیان اس صورت کاہے کہ مقروارث واحد ہوکہ اس کے ساتھ کوئی وارث نہ ہوا، اگر وارث دیگر ہوتو ثبوت نسب اقرار واحد شخص سے بموجب روایت امام ابویوسف بھی نہیں ہوسکتا۔

خود قرۃ العیون کی اس سطر سے پہلے ملاحظہ فرمائیے:
قال فی البدائع ان الوارث لو کان کثیرا فاقر واحد منھم باخ اٰخر ونحوہ لایثبت نسبہ ولا یرث معہم ولو اقرمنھم رجلان اورجل وامرأتان یثبت نسبہ بالاتفاق، ولو کان الوارث واحدا فاقر بہ یثبت عند ابی یوسف خلافا لابی حنیفۃ ومحمد وبقول ابی یوسف اخذ الکرخی اھ وظاہر المتون علی ترجیح قولھما کما لایخفی اھ قرۃ العیون ج ۲ص۱۳۱۔
بدائع میں فرمایا اگر ورثاء کثیر ہوں تو ایک کے کسی بھائی کے متعلق اقرارکرنے سے اس بھائی کی نسب ثابت نہ ہوگی اور باقی ورثاء کے حصو ں میں شریک نہ ہوگا اور اگر ان ورثاء میں سے دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں اقرار کریں تو پھر باتفاق نسب ثابت ہوجائے گا اور اگر ایک ہی وارث اقرار کرے تو امام ابویوسف کے نزدیک نسب ثابت ہوگا بخلاف امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اﷲ، امام ابویوسف کے قول کو امام کرخی نے لیا ہے جبکہ ظاہر متون نے صاحبین کے قول کو ترجیح دی ہے جیسا کہ مخفی نہیں۔قرۃ العیون جلد ۲ص ۱۳۱ (ت)
(۱؎ قرۃ عیون الاخیار     کتاب الاقرار     باب اقرار المریض    مصطفی البابی مصر    ۲/ ۱۴۷)
چونکہ صورت مقدمہ میں بدر الدین کے ساتھ دوسرا وارث سراج الدین ہے تو اقرار بدر الدین اکیلے کابموجب روایت امام ابویوسف بھی مثبت نسب نہ ہوگا، ہر دو تحریرات مولوی نور الدین قابل اعتبار نہیں کیونکہ ان تحریرات سے نہیں جو شرعاً حجت ہو،باقی رہا اقرار بحق جائداد تو اقرار بدرالدین سے ضرور شرکت فی الوراثۃ اس کے حق میں ثابت ہے سراج الدین کا قول روبروئے تحصیلدار بظاہر تسلیم صلحنامہ بحق جائداد ہے وبلحاظ استقلال کلام وعدم ضمیر راجع کلام مستانف ہوگی مبنی براقرار نہ ہوگی، بہر حال شرکت فی الوراثت در کل جائداد یا درحصہ بدر الدین بموجب ضمانت وثابت ہوگی اور بموجب صلحنامہ اقرار بدر الدین مستحق وراثت علی حسب صلحنامہ ہوں گے ۔ خادم الشرع عطا محمد مدرس پھوگا نوالا بقلم خود فقط
 (۲۰) رپورٹ ثالثان مشمولہ مسل نمبر ۱۶۔ گزارش ہے کہ سوائے تحقیقات جدید کے مظہران فیصلہ نہیں کرسکتے اور اب تحقیقات جدید کا موقع نہیں رہا کہ احمد شاہ مدعا علیہ نے محکمہ پریذ یڈنٹی میں واسطے منسوخی ثالثان کے عرضی دی ہے اور بیان کیا ہے کہ مسل واسطے ملاحظہ کے محکمہ مذکور الصدر میں طلب کی گئی ہے اس واسطے تحقیقات جدید ملتوی کی گئی پھر جب حکم ہو تحقیقات کی جائیگی ۲۱/ جون ۱۹۰۸ء العبد اﷲ بخش چک نادر شاہی ، العبد عطا محمد مدرس عربیہ پھوگا نوالا، العبد عبدالرحیم اول مدرس عربیہ مہاران شریف۔

(۲۱) نقل عرضی منسوخی ثالثان مشمولہ مسل نمبری۱۶جناب عالی افسر صاحب مال نے من مدعا علیہ کو ثالث مقرر کرنے کو ارشاد فرمایا تھا لیکن سائل نے انکار کیا تھا اور اس میں رضامند نہیں تھا عدالت موصوف نے مجھ سے جبراً اقرار نامہ ثالثی داخل کرالیا ہے جس میں سائل بالکل رضامند نہیں جیسا کہ پہلے سے رضامند نہیں تھا لہذا التماس ہے کہ تقرر ثالثی منسوخ فرمایا جائے اورجیسی کارروائی قبل از تقرر ثالثی تھی ویسی ہی جاری کی جائے ۲۱/جون۱۹۰۸ء فدوی احمد شاہ ولد سراج الدین بقلم خود۔

نقل حکم پریذیڈنٹ: مسل کا ملاحظہ کیا گیا درخواست تقرر ثالثان دستخطی شاکی ہے ، ایک اعلٰی افسر کی نسبت بدظنی کی کوئی وجہ ہے اس لئے ناقابل التفات قرار دے کر مسل بمراد کارروائی ضابطہ واپس جائے۔ دستخط پریذیڈنٹ صاحب۔
Flag Counter