Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
80 - 151
ثانیاً روایت مذکورہ کہ بعض ائمہ اس صورت پر محمول کرتے ہیں کہ مدعا علیہ غصب کا مقر ہوا اور عامہ مشائخ رحمہم اﷲ تعالٰی اگرچہ یہ تخصیص نہیں کرتے مگر ان کے نزدیک و ہ قبول دعوٰی وشہادت صرف حق حبس مدعا علیہ میں ہے یعنی تاکہ حاکم اسے حبس کرے کہ شیئ مدعی حاضر لائے نہ کہ ابتدا اسی قدر شہادت پر ڈگری دی جائے ۔ 

جامع الفصولین میں ہے :
لوادعی عینا غائبا لایعرف مکانہ بان ادعی انہ غصب منہ ثوبا او قنا ولایدری قیامہ او ھلاکہ فلو بین الجنس والصفۃ والقیمۃ تقبل دعواہ ، ولولم یبین قیمتہ اشار فی عامۃ الکتب الی انہا تقبل فانہ ذکر فی کتاب الرہن لو ادعی انہ رھن عندہ ثوباوھو ینکر تسمع دعواہ، وذکر فی کتاب الغصب ادعی انہ غصب منہ امۃ و برھن یسمع وبعض مشایخنا قالواانما تسمع دعواہ لو ذکر القیمۃ وھذاھو تاویل ماذکر فی الکتاب و قال فقیہ الاعمش رحمہ اﷲ تاویل ماذکر فی الکتاب ان الشہود شھد واعلی اقرار المدعی علیہ بالغصب فثبت غصب القن باقرارہ فی حق الحبس والحکم جمیعا، وعامۃ المشایخ علی ان ھذہ الدعوٰی والبینۃتقبل ولکن فی حق الحبس واطلاق م رحمہ اﷲ تعالٰی فی الکتاب یدل علیہ ومعنی الحبس ان یحبسہ حتی یحضرہ لیعید البینۃ علی عینہ فلو قال لا اقدر علیہ حبس قدر مالو قدر احضرہ ثم یقضی علیہ بقیمتہ۱؎۔
کسی ایسی موجود غائب چیز کا دعوٰی کیا جس کے مقام کا علم نہیں جیسا کہ کسی دوسرے پر کپڑے یا غلام کو غصب کرنے کا دعوٰی کیا اور کہا معلوم نہیں کہ وہ مغصوب قائم ہے یا ہلاک ہوگیا ہے، تو ایسی صورت میں اگر مدعی نے اس چیز کی جنس ، صفت اور قیمت کو بیان کیا تو دعوٰی مقبول ہوگا اور اگر قیمت کا ذکر نہ کیا تو عام کتب میں مقبول ہونے کا اشارہ ہے ، کیونکہ انہوں نے کتاب الرہن میں ذکر کیا کہ ایک نے اگر کپڑے کے رہن کا دعوٰی کیا تو مدعی علیہ نے انکار کیاتو مدعی کا دعوٰی مسموع ہوگا، اور انہوں نے کتاب الغصب میں یوں ذکر کیا ہے ایک شخص نے دعوٰی کیا کہ فلاں نے میری لونڈی غصب کی ہے اور گواہ پیش کردئے تو یہ دعوٰی مسموع ہوگا اور بعض مشائخ نے ذکر کیا کہ اگر قیمت ذکر کی تو دعوٰی مسموع ہوگا یہ کتاب میں مذکور کی تاویل ہے اور فقیہ ابواعمش رحمہ اﷲ تعالٰی نے فرمایا کہ کتاب الغصب میں مذکور کی تاویل یہ ہےکہ گواہوں نے مدعٰی علیہ کے غصب کے اقرار پر شہادت دی ہوتو اقرار کی بنا پر غلام کا غصب قید اور حکم دونوں میں ثابت ہوگا جبکہ عام مشائخ نے یوں ذکر کیا کہ یہ دعوی اور گواہی قبول ہوگی لیکن صرف حبس میں ، جبکہ کتاب میں مصنف رحمہ اﷲ تعالٰی کا مطلق بیان اس کی تائید پر دلالت کرتا ہے اور حبس کا معنٰی یہ ہے کہ مدعٰی علیہ کو قید میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک وہ غلام کو حاضر نہ کردے تاکہ حاضر ہوجانے پر گواہوں سے دوبارہ غلام کی تعیین پر شہادت لی جائے اگر اس دوران قیدی کہے کہ میں اس کو حاضر کرنے پر قادر نہیں ہوں تو اس وقت تک قید رکھا جائے کہ اگر قدرت ہوتی تو وہ ضرور حاضر کردیتا اس اندازے کے بعد تیسرے مرحلہ پر قاضی اس پر قیمت کا حکم دے گا(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل السادس    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۷۳)
ثالثاً اگر ان سب سے قطع نظر ہو تو اس عبارت میں صورت ثوب وکنیز فرض کی ہے اور وہ موزونات سے نہیں ان میں جنس و صفت و قیمت ہی تعیین کرنے والے تھے اس سے یہ لازم نہیں آسکتا کہ زیور میں بھی ذکر وزن ضروری نہ ہوحالانکہ وہ موزون ہے اور کتب مذہب میں تصریح ہے کہ بیان قدر وکیل ووزن ضروری ہے
کما تقدم
 (جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ت) آخر نہ دیکھا کہ اگر دعوٰی ایسے ریشمیں کپڑے کا ہو جو وزن سے بکتا ہے بیان وزن لازم ہے ، 

