Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
81 - 151
مسئلہ۹۴:ازریاست بہاولپور پنجاب تحصیل منچن آباد ڈاکخانہ صادق پور موضع واڑہ سراج الدین مرسلہ پیر نور محمد صاحب ولد پیر قمر الدین صاحب ذات چشتی ۳/ رجب المرجب ۱۳۲۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پیر صدر الدین نے ۱۶۸۶ھ میں ایک طوائف مسماۃ رنگ بھری سے نکاح کیا اس وقت رنگ بھری کے دو نابالغ بیٹے اﷲ بخش والٰہی بخش موجود تھے اور تیسرا جوان بیٹا اﷲ دتا تھا صدر الدین نے وقت نکاح مذکور سے رنگ بھری کو مثل ازواج کے پردے میں رکھا جب تک وہ بے پردہ اپنے پیشہ حرام میں تھی، یہ دونوں بچے کہ خورد سال تھے ماں کے ساتھ پیر مرحوم کے یہاں رہے جن میں ایک کی شادی بھی پیر موصوف نے کردی رنگ بھری کا بڑا بیٹا اب تک الگ اور اپنے پیشہ حرام میں ہے صدر الدین مرحوم کے دو بیٹے زوجہ خاندانی مسماۃ نور سائن سے تھے بدرالدین وسراج الدین پیر مرحوم کی کچھ جائداد علاقہ ریاست بہاولپور اور کچھ پاکپٹن شریف علاقہ انگریزی میں حسب تفصیل ذیل تھی:

علاقہ ریاست :  واڑہ پیران کل، چک قمر الدین نمبر۳۴۴حصہ سوم، بلاڑہ پیرنبی بخش حصہ سوم، بلاڑہ صدر الدین کل۔ 

علاقہ انگریزی:  واڑہ پیران کلاں، بلاڑہ پیران حصہ سوم، شیخوپورہ ملکیت ایک چاہ۔

صدر الدین نے ۱۳ /شوال ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۱/مئی ۱۸۹۲ء میں انتقال کیا اﷲ بخش والٰہی بخش نے اپنے آپ کو پسران متوفی قرار دے کر ضلع منٹگمری میں بعض جائداد واقع علاقہ انگیزی کا داخل خارج چاہا، جون ۱۸۹۲ء میں عنایت اﷲ پٹواری کے سامنے بدرالدین و فریق دوم کے بیانات ہوئے جن میں بدرالدین نے ان کے پسران صدر الدین ہونے سے انکار اور انہوں نے اس کا اظہار کیا شیخ لطافت علی نائب تحصیلدار نے ۲۷ستمبر۱۸۹۲ء کو ایک نقل رواج عام اقوام چشتی کے بناء پر جو بغرض ملاحظہ حاضر ہے چاروں کو فرزندصدر الدین قرار دے کر اندراج نام کا حکم دیا بدرالدین نے منشی عزیز الدین اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے یہاں اپیل کی بالآخر تنہا بدرالدین نے کسی دباؤ یا مصلحت سے راضی نامہ کرلیا جس میں کل جائدا ہر دو علاقہ کا ذکر ہے مگر جب مجوز نے بدرالدین کا بیان لیا تو اس نے صرف جائداد علاقہ انگریزی کی نسبت تصفیہ ہونا بیان کیا اور فریق دوم نے بھی اس کا یہ بیان سن کر تسلیم کیا اس بناء پر ۲۵/ فروری ۱۸۹۳ء کو وہ مقدمہ وہاں فیصل ہوگیا جائداد واقع علاقہ انگریزی کے ۲/ ۵ نام اﷲ بخش والٰہی بخش اور ۳/۵ میں نام سراج الدین وبدرالدین مندرج ہوا، سراج  الدین اس راضی نامہ میں شریک نہ تھا ، نہ وہ وہاں موجود تھا مگر بدرالدین نے اس اظہار سے کہ وہ میرا حقیقی بھائی ہے میرا اس کا نفع نقصان مشترک ہے اس کی طرف سے راضی نامہ کرلیا، اس صلح نامہ کی بناء پر فریق ثانی نے یکم جون ۱۸۹۳ء کو جائداد واقع ریاست کے داخل خارج کی بھی درخواست تحصیل منچن آباد میں دی جس کی کارروائی ملاحظہ کاغذات سے ظاہر ہوگی جس میں بیان کیاجاتا ہے کہ بدرالدین و سراج الدین نے ۲۲/اگست ۱۸۹۳ء کو دعوٰی اﷲ بخش و الٰہی بخش تسلیم کیا اور ۳ / اکتوبر ۱۸۹۳ء کو کاردار نے حکم دیا کہ محکمہ بندوبست میں درخواست دے کر اندراج نام کرالیں لیکن انہوں نے کوئی درخواست نہ دی نہ اندراج نام ہوااس وقت کا بندوبست جاری تھا بلکہ دسمبر ۱۸۹۲ء میں ختم ہوچکا تھا بجائے اس کے ۲۹/دسمبر ۱۸۹۸ء کو فریق ثانی نے پھر اسی تحصیل منچن آباد میں درخواست اندراج نام دی جو ۲۳/مارچ ۱۸۹۹ء کو بوجہ عدم پیروی خارج ہوئی جب ۱۹۰۶ء میں بندوبست جدید ہوا مدعیوں نے یہاں چارہ جوئی کی ۲۵/جون ۱۹۰۶ء کو داخل خارج منظور ہوکر ۶جنوری ۱۹۰۷  کو محکمہ مشیرت مال سے منسوخ ہوگیا ناچار ۲۷/ مئی۱۹۰۷ءکو مدعیان نے نظامت بہاولپور میں نالش دخلیابی دائر کی جو شیخ حسین بخش صاحب ناظم کے یہاں سے ۳۱/مارچ ۱۹۰۸ء کو ڈسمس ہوئی مدعیان نے افسر مال کے یہاں اپیل کی ۱۹/اکتوبر ۱۹۰۸ء کو یہاں سے بربنائے فتوائے ثالثان کامیابی پائی جس کی حالت یہ ہے کہ بحکم مولوی عبدالمالک صاحب افسر مال فریقین نے ثالثی کی طرف رجوع کی، چار ذی علم ثالث قرار پائے مولوی عطا محمد صاحب مدرس پھوگا نوالہ ، مولوی عبدالرحیم صاحب اول مدرس عربی خانقاہ مہاران شریف مولوی اﷲ بخش چک نادر شاہی، مولوی جمال الدین ساکن ماڑی میاں صاحب۔، اور شرط تحریر ہوئی کہ اگر رود اد مسل سے مدعیوں کا اولاد پیر صدر الدین ہونا شرعاً ثابت ہوتو ان کی وراثت کے باب میں فتوائے ثالثان ناطق ہوگا۔ ثالث اول الذکرنے نسب ثابت نہ مانا باقیوں نے اثبات کیا، افسرمال نے کثرت رائے پر فیصلہ دیا مدعا علیہم نے اخبئی میں نگرانی کی جس پر مولوی رحیم بخش صاحب رزیڈنٹ جوڈیشنل ممبر نے تحریر فرمایا کہ (جو عذرات واقعات پر ہیں ہم ان کوزیر بحث لانا نہیں چاہتے کیونکہ ڈگری بر بنائے فیصلہ ثالثی ہوئی ہے)لہذا ہر دو فتوائے ثالثان وفیصلہ نظامت وفیصلہ افسر مال واظہارات گواہان فریقین وجملہ کاغذات متعلقہ کے نقول باضابطہ خدمت علمائے دین میں حاضر کرکے امیدوار کہ خالصاً لوجہ اﷲحکم شریعت مطہرہ سے آگاہ فرمائیں کہ تین ثالث صاحبوں کا پہلا فتوٰی اور ثالث چہارم کا فتوائے دوم ان میں کون سامطابق شرع شریف ہے اور فتوائے اول میں جن جن وجوہ سے مدعیان کو ثابت النسب مانا ہے وہ شرعاًصحیح ہیں یا غلط، نیز ازروئے اقرار نامہ ثالثی مدعا علیہم اس فتوائے ثالثان کے پابند ہوئے یانہیں، اور بالجملہ روداد مسل موجود سے بحکم شرع شریف دعوائے مدعیان ڈگری ہونا چاہئے یا ڈسمس، کاغذات متعلقہ کی مکمل نقول تو حاضر خدمت ہیں مگر آسانی ملاحظہ کے لئے واقع استثناء کا خلاصہ یہاں گزارش:

(۱) علاقہ آنروئے آب میں عنایت اﷲ پٹواری کے سامنے بدرالدین وغیرہا کا بیان رپورٹ حکم، آج زبانی بدرالدین پسر متوفی کے معلوم ہواکہ مسمی صدرالدین والد مظہر فوت ہوگیا، مظہر وسراج الدین ہر دو پسر وارث وقابض ہیں نیز ظاہر کیا حسب تفصیل ذیل والد مظہر رنگ بھری کنچنی کو لے کر اس جگہ واڑہ پیران سے چلا گیا اور دیہات پار علاقہ ریاست بہاولپور میں بہت عرصہ تک رہا کیونکہ اس وقت چچا ہمارا محمد بخش برادر خورد والد مظہر زندہ تھا اس کے خوف سے اپنے دیہہ میں نہ آیا ان دنوں میں یہ دو تولد ہیں ، جب چچا ہمارا مرگیا تب نکاح اس کے ساتھ کیا اور اس جگہ آکر آباد ہوا یہ ہر دو پچھلگ والد مظہر کے ہیں اﷲ بخش و الٰہی بخش نے ظاہر کیا کہ 

والد ہمارے نے ہم کو بطور دوسرے فرزندان کے پرورش کی ہے کچھ فرق نہیں کیا، چاہتے ہیں کہ ہم چاروں کانام بحصہ برابر درج کیا جائے لہذا کھاتہ ہذابمراد حکم مناسب پیش کر تا ہوں، ۹/جون۱۸۹۲ء عنایت اﷲ پٹواری
18_5.jpg
(۲) رواج عام اقوام چشتی پرگنہ پاک پٹن ضلع منٹگمری کتاب جلد ۲،  ۱۸۷۲؁ء موجودہ دفتر فارسی محافظ خانہ مندرجہ ص۸۸ لغایت ۹۰، ہمراہ عورت کمین مثل کنجری و موچیانی و ترکھانی ومچھانی کے نکاح بموجب شرع شریف کے جائز ہے اگرکوئی صاحب جائداد ہمراہ ایسی عورت کے نکاح کرلے تو اولاد اس کی مثل عورت ہم کف کے مالک ہوتی ہے ۔ اگر ایسی عورت بدون نکاح رہے اور اس سے اولاد پیدا ہوتو ایسی اولاد حرام کی ہوتی ہے ان کو وراثت سے کچھ حصہ نہیں ملتا (نظائر) موضع واڑہ پیران مسمی صدر الدین نے ہمراہ عورت بیوہ قوم پیرنی کے نکاح کرلیا اولاد اس کی بعد وفات صاحب جائداد کے مالک ہوگی۔

(۳) راضی نامہ مدخلہ کچہری اکسٹر ا اسٹنٹ کمشنر ضلع منٹگمری مایانکہ بدرالدین وسراج الدین واﷲ بخش والٰہی بخش پسران پیر صدر الدین ہیں حسب ذیل مواضعات واقع علاقہ انگریزی وواقع ریاست بہاولپور خاص ملکیت پیر صدر الدین صاحب والد مظہران کی ہے ہم فریقین کل جائداد زرعی پر وقت وفات والد صاحب سے قابض ہیں اس لئے ہم فریقین نے برضامندی خود آپس میں اس طرح تصفیہ کیا ہے کہ کل جائداد مندرجہ بالا علاقہ انگریزی وریاست کے پانچ حصے کئے، تین حصے بدرالدین وسراج الدین کو دیں گے اور دو حصے کل جائداد زرعی سے اﷲ بخش والٰہی بخش کو دیں گے، جس قدر زیادہ نصف سے بدر الدین وسراج الدین کو دیا گیا اس کا سبب بہ ہے کہ وہ بسبب سرداری کے بڑے ہیں، سراج الدین اس وقت موجود نہیں اس کی طرف سے مجھ بدر الدین ذمہ دار ہے کہ وہ اور میں بدر الدین حقیقی بھائی ہیں ۲۵فروری ۱۸۹۲ء 

(۴) بیان بدرالدین وتصدیق مدعیان نسبت راضی نامہ مذکورہ، استفسار بدرالدین ولد صدر الدین باقرار صالح ۲۵/ فروری ۱۸۹۳ء صدر الدین متوفی ہمارے والد کی جائداد  زرعی علاقہ تحصیل پاکپٹن میں حسب ذیل ہے، واڑہ پیران کلاں سالم بلاڑہ پیران سوم حصہ شیخوپور میں ایک چاہ کی اراضی، والد مرگیا جب سے میرا اور سراج الدین میرے اور برادر حقیقی اﷲ بخش والٰہی بخش برادران سوتیلی والدہ ہماری کا قبضہ جائداد پر علی الحساب بہ سبب تنازع رہا ہے اب برضامندی یہ فیصلہ کیا ہے کہ کل پانچ حصے کرکے تین پانچویں مجھے اور سراج الدین کو ملے اور دو پانچویں اﷲ بخش والٰہی بخش کو، جو زیادہ حصہ نصف سے مجھے اور سراج الدین کو دیا ہے وہ بوجہ اس کے ہے کہ میں اور سراج الدین بڑے بھائی ہیں، سراج الدین پار ریاست میں ہے اور میرا اور اس کا نفع نقصان مشترکہ ہے لہذا میں اس کی جانب سے ذمہ دار ہوں۔ بدر الدین بقلم خود۔دستخط عزیز الدین اسٹنٹ کلکٹر درجہ اول ۔ استفتاء اﷲ بخش و الٰہی بخش پسران صدر الدین باقرار صالح ۲۵/ فروری ۹۳؁ء ۔ بدر الدین برادر کلاں اپنے کا بیان ہم نے سنا یہ صحیح اور منظور ہے۔ اﷲ بخش والٰہی بخش بقلم خود۔

(۵) شجرہ نسب و حقوق مالکان موضع واڑہ پیران کلاں تحصیل پاکپٹن ضلع منٹگمری مرتبہ ۱۸۹۴ء شیخ قریشی المعروف چشتی
18_6.jpg
۵ حصہ ذیل

بدرالدین وسراج الدین بحصہ برابر (۳ حصہ ) 	اللہ بخش والہی بخش بحصہ برابر (۲ حصہ )

بموجب حکم ۲۵/فروری ۱۸۹۳ء حصص ملکیت برخلاف حصہ جدی کے رسمی قرارپائے۔
 (۶) درخواست ابتدائی مشمولہ مسل نمبری ۲۳موضع بلاڑہ صدر الدین تحصیل منچن آباد بابت داخل خارج مظہران برادر حقیقی وسراج الدین و بدرا لدین برادران سوتیلے ہمارے کا راضی نامہ ہوا۔ نقل فیصلہ پیش کرکے ملتمس کہ موضع مذکور کا ۲/ ۵ حصہ ہمارے نام داخل خارج فرمایا جائے۔ یکم جون۱۸۹۳ء العبد اﷲ بخش و الٰہی بخش پسران صدر الدین ، اﷲبخش بقلم خود۔ بیان سائل لیا جائے بمراد تکمیل مسل حوالہ قانون گوہو۔ یکم جون ۱۸۹۳؁ء ۱۵ ذیقعدہ ۱۳۱۰؁ھ

(۷) بیان اﷲ بخش مشمولہ مسل نمبری ۲۳۔نام اپنا اﷲ بخش باپ کا نام صدر الدین عمر تخمیناً (؂؛؛) سال حاضر آکر لکھوایا کہ مظہر اور الٰہی بخش برادر مظہر وبدر الدین وسراج الدین پسران شیخ صدر الدین ہر چہار وارث بحصہ برابر ہیں بدر الدین و سراج الدین نے ملکیت موضع بلاڑہ صدر الدین میں ہمارانام درج نہیں کرایا اس باعث تکرار تھا برادری میں تصفیہ ہمارا ہوچکا ہے بموجب راضی نامہ ۲/ ۵ حصہ بنام مظہر والٰہی بخش داخل خارج فرمایاجائے، اﷲ بخش بقلم خود۔ بعد تصدیق حکم ہوا کہ باجرائے پروانہ بدر الدین و سراج الدین والٰہی بخش بنابر قلمبندی بیان طلب کیا جائے، یکم جون ۱۸۹۳ء ، آج مسل پیش ہوئی حکم ہوا کہ فریقین مقدمہ طلب ہوکر بیان ان کا قلمبند کیا جائے، ۱۳/جون ۹۳؁، مسل پیش ہوئی آج تک نہ فریقین مقدمہ حاضر ہوتے ہیں نہ رپورٹ پیشکار شامل مسل ہوئی لہذا حکم ہوا کہ مقرر پیشکار کو لکھا جائے کہ جلدمطلوبگان کو بھجوادیں، ۲۹/اگست ۱۸۹۳ء۔

(۸) پروانہ بنام پیشکار صادق پور مشمولہ مسل نمبری ۲۳۔،اندریں مقدمہ۱۳جون کو طلبی فریقین بمراد قلمبندی بیانات کی گئی تھی، آج تک ان کی جانب سے نہ رپورٹ شامل مسل ہوئی نہ فریقین حاضر آئے ہیں لہذا مکرر قلمی ہے کہ آپ فی الفور فریقین کو بھجوادیں، ۲۹اگست ۱۸۹۳ء فریقین کو باخذ مچلکہ روانہ کارداری میں کیاجائے ۶/ستمبر ۱۸۹۳ء حکم سے اطلاع پائی سراج الدین بیمار ہے بروقت صحتیابی اس کے حاضر ہوجائیں گے۷ستمبر ۱۸۹۳ء العبد بدر الدین العبد اﷲبخش ، جناب عالی مطلوبگان کو ہدایت احضار کی گئی اور العبد کرائے گئے ہیں سراج الدین سخت بیمار ہے بعد شفا حاضر ہوگا ۸/ستمبر ۱۸۹۳ء

(۹) بیان بدر الدین وغیرہ مشمولہ مسل نمبری ۲۳ واقع ۲۲/اگست ۱۸۹۳ء ، سوال اﷲ بخش والٰہی بخش پسران صد ر الدین نے لکھوایا ہے کہ تم نے کل ملکیت صدر الدین کی محکمہ بندوبست میں اپنے نام درج کاغذات موضع بلاڑہ صدر الدین کرالی ہے حالانکہ مظہران بھی وارث ہیں منٹگمیر سے فیصلہ ہوچکا درج کاغذات موضع بلاڑہ صدر الدین کرالی ہے حالانکہ مظہران بھی وارث ہیں منٹگمری سے فیصلہ ہوچکا ہے کہ ۲/ ۵ حصہ ما مظہران اور ۳/۵حصہ تمہارا قرارپایا ہے نام مظہران درج کاغذات فرمایا جائے تم کو اس ایزادی میں کیا عذر ہے؟
Flag Counter