مسئلہ۹۴:ازریاست بہاولپور پنجاب تحصیل منچن آباد ڈاکخانہ صادق پور موضع واڑہ سراج الدین مرسلہ پیر نور محمد صاحب ولد پیر قمر الدین صاحب ذات چشتی ۳/ رجب المرجب ۱۳۲۷ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پیر صدر الدین نے ۱۶۸۶ھ میں ایک طوائف مسماۃ رنگ بھری سے نکاح کیا اس وقت رنگ بھری کے دو نابالغ بیٹے اﷲ بخش والٰہی بخش موجود تھے اور تیسرا جوان بیٹا اﷲ دتا تھا صدر الدین نے وقت نکاح مذکور سے رنگ بھری کو مثل ازواج کے پردے میں رکھا جب تک وہ بے پردہ اپنے پیشہ حرام میں تھی، یہ دونوں بچے کہ خورد سال تھے ماں کے ساتھ پیر مرحوم کے یہاں رہے جن میں ایک کی شادی بھی پیر موصوف نے کردی رنگ بھری کا بڑا بیٹا اب تک الگ اور اپنے پیشہ حرام میں ہے صدر الدین مرحوم کے دو بیٹے زوجہ خاندانی مسماۃ نور سائن سے تھے بدرالدین وسراج الدین پیر مرحوم کی کچھ جائداد علاقہ ریاست بہاولپور اور کچھ پاکپٹن شریف علاقہ انگریزی میں حسب تفصیل ذیل تھی:
علاقہ ریاست : واڑہ پیران کل، چک قمر الدین نمبر۳۴۴حصہ سوم، بلاڑہ پیرنبی بخش حصہ سوم، بلاڑہ صدر الدین کل۔
علاقہ انگریزی: واڑہ پیران کلاں، بلاڑہ پیران حصہ سوم، شیخوپورہ ملکیت ایک چاہ۔
صدر الدین نے ۱۳ /شوال ۱۳۰۹ھ مطابق ۱۱/مئی ۱۸۹۲ء میں انتقال کیا اﷲ بخش والٰہی بخش نے اپنے آپ کو پسران متوفی قرار دے کر ضلع منٹگمری میں بعض جائداد واقع علاقہ انگیزی کا داخل خارج چاہا، جون ۱۸۹۲ء میں عنایت اﷲ پٹواری کے سامنے بدرالدین و فریق دوم کے بیانات ہوئے جن میں بدرالدین نے ان کے پسران صدر الدین ہونے سے انکار اور انہوں نے اس کا اظہار کیا شیخ لطافت علی نائب تحصیلدار نے ۲۷ستمبر۱۸۹۲ء کو ایک نقل رواج عام اقوام چشتی کے بناء پر جو بغرض ملاحظہ حاضر ہے چاروں کو فرزندصدر الدین قرار دے کر اندراج نام کا حکم دیا بدرالدین نے منشی عزیز الدین اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے یہاں اپیل کی بالآخر تنہا بدرالدین نے کسی دباؤ یا مصلحت سے راضی نامہ کرلیا جس میں کل جائدا ہر دو علاقہ کا ذکر ہے مگر جب مجوز نے بدرالدین کا بیان لیا تو اس نے صرف جائداد علاقہ انگریزی کی نسبت تصفیہ ہونا بیان کیا اور فریق دوم نے بھی اس کا یہ بیان سن کر تسلیم کیا اس بناء پر ۲۵/ فروری ۱۸۹۳ء کو وہ مقدمہ وہاں فیصل ہوگیا جائداد واقع علاقہ انگریزی کے ۲/ ۵ نام اﷲ بخش والٰہی بخش اور ۳/۵ میں نام سراج الدین وبدرالدین مندرج ہوا، سراج الدین اس راضی نامہ میں شریک نہ تھا ، نہ وہ وہاں موجود تھا مگر بدرالدین نے اس اظہار سے کہ وہ میرا حقیقی بھائی ہے میرا اس کا نفع نقصان مشترک ہے اس کی طرف سے راضی نامہ کرلیا، اس صلح نامہ کی بناء پر فریق ثانی نے یکم جون ۱۸۹۳ء کو جائداد واقع ریاست کے داخل خارج کی بھی درخواست تحصیل منچن آباد میں دی جس کی کارروائی ملاحظہ کاغذات سے ظاہر ہوگی جس میں بیان کیاجاتا ہے کہ بدرالدین و سراج الدین نے ۲۲/اگست ۱۸۹۳ء کو دعوٰی اﷲ بخش و الٰہی بخش تسلیم کیا اور ۳ / اکتوبر ۱۸۹۳ء کو کاردار نے حکم دیا کہ محکمہ بندوبست میں درخواست دے کر اندراج نام کرالیں لیکن انہوں نے کوئی درخواست نہ دی نہ اندراج نام ہوااس وقت کا بندوبست جاری تھا بلکہ دسمبر ۱۸۹۲ء میں ختم ہوچکا تھا بجائے اس کے ۲۹/دسمبر ۱۸۹۸ء کو فریق ثانی نے پھر اسی تحصیل منچن آباد میں درخواست اندراج نام دی جو ۲۳/مارچ ۱۸۹۹ء کو بوجہ عدم پیروی خارج ہوئی جب ۱۹۰۶ء میں بندوبست جدید ہوا مدعیوں نے یہاں چارہ جوئی کی ۲۵/جون ۱۹۰۶ء کو داخل خارج منظور ہوکر ۶جنوری ۱۹۰۷ کو محکمہ مشیرت مال سے منسوخ ہوگیا ناچار ۲۷/ مئی۱۹۰۷ءکو مدعیان نے نظامت بہاولپور میں نالش دخلیابی دائر کی جو شیخ حسین بخش صاحب ناظم کے یہاں سے ۳۱/مارچ ۱۹۰۸ء کو ڈسمس ہوئی مدعیان نے افسر مال کے یہاں اپیل کی ۱۹/اکتوبر ۱۹۰۸ء کو یہاں سے بربنائے فتوائے ثالثان کامیابی پائی جس کی حالت یہ ہے کہ بحکم مولوی عبدالمالک صاحب افسر مال فریقین نے ثالثی کی طرف رجوع کی، چار ذی علم ثالث قرار پائے مولوی عطا محمد صاحب مدرس پھوگا نوالہ ، مولوی عبدالرحیم صاحب اول مدرس عربی خانقاہ مہاران شریف مولوی اﷲ بخش چک نادر شاہی، مولوی جمال الدین ساکن ماڑی میاں صاحب۔، اور شرط تحریر ہوئی کہ اگر رود اد مسل سے مدعیوں کا اولاد پیر صدر الدین ہونا شرعاً ثابت ہوتو ان کی وراثت کے باب میں فتوائے ثالثان ناطق ہوگا۔ ثالث اول الذکرنے نسب ثابت نہ مانا باقیوں نے اثبات کیا، افسرمال نے کثرت رائے پر فیصلہ دیا مدعا علیہم نے اخبئی میں نگرانی کی جس پر مولوی رحیم بخش صاحب رزیڈنٹ جوڈیشنل ممبر نے تحریر فرمایا کہ (جو عذرات واقعات پر ہیں ہم ان کوزیر بحث لانا نہیں چاہتے کیونکہ ڈگری بر بنائے فیصلہ ثالثی ہوئی ہے)لہذا ہر دو فتوائے ثالثان وفیصلہ نظامت وفیصلہ افسر مال واظہارات گواہان فریقین وجملہ کاغذات متعلقہ کے نقول باضابطہ خدمت علمائے دین میں حاضر کرکے امیدوار کہ خالصاً لوجہ اﷲحکم شریعت مطہرہ سے آگاہ فرمائیں کہ تین ثالث صاحبوں کا پہلا فتوٰی اور ثالث چہارم کا فتوائے دوم ان میں کون سامطابق شرع شریف ہے اور فتوائے اول میں جن جن وجوہ سے مدعیان کو ثابت النسب مانا ہے وہ شرعاًصحیح ہیں یا غلط، نیز ازروئے اقرار نامہ ثالثی مدعا علیہم اس فتوائے ثالثان کے پابند ہوئے یانہیں، اور بالجملہ روداد مسل موجود سے بحکم شرع شریف دعوائے مدعیان ڈگری ہونا چاہئے یا ڈسمس، کاغذات متعلقہ کی مکمل نقول تو حاضر خدمت ہیں مگر آسانی ملاحظہ کے لئے واقع استثناء کا خلاصہ یہاں گزارش:
(۱) علاقہ آنروئے آب میں عنایت اﷲ پٹواری کے سامنے بدرالدین وغیرہا کا بیان رپورٹ حکم، آج زبانی بدرالدین پسر متوفی کے معلوم ہواکہ مسمی صدرالدین والد مظہر فوت ہوگیا، مظہر وسراج الدین ہر دو پسر وارث وقابض ہیں نیز ظاہر کیا حسب تفصیل ذیل والد مظہر رنگ بھری کنچنی کو لے کر اس جگہ واڑہ پیران سے چلا گیا اور دیہات پار علاقہ ریاست بہاولپور میں بہت عرصہ تک رہا کیونکہ اس وقت چچا ہمارا محمد بخش برادر خورد والد مظہر زندہ تھا اس کے خوف سے اپنے دیہہ میں نہ آیا ان دنوں میں یہ دو تولد ہیں ، جب چچا ہمارا مرگیا تب نکاح اس کے ساتھ کیا اور اس جگہ آکر آباد ہوا یہ ہر دو پچھلگ والد مظہر کے ہیں اﷲ بخش و الٰہی بخش نے ظاہر کیا کہ
والد ہمارے نے ہم کو بطور دوسرے فرزندان کے پرورش کی ہے کچھ فرق نہیں کیا، چاہتے ہیں کہ ہم چاروں کانام بحصہ برابر درج کیا جائے لہذا کھاتہ ہذابمراد حکم مناسب پیش کر تا ہوں، ۹/جون۱۸۹۲ء عنایت اﷲ پٹواری