Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
78 - 151
پس صورت مستفسرہ میں سید امیر شاہ عبدالمجید خاں کی شہادتیں کہ ہبہ ومعاینہ قبضہ کی ہیں قبضہ تامہ بتارہی ہیں اور ان پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتے کہ رسول خاں کی ذات ومتاع سے تخلیہ نہ بیان کیا بیشک بیان کیا کہ قبضہ دلانے کے خود یہی معنی ہیں، یونہی بہرام خاں اور اس کی زوجہ اور ان کے اسباب سے بھی تخلیہ اسی میں آگیا کہ جوباجازت مالک بلا اجرت رہتا ہو اس کا قبضہ بھی قبضہ مالک ہے تو قبضہ دلانا اس سے تخلیہ کو مستلزم
کما حققنا اٰنفا
 (جیسا کہ ابھی ہم نے تحقیق کی ہے۔ت) بلکہ زیادات صاحب محیط وفصول عمادی وبحر الرائق ومنح الغفار ودرمختار وعالمگیری وغیرہما معتمدات میں تو یہاں تک تصریح ہے کہ غیر واہب کے ملک و اسباب سے موہوب کا مشغول ہونا تمامی ہبہ کا سرے سے مانع ہی نہیں،
فصول وہندیہ میں ہے :
اشتغال الموھوب یملک غیر الواھب ھل یمنع تمام الھبۃ ذکر صاحب المحیط فی الباب الاول من ھبۃ الزیادات انہ لایمنع۳؎۔
کسی موہوب چیز کا واہب کے غیر کی ملکیت میں مصروف ہونا کیا ہبہ کے تمام ہونے سے مانع ہے، صاحب محیط نے زیادات کے ہبہ کے باب اول میں ذکر کیا کہ مانع نہیں ہے۔(ت)
 (۳؎ فتاوٰی ہندیۃ     بحوالہ الفصول العمادیۃ     کتاب الہبہ     الباب الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور     ۴ /۳۸۰)
درمختار میں ہے :
شغلہ بغیر ملک واھبہ لایمنع تمامھا۱؎۔
  واہب کی ملکیت کے غیر میں مصروف ہونا مانع نہیں ہے(ت)
(۱؎ درمختار     کتاب الہبہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۵۹)
اور جب کہ کلام شاہد اس حکم سے کہ ہم بیان کرچکے جملہ موانع صحت ارتفاع پر محمول اور وقت قبضہ مجرد کسی شخص غیرموہوب لہ کا مکان میں موجود ہونا مانع تمامی قبضہ نہیں جب کہ نہ وہ قبضہ مستقلہ رکھتا ہو جیسے مرتہن ومستاجر، نہ اس کا قبضہ قبضہ مالک ہو جیسے اہل وعیال و مودع ومستعیر کہ مانع قبضہ غیر ہے نہ کہ مجرد وجود غیر، اور ہر شخص کہ مکان میں ایک ساعت کے لئے موجود ہو مکان کا قابض نہیں کہلاتا ، کیا سائل کہ سوال کے لیے آنے یا نوکر یا ملاقات کے لیے آنے والا دوست وغیرھم قابضان مکان گنے جاتے ہیں، ہر گز نہیں، عبدالمجید خاں کاکہنا کہ اس وقت سوا مدعا علیہا کے اور کوئی نہ تھا اور کوئی ہو تو مجھے معلوم نہیں ہر گز شہادت قبضہ تامہ میں خلل انداز نہیں، ہاں اگر وہ یہ کہتا کہ اس وقت اور کسی کا بھی قبضہ ہو تو مجھے معلوم نہیں تو بیشک بیان اول کے منافی ہوتا۔ قبضہ صنوبر بیگم کی شہادت تو وہ صاف ادا کرچکا جس کے یہی معنی ہیں کہ اور کوئی قابض نہ تھا پھر کسی غیر قابض کا ہونا نہ ہونا اگر اسے معلوم نہ ہو، بلکہ پچاس اشخاص غیر قابضین کا ہونا معلوم ہو تو کیا ضرر ہے، کیا موہوب لہ کے قبضہ لیتے وقت اگر اس کے نوکر چاکر یا عزیز اقربا یا تحمل شہادت کے لئے بعض اہل محلہ وغیرہم ساتھ ہوں تو قبضہ تامہ نہ ہوگا کس نے لازم کیا ہے کہ موہوب لہ اس وقت تنہا مکان میں چھوڑدیا جائے کوئی فرد بشر اس کے پاس نہ جانے پائے، اور جب یہ دونوں شہادتیں معاینہ قبضہ کی ہیں اور معاملہ ہبہ کا ہے تو مدت میں اختلاف کہ ایک چھ سات سال دوسرا بارہ سال بتاتا ہے کچھ مضر نہیں۔ 

فتاوٰی قاضی خاں وفتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
ان اختلفوا فی عقد لایثبت حکمہ الابفعل القبض کالھبۃ والصدقۃ والرھن فان شھدواعلی معاینۃ القبض و اختلفوا فی الایام والبلدان جازت شہادتھم فی قول ابی حنیفۃ وابی یوسف رضی اﷲ تعالٰی عنہما ولو شھدواعلی اقرار الراھن والمتصدق والواھب بالقبض جازت الشہادۃ فی قولھم ۱؎۔
ایسا عقد جس میں قبضہ کے عمل کے بغیر حکم ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ہبہ، صدقہ اور رہن تو اس میں اگر گواہوں نے قبضہ دیکھنے کی شہادت دی اور وقت اور مقام میں گواہوں کا اختلاف ہوا ہو تو امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف رحمہما اﷲ تعالٰی کے نزدیک یہ شہادت قبول کی جائے گی اور گواہوں نے واہب، صدقہ کرنے والے اور راہن کے اس اقرار پر کہ قبضہ دے دیا تو بالاتفاق سب کے قول میں یہ شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۰۹)
فتاوٰی صغرٰی میں ہے:
لو شھدابرھن واختلفا زمانہ اومکانہ وھما یشھد ان علی معاینۃ القبض تقبل وکذاشراء وھبۃ وصدقۃ۲؎۔
  اگردونوں گواہوں نے رہن رکھنے کی شہادت دی اور مکان وزمان میں اختلاف کیا تو قبضہ دیکھنے کی گواہی دی تو شہادت مقبول ہوگی اور یونہی خریداری، صدقہ اور ہبہ کا حکم ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی صغرٰی )
بالجملہ یہ دونوں شہادتیں ہبہ ہونا اور صنوبر بیگم کا قبضہ تامہ ہوجانا بروجہ کافی بیان کررہی ہیں ان کے مقابل جانب مدعی کی شہادت کہ واہب کا اسباب مقبوضہ وقت ہبہ اس مکان میں تھا یہ تو اصلاً وارد نہیں کہ موہوب کا وقت ہبہ ملک واہب سے خلو ضرور نہیں وقت قبضہ موہوب لہ ضرور ہے اور وقت ہبہ وقت قبضہ سے مقدم ہے تو اس شہادت کو ان شہادات سے کچھ مس نہیں اور یہ شہادتیں کہ واہب تادم مرگ اس مکان میں رہا یا بہرام خاں اور اس کی زوجہ ہمیشہ سے اس میں رہتی ہیں، ان کا حاصل اگر ہے تو اتنا کہ تخلیہ نہ ہوا صنوبر بیگم کا قبضہ تامہ نہ ہوا تو یہ سب شہادتیں نفی پر ہیں اور نفی پر شہادت مقبول نہیں جب تک متواتر نہ ہو جسے شہر کا ہر چھوٹا بڑا ہر عالم جاہل جانتا ہو اور عام لوگوں کی گواہیاں اس پر گزرجائیں۔

 فتاوٰی صغری وجامع الفصولین ومعین الحکام میں ہے:
لاتقبل لانہاقامت علی النفی لان قولھما کان فی مکان کذا نفی معنی ولو کان اثباتا صورۃ اذ الغرض نفی ماقامت علیہ البینۃ الاولٰی۳؎۔
شہادت قبول نہ کی جائیگی کیونکہ یہ نفی پر شہادت ہے کیونکہ گواہوں کا کہنا کہ فلاں مکان میں تھا، اگرچہ یہ صورۃً اثبات ہے مگر معنیً غرض یہ ہے کہ پہلی گواہی سے جو چیز ثابت ہوئی ہے اس کی نفی کی جائے۔(ت)
 (۳؎ جامع الفصولین     بحوالہ فتاوٰی صغرٰی     الفصل الثانی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۷۲)
عالمگیری میں ذخیرہ سے ہے:
الاان تاتی العامۃ وتشھد بذلک فیؤخذ بشہادتھم۱؎۔
مگر عام لوگ بتائیں تو اس پر لی گئی شہادت قبول ہوگی۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الشہادات    الباب التاسع   نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۵۱۴)
نیز ان دونوں میں ہے:
الاان تکون ظاہرامستفیضایعرفہ کل صغیر وکبیر وکل عالم وجاہل۲؎۔
مگر ظاہر مشہور کہ ہر چھوٹا بڑا، عالم و جاہل اسے جانتا ہو۔(ت)
(۲؎فتاوٰی ہندیہ  کتاب الشہادات  الباب التاسع  نورانی کتب خانہ پشاور  ۳ /۵۱۶)
اور یہاں مستفیض متواتر شہادتیں خاص اس امر پر گزرنی درکار تھیں کہ وقت قبضہ صنوبر بیگم رسول خاں یا اس کا اسباب اس مکان میں موجود تھا یا فلاں لوگوں کا قبضہ تھا ورنہ یہ مجمل بات کہ فلاں ہمیشہ سے اس میں رہتے ہیں یا مرتے دم تک رہے اصلاً کافی نہیں کہ ان شہادتوں کی بنا استصحاب حال پر ہوگی اور موہوب لہا کہ شہادتیں خاص اس وقت تخلیہ تامہ بتارہی ہیں تو وہ شہادات ان کے معارض نہیں ہوسکتیں کہ تخلیہ صرف ایک ساعت خفیفہ وقت قبضہ ضرور تھا اس کے بعد عمر بھر خود رسول خاں کا قبضہ باجازت صنوبر بیگم خواہ بلا اجازت غصباً رہے تو جو ملک کہ صنوبر بیگم کے لئے بعد ہبہ قبضہ تام سے ثابت ہولی زائل نہیں ہوسکتی
کما لایخفی
(جیسا کہ پوشیدہ نہیں۔ت)
جامع الفصولین اواخر فصل عاشر میں ہے:
ادعی دارا انی اشتریتہ من ابیک وبرھن ذوالید انہ ملک ابیہ الی یوم موتہ و مات و ترکہ میراثا لاتقبل بینتہ لانھم شھدواباستصحاب الحال والمدعی اثبت الزوال۳؎۔
کسی نے ایک شخص کے مقبوضہ مکان پر دعوٰی کیا یہ مکان میں نے تیرے والد سے خریدا ہے جبکہ قابض کہتا اور شہادت پیش کرتا ہے کہ یہ موت تک میرے والد کی ملکیت رہا اور اس نے اپنی موت پر اس کو بطور ترکہ میراث چھوڑا ہے، تو قابض کی یہ شہادت قبول نہ ہوگی کیونکہ یہ سابقہ حال پر شہادت ہے جبکہ مدعی ملکیت کے زوال کو ثابت کررہا ہے۔ (ت)
(۳؎ جامع الفصولین     الفصل العاشر     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۵۰)
اور جب کہ شہادتیں صنو بر بیگم کو بعد ہبہ قبضہ دلانا بیان کررہی ہیں تو قبول صنوبر بیگم اصلاً ضرور نہیں شہادتوں میں اس کا عدم بیان درکنار اگر بیان عدم ہوتا جب بھی مضر نہ تھا کہ قبضہ جو مجلس ہبہ میں ہوا اگرچہ بے اذن واہب یا باذن واہب ہو اگر چہ مجلس ہبہ کے بعد وہ مطلقاً مثبت ملک موہوب لہ ہو اور یہی دلیل قبول ہے اگرچہ موہوب لہ نے صراحۃً قبول ہبہ نہ کیا ہو۔

 شلبی علی التبیین میں امام قاضی خاں سے اور حاوی الفتاوٰی و فتاوٰی عالمگیریہ وغیرہا میں ہے :
  وھذانص الھندیۃ لو قال وھبت منک ھذا العبد والعبد حاضر فقبضہ جازت الھبۃ وان لم یقل قبلت کذافی الملتقط، ولو کان  العبد غائبا فقال لہ وھبت منک عبدی فلانا فاذھب واقبضہ فقبضہ جازوان قبلت وبہ ناخذ کذافی الحاوی للفتاوی۱؎۔
یہ ہندیہ کی عبارت ہے، اگر کسی نے کہا یہ عبد میں نے تجھے ہبہ کیا، عبد حاضر تھا موہوب لہ نے اسی وقت عبدکو قبضہ میں لے لیا تو ہبہ صحیح ہوجائیگا اگرچہ زبانی ''میں نے قبول کیا'' نہ کہا ہو جیسا کہ ملتقط میں ہے، اور اگر عبد غائب اور کہا فلاں عبد میں نے تجھے ہبہ کیا جاکر قبضہ کرلو، پس اس نے قبضہ کرلیا تواگرچہ زبانی قبول کرنے کی بات نہ کی ہوتو بھی ہبہ جائز ہے، ہمارا یہی مختار ہے، الحاوی للفتاوٰی میں یوں ہے۔(ت) اسی طرح امام فقیہ النفس قاضی خاں نے اسے
بہ ناخذ۲؎
 (ہم اسے ہی اختیار کرتے ہیں۔ت) فرمایا،
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الہبہ     الباب الثانی     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۳۷۷)

 (۲؎ فتاوٰی قاضی خاں     کتاب الہبہ     نولکشور لکھنؤ    ۴ /۶۹۶)
سوال میں بیان گواہان کا خلاصہ لکھا ممکن کہ پورا بیان دیکھنے سے کوئی اور بات پیدا ہومگر جس قدر خلاصہ ہمارے سامنے پیش ہوا اس میں سید امیر شاہ وعبدالمجید خاں کی شہادتیں اعتراضات سے پاک ہیں اگر بیان کامل میں کوئی بات مضر شہادات نہیں اور یہ دو گواہیاں قابل قبول شرع اور بروجہ شرعی گزر گئی ہوں تو ضرور ہبہ مکان بحق صنوبر بیگم ثابت ہے اور مکان تقسیم سے بری۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۲) سائل کو تحریر ہبہ نامہ سے اعتراف ہے قبضہ موہوب لہ میں کلام ہے اور قاضی ریاست نے مدعیہ ہبہ و قبضہ کا دعوٰی سماعت کیا اور اس پر گواہ لئے جیسا کہ سوال اول سے ظاہر ہے اور ہم اس کے جواب میں واضح کر آئے کہ ان میں دو شہادتیں اگر بروجہ مقبول شرعی گزری ہوں توہبہ تام و ثابت ہے اور ساعت قبضہ موہوب لہا سے پہلے اور بعد آج تک اور دن کا اس میں رہنا بسنا قابض ہونا مخل صحت ہبہ نہیں تو اس تقدیر پر اس سوال دوم کے لئے کوئی منشا باقی نہیں، ہاں اگر یہ گواہیاں شرعاً مخدوش و نامقبول ہوں تو ان گواہیوں پر کہ اب تک واہب کا قبضہ رہا اب بھی التفات نہ ہوگا کہ شہادت علی النفی معتبر نہیں بلکہ مدعیہ ہبہ کی درخواست پر خواہندہ تقسیم سے حلف لیا جائے گا کہ اس کے علم میں واہب نے کبھی موہوب لہا کو قبضہ نہ دلایا اگر وہ حلف سے انکار کرے گا ہبہ ثابت ہوجائے گا اور حلف کرے گاتو ہبہ غیر ثابت قرار پاکر مکان میں سے اس خواستگار تقسیم کا حصہ جدا کردیا جائے گا، واﷲ تعالٰی اعلم ۔
Flag Counter