Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
75 - 151
مسئلہ۹۰ تا۹۱: ازریاست جورہ ملک مالوہ محلہ شاہ گنج ڈاکخانہ کہنہ مرسلہ حضرت سید مقبول عیسٰی میاں صاحب ۲۵شعبان۱۳۲۶ھ

سوال اول: کیافرماتے ہیں علمائے دین مبین اس مسئلہ میں کہ زید ایک شخص متمول وصاحب ازواج و اولاد و املاک تھا اس کے انتقال کے بعدباہم بعد چند برس کے بابت تقسیم ایک مکان کے جس میں مرتے دم تک زید متوفی مع سب اولاد و ازواج کے رہتا تھا اور اسی مکان میں انتقال کیا تکرار پیدا ہوئی تا اینکہ ایک پسر نے بقدر اپنے حصہ کے تقسیم کراپانے نالش کی ایک سوتیلی بہن عذر دار جوابدہ ہوئی کہ یہ مکان میرے باپ زید نے اپنی زندگی میں میری ماں فرید بیگم کو ہبہ کیا ہے ہبہ نامہ ضائع ہوگیا اور قبضہ میری ماں کا وقت ہبہ ہوگیا اور بعد ماں کے میں قابض ہوں اور تین گواہ قبضہ کے پیش کئے جن کے بیان میں اختلاف کثیر ہے ایک کہتا ہے سات برس اور دوسرے کہتے ہیں بارہ تیرہ برس ہوئے اور پسر خواہندہ تقسیم کو ہبہ سے لاعلمی و انکار ہے اور گواہان پسر خواہندہ تقسیم کے بیان بمضمون واحد نسبت عدم ہبہ اور ہونے قبضہ جمیع ورثاء انتقال مورث سے آج تک مؤید دعوٰی خواندہ تقسیم ہے حالانکہ مکان مذکور میں دیگر ورثاء بھی اب تک سکونت رکھتے ہیں اور مستدعی تقسیم کا بھی کسی قدر اسباب اس مکان کی ایک کوٹھری میں اب تک رکھا تھا پس ایسی صورت میں قبضہ مشکور میں ازروئے شرع شریف ہبہ بحق مادر دختر بقول دختر بطور جائز متصور ہوسکتی ہے یا حالات صورت قبضہ سے ہبہ ناجائز ہوئی۔ بینواتوجروافقط۔

ملحض گواہی سید امیر شاہ: مکان متنازعہ کو رسول خاں مسماۃ صنوبر بیگم مدعا علیہا کو ہبہ کیا ہے جس کو عرصہ بہت ہو ایعنی چھ سات سال کا ہوا ہبہ کی تکمیل میرے رو برو ہوئی اور اس وقت دوسری زوجہ کو جو شامل رہتی تھی علیحدہ کرکے مسماۃ صنوبر بیگم مدعا علیہا کا تنہا قبضہ کرادیا تھا اور دوسر ی زوجہ کو پٹھان ٹولی کے مکان میں بود و باش کرادی گئی تھی بعد نوشت ہبہ نامہ۔

ملخص گواہی سلطان ولد نذر محمد خاں: رسول خاں جمعدار نے اپنی حیات میں مکان متنازعہ کو صنوبر بیگم کو ہبہ کیا تھا ہبہ تحریری ہوا تھا اور جمعداری صاحب کے دستخط بھی ہوئے تھے ہبہ نامہ تحریر ہونے کے بعد قبضہ دلادیا گیا تھا جمعدار نے قبضہ دلانے سے اول جو کچھ ان کا مال واسباب تھا چوکی میں بھیج دیا تھا۔ مدعا علیہا نمبر۱ کو مدعاعلیہانمبر۲ نے اس مکان میں رکھا ہے خوشحال خاں مدعا علیہا نمبر۲ ان کی والدہ کی اجازت سے رہتے ہیں مکان کو ہبہ ہوئے تیرہ سال ہوئے ہوں گے جمعدار نے اپنے مرنے سے چھ سات اول ہبہ نامہ لکھا تھا تاریخ یاد نہیں مکان متنازعہ کا کوئی حصہ مدعی کے قبضہ میں نہیں ہے مدعی کی والدہ کا سامان بعد قبضہ کے علیحدہ کردیا میرے سامنے علیحدہ کردیا تھا بعد کو ہم نے دستخط ہبہ نامہ پر کئے تھے۔

ملحض گواہی عبدالمجید خاں: مدعا علیہا نمبر۲ کو جمعدار نے مکان متنازعہ ہبہ کردیا تھا اندازاً بارہ سال کا عرصہ ہوا جب ہبہ نامہ لکھا گیا تھااس پر میری شہادت ہوئی تھی اس وقت مدعا علیہ نمبر۲ کا قبضہ بھی مکان متنازعہ پر کرادیا تھا جمعدار نے اس مکان کو خالی کرکے اپنا کل اسباب دوسرے مکان میں رکھوادیا اور مستورات کو بھی اس مکان سے علیحدہ کر دیا اور ہمارے سامنے جمعدار مذکور نے کہا کہ میں نے مدعاعلیھا کا قبضہ دلادیا ہے اور یہ مکان آپ کو دیا مدعا علیہ نمبر۲اس وقت موجود تھیں اور ان سے یہ سب جمعدار نے کہہ دیا تھا مدعا علیہا کو ہبہ نامہ سپرد کردیا تھا مکان متنازعہ میں اس وقت سوائے مدعا علیہا کے اور کوئی نہیں تھا اور کوئی ہو تو مجھ کو معلوم نہیں یہ مجھے معلوم نہیں کہ سوائے زوجہ خوشحال خاں وخوشحال خاں مدعا علیہا نمبر۲ اور کون کون مکان مذکور میں رہتا ہے مدعا علیہا نمبر ۲ کو جب دستاویز سنائی گئی توا س وقت مضمون سنا تھا مضمون ہہ نامہ کا یہ یاد ہے کہ یہ لکھاہوا تھا کہ اور سب کو تو حصہ دے دیا ہے تم کو اب یہ مکان ہبہ کیا جاتا ہے تم قبضہ کر لو جمعدار نے اردو میں اپنا نام لکھا تھا مجھے نہیں معلوم کہ زوجہ خوشحال خاں و خوشحال خاں مکان متنازعہ میں کس کی اجازت سے رہتے ہیں آیا مدعاعلیہا نمبر۲ نے اجازت دی ہے یانہیں۔
اعتراضات مفتی
سید امیر شاہ کی شہادت: معاینہ قبضہ مدعا علیہانمبر۲:  اوپر مکان متنازعہ فیہ وقت ہبہ کرنے رسول خاں جمعدار کے مکان مذکور ہ کو یوں بیان کیا ہے کہ دوسرے زوجہ کو جو شامل رہتی تھی علیحدہ کرکے مسماۃ صنوبر بیگم کو تنہا قبضہ دلادیاہے اور رسول خاں کے اسباب سے مکان کو خالی کرنا نہیں بیان کیا ہے اورنہ رسول خاں کا خود علیحدہ ہونا اس مکان سے بیان کیا ہے حالانکہ تمامیت قبضہ کے لیے واھب کے اسباب   مقبوضہ جو اس مکان موہوبہ میں رکھا ہوا ہو اور خود ذات واہب سے اس مکان موہوبہ کا خالی ہونا ضروری ہے ہبہ میں وقت قبضہ کے۔ اور رسول خاں کا اسباب مقبوضہ اس مکان میں ہونا وقت ہبہ گواہوں کی گواہی سے ثابت ہے اورخود رہنا ان کا اس مکان میں سب کو ظاہر ہے اور بہرام خاں کی گواہی سے ثابت ہے کہ جمعدار مرنے تک اس مکان میں رہے، سید امیر شاہ کی گواہی ہوئی اوپر معاینہ قبضہ ناقصہ کے،لہذا انکی شہادت معتبر نہیں ہے۔

سلطان کی گواہی میں اوپر معاینہ قبضہ کے خود نکلنا رسول خاں کا مکان مذکورہ سے واسطے قبضہ دلانے کے بیان نہیں کیا اور یہ بیان کیا ہے کہ مدعی کی والدہ کاسامان بعد قبضہ کے علیحدہ کردیا تھا اس سے یہ معلوم ہوا کہ مدعی کی والدہ کا سامان قبضہ دلانے کے وقت اس مکان میں رکھا تھا بعد کو علیحدہ کیا گیا اور قبضہ کے وقت مکان موہوبہ مدعی کی والدہ کے سامان مقبوضہ کے ساتھ مشغول تھا، تویہ بیان بھی قبضہ ناقصہ کا ہوا لہذا یہ گواہی بھی معتبر نہیں۔

عبدالحمید خاں کی گواہی جو اوپر معاینہ قبضہ کی ہے اس میں یہ نقصان ہے کہ ذات رسول خاں سے خلو اس مکان کا نہیں بیان کیا ہے اور یہ بیان کیاہے کہ مکان متنازعہ میں اس وقت سوائے مدعا علیہا کے او رکوئی نہیں تھا اور کوئی ہوتو مجھے معلوم نہیں، اس تقریر سے معلوم ہوتا ہےکہ عبدالمجید خاں کو پور ا علم مکان کے خالی ہونے کا نہ تھا تو یہ گواہی بھی قبضہ ناقصہ کی ہوئی۔ جائز ہے کہ اس مکان میں اور کوئی ہو سوائے موہوب لہا کےاس کے ہونے کے سبب سے قبضہ موہوب لہا کا تام نہ ہوا اور عبدالمجید خاں کی گواہی جو اقرار واہب پر ہے اور ہمارے سامنے جمعدار مذکور نے کہا کہ میں نے مدعا علیہا نمبر۲ کو قبضہ دلادیا تو یہ گواہی اوپر اقرار قبضہ کے اور دونوں گواہوں سابق کی گواہی ہے اوپر معاینہ قبضہ کے اس اختلاف کے سبب سے یہ گواہی عبدالمجیدخاں کی مقبول نہیں ہے۔ مثل اور خارجی تحقیقات سے ثابت ہے کہ مدعا علیہا اول اور ان کے شوہر بہرام خاں قدیم سے اس مکان  میں رہتے ہیں اور اپنے اموال اور اسباب کے قابض اور متصرف ہیں اس مکان میں اب بھی قبل بھی قابض اورمتصرف تھے اور مکان موہوب کا مشغول ہونا قبضہ موہوب لہا کے وقت ایسے اسباب کے ساتھ کہ موہوب لہا کے قبضہ میں نہ ہو دوسرے شخص کے قبضہ میں ہو مانع تمامیت قبضہ ہے اور کسی گواہ نے خلو مکان کا مدعاعلیہ نمبر۱ اور اس کے شوہر اور دونوں کے اسباب سے بیان نہیں کیا اس صورت میں بھی مشاہدہ قبضہ ناقصہ کا ہوا کہ مانع ہے تمامیت قبضہ کا، مکان موہوب اگر قبل از ہبہ موہوب لھا کے قبضہ تامہ میں فرض کیا جائے تو انعقاد عقدہبہ کے لیے صراحۃً قبول کرنا موہوب لہ کا ایجاب ہبہ کو چاہئےفقط قبضہ قائم مقام قبول نہ ہوگا اور عقد ہبہ منعقد نہ ہو گی اس صورت میں سب گواہوں نے یہ بیان کیا کہ رسول خاں نے ہمارے سامنے مکان متنازعہ کو مدعاعلیھا نمبر۲ کو ہبہ کیا یہ تو ایجاب ہی ہے  اور یہ کسی نے نہیں بیان کیا کہ مدعا علیہا نمبر۲ نے اس ہبہ کو قبول کیا یانہیں، کیا تو ایجاب ہوئی بغیر قبول صریح کے، تو اس صورت میں عقد ہبہ منعقد نہ ہوا تو وہ مکان ہبہ کے سبب سے مملوک موہوب لہا کا نہ ہوا،گواہان مذکورہ کی گواہی کے نقصانات سے اور مدعی کے متعدد گواہوں کے بیان سے کہ جمعدار کے اکثر اہل وعیال اور زوجات اس مکان متنازعہ فیہ حین حیات رسول خاں اور بعد ممات رسول خاں سب مشترک رہتے تھے اور اس مکان میں سب قابض تھے اور قبضہ تامہ جو شرط ہبہ ہے وہ متحقق نہیں ہوا تھا مسماۃ صنوبر بیگم کے واسطے، لہذا میری رائے میں یہ آتا ہے کہ بابت مکان متنازعہ فیہ کا ہبہ مدعا علیہا نمبر۲ کو ثابت نہیں ہے۔ مکان مذکور میرا ث کے طور پر وارثان رسول خاں پر تقسیم کیاجائے فقط دستخط مولوی محمد جمل۔ 

سوال دوم:  زید نے مکان کا ہبہ بنام مسماۃ آفریدہ بیگم اپنی ایک زوجہ کے منجملہ ازواج لکھا ہبہ نامہ 

کی تحریر کے بعد مکان موہوبہ پر بدستور قبضہ واہب کاتاحیات واہب رہا یعنی واہب مع اپنے اطفال و ازواج کے مع اس زوجہ کے جس کے نام ہبہ لکھامرتے وقت تک اس مکان میں رہا بعد وفات زید ورثائے زید بالاجمال وبالاشتراک اس مکان پر قابض رہے اب وقت درخواست ہونے تقسیم مکان کے باہم شرکا کے وہ ہبہ ظاہر ہوکر ازروئے شرع شریف جائز ہوگی یا ناجائز قرار پائے گی۔بینواتوجروا۔
Flag Counter