اسی عالمگیریہ میں ہے :
اذا ادعی دیباجا فان کان عینا یشترط الاشارۃ الیہ وعند ذٰلک لاحاجۃ الی بیان الوزن وسائر اوصافہ وان کان دینا ففیہ اختلاف المشایخ ھل یشترط ذکر الوزن فعامتھم یشترط وھو الصحیح ذخیرہ ۲؎ اھ مختصرا۔
اگردیباج کپڑے کا دعوٰی ہو تو اگر سامنے حاضر ہو تو اس کی طرف اشارہ کرنا دعوی میں شرط ہے اس صورت میں وزن اور دیگر اوصاف کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ دیباج حاضر نہیں تو اس صورت میں مشائخ کا اختلاف ہے کہ کیا وزن کا بیان ضروری ہے جبکہ تمام فقہاء نے اس کو شرط قرار دیا ہے اور یہی صحیح ہے،ذخیرہ ، مختصراً۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الدعوٰی     الباب الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۶)
اسی میں ہے :
اذا ادعی جوہرا لابد من ذکر الوزن اذاکان غائبا وکان المدعی علیہ منکر اکون ذلک فی یدہ کذافی السراجیۃ۳؎۔
جب جواہر کا دعوٰی ہو تو وزن کا ذکر ضروری ہے جب وہ جواہر غائب ہو اور مدعی علیہ اپنے قبضہ ہونے کا انکار کرتا ہو، سراجیہ میں یوں ہے۔،(ت)
(۳ ؎ فتاوٰی ہندیہ   کتاب الدعوٰی   الباب الثانی   نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۷)
جامع الفصولین میں ہے :
  فی دعوٰی الدیباج ھل یشترط ذکر الوزن الصحیح انہ یشترط وذکر فی''جف''انہ فی دعوی الدیباج والجوہر یشترط ذکر الوزن  ۱ ؎۔
دیباج کے دعوٰی میں کیا وزن کا ذکر شرط ہے جبکہ صحیح یہ ہے کہ شرط ہے جامع الفتاوٰی میں ذکر کیا کہ دعوٰی دیباج اور جوہرمیں وزن کاذکر شرط ہے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل السادس    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۷۹)
یہ سب اس صورت میں ہے کہ دعوی استرداد عاریت کا ہو اگر دعوٰی استہلاک کا تھا یعنی اتنا زیور اسے عاریۃً دیا تھا اس نے تلف کردیا تو اب یہ بعینہ دعوی غصب ہے اور اس کا حکم وہ ہے کہ اوپرمذکور ہوا،
وذٰلک لان الامانات تنقلب مضمونات بالتعدی والامین یعود بہ غاصبا۔واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
یہ اس لئے کہ امانتیں دخل اندازی کی بناء پر مضمون ہوجاتی ہیں اور امانت رکھنے والا غاصب قرار دیا جاتا ہے۔ واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم(ت)
مسئلہ۹۳: ازریاست رامپور مرسلہ سید مسعود شاہ صاحب تحویلدار باورچی خانہ انگریزی ریاست رامپور ۶/ ربیع الآخر ۱۳۲۷ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسمی زید نے ایک منزل مکان منہدمہ (یعنی ہر چہار جانب دیوار ہائے شکستہ بقدر ساڑھے تین درعہ بلند موجود تھیں) چار سو پچیس درعہ اراضی مسمی بکر سے خرید کرکے مکان پختہ تعمیر کیا اور پس پشت مکان نو تعمیر کے ۱۲ گرہ عریض اور سرا سر طویل اراضی برائے آبچک چھوڑی۔ مسمی عمرو نے جس کا مکان پس پشت پر سے جز و اراضی آبچک میں مداخلت ناجائز کیا اس کے تخلیہ کا زید نے عمرو پر دعوٰی کیا عمرو نے یہ جوابدہی کی اراضی مدعا بہ ملکیت مدعی نہیں بلکہ میری مملوکہ ہے اور دستاویز پر میری گواہی نہیں ہے مگر عمرو نے کوئی ثبوت اپنی ملکیت کا اور باطل ہونے دستاویز بیعنامہ کا پیش نہیں کیا عدالت نے جو پیمائش اراضی کی کرائی تو بموجب تعداد مندرجہ بیعنامہ کے اراضی مدعیہ آبچک مکان مدعی پائی گئی مگر عدالت نے دعوٰی مدعی کو اس بناء پر نامنظور فرمایا کہ اس مقدمہ میں شہادت بالبینہ یا اقبال یا نکول نہیں ہے جس پر مدار فیصلہ ہونا چاہئے زید نے شہادت دستاویز بیعنامہ کو کافی تصور کرکے شہادت بالبینہ پیش نہیں کیا ورنہ وہ بہت سی شہادتیں بالبینہ پیش کرسکتا تھا اور اب بھی پیش کرسکتا ہے اس صورت میں عدالت کو دعوی نامسموع فرمانا چاہئے تھایازید کو ہدایت واسطے پیش کرنے شہادت بالبینہ کے فرمانی لازم تھی؟ اور اب عدالت مرافعہ میں شہادت بالبینہ مدعی کہ جس کو اس نے عدالت ابتدائی میں پیش نہیں کیا ہے پیش کرسکتا ہے یانہیں؟جو واسطے حق رسی و انصاف کے ضروری ہے نقل فیصلہ ہمراہ اس استفتا کے پیش کی جاتی ہے۔
الجواب

تجویز ملاحظہ ہوئی، ذی علم مجوز کا یہ فرمانا کہ''ثبوت دعوٰی کا بینہ سے ہوتا ہے یا اقرار مدعا علیہ سے یا نکول عن الحلف سے یہاں ان تین وجوہ شرعیہ سے کوئی نہیںـ''بہت صحیح ہے مگر ساتھ ہی یہ لحاظ بھی ضرور تھا کہ جس طرح ثبوت دعوٰی بغیر ان تین کے نہیں ہوسکتا یوں ہی قضائے قاضی بھی بغیر ان تین اور چوتھی یمین کے ناممکن ہے ان تین سے کوئی ہو تو مدعی کو ڈگری دے اور ان کے بدلے مدعا علیہ کی یمین ہو تو ڈسمس (Dismiss)کرے اور چاروں نہ ہوں تو حاکم ڈگری ، ڈسمس کچھ نہیں کرسکتا اصلاً فیصلہ نہیں دے سکتا اور دے گا تو وہ فیصلہ بھی باطل و نامسموع ہوگا کہ حکم کے چھ ارکان ہیں ان میں سے جو رکن مفقود ہو حکم باطل ومردود ہے ان چھ میں ایک طریق حکم ہے اور وہ حقوق العباد میں انہیں چاراشیاء میں منحصر ، تو جہاں ان میں سے کچھ نہ ہو طریق مسدود اور فیصلہ غلط و مردود۔ 

درمختار میں ہے:
ارکانہ ستۃ علی نظمہ ابن الغرس بقولہ؎
قاضی کے فیصلہ کے چھ رکن ہیں جن کو ابن الغرس نے اپنی نظم میں یوں بیان کیا ؎
اطراف کل قضیۃ حکمیۃ		ست یلوح بعدھا التحقیق

   حکم و محکوم بہ ولہ		ومحکوم علیہ وحاکم وطریق۱؎
ہر فیصلہ کے معاملہ میں چھ پہلو ہیں	             جن کے بعد تحقیق واضح ہوگی

حکم ، محکوم بہ، محکوم لہ،		محکوم علیہ ، حاکم اور وجہ حکم
 (۱؎ درمختار    کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۷۱)
ردالمحتار میں ہے :
  ای لاتکون محلا لثبوت حق المدعی فیہا وعدمہ الابالاستجماع ھذہ الشروط الستۃ، والطریق فیما یرجع الی حقوق العباد المحضۃ عبارۃ عن الدعوی والحجۃ وھی اما البینۃ اوالاقرار اوالیمین اوالنکول عنہ۲؎ اھ ملتقطا۔
    یعنی کسی محل میں مدعی کے حق یا عدم حق کا ثبوت ان چھ شرطوں کے پائے جانے کے بغیر نہیں ہوسکتا اور خالص حقوق العباد میں فیصلے کا طریقہ ، دعوٰی اور حجت یعنی گواہی یا اقرار یا قسم یا انکار قسم ہے،اھ
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۹۸۔۷ ۲۹)
فتاوی قاضی خاں پھر بحرالرائق پھر فتاوٰی خیریہ میں ہے:
انما ینفذ القضاء عند شرائطہ من الخصومۃ وغیرہا فاذالم توجد لم ینفذ۱؎۔
کسی مقدمہ وغیرہ میں فیصلہ اپنی شرائط پائے جانے پر نافذ ہوگا، جب تمام شرائط نہ پائے جائیں تو نافذ نہ ہوگا(ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ     بحوالہ فتاوٰی قاضیخاں    کتاب ادب القاضی    دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۹)
نیزفتاوٰی علامہ خیرالدین رملی میں ہے:
صرح فی البحر فی مواضع متعددۃ انہ لایعمل بالتنافیذ الواقعۃ فی زماننا لعدم استیفا ئھا الشرائط الحکمیۃ التی نص علیہا ابن الغرس فی الفواکہ البدریۃ بقولہ 

حکم ومحکوم بہ ولہ 		ومحکوم علیہ وحاکم وطریق۲؎
بحر میں متعدد مواضع پر تصریح ہے کہ ہمارے زمانہ میں نافذ اکثر فیصلے قابل عمل نہیں کیونکہ ان میں فیصلہ کی تمام شرطیں جمع نہیں جن کو ابن الغرس نے فواکہ البدریہ میں یوں بیان کیا ہے: حکم، محکوم بہ، لہ و محکوم  علیہ و حاکم وطریق۔
(۲؎فتاوٰی خیریہ     بحوالہ فتاوٰی قاضیخاں    کتاب ادب القاضی    دارالمعرفۃ بیروت   ۲ /۲۴۔۲۳)
یہاں تین چیزوں یعنی بینہ ، اقرار، نکول کا نہ ہونا خود مجوز کو تسلیم اور چوتھی یعنی یمین کا نہ ہونا بھی واضح۔ نہ مدعی نے طلب حلف کیا نہ حاکم نے مدعا علیہ سے حلف مانگا نہ مدعا علیہ نے حلف کیا تو بغیر اصلا کسی طریق شرعی کے مجوز کو فیصلہ کردینے کا کیا اختیار تھا ایسا ہی اختیار فرض کیا جائے تو دعوٰی پیش ہوتے ہی تحریر فرمادینا تھا کہ حکم ہوا کہ دعوٰی مدعی نامسموع ہو آخر اس پر یہی تو الزام ہوتا کہ بلاوجہ شرعی دعوی نامسموع کیا وہ الزام اب بھی حاصل ہے تو زمین پیمائش کرانے اور مدعا علیہ کے دس گواہ سننے سے سوا تطویل لاطائل کے کچھ مفاد نہ ہوا جب شرعاً بیعنامہ میں گزوں کی تعداد لکھی کوئی حجت شرعیہ نہ تھی اور فی الواقع وہ اصلاً حجت نہیں تو پیمائش کرانی محض فضول ہوئی، شرع مطہر نے گواہ مدعی پر رکھے ہیں اور قسم مدعا علیہ پر تو مدعا علیہ یعنی منکر سے ثبوت انکار پر گواہ لینا کوئی معنی نہ رکھتا تھا حدیث میں ارشاد ہوا:
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۳؎۔
گواہی مدعی کے ذمہ اور قسم منکر کے ذمہ ہے(ت)
 (۳؎ صحیح البخاری     کتاب الرہن  ۱ /۲۴۲    وجامع الترمذی ابواب الاحکام ۱ /۱۶۰ وسنن الدارقطنی نشر السنۃ ملتان  ۴ /۲۱۸)

(نصب الرایہ کتاب الدعوٰی     باب الیمین     المکتبۃ الاسلامیہ ریاض    ۴ /۹۵)
ہدایہ و بحرالرائق میں ہے :
لقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر قسم و القسمۃ تنافی الشرکۃ۱؎۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق، گواہی مدعی کے ذمہ اور قسم انکار کرنے والے کے ذمہ، یہ تقسیم ہے اور تقسیم اشتراک کے منافی ہے۔(ت)
(۱؎ بحرالرائق     کتاب الدعوٰی     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۷ /۲۰۴)
پھر تجویز میں فرمانا کہ''ان کے اظہارات کے ملاحظہ سے ثابت ہے کہ دروازہ مدعا علیہ بدستور جائے قدیم پر ہے اور مدعی نے جو دیوار خود تعمیر کی ہے بجائے بنیاد قدیمی تعمیر کی ہے''صراحۃًشہادت علی النفی کا قبول کرنا ہے، دروازہ مدعا علیہ جائے قدیم پر ہونے کا اسی قدر حاصل کہ مدعا علیہ نے ملک مدعی میں کوئی تصرف نہ کیا، یونہی دیوار مدعی بجائے بنیاد قدیم تعمیر ہونے کا اسی قدر محصل کہ مدعی نے کوئی آبچک نہ چھوڑی جس میں مدعا علیہ تصرف کرتا، تو یہ صاف صاف نفی پر شہادتیں تھیں کہ اعتبار معنی کا ہے نہ کہ لفظ کا۔
ہدایہ وکافی وبحر وغیرہما میں ہے:
الاعتبار للمعانی دون الصور فان المودع اذاقال رددت الودیعۃ فالقول قولہ مع الیمین وان کان مدعیا للرد صورۃ لانہ ینکر الضمان۲؎۔
معانی کا اعتبار ہے صورتوں  کا نہیں، کیونکہ جب امانت رکھنے والاکہے کہ میں نے امانت واپس کردی ہے تو اس کی بات قسم کے ساتھ مان لی جائے گی اگرچہ صورتاً وہ واپس کرنے کا دعوٰی کررہا ہے، وجہ یہ ہے کہ واپسی کا دعوٰی کرکے اپنے ذمہ سے ضمان کا انکارکررہا ہے۔(ت)
(۲؎ بحرالرائق بحوالہ الہدایہ   کتاب الدعوٰی   ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۷/ ۱۹۳)
بلکہ یہاں معنیً وصورۃً ہر طرح نفی ہے کہ قدم خود مفہوم سلبی ہے یعنی حادث وجدید نہ ہونا۔ بالجملہ جس قدر کارروائی اس مقدمہ میں واقع ہوئی سب محض بیکار و بے اثر و بیگانہ و بے ثمر ہوئی۔ میں نہیں کہتا کہ غلط فیصلہ ہوا، یہ تو جب کہا جائے کہ فیصلہ ہوا ہواور اس میں خطا ہو۔ یہاں تو سرے سے فیصلہ ہواہی نہیں، یہ تجویز جس کانام عوام میں فیصلہ رکھاجائے ہرگز فیصلہ ہی نہیں، ایک کاغذ سادہ ہے کہ فیصلہ کے چھ رکن شرع مطہر نے مقرر فرمائے اور یہاں رکن ششم معدوم ہے اور بغیر رکن کے وجود شیئ محال جس کی تصریحیں ابھی کتب معتمدہ سے گزریں تو مقدمہ ہنوز رو ز اول پر ہے مدعی بلا شبہہ گواہ دے سکتا ہے اور ان کا سننا حاکم پر فرض ہے اگر وہ نہ سنے تو دوسرے محکمہ میں اس کے گواہ سنے جائیں۔

معین الحکام میں ہے :
المواضع التی تصرفات الحکام فیہا لیست بحکم ولغیر ھم من الحکام تغییرھا والنظر فیہا علی انواع کثیرۃ وانا اذکر عشرین نوعا۱؎ (الی ان قال) النوع التاسع التصرف فی انواع الحجاج بان یقول لااسمع البینۃ لانک حلفت قبلہا مع علمک بھا وقدرتک علی احجارھا فلغیرہ من الحکام ان یفعل ماترکہ۲؎۔
وہ مقامات جہاں حکام کے تصرفات ، حکم وفیصلہ نہیں بنتے اور دوسرے حکام کو ان میں تبدیل اور غور کا اختیار ہے، یہ کثیر اقسام ہیں اور میں بیس اقسام ذکر رکرہاہوں، اور آگے فرمایا، نویں قسم، بحث کی انواع میں تصرف ہے ، یوں کہ قاضی کہے کہ میں تیرے گواہوں کی شہادت نہ سنوں گا کیونکہ قبل ازیں تو گواہوں کے جاننے اور ان کو پیش کرنے پر قدرت کے باوجود قسم دے چکا ہے، تو اس حکم کو تبدیل کرنے کا دوسرے حکام کو اختیار ہے۔(ت)
 (۱؎ معین الحکام    الرکن السادس     مصطفی البابی مصر    ص۳۸)

(۲؎ معین الحکام    الرکن السادس     مصطفی البابی مصر    ص۴۰)
حاکم اپیل کو اختیار ہے کہ خود گواہ سنے اور مقدمہ حسب شرع ترتیب دے یا محکمہ ابتدائی کو واپس بھیجے کہ بعد تکمیل شرعی واسماع گواہان مدعی وہاں فیصل ہو۔واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter