Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
74 - 151
درمختار میں ہے:
اختلفافی قدرہ حال قیام النکاح فالقول لمن شھد لہ مھر المثل بیمینہ وای اقام بینۃ قبلت سواء شھد مہر المثل لہ اولہا اولا ولا، وان اقاما البینۃ فبینتھا مقدمۃ ان شہد مھر المثل لہا لان البینات لاثبات خلاف الظاہر وان کان مھر المثل بینھما تحالفا فان حلفا اوبرھنا قضی بہ وان برھن احدھما قبل برھانہ لانہ نوردعواہ و موت احدھما کحیاتھما فی الحکم۲؎۔
نکاح کی موجودگی میں خاوند بیوی کا مہر کی مقدار میں اختلاف ہو ا تو اس کی بات معتبر ہوگی جس کی تائید مہر مثل کریگا ساتھ قسم لیجائیگی، جس نے گواہ پیش کئے اسکی بات تو مقبول ہوگی خواہ مہر مثل اس کا یا بیوی یا دونوں کا موید بنے یا کسی کا نہ بنے اگر خاوند اور بیوی دونوں گواہی پیش کریں تو بیوی کی گواہی کو ترجیح ہوگی اگر مہر مثل مرد کی تائید کرے، اور مرد کی گواہی کو ترجیح ہوگی اگر مہر مثل بیوی کی تائید کرے کیونکہ گواہی سے ظاہر کا خلاف ثابت کیا جاتا ہے اور اگر مہر مثل دونوں کے دعووں کے درمیان ہوتو دونوں سے اپنے اپنے دعوی پر قسم لی جائے گی، اگر دونوں نے قسم کھائی یا دونوں نے گواہی پیش کی تو قاضی مہر مثل پر فیصلہ کردے اور اگر صرف ایک نے اپنے دعوٰی پر گواہی پیش کی تو اسکی گواہی قبول کی جائے کیونکہ اس نے اپنے دعوٰی کو واضح کردیا اور دونوں میں سے ایک کی موت ہو تو دونوں کی حیات والا ہی حکم ہوگا۔(ت)
(۲؎ درمختار         کتاب النکاح     باب المہر     مطبع مجتبائی دہلی     ۱/ ۰۳۔۲۰۲)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ لمن شھد لہ مھر المثل ای فیکون القول لھا ان کان مھر مثلھا کما قالت او اکثر، ولہ ان کان کماقال اواقل وان کان بینہماای اکثر مما قال واقل مما قالت ولابینۃ تحالفا ولزم مھر المثل کذا فی الملتقی وشرحہ قولہ وان کان، ھذا بیان لثالث الاقسام، فانہ اذا لم یقیما البینۃ او اقاماھا قد یشھد مہر المثل لہ اولھا او یکون بینھما فقدم بیان القسمین الاولین فی المسألتین، وھذابیان الثالث، وقولہ فان حلفا راجع الی المسألۃ الاولی وقولہ اوبرھنا راجع الی الثانیۃ لکن کان علیہ حذف قولہ تحالفا لانہ اذبرھنا لاتحلف ، قولہ تحالفا فان نکلت المرأۃ وجب الف، واذانکل یقضی بالفین ماعرف ان ایھما نکل لزمہ دعوی الاخر۱ھ وصورۃ المسألۃ فیما اذاادعت الالفین وادعی ھو الالف و کان مھر المثل الفا و خمسائۃ، قولہ قضی بہ ای بمھر المثل اھ ۱؎مختصرا۔
ماتن کا قول''مہر مثل جس کی شہادت'' یعنی بیوی کی بات مانی جائے گی جب مہر مثل اتنا ہو یا زائد ہو اور خاوند کی بات مانی جائے گی جب مہر مثل اس کے قول برابر ہو یا کم ہو، اگر دونوں کے درمیان ہو یعنی مرد کے دعوٰی سے زائد اور بیوی کے دعوٰی سے کم ہو، تو گواہی نہ ہونے کی صورت میں دونوں سے قسم ہوگی او رمہر مثل لازم ہوگا۔ ملتقٰی اور اس کی شرح میں یوں ہے ماتن کا قول''ان کان'' یہ تیسری قسم کا بیان ہے، تین قسمیں یہ ہیں:(۱) دونوں نے گواہی پیش نہ کی (۲) یا دونوں نے پیش کی اور مہر مثل کسی ایک کی تائید کرے(۳) یا مہر مثل دونوں کے دعووں کے بین بین ہو، تو ماتن نے پہلے دونوں مسئلوں میں پہلی دونوں قسموں کابیان بتایا اور اب یہ تیسرے کا بیان ہے، اس کا قول''دونوں نے اگر قسم کھائی'' یہ پہلے مسئلہ کا بیان اور اس کا قول''دونوں نے گواہی پیش کی'' یہ دوسرے کا بیان ہے لیکن ''دونوں قسم دیں''والے قول کو حذف کرنا مناسب تھا کیونکہ جب گواہی پیش کردیں تو قسم نہیں ہوگی، اس کا قول''دونوں قسم دیں'' تو عورت قسم سے انکار کرے تو خاوند کا دعوٰی ہزار کا  واجب ہوگا اور اگر خاوند قسم سے انکار کرے تو عورت کادو ہزار فیصلہ کن ہوگا جیساکہ معلوم ہوچکاکہ جب ایک قسم سے انکار کرے تو دوسرے کا دعوٰی ثابت ہوجاتا ہے، یہاں مسئلہ کی صورت یہ ہے، عورت کا دعوٰی دو ہزار، مرد کا ایک ہزار جبکہ مہر مثل ڈیڑھ ہزار ہو، اس کا قول''اس پر فیصلہ دے'' یعنی مہر مثل پر، اھ مختصراً۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب النکاح     باب المہر    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۶۲۔۳۶۱)
فتاوٰی قاضی خاں و فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے:
اذا ادعت مھرھا علی وارث زوجہا اکثر من مھر مثلھا ان کان الوارث مقر بالنکاح یقول لہ القاضی أکان مھر ھا کذااکثر من مھر مثلھا فان قال الوارث لا، یقول القاضی أکان کذا یذکر مھر دون الاول لکنہ اکثر من مھر مثلھا ان قال لا، یقول لہ القاضی أکان کذاالی ان یاتی القاضی علی مقدار مھر المثل، فبعد ذٰلک اذا قال الوارث لا ، الزمہ القاضی مقدار مھر المثل ویحلفہ علی الزیادۃ ھذا اذاکان القاضی یعرف مقدار مھر مثلھا فان کان لایعرف یامر امناء بالسوال ممن یعلم او یکلفھا اقامۃ البینۃ علی ماتدعی۱؎۔
جب عورت خاوند کے وارث پر مہر مثل سے زائد مہر کا دعوٰی کرے تو اگر وارث نکاح کا اقرار کرتا ہے تو قاضی کو چاہئے کہ وہ مہر مثل سے زائد کا وارث سے اقرار کرائے اگر وہ انکار کرے تو پھر پہلے سے کم کااقرار کرائے اگر وہ انکار کرے تو اور نیچے آئے اور جب قاضی مہر مثل پر آجائے اوراس پر بھی وارث انکار کردے تو قاضی مہر مثل کو اس پر واجب کردے اور زیادہ سے انکار پر اس سے قسم لے، یہ جب ہے کہ قاضی مہر مثل معلوم کرچکا ہو ا اور اگر اسے مہر مثل کی مقدار معلوم نہیں تو قاضی کو چاہئے کہ وہ اہل کاروں کو حکم دے کہ وہ اس شخص سے پوچھیں جو اس عورت کے مہر مثل کی مقدار کو جانتا ہو، یا پھر عورت کو پابند بنائے کہ وہ اپنا مہر مثل ثابت کرنے کیلئے گواہ پیش کرے جو مقدار ثابت کریں(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     بحوالہ فتاوٰی قاضی خاں کتاب الدعوٰی    الباب الثانی عشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۱۰۶)
جامع الفصولین میں ہے:
مات فادعت امرأتہ المسمی فقالت ورثتہ نعلم ان لک مھرا ولا نعلم قدرہ یجبرون علی البیان ومعنی الجبر ان یحبسواحتی یقر وابمقدارالمھر بقیام الورثۃ مقام الزوج۲؎۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
خاوند فوت ہوا تو بیو ی نے مقررہ مہر کا دعوٰی کیا تو ورثاء نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تیرا مہر ہے لیکن ہمیں مقدار کا علم نہیں توان کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ مقدار بتائیں، اور جبر کا مطلب یہ ہے کہ ان کو مہر کی مقدار کے اقرار تک محبوس کیاجائے، کیونکہ ورثاء خاوند کے قائم مقام ہیں۔(ت)واﷲ تعالٰی اعلم
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل العشرون     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۶۲)
Flag Counter