Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
79 - 151
مسئلہ۹۲: ازریاست رامپور بنگلہ آزاد خاں مرسلہ مفتی لطف اﷲ صاحب خلف مفتی محمد سعد اﷲ صاحب           ۱۴ذیقعدہ ۱۳۲۶ھ

بخدمت مبارک جناب مولانا مخدوم ومکرم ذی المجد والکرم جناب مولوی احمد رضاخاں صاحب دام مجد کم ! بعد سلام مسنون التماس ہے کہ ایک شخص نے دعوی عاریت زیور کا کیا ہے اس میں صفت وزن اور قیمت کا اظہار کیا ہے شہود نے مطابق گواہی دی ہے لیکن وزن نہیں بیان کیا ہے اسی نقصان کے نظر سے شہادت مقبول نہیں ہوئی ہے مدعی عذر دار نے روایت ذیل فتاوٰی عالمگیری میں پیش کی ہے:
ان وقعت الدعوی فی عین غائب لایدری مکانہ بان ادعی رجل علی رجل انہ غصب منہ ثوبااو جاریۃ ولایدری انہ قائم او ھالک ان بین الجنس والصفۃ والقیمۃ فدعواہ مسموعۃ وبینتہ مقبولۃ۱؎۔
اگر کسی ایسی چیز کے متعلق دعوٰی ہو جو غائب ہو اورمعلوم نہ ہو کہ کہاں ہے یوں کہ کسی نے دوسرے کے خلاف دعوٰی کیا کہ اس نے میرا کپڑا یا لونڈی غصب کر رکھی ہے معلوم نہیں کہ موجود ہے یا ضائع ہوگئی ہے اور مدعی نے اس پر شہادت میں جنس، صفت اور قیمت بیان کی ہو تو اس کا دعوٰی مسموع اور گواہی مقبول ہوگی۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الدعوٰی     الباب الثانی الفصل الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۵)
ظاہر ہے کہ روایت ہذا متعلق بہ غصب ہے کیا یہی حکم عاریت میں بھی جاری ہوسکتا ہے یعنی مثل غصب کے عاریت میں بھی اگر شہود وزن کا ذکر نہ کرینگے جب بھی شہادت مقبول ہوگی چونکہ نظر عالی نہایت وسیع ہے اور محققانہ مسلک ہے لہذا آپ کی خدمت باعظمت میں تصدیعہ دیا جاتا ہے کہ جواب باصواب سے آگاہ فرمایا جائے، مقدمہ کی تاریخ ۱۱/دسمبر ۱۹۰۸ء مقرر ہے ، امید کہ ورودجواب سے قیل میعاد شرف حاصل ہوگا۔

خاکسار نیاز مند دیرین  از ریاست رام پور         ۸/ دسمبر ۱۹۰۸ء
الجواب
اللھم لک الحمد
(یا اﷲ ! تمام حمدیں تیرے لئے ہیں ۔ت) اصل مقصود دعوی و شہادت دونوں میں تعین مدعی بہ ہے کہ قضا ممکن ہو
فان القضاء بمجہول غیر معقول
(مجہول چیز کا فیصلہ عقل کے خلاف ہے ۔ت)     درمختار میں ہے :
 شرطھا ای شرط جواز الدعوی معلومیۃ المال المدعی اذلایقضی بمجہول۱؎۔
اس کی شرط یعنی دعوٰی کی شرط یہ ہے کہ وہ مال معلوم ہو جس کا دعوٰی کیا گیا ہے کیونکہ مجہول چیز کا فیصلہ نہیں ہوتا۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الدعوٰی     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۱۵)
پھر جو شیئ حاضر ہو اس کی طرف اشارہ تعیین کےلئے کافی ہے۔
جامع الفصولین میں ہے :
تسمع الدعوی بحضرتہ عند الاشارۃ الیہ وحینئذ یستغن عن ذکر الاوصاف و الوزن والنوع۲؎
مدعٰی کے حاضر ہونے پر اس کی طرف اشارہ سے دعوٰی مسموع ہوگا اور اس صورت میں دعوی میں چیز کے اوصاف ، وزن اور اس کی نوعیت بیان کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔(ت)
(۲؎ جامع الفصولین     الفصل السادس    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۷۷)
اسی میں ہے:
لوکان عینا حاضرا لا یشترط ذکراوصافہ۳؎۔
 اگر کسی موجود حاضر چیز سے متعلق دعوٰی ہوتو اس کے اوصاف کو ذکر کرنا شرط نہیں(ت)
(۳؎جامع الفصولین     الفصل السادس    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۷۹)
یہاں تک کہ وزن بیان نہ کرنا درکنار اگر غلط و خلاف واقع بیان کیاضرر نہ کرے گا
لان التسمیۃ تلغو عن الاشارۃ
(کیونکہ اشارہ کی وجہ سے اوصاف کا ذکر لغو ہوجاتا ہے ۔ت)
بزازیہ میں ہے :
ادعی حدیدا و ذکرانہ عشرۃ امناء فاذا ھو عشرون او ثمانیۃ تقبل الدعوی والشہادۃ لان الوزن فی المشار الیہ لغو۱؎۔
حاضر لو ہے کو اشارہ کرکے دعوٰی کیا اور بیان کیا کہ یہ دس من ہے جبکہ وہ بیس من یا آٹھ من نکلا تو دعوٰی اور شہادت دونوں مقبول ہیں کیونکہ مشار الیہ چیز میں وزن کابیان لغو ہوتا ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیۃ     کتاب الدعوٰی     الفصل الخامس عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۴۲۱)
اور جو شیئ حاضر نہ ہو اس میں جنس وقدر، بالجملہ اس قدر اشیاء کابیان ضروری ہے جن سے اس کی پوری تعیین بقدر امکان واحتیاج حاصل ہو، 

کنز الدقائق وتبیین الحقائق میں ہے :
(لایصح الدعوی حتی یذکر شیئا علم جنسہ وقدرہ) لان فائدتھا الالزام بواسطۃ الاشھادولایتحقق الاشھاد ولاالزام فی المجہول فلایصح۲؎۔
کوئی دعوٰی صحیح نہیں ہوتا جب تک شیئ کو ذکر کرکے اس کی جنس اور قدر کو بیان نہ کیا جائے کیونکہ دعوے کا مفاد گواہی کے ذریعے الزام ثابت کرنا ہے جبکہ الزام اور گواہی مجہول چیز میں متحقق نہیں ہوسکتے اس لئے دعوی صحیح نہ ہوگا۔(ت)
(۲؎ تبیین الحقائق     کتاب الدعوٰی    المطبعۃ الکبری بولاق مصر    ۴ /۲۹۱)
قرۃ العیون میں ہے :
معلومیۃ المال المدعی ای ببیان جنسہ وقدرہ بالاجماع لان الغرض الزام المدعی علیہ عند اقامۃ البینۃ ولا الزام فیما لایعلم جنسہ وقدرہ۳؎۔
جس مال کا دعوٰی ہو اس کا جنس اور مقدار بیان سے معلوم ہونا بالاجماع ضروری ہے کیونکہ غرض یہ ہے کہ مدعٰی علیہ کو گواہی کے وقت الزام دیا جائے جبکہ جنس اور قدر معلوم ہوئے بغیر الزام متحقق نہیں ہوگا۔(ت)
 (۳؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الدعوٰی   مصطفی البابی مصر    ۱/ ۳۱۶)
اور ظاہر ہے کہ سونے چاندی میں قدر وہی وزن ہے، جامع الفصولین میں ہے :
فی الذھب والفضۃ المقدر ھوالوزن۴؎۔
سونے اور چاندی کے دعوٰی میں ضروری بیان وزن کاہے۔(ت)
 (۴؎ جامع الفصولین     الفصل السادس    اسلامی کتب خانہ کراچی     ۱ /۷۵)
تو بیان وزن ضروری ہے اور بغیر اس کے دعوٰی ہو یا شہادت صحیح نہیں، 

بحرالرائق میں ہے:
اشار باشتراط معلومیۃ الجنس والقدر الی انہ لابد من بیان الوزن فی الموزونات۱؎۔
جنس اور قدر کے معلوم ہونے کی شرط میں انہوں نے اشارہ کیا ہے کہ وزنی چیز میں وزن کا بیان ضروری ہے۔(ت)
 (۱؎بحرالرائق     کتاب الدعوٰی     ایچ ایم سعیدکمپنی کراچی    ۷ /۱۹۵)
عبارت عالمگیری سے اس مقدمہ میں استناد صحیح نہیں اولا غصب وعاریت میں فرق ظاہر ہے کہ غصب ان مستثنٰی اشیاء سے جن کے دعوٰی میں قدرے جہالت تحمل کی جاتی ہے ،
ردالمحتار میں ہے :
یستثنی من فساد الدعوی بالمجہول دعوی الرھن والغصب لما فی الخانیۃ معزیا الٰی رھن الاصل اذا شھدواانہ رھن عندہ ثوبا ولم یسمواالثوب ولم یعرفوا عینہ جازت شہادتھم والقول للمرتھن فی ای ثوب کان وکذلک فی الغصب اھ فالدعوی بالاولی اھ بحر۲؎۔
مجہول چیز کے دعوٰی کے حکم سے رہن اور غصب کا دعوٰی مستثنٰی ہے کیونکہ خانیہ میں اصل (مبسوط) کے رہن کے حوالہ سے ہے کہ جب گواہوں نے شہادت میں کہا کہ اس شخص نے فلاں کے پاس کپڑا رہن رکھا ہے اور کپڑے کانام ذکرنہ کیااور نہ ہی گواہ کپڑے کو جانتے ہیں تو یہ شہادت جائز ہوگی اور کپڑے کے تعین میں مرتھن کاقول معتبر ہوگا کہ وہ کون ساکپڑا ہے اور غصب میں بھی حکم یہی ہے اھ (شہادت میں جہالت جب قابل اعتبار ہے) تو یہاں دعوٰی میں بطریق اولٰی جائز ہوگی اھ بحر(ت)
 (۲؎ ردالمحتار کتاب الدعوٰی داراحیاء التراث العربی بیروت۴/۴۲۰)
ولہذااس میں ذکر قیمت کی بھی حاجت نہیں، خود اسی عبارت عالمگیری میں کلام منقول سوال کے متصل ہی تھا،
وان لم یبین القیمۃ اشار فی عامۃ الکتب انہا مسموعۃ کذافی الظہیریۃ۳؎۔
دعوٰی میں اگر قیمت کا بیان نہ ہو تو عام کتب میں دعوٰی کے مسموع ہونے کا اشارہ ہے ، جیسا کہ ظہیریہ میں ہے(ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ   کتاب الدعوٰی  الباب الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور     ۴ /۵)
Flag Counter