Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
8 - 151
مسئلہ۹تا۱۲: ازدولت پور ضلع بلند شہر مرسلہ رئیس بشیر محمد خاں صاحب ۵/شعبان ۱۳۲۹ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین ان مسئلوں میں:

(۱) اگر کچھ طمع ناجائزسے کوئی شخص شہادت دے تو اس کی شہادت کا اعتبار ہوگا یانہیں؟

(۲) جو شخص پابند صوم صلوٰۃ نہ ہو اور مسکرات کا پابند ہو ایسے شخص کی شہادت شرعاً مانی جاسکتی ہے یانہیں؟

(۳) حواس سالم کے کیا علامات ہیں ازروئے شرع شریف کے؟

(۴) شہادت شاہد کے واسطے عمر کی قید ہے یانہیں؟اور اگرہے تو کس عمر سےکس عمر تک ناقابل شہادت مانا جاتا ہے؟
الجواب

(۱) اظہار سائل سے معلوم ہوا کہ طمع ناجائز سے مراد رشوت ہے، ایسی شہادت باطل محض مردود ہے، 

رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الراشی والمرتشی فی النار۲؎۔ رواہ الطبرانی فی الصغیر عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا جہنمی ہیں اس کو طبرانی نے معجم صغیر میں سیدنا عبداﷲ بن عمر ورضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ المعجم الاوسط للطبرانی     حدیث ۲۰۴۷    مکتبۃ المعارف الریاض    ۳/ ۲۹)
 (۲) ہر گز نہیں کہ وہ فاسق ہے اور فاسق کی شہادت مردود ہے،
قال اﷲ تعالٰی یٰایھاالذین اٰمنواان جاء کم فاسق بنبأفتبینوا۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبرلائے تو چھان بین کرلو۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۴۹ / ۶)
 (۳) باتیں مطابق عقل کے ہوں کام عاقلانہ ہوں، کبھی عاقلوں کبھی پاگل کےسے قول فعل نہ کرے یہ تصرفات کے لئے ہے، اور اگر امثال شہادت وروایت وقضا وافتا کے لئے سلامت حو اس مقصود ہو تو یہ بھی ضرورہے کہ شاہد وراوی کی یاد صحیح ہو سخت بھولنے والا نہ ہوا ور قاضی ومفتی کی فہم وفکر ٹھیک ہو۔

درمختار میں ہے:
الشہادۃ شرطہا العقل الکامل والضبط۲؎۔
شہادت کے لئے کامل عقل اور یادداشت شرط ہے۔(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۰)
اسی کی کتاب القضامیں ہے:
ینبغی ان یکون موثوقا بہ فی عفافہ وعقلہ وصلاحہ وفھمہ وعلمہ، ومثلہ فیما ذکر المفتی۳؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
قاضی معتمد علیہ ہونا چاہئے پاکدامنی، عقل وصلاح فہم اور علم میں۔ اور مذکورہ امور میں مفتی بھی قاضی کی مثل ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۳ ؎ درمختار کتب القضاء  مطبع مجتبائی دہلی ۲/ ۷۳۔۷۲)
 (۴) ادائے شہادت کے لئے بالغ ہونا شرط ہے، نابالغ کی گواہی معتبر نہیں، نہ اتنا بوڑھا ہو کہ بوجہ پیر انہ سالی دماغ صحیح نہ رہا بات یا د نہ رہے کچھ کا کچھ کہے۔

درمختارمیں ہے:
لاتقبل من اعمی مطلقا ومرتد ومملوک وصبی ومغفل ومجنون الا ان یتحملا فی الرق والتمییز، وادیا بعد الحریۃ والبلوغ۴؎۔
اندھے کی گواہی مطلقاً قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی مرتد، غلام، بچے،غافل اور پاگل کی مگر جب غلام اور بچہ غلامی اور تمیز کی حالت میں تحمل شہادت کریں اور آزادی وبلوغ کے بعد شہادت ادا کریں تو قبول ہوگی۔(ت)
(۴؎ درمختار   کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۹۴)
اسی میں ہے :
شرائط الاداء الضبط۱؎الخ
 (ادائے شہادت کی شرطوں میں سے یادداشت کا ہونا ہے الخ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۱ ؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۰)
مسئلہ۱۳:ازرامپور محلہ مسجد ملافقیر اخون صاحب مرسلہ نثار اﷲخان۲۱/شعبان ۱۳۳۱ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زیدمسلم ڈاکٹر نے ایک سرٹیفکیٹ بلوغ عمر عمرو کو اس امرکا دیا ہے کہ عمروکی اس وقت ۱۸،اور ۱۹سال کے درمیان میں عمر معلوم ہوتی ہے میری رائے میں عمرو کے چہرہ وغیرہ سے اس کی عمر ایسی نہیں معلوم ہوتی اب مونچھوں کا آغاز ہوا ہے پس سرٹیفکیٹ ڈاکٹر جوبمنزلہ شہادت کے  ہے ایسے زمانہ کی بابت جس میں ڈاکٹر نے مشاہدہ نہیں کیاہے محض اپنے قیاس اور رائے سے اظہار عمر کرتا ہے ہیں نسبت اپنی رائے کے ظاہر کرتا ہے کہ رائے کی غلطی ممکن ہے تو ایسی صورت میں یہ شہادت قابل قبول عدالت ہوگی یانہیں؟
الجواب : اسے شہادت سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس پر شہادت کی تعریف صادق آتی ہے، یہ ایک رائے اور قیاس وتخمینہ ہے جس پر اسے خود وثوق نہیں اوراس میں غلطی کا احتمال بتاتا ہے شہادت کی تو شان یہ ہے کہ اگر شاہداپنی آنکھ کی دیکھی ہوئی بات پر گواہی  دے اور اس میں فیما اعلم یا فیما احسب کا لفظ ملادے یعنی میرے خیال میں ایسا ہوا تھا یا میرے علم ویقین میں ایسا ہے تو گواہی رد کردیجائیگی کہ گواہ سے اس کا مشاہدہ پوچھا جاتا ہے اس کا علم ویقین نہیں پوچھا جاتا، نہ کہ جہاں نہ علم نہ یقین بلکہ خود غلطی کااقرار، درمختارجلد۴ص۵۷۳:
حتی لو زاد فیما اعلم بطل للشک۲؎۔
یہاں تک کہ اگر شاہد یہ لفظ بڑھاد ے کہ میرے علم میں ایسا ہے تو شک کی بنیاد پر گواہی باطل ہوگی۔(ت)
 (۲؎ درمختار    کتاب الشہادات    مطبع مجتبائی دہلی   ۲/ ۹۰)
ردالمحتار میں بحرالرائق سے ہے:
لو قال لفلان علی الف درھم فیما اعلم لایصح الاقرار ولو قال المعدل ھو عدل فیما اعلم لایکون تعدیلا۱؎۔واﷲتعالٰی اعلم۔
اگر کہے کہ میرے علم کے مطابق فلاں کے مجھ پر ہزار درہم ہیں تو یہ اقرار صحیح نہیں ہوگا، اور اگر تعدیل کرنیوالے نے کہا میرے علم کے مطابق وہ عادل ہے تو یہ تعدیل نہ ہوگی۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     کتاب الشہادات     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۷۰)
Flag Counter