Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
76 - 151
الجواب

(۱) اس مقدمہ میں تحقیق حکم شرعی تنقیح چند مسائل پر موقوف فنقول وباﷲ التوفیق (تو ہم کہتے ہیں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے۔ت)

مسئلہ اولٰی : ہمارے مشائخ مذاہب رحمہم اﷲتعالٰی کو اختلاف ہے کہ قبول بھی مثل ایجاب رکن ہبہ ہے یانہیں،
مشی علی الاول فی الکافی والکفایۃ والتنویر والدروھبۃ الھدایۃ وقال الاتقانی انہ قول الامام علاء الدین فی تحفۃ الفقہاء ومشی علی الثانی فی الحصر والمختلف والنہایۃ والدرایۃ والعنایۃ والعینی و عامۃ الشروح قال الاتقانی انہ قول الامام شیخ الاسلام خواہر زادہ فی مبسوطہ وبہ جزم فی کتاب الایمان من الھدایۃ والکرمانی والتاویلات و محیط السرخسی۔
کافی، کفایہ، تنویر، در اور ہدایہ کے ہبہ میں اول کو اختیار کیا، او راتقانی نے کہا کہ تحفۃ الفقہاء میں امام علاء الدین نے یہی فرمایا ہے اور حصر، مختلف، نہایہ، درایہ، عنایہ، عینی اور عام شروح میں ثانی کو اختیار کیا۔ اتقانی نے کہا کہ شیخ الاسلام خواہر زادہ نے مبسوط میں یہ فرمایا اور اسی پر ہدایہ کے کتاب الایمان میں اور کرمانی اور تاویلات او رمحیط سرخسی نے اعتماد کیا ہے۔(ت)
اور راجح ومعتمد ومفتی بہ یہ ہے کہ قبول رکن نہیں غایت یہ کہ شرط ثبوت ملک ہو پھر قبضہ کہ مجلس میں ہو اگرچہ بے اذن صریح واہب یا باذن واہب ہو اگر چہ بعد مدت وہ اس قول کا قائم مقام ہوجائیگا قول حق اور تحقیق یہ ہے کہ قبضہ بنفسہ شرط ثبوت ملک ہے اور وہی دلالت قبول بھی ہوجائے گا، رہا پیش از قبضہ حاجت اس قدر ہے کہ قبول کامنافی یعنی رد و امتناع نہ پایا جائے، امام ملک العلماء ابوبکر مسعود کا شانی نے بدائع میں تصریح فرمائی کہ رکنیت قبول قول امام زفر وقیاس ہے اور استحسان عدم  رکنیت ہے۱؎، اور معلوم ہے کہ عمل ہمیشہ استحسان پر ہے
الافی مسائل عدیدۃ لیست ھذہ منھا
 (مگر متعدد مسائل میں، جن میں سے یہ نہیں ہے۔ت)
 (۱؎ بدائع الصنائع    کتاب الھبہ     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۶/ ۱۱۵)

(فتح القدیر بحوالہ البدائع     کتاب الھبہ   مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۷/۴۸۰)
اور فتاوٰی قاضی خاں و نیز حاوی الفتاوٰی میں قبضۃ موہوب لہ بعد مجلس کو جب کہ باذن واہب ہو مثبت ملک ٹھہرایا اگرچہ موہوب لہ نے قبول کردم نہ کہا ہو او رصراحۃًفرمایا:بہ ناخذ ۱؎(ہم یہی اختیار کرتے ہیں۔ت) یہ لفظ اعاظم الفاظ افتاسے ہے
کما فی الدر وغیرھا۲؎
 (جیسا کہ درر وغیرہ میں ہے۔ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     بحوالہ حاوی الفتاوی    کتاب الہبہ     الباب الثانی     نورانی کتب خانہ کراچی    ۴ /۳۷۷)

(فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الہبۃ        نولکشور لکھنؤ    ۴/ ۶۹۶)

(۲؎ درمختار     مقدمہ کتاب         مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۵)
قبضہ اگرچہ قائم مقام قبول ہے مگر قبول رکن ہوتا تو ماورائے مجلس پر موقوف نہ رہ سکتا :
لان الایجاب لفط واللفظ عرض والعرض لایبقی زمانین فلایکن ارتباط القبول بہ الااذا تحقق فی مجلسہ لان الشرع جعل المجلس جامعا للکلمات۔
کیونکہ ایجاب لفظ ہے او رلفظ عرض ہے اور عرض دو زمانوں میں باقی نہیں رہتا لہذا قبول کا اس سے ربط نہ ہوگا مگر جبکہ وہ اسی مجلس میں متحقق ہو کیونکہ شریعت نے مجلس کو متفرقات کا جامع قرار دیا ہے۔(ت)
خود ہدایہ ودرمختار وغیرہما عامہ کتب میں تصریح فرمائی کہ اگر زید نے قسم کھائی ہبہ نہ کروں گا پھر عمرو سے کہا یہ شیئ میں نے تجھے ہہ کی اور عمرو نے ہبہ قبول نہ کیا قسم ٹوٹ گئی کہ ہبہ فقط اس کے ایجاب سے متحقق ہوگیا اگرچہ عمرو نے قبول نہ کیا اور اگر قسم کھائی کہ نہ بیچے گا پھر عمرو سے کہا میں نے یہ شے تیرے ہاتھ بیچی اور عمرو نے قبول نہ کیا قسم نہ ٹوٹی کہ بیع بے ایجاب و قبول دونوں کے متحقق نہ ہوگی تو بے قبول مشتری بیچنا صادق نہ آیا۔ یہ تیسری وجہ اس قول کی ترجیح کی ہے کہ عام کتب معتمدہ حتی کہ ان میں بھی جو رکنیت کی تصریح کرتی تھیں یہ مسئلہ یونہی مسطور ہے جس سے عدم رکنیت روشن ومنصور ہے،
اما تعلیل الکفایۃ والکافی الحنث فی الھبۃ بانہ اتی بما ھو مقدورھا والیمین انما تنسحب علی ماھو فعلہ ولیس الا الایجاب فمنقوض بعدم الحنث فی البیع کما لایخفی فانہ ثمہ ایضا لایقدر الا علی الایجاب ولا یحنث بہ فیہ وفاقا ۱؂۔
ہبہ کی حنث کی بحث میں کفایہ اور کافی کا یہ علت بیان کرنا کہ وہ اپنا مقدور ہی بجا لاسکتا ہے جبکہ قسم اس کے فعل پر ہی مرتب ہوتی ہے اور صر ف ایجاب ہی اس کا فعل ہے، یہ علت بیع میں عدم حنث کی وجہ سے سالم نہیں رہے گی جیسا کہ مخفی نہیں، کیونکہ یہاں بھی وہ صرف ایجاب پر قادر ہے حالانکہ اس میں بالاتفاق ایجاب سے حنث نہیں ہے(ت)
(۱؎ نتائج الافکار فی کشف الرموز والاسرار    کتاب الہبہ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۷ /۴۸۰)
نتائج الافکار میں ہے:
فی البدائع اما رکن الھبۃ فھو الایجاب من الواھب فاما القبول من الموھوب لہ فلیس برکن استحسانا والقیاس ان یکون رکنا وھو قول زفر وفی قول قال القبض ایضا رکن ۲؎الخ۔
بدائع میں ہے لیکن ہبہ میں رکن وہ واہب کا ایجاب ہے جبکہ موہوب لہ کا قبول کرنا استحساناً رکن نہیں ہے حالانکہ قیاس اس کے رکن ہونے کا مقتضی ہے امام زفر رحمہ اﷲ تعالٰی کے ایک قول میں ہے کہ قبضہ بھی رکن ہے الخ۔(ت)
 (۲؎نتائج الافکار فی کشف الرموز والاسرار    کتاب الہبہ     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۷ /۴۸۰)
عالمگیری میں ہے :
لو قال وھبت منک ھذاالعبد والعبد حاضر فقبضہ جازت الھبۃ وان لم یقل قبلت کذافی الملتقط، ولو کان العبد غائبا فقال لہ وھبت منک عبدی فلانا فاذھب واقبضہ فقبضہ جاز وان لم یقل قبلت وبہ ناخذ کذافی الحاوی للفتاوٰی۳؎۔
اگر کسی نے کہا میں نے تجھے یہ، عبد حاضر ہبہ کیا تو اس نے قبضہ کرلیا تو ہبہ جائز ہوجائیگا اگرچہ موہوب لہ نے قبول کرنے کا قول نہ کیا ہو، ملتقط میں یوں ہے اور اگر عبد غائب ہوتو یوں کہا کہ میں نے اپنا فلاں عبد تجھے ہبہ کیا تو جاکر قبضہ کرلے اس نے قبضہ کرلیا تو ہبہ جائز ہوگا اگرچہ موہب لہ نے ''میں نے قبول کیا'' نہ کہا ہو،ہم نے اسی کو اختیار کیا ہے حاوی للفتاوٰی میں یونہی ہے۔(ت) اسی طرح فتاوٰی امام اجل قاضی خاں ۴؎میں ہے۔
 (۳؎ فتاوٰی ہندیہ     الباب الثانی فیما یجوزمن الہبۃ ومالایجوز    نورانی کتب خانہ پشاور     ۴ /۳۷۷)

(۴؎ فتاوٰی قاضیخاں     کتاب الہبہ    نولکشور لکھنؤ    ۴ /۶۹۶)
اقول: وبما قررنا ظھر مافی المحیط من انہ لایشترط فی الہبۃ القبول وان استشکلہ فی البحر وذٰلک لانہ ان ارید خصوص القبول بالقول فغیر لازم قطعا وان اکتفی بالقبول دلالۃ فاشتراط القبض مغن عنہ فانہ یدل علیہ فلا یکون شرطا بحیالہ نعم یشترط ان لایوجد منافیہ کما اشرنا الیہ۔
اقول: (میں کہتا ہوں) ہم نے جو تقریرکی اس سےمحیط میں بیان کردہ یہ بات واضح ہوگئی کہ ہبہ میں قبول کرنا شرط نہیں ہے اگرچہ بحر میں اس پر اشکال کیاہے، یہ اس لئے کہ اگر قبول سے مراد خاص زبانی قبول کا لفظ کہنا مراد ہو تو یہ قطعاً ضروری نہیں ہے اور اگر دلالۃً قبول کرنا مراد ہے تو قبضہ کی شرط اس کو کافی ہے کیونکہ قبضہ قبول کرنے پر دال ہے لہذاہبہ میں قبول کرنا کسی طرح شرط نہ ہوگا،ہاں یہ شرط ضرور ہے کہ وہاں قبولیت کے منافی کوئی چیز نہ پائی جائے جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے۔(ت)
Flag Counter