Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
73 - 151
ثانیاً اصل کافرع سے یہ کہنا ضروری ہے کہ میری شہادت کا شاہد رہنا بردران زن وشو دونوں کے کلام میں شہادت پر اشہاد نہیں بلکہ صرف اتنا ہے کہ تم سب لوگ گواہ رہنا یا یہ کہ اس بات پر گواہ رہنا یہ اس قدر کافی نہیں اور اس کی بناء پر جو شہادت علی الشہادت دی جائے مردود ہے۔ 

ردالمحتار میں ہے :
قید بقولہ اشھد علی شھادتی لانہ لو قال اشھد علیّ بذلک لم یجز لاحتمال ان یکون الاشہاد علی نفس الحق المشہود بہ فیکون امرابالکذب وبعلی لانہ لو قال بشھادتی لم یجز لاحتمال ان یکون امرابان یشھد مثل شہادتہ بالکذب۱؎۔
اشھد بشہادتی
(میری شہادت پر شہادت دے) کے ساتھ اس لئے مقید کیا کیونکہ اگر اس کی بجائے
  بذٰلک
(اس امر کی) کہے تو جائز نہ ہوگا کیونکہ اس میں احتمال رہے گا کہ اصل واقعہ پر گواہ بنارہاہے جو جھوٹ کہنے کا حکم قرار پائے گا، او ر
علی شہادتی
 (میری شہادت پر) سے مقید اس لئے کیا کہ اگر''علی''کی بجائے ''لشہادتی'' لام کے ساتھ دے تو جائز نہیں کیونکہ احتمال رہے گا کہ اس کی شہادت جیسی شہادت دے جو کہ جھوٹ کا حکم قرار پائے گا۔(ت) اسی طرح حموی وطحطاوی وغیرہما میں ہے۔
(۱؎ ردالمحتار    کتاب الشہادات    باب الشہادۃ علی الشہادۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۹۳)
ثالثاً شاہد دوم کا بیان یہ ہے کہ زید اور کریم دونوں نے یہ کہا کہ لڈن کی ماں نے مہر معاف کردیا اور یہ کہا کہ اس بات پر گواہ رہنا۔ اس عبارت سے کچھ نہ کھلا اور یہ کہا کہ عطف''معاف کردیا''پر ہے یا ''دونوں نے کہا'' پر، بلکہ اول ہی قریب ہے، اس تقدیر پر یہ معنی ہوں گے کہ عورت نے مہر معاف کیا اور لوگوں سے کہا کہ میری اس گواہی پر گواہ رہنا، تو شاہد دوم کا بیان اس ٹوٹے پھوٹے بیان تحمیل سے بھی خالی ہے۔
بالجملہ وہ شہادتیں محض نامسموع ہیں۔ رہیں عورتیں، اول تو وہ تنہا رہ گئیں اور تنہا دو عورتوں کی گواہی بالاجماع مقبول نہیں، پھر ان کے بیانوں میں خود جو تخالف اور مردوں کے بیان کی مخالفت ہے، اس سب سے قطع نظر کیجئے تو ان کی شہادت صاف کہہ رہی ہے کہ یہ معافی مرض الموت میں ہوئی عورت دق میں مبتلا تھی یہ اس کی عیادت کو گئی تھیں اخیر وقت کی حالت تھی بیٹی نے پوچھا مہر کی بابت کیا کہتی ہو، انہوں نے آنکھ کھولی اور کہا میں نے مہر بخش دیا اور میرے حقوق بھی ان سے بخشوادیجو، دو رو ز کے بعد انتقال ہوگیا اور مرض الموت میں معافی وصیت ہے کہ وارث کیلئے بے اجازت دیگر ورثہ نافذ نہیں۔ 

ردالمحتار میں ہے :
یعتبر حال العقد فی تصرف منجز فان کان فی الصحۃ فمن کل مالہ والافمن ثلثہ،والمراد التصرف الذی ھو انشاء ویکون فیہ معنی التبرع وھبتہ ووصیتہ۲؎ اھ مختصرا۔
فوری نافذ ہونے والے معاملہ میں اس کے اجراء کا حال معتبر ہے اگر یہ صحت میں ہوتو تمام مال میں نافذ ہوگا ورنہ تو ثلث میں نافذ ہوگا اور مراد وہ تصرف ہے جو بطور انشاء ہو اور اس میں تبرع، ہبہ یا وصیت کا معنی ہو، اھ، مختصراً(ت)
(۲؎ درمختار    کتاب الوصایا    باب العتق فی المرض    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۳۲۷)
طحطاوی میں ہے :
والابراء والصدقۃ مثل ماذکر قھستانی ۱؎۔
اپنے حق سے کسی کو بری کرنا اور صدقہ بھی مذکور کی مثل ہوگا، قہستانی۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختارکتاب الوصایا باب العتق فی المرض دارالمعرفۃ بیروت ۴/۳۲۸)
تو عورتوں کی شہادت بجائے نافع ہونے کے مدعی ابراء کو اور مضر ہے کہ وہ ابراء ہوا بھی تو ایسے وقت ہوا کہ بے اجازت مدعیہ مدعا علیہ کو مفید نہیں، کلام یہاں ہنوز اور باقی ہے مگر اس قدر بھی وضوح میں کافی ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
 (۲) جبکہ بکر اثبات ابراء نہ کر سکا حاکم ہندہ سے حلف لے اگر وہ حلف سے انکار کرے ابراء ثابت ہوجائیگا اور دعوٰی مدعیہ رد کردیا جائیگا، اور اگر حلف کرلے تو دعوٰی ابراء باطل ہوگیا، اب ہندہ کا دعوٰی مہر باقی ہے حاکم نظر کرے کہ پچاس ہزار کا مہر جس کا ہندہ دعوٰی کرتی ہے آیامادر ہندہ کے مہر مثل سے زائد تو نہیں، اگر زائد نہ ہوتو ہندہ ہر گز محتاج گواہان نہیں کہ مقدار مہر مثل تک زن و وارثان زن کا بیان بے حاجت شہادت مقبول ہے کہ بوجہ موافقت مہر مثل ان کا قول موافق ظاہر ہے اور جس کا قول موافق ظاہر ہو وہ مدعا علیہ ہے اور جو مدعا علیہ ہے بار ثبوت اس پر نہیں اس کے مخالف پر ہے یہاں تک کہ اگر مہر مثل یا اس کے ورثہ کا شاہد ہو یعنی ان کے دعوی سے مساوی یا زائد ہو اورمرد کمی کا دعوی کرے اور فریقین گواہ دے دیں تو عورت کے گواہ مسموع بھی نہ ہوں گے کہ شہادت اثبات خفی کے لئے ہے نہ کہ اظہار ظاہر کے واسطے، یہاں اگر بکر پچاس ہزار سے کم کسی مقدار کا تعین بتاتا تو وہ مدعی تھا اس سے گواہ مانگے جاتے اگر گواہان عادل سے مقدار اقل کا ثبوت دے دیتا تو ہندہ کو اسی قدر کا حصہ دلایا جاتا اور گواہ نہ دے سکتا تو ہندہ سے قسم لے کر اس کا دعوٰی ڈگری کردیا جاتا اس صورت میں پچاس ہزار کے گواہ نہ دے دیتی تو سن لئے جاتے کہ مدعی کی جانب گواہ نہ تھے اور اگر کوئی گواہ نہ دیتی او رقسم کھانے سے بھی انکار کرتی تو اسی مقدار اقل کا حصہ پاتی جس کا بکر مدعی ہوتا اب کہ بکر کمی کا دعوٰی بھی نہیں کرتا نہ اسے پچاس ہزار کے مقدار سے انکار ہے، توبیان ہندہ کہ شہادت مہر مثل سے روشن ہے صاف بے مزاحم ہے اور اسے پوری ڈگری پانے کا استحقاق ہے، اور اگر مہر مثلا پچاس ہزار سے کم تھا تو اب ہندہ دربارہ زیادت ضرورمدعیہ ہوگی، اور بکر کا کہنا کہ مجھے تعداد مہر یاد نہیں ہرگز جواب کافی وصحیح نہیں اسے یوں نہ چھوڑا جائے گا بلکہ حاکم اس سے سوال کرے آیا مہر پچاس ہزار کا بندھا تھا، اگر وہ کہے اتنا تھا تو کچھ کم کرکے پوچھے جو مقدار مہر مثل سے ہنوز زائد ہو ا گر وہ اس کی بھی نفی کرے تو اور گھٹا کر دریافت کرے یہاں تک کہ مقدار مہر مثل تک پہنچے اگر وہ اس کی بھی نفی کرے تو حاکم اس سے قسم لے اگروہ قسم کھالے اور ہندہ اپنے دعوٰی کے گواہ نہ دے سکے تو حاکم صرف بقدر حصہ مہر مثل کے ہندہ کو ڈگری دے مثلاً مہر مثل تیس ہزار ہے اور بکر نے اس کی بھی نفی کی اور قسم کھالی اور  ہندہ نے پچاس ہزار کے گواہ نہ دئے تو ہندہ کو تیس ہزار کا حصہ دلایا جائے اور بکر قسم کھانے سے انکار کرے تو پورے پچاس ہزار کا۔ اور اگر بکر سوال حاکم پر انکار اقرار کچھ نہ کرے یہی کہتا رہے کہ مجھے یا د نہیں توحاکم اسے جبر کرے کہ مقدار مہر بتائے اگر نہ مانے قید کرے یہاں تک کہ کسی مقدار کی تعیین کا مقر ہو اب اگر یہی پچاس ہزار قبول کئے تو ہندہ پوری ