Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
77 - 151
شرعاًوعقلاً وعرفاً جب تک مالک مکان خود مکان میں ہو اسی کا قبضہ ہے اس کا مال اسباب رکھا ہو تو اسی کا قبضہ ہے اس کے اہل وعیال رہتے ہوں تو اسی کا قبضہ ہے ولہذا اگر مکان ہبہ کیا اور ہنوز خود واہب یا اس کا اسباب یا اہل وعیال مکان میں ہیں ان سے تخلیہ نہ کیا اور موہوب لہ سے کہتا ہے میں نے تجھے قبضہ دیا تو اس کا یہ کہنا صحیح نہیں۔

 فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
لایصح قولہ اقبضھا او سلمت اذاکان الواھب فیہ اواھلہ او متاعہ کذافی التاتارخانیۃ۱؎۔
جب واہب خود یا اس کے اہل وعیال یا اس کا سامان مکان میں موجود ہو تو واہب کایہ کہنا کہ قبضہ کرلو میں نے سپردکردیا، مکان کے قبضہ کیلئے صحیح نہ ہوگا، تاتارخانیہ میں یوں ہے(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الھبۃ         الباب الثانی         نورانی کتب خانہ پشاور      ۴ /۳۸۰)
اسی طرح اگر کوئی شخص مالک کی اجازت  سے عاریۃً یعنی بے اجرت رہتا ہے توجب بھی مکان قبضہ مالک ہی میں ٹھہرے گا کہ مرتہن یا مستاجر کی طرح اس کا قبضہ مستقلہ نہیں بلکہ قبضہ مالک ہی کی فرع اور اسی سے مستفاد ہے تو اس کا نافی نہ ہوگا بلکہ اس کی تقریر و تاکید کرے گا ولہذا اگر مکان جس میں بلا اجرت اور لوگوں کو سکونت دے رکھی ہے مالک نے اپنے نابالغ بچہ کو ہبہ کیا ہبہ کرتے ہی ملک پسر ہوگیا ان لوگوں سے تخلیہ درکار نہیں کہ ان کا قبضہ خود قبضہ واہب ہے اور اپنے ولد صغیر کو ہبہ کو ہبہ کرنے میں خود اپنا ہی قبضہ مطلوب ہے،

امام زیلعی تبیین الحقائق میں فرماتے ہیں :
لووھب من ابنہ الصغیر دارا و الاب ساکنھا ومتاعہ فیہا جازت الھبۃ، وملکہا الابن بمجرد قولہ وھبتھا لہ لانھا فی یدہ و سکناہ ومتاعہ فیہا لاینافی یدہ بل یقررھا فتکون ھی فی قبضہ وھو الشرط، ولوکان یسکنھا غیرہ باجر لا یجوز لماذکرنا(ای فی الغاصب والمرتہن والمستاجران کل واحد منھم قابض لنفسہ وعال لنفسہ بخلاف المودع لان یدہ ید المالک) وان کان بغیر اجر جازت الھبۃ وملکھا الابن بمجرد العقد ذکرہ محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ فی المنتقی ۱؎۔
اگر باپ نے اپنے نابالغ بیٹے کو مکان ہبہ کیا حالانکہ باپ اس میں سکونت پذیر ہے یا باپ کا سامان اس میں موجود ہے تو ہبہ جائز ہوگا اور یہ کہہ دینے سے کہ میں نے بیٹے کو یہ مکان ہبہ کیا بیٹا مالک ہوجائیگا کیونکہ نابالغ کے لئے باپ کا قبضہ ہی کافی ہونے کی وجہ سے مکان میں باپ کی رہائش اور سامان قبضہ کے منافی نہیں ہے بلکہ یہ قبضہ کا ثبو ت ہے لہذا یہ بیٹے کے قبضہ میں ہے یہی قبضہ شرط ہے اور اگر اس مکان میں باپ کاغیر کوئی کرایہ دار ہوتو یہ قبضہ ہبہ کے لئے صحیح نہ ہوگا، اس کی وجہ ہم نے ذکر کردی ہے یعنی غاصب، رہن لینے والے، اجرت پر لینے والے، کے بارے میں ذکر کیا کہ یہ لوگ اپنی ذات کے لئے قابض اور عامل ہوتے ہیں، اس کے بخلاف امانت پاس رکھنے والا، کہ اس کا قبضہ امانت کے طور پر مالک کا قبضہ قرار پاتا ہے، اور اگر باپ کے ہبہ کردہ مکان میں کوئی دوسرا بغیر کرایہ رہائش پذیر ہے تو مذکورہ صورت میں ہبہ جائز اور ہبہ کر دینے سے نابالغ بیٹا مالک قرار پائے گا۔امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی نے اس کو منتقی میں ذکر فرمایا ہے(ت)
(۱؎ تبیین الحقائق     کتاب الہبہ     المطبعۃ الکبرٰی بولاق مصر    ۵ /۹۵،۹۶)
اور قبضہ دلانے کے معنی شرعاً وعقلاً وعرفاً یہی ہیں کہ اپنا قبضہ اٹھا کر اس کا قبضہ کرادیا جائے ورنہ جب تک اپنا قبضہ موجود ہے اس کا قبضہ کیونکر ہوگاکہ شیئ اپنے منافی کے ساتھ جمع نہیں آخر نہ دیکھا کہ جب تک تخلیہ تامہ نہ ہو واہب کے اس قول کو کہ میں نے تجھے قابض کردیا صحیح نہ مانا اور کلام مدعی کا ہو خواہ شاہد خواہ کسی عاقل کا، وہ معنی صحیح ہی پر محمول ہوگا، 

جامع الفصولین فصل اربعین میں ہے :
مطلق کلام العاقل او تصرفہ یحمل علی الصحۃ بقضیۃ الاصل وکذا الشہادۃ علی ھذا ۱؎۔
عاقل کے کلام اور تصرف کو اصل قاعدہ کے مطابق صحت پر محمول کیا جائے گا اور یوں ہی اس کی شہادت کو بھی۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل الاربعون    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۲ /۳۳۲)
تو گواہ جب شہادت دیں کہ واہب نے ہبہ کیا اور قبضہ کرادیا اس کے یہی معنی ہیں کہ اپنا قبضہ اٹھا کر موہوب لہ کو قابض کردیا اور اوپر معلوم ہوچکا کہ جب تک وہ خود یا اس کا اسباب یا اہل وعیال یا کوئی ساکن جو بلا اجر اس کی اجازت سے رہتا ہو مکان میں موجود ہے واہب کا قبضہ نہ اٹھا تو قبضہ دلانا صادق نہ ہوا حالانکہ شہود قبضہ دلانے کی گواہی دے رہے ہیں تو بالضرورت اس شہادت کے یہی معنی ہیں کہ تخلیہ تام ہولیا اور واہب و متاع واہب واہل وعیال واہب وغیرہم جملہ مذکورین جن کی بقاء قبضہ واہب کی بقا ہو اس وقت مکان میں نہ تھے بالجملہ قبضہ دلانے کی شہادت بعینہ تخلیہ وفراغ کی شہادت ہے جس کے بعد اس کے ذکر صریح کی اصلاً حاجت نہیں جس طرح حاکم کے حضور نکاح کی گواہی میں شہود کا اتنا کہنا کافی ہے کہ فلاں مدعی نے فلاں مدعا علیہا سے نکاح کیا تمام شرائط کی تفصیل کہ اس وقت دو مرد یا ایک مرد دو عورتیں عاقل بالغ سامع فاہم موجود تھے اور مجلس واحد میں انہوں نے ایجاب وقبول سنے وغیر ذلک بیان کرنے کی حاجت نہیں
لان الشیئ اذا ثبت ثبت بلوازمہ
 (کیونکہ جب کوئی چیز ثابت ہوتی ہے تو وہ اپنے لوازمات سمیت ثابت ہوتی ہے۔ت) ولہذا شہادت ہبہ خواہ دعوٰی ہبہ کی تصویر وں میں جہاں دیکھئے علماء کرام قدست اسرار ہم نے اسی قدر پر قناعت فرمایا ہے کہ ہبہ کیا اور قبضہ دے دیا اس کے ساتھ یہ نہیں بڑھاتے کہ اور واہب خودبھی مکان سے الگ ہوگیا اور اپنا مال واسباب بھی نکال لیا اور اپنے اہل وعیال کو بھی جداکردیا اور جو لوگ بلا اجارہ اجازۃً رہتے تھے ان کو بھی ہٹادیا اس کے بعد قبضہ کرایا، تو وجہ وہی ہے کہ یہ سارا بیان اتنے کہنے میں آگیا کہ قبضہ کرادیا جیسے جملہ شرائط نکاح اس لفظ میں آگئے کہ نکاح کیا جامع الفصولین آخر فصل ۱۱میں ہے :
شھداحدھماکہ ایں بخواست ایں زن را وشھد الاخر کہ ایں زن خود را بایں داد تقبل۲؎۔
ایک نے شہادت دی کہ اس نے عورت کونکاح کی پیشکش کی ہے اور دوسرے نے یوں شہادت دی کہ عورت نے خود اپنے آپ کو اس کے نکاح میں دیا تو یہ شہادت مقبول ہوگی۔(ت)
(۲؎جامع الفصولین    الفصل الحادی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۸)
خزانۃ المفتین میں ہے:
قال ھذہ امرأتی اوقال ھذہ منکوحتی وشھد واانہ کان تزوجھا تقبل ھذہ الشہادۃ۱؎۔
مرد نے کہا یہ میری بیوی ہے،یا کہا میری منکوحہ ہے، اور گواہوں نے شہادت میں کہا کہ اس نے اس سے نکاح کیا تویہ شہادت قبول ہوگی۔(ت)
(۱؎ خزانۃ المفتین    کتاب الشہادات    باب الاختلاف بین الدعوی و الشہادۃ     قلمی نسخہ    ۲ /۱۱۳)
بلکہ عالمگیری میں اسی سے ہے:
شھدوا انھا امرأتہ وحلالہ ولم یذکرواالعقد المختار انہ یجوز۲؎۔
گواہوں نے کہا یہ اس کی بیوی ہے اور اس کےلئے حلال ہے، اور نکاح کا ذکر نہ کیا تو مختار مذہب ہے کہ یہ شہادت جائز ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب السابع         الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۰۳)
خانیہ پھر ہندیہ ج ۳ص۵۰۱میں ہے:
ادعی دارافی یدرجل انھا لہ فجاء بشاھدین وشھداان فلانا وھبھا لہ وقبضھا منہ وھو یملکھا الخ۳؎۔
کسی شخص کے مقبوضہ مکان کے متعلق ایک شخص نے دعوٰی کیا کہ یہ میرا ہے اور اس پر دو گواہ پیش کئے جنہوں نے شہادت دی کہ یہ مکان مدعی کو فلاں شخص نے ہبہ کیا اور اس نے اس سے قبضہ لیا تو مدعی مالک ہوگا الخ۔(ت)
(۳؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات   الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۵۰۱)
ایضاً صفحہ ۵۱۱ :
شھد احدھما ان المدعی اقرانہ وھبہ للذی فی یدیہ وقبضہ منہ وشھد الاٰخر انہ اقرانہ نحلہ للذی فی یدیہ وقبضہ ۴؎ (ای تقبل)
ایک گواہ نے کہا کہ مدعی نے اقرار کیا کہ قابض نے یہ مکان اسے ہبہ کیا ہے اور اس نے قبضہ لیا ہے جبکہ دوسرے گواہ نے کہ اس نے یہ اقرار کیا ہے کہ اس نے  یہ مکان قابض کو عطیہ دے کر قبضہ دیا ہے تو شہادت قبول کی جائیگی۔(ت)
(۴؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الثامن    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۵۱۱)
ایضاً ج ۴ ص۸۷ :
ادعی الھبۃ مع القبض ۵؎ الخ ایضا ادعی ان فلانا وھبھا لہ وقبضھا منہ۶؎ ایضا دعوی الھبۃ والصدقۃ مع القبض فیہما مستویان۱؎۔
ہبہ مع قبضہ کا دعوٰی کیا الخ، نیز دعوی کیا کہ فلان نے اسے ہبہ کیا اور قبضہ اس نے لے لیا،  نیز ہبہ اور صدقہ کے دعوی کے ساتھ قبضہ لینے کا دعوٰی ہوتو دونوں کا حکم مساوی ہے۔(ت)
 (۵؎و۶؂ فتاوٰی ہندیہ      کتاب الدعوی     الباب التاسع    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۸۷)

(۱؎ فتاوٰی ہندیہ    کتاب الدعوی    الباب التاسع        نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۸۷)
فتاوٰی قاضی خاں:
دار فی یدرجل فاقام رجل البینۃ انہ اشتراھا من فلان غیر ذی الید بالف درہم وھو یملکھا ونقدہ الثمن واقام اٰخر البینۃان فلانا اٰخر وھبھا منہ وقبضھا۲؎۔
ایک شخص کے مقبوضہ مکان کے متعلق دوسرے نے گواہ پیش کئے کہ یہ مکان میں نے قابض شخص کے غیر سے ہزار روپے کے عوض خریداہے جس کا وہ مالک ہے اور اس کی قیمت نقداداکی ہے اور دوسرے ایک شخص نے اسی مکان کے متعلق گواہ پیش کئے کہ فلاں دوسرے شخص نے یہ مکان مجھے ہبہ کیا اور قبضہ دیا ہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضیخاں   کتاب الدعوی    فصل فی دعوٰی الملک السبب    نولکشور لکھنؤ    ۳ /۴۸۷)
Flag Counter