Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
82 - 151
(جواب) مظہران کو کسی طرح کا عذر اس ایزادی میں نہیں ۲/ ۵ حصہ میں نام اﷲ بخش و الٰہی بخش کا ایزادفرمایا جائے، العبد بدر الدین بقلم خود ،العبد سراج الدین چونکہ اس ایزادی میں فریقین کو کچھ عذر نہیں لیکن یہ مسل بصیغہ وراثت دائر ہے وراثت کا فیصلہ محکمہ بندوبست میں ہوچکا ہے فریقین کو ہدایت ہو کہ درخواست ایزدی نام گذران کر حسب ضابطہ ایزادی کرادیں مسل پیشی سے خارج ہوکر داخل دفتر ہو۔ مورخہ ۲۳/اکتوبر ۱۸۹۳ء ۔ چونکہ یہ مسل ماہ اکتوبر میں داخل دفتر نہ ہوئی  اب داخل دفتر ہو۲۳/نومبر ۱۸۹۳ء

(۱۰) سند مولوی نور الدین تو گیروی نکاح خواں شیخ صدر الدین و رنگ بھری پیش کردہ مدعا علیہم برحکام واضح باد کہ بتاریخ ۱۲۸۶ہجری مقدس ایں خادم الشرع عقد نکاح پیر صد ر الدین چشتی ولد پیر غلام حیدر چشتی در موضع کلاچی روبروئے گواہان قمر الدین نمبر دار کلاچی واکبر علی ساکن کلاچی و مولوی غلام قادر ساکن جمن شاہ بارنگ بھری کنجری ولد نامعلوم بستہ اﷲ بخش والٰہی بخش قبل ازیں نکاح پیدا بودند، تحریر ۲۲/ ربیع الاول ۱۳۱۰ھ العبد نور الدین توگیروی گواہ شد غلام قادر ساکن جمن شاہ
 (۱۱) سند مولوی مذکور پیش کردہ مدعیان، برعلماء وحکام واضح باد کہ صدر الدین ولد پیر غلام حیدر چشتی رابطور نصیحت چند سال قبل از نکاح مشہورہ گفتہ کہ بارنگ بھری نکاح کردہ یا نے، صدر الدین گفت من خفیہ از برادری روبروئے دو کس گواہان مسماۃ مذکورہ نکاح کردہ بودم گفتم آریں شمار اکہ ایں کار بہتر کردہ۔ تحریر ۲۶/ربیع الاول ۱۳۱۰ھ خادم الشرع نور الدین تو گیروی ۔ حشمت علی اقرار المقر ۔
مدعی حضرت کی پیش کردہ سند از مولوی مذکور علماء وحکام پر واضح ہوکہ صدرالدین ولد پیر غلام حیدر چشتی  کو نکاح مذکورہ سے قبل چند سال بطور نصیحت کہا تھا کہ تم نے رنگ بھری سے نکاح کیا ہے یانہیں کیا، صدر الدین نےجواب میں کہا میں نے برادری سے خفیہ دو گواہوں کی موجودگی میں مسماۃ مذکورہ سے نکاح کیا ہے تومیں نے کہا کہ تمہیں آفرین ہے کہ تم نے یہ کام بہت اچھا کیا۔ تحریر ۲۶/ربیع الاول ۱۳۱۰ھ خادم شرع نو ر الدین تو گیروی وحشمت علی۔

(۱۲) بیان مولوی غلام قادر مسل نمبری ۱فیصلہ ۶/ جولائی ۱۹۰۶ء تحصیل منچن آباد غلطی بندوبست باقرار صالح نام اپنا غلام قادر ولد مولوی جان محمد عمر(صہ؂) سال سکنہ جمن شاہ تحصیل پاکپٹن ، عرصہ تخمیناً اڑتیس سال کا گزرا ہوگا کہ پیرصدر الدین کا نکاح اﷲ بخش و الٰہی بخش کی والدہ رنگ بھری سے مولوی نور الدین صاحب نے روبروئے مظہر ، قمر دین، اکبر علی شاہ پڑھا تھا اس وقت اﷲ بخش سات آٹھ سال کا تھا قرآن شریف مولوی صاحب مذکور سے پڑھا کرتا تھا الٰہی بخش تخمیناً چار سال کا تھا۔ یہ ہر دو شخص اﷲ بخش الٰہی بخش اس نکاح سے پہلے موجود تھے جب بدر الدین وقاسم علی کو اس شہادت کی ضرورت پیش آئی کہ یہ دونوں لڑکے قبل از نکاح موجود تھے اور مولوی صاحب مذکور سے انہوں نے تحریر حاصل کی توشہادت کے دستخط میں نے کردئیے میرے دستخط اس کاغذ پر موجود ہیں مظہر کو بھی حال معلوم ہے العبد مولوی غلام قادر ۔
 (۱۳) دربارہ درخواست ابتدائی مدعیان در تحصیل منچن آباد مشمول مسل نمبری ۴ گزارش ہے کہ ۱۵/شوال ۱۸۹۲ء میں پیرصدر الدین پدر فریقین کا انتقال ہوگیا ہم چہار بردران کا بابت تقسیم ترکہ پدر تنازع ہوکر نالش کی نوبت پہنچی جو بتاریخ ۳/فروری ۱۸۹۳ء فیصلہ اکسٹر ااسسٹنٹ ضلع منٹگمری داخل خارج حسب ذیل املاک آنروئے آب وریاست بہاولپور بدر الدین و سراج الدین اﷲ بخش والٰہی بخش ہوکر عملدرآمد ہوا ان املاک ریاست ہذا میں قبضہ ادائے مالگزاری (۲/ ۵) وکاشت پر داشت ۲/ ۵حصہ موقع پر موجود ہے لہذا عارض کو ۲/ ۵ بلاڑہ بدر الدین بنام مظہران داخل خارج فرمایا جائے ۲۹دسمبر ۱۸۹۸ء اﷲ بخش والٰہی بخش بقلم خود ، بمراد تکمیل حوالہ قانون گوہو اور بذریعہ پروانہ اسامیاں طلب کی جائیں،۲۹دسمبر۱۸۹۸ ء۔

(۱۴) حکم ظہری پرچہ کھتونی مشمولہ مسل نمبری ۱۴۔ آج مسل پیش ہوئی۔ پایا گیا کہ فریقین نے بعد دینے درخواست باوصف اجرائے احکامات کے پیروی نہیں کی حکم ہوا کہ مسل مقدمہ بعد پیروی خارج ہو ۲۳/مارچ ۱۸۹۹ء۔

(۱۵) درخواست در بندوبست جدید ۔ درخواست غلطی بندوبست، بموجب فیصلہ شیخ عزیزالدین کلکٹر ضلع منٹگمری ، اگرچہ حقیقت پراز وقت وفات پدرم قبضہ مالگزار بموجب فیصلہ مذکور الصدر ہمارا چلا آتا ہے بموجہ غلطی بندوبست داخل خارج کاغذات سرکاری نہ ہوا چونکہ اب دوران  بندوبست ہے لہذا مستدعی کہ داخل خارج ہمارے نام بموجب فیصلہ انگریزی وپرچہ مالگزاری ۲/ ۵ حصہ فرمایا جائے۔ نقل فیصلہ و پرچہ ملکیت شامل درخواست ہے، یکم جنوری ۱۹۰۶ء مستدعی اﷲ بخش ولد پیر صدرالدین۔

(۱۶) بیان اﷲ بخش بعد درخواست مذکور نام اپنا اﷲ بخش ولد پیر صدر الدین ذات چشتی عمرو(عہ للعہ) سال بتاکر بیان کیا والد مظہر فوت ہوچکا ہے اس کے چار پسر تھے بدر الدین سراج الدین فوت ہوچکے ہیں غلطی بندوبست سے بعد فوت صدر الدین کے بدر الدین سراج الدین کا داخل خارج وراثت ہو کر عملدر آمد ہوگیا اور مظہر والٰہی بخش کے نام اندراج نہ ہوا ضلع انگریزی میں مقدمہ دائر ہوا جس سے یہ قرار پایا کہ ۲/ ۵ حصہ مظہر والٰہی بخش کے لئے جائیں جس کی نقل شامل درخواست ہے چاہتا ہوں۲/ ۵ حصہ پر داخل خارج فرمایاجائے۔ اﷲ بخش ڈپٹی سپر نٹنڈنٹ ۲/جنوری ۱۹۰۶ء

(۱۷) درخواست تقررثالثان مشمولہ مسل ۱۶مر جوعہ ۲۷/ اپریل ۱۹۰۸ء ۔ کل مقدمہ سپرد ثالثان کرکے اعتراضات قانونی ورواجی چھوڑ دئے گئے ہیں لکھ دیتے ہیں کہ اگر موجودہ روئداد مسل سے مدعیان کا اولاد صحیح النسب ہونا پیر صدر الدین موصو ف سے ثابت ہوجائے تو مجھ مدعاعلیہ کو واپسی جائداد سے  کچھ انکار نہ ہوگا اگر انکا شرعاً نسب ثابت نہ ہو تو پھر ان کا میراث سے کچھ تعلق نہ ہوگا اور بشرط اولاد صحیح النسب ہونے کے فتوائے ثالثان ناطق ہوگا اور ہمیں کچھ عذر نہ ہوگا، ۱۸جون ۱۹۰۸ء ، بمقام صادق پور روبرو افسر صاحب مال مولوی عبدالمالک۔ العبد بخش مدعی بقلم خود، العبد الٰہی بخش مدعی بقلم خود، العبد احمد شاہ مدعا علیہ بقلم خود۔ تحریر ہوا کہ مولوی صاحبان تمام موضع چک بھوگا نوالہ میں جمع ہوکر بموجب روائداد مسل کے فتوی دیں ۔امو رتنقیح بحث طلب یہ ہیں کہ آیا مدعیان پیر صدر الدین کی اولاد صحیح النسب ہے یانہیں۔ دوسرا راضی نامہ مصدقہ ضلع منٹگمری کا شرعاً کیا اثر ہے ۔ فیصلہ کثرت رائے ثالثان پر کیا جائے گا فتوٰی چار یوم کے اندر داخل ہو، ۱۸/جون۱۹۰۸ء دستخط افسر مال ۔

(۱۸) فتوٰی مولوی عبدالرحیم وغیرہ مشمولہ مسل نمبری ۱۶۔ مدعیان نے ایک صلحنامہ از جانب والد و چچا مدعا علیہما پیش کیا جس میں صریح لکھا ہے کہ مدعیان پیرصد ر الدین کے بیٹے ہیں ۔ علاوہ بریں معتبر شہادت سے ثابت ہے کہ پیر صدرالدین مورث مدعیان کو اپنا بیٹا تسلیم کرتا تھا بدر الدین وسراج الدین نے تحصیل میں بھی مدعیان کو اپنے بھائی پیر صدر الدین کے بیٹے قرار دے کر لکھوایا ہے کہ بیشک حسب مضمون صلحنامہ ریاست میں بھی ملکیت کا عملدر آمد ہوناچاہئے۔ علاقہ آنروے آب میں بھی پٹواری کے سامنے سراج الدین و بدر الدین نے مدعیان کو اپنے بھائی لکھوائے ہیں۔ رواج عام اقوام چشتی اور شجرہ نسب جو ضلع منٹگمری میں لکھا ہے مدعیان پیر صدر الدین کی اولاد اور وارث لکھے ہیں اور اس پر پیر صدر الدین اور بعض شاہدان نفی نسب کے ثبوت نسب پر مواہیر موجود ہیں شہادت مدعا علیہما نفی پر مشتمل ہیں اور شہادت نفی مقبول نہیں ہوتے ۔ پس بوجہ اقرار پیر صدر الدین بولدیت مدعیان اور تسلیم بدر الدین وسراج الدین اخوت مدعیان کو فتوٰی شرعی یہ ہے کہ مدعیان کا نسب پیر صدر الدین سے ثابت ہے ۔
اذا اقر وارث واحد بوارث کمن ترک ابنا فاقر باخ لایثبت نسبہ عند ھما وقال ابویوسف یثبت وبہ اخذ الکرخی لانہ لما قبل فی المیراث قبل فی النسب وان کان اکثر من واحد بان کان رجلین اورجلا وامرأتین فصاعدایثبت النسب باقرار ھم بالاجماع لکمال النصاب و یستحق حظہ من نصیب المقر ۱؎اھ حموی ۱۲قرۃ العیون۔
جب ایک وارث دوسرے کے وارث ہونے کا اقرار کرے جیسا کہ میت کا بیٹا اپنے بھائی کا اقرا رکرے تو شیخین رحمہما اﷲ تعالٰی کے نزدیک بھائی کا نسب ثابت نہ ہو گا اور امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا یہ نسب ثابت ہوجائے گا اور امام کرخی نے اسی کواختیار کیا ہے کیونکہ ایک کے اقرار سے جب وارث ہونا ثابت ہوجاتا ہے تو نسب میں اس کا قول تسلیم کیا جائے گا اور  ایک سے زائد ورثاء مثلاً دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں کسی کے وارث ہونے کا اقرا رکریں تو اس اقرار سے نسب بالا جماع ثابت ہوجائے گا کیونکہ شہادت کا نصاب کامل ہے اور اقرار کرنے والوں کے حصہ میں یہ بھی شریک ہوگا اھ ۱۲حموی قرۃ العیون(ت)
 (۱؎ قرۃ عیون الاخیار     کتاب الاقرار     باب اقرار المریض     مصطفی البابی مصر    ۲/ ۱۴۹)
مولوی نور الدین صاحب نکاح خوان کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ بوقت نکاح ثانی مدعیان موجود تھے اور دوسری تحریر میں ہے کہ نکاح مشہور سے پہلے پیر صدر الدین کا نکاح مخفی والدہ مدعیان کے ساتھ تھا ہر نکاح مخفی جو روبروئے گواہان کے ہو معلن ہوجاتا ہے اور شرعاً جائز نافذ ہے باپ نے جب اقرار کیا کہ یہ میرا بیٹا ہے اور ماں اس کی آزاد ہے تو یہ اقرار فرزندی اقرار ہوگا اس عورت کے منکوحہ ہونے پر۔ درمختار ،طحطاوی ، قنیہ ۱۲ نور الہدایہ العبد عبدالرحیم اول مدرس عربی خانقاہ مہاران شریف ، اﷲبخش چک نادر شاہی، احقر العباد جمال الدین بقلم خود۔
Flag Counter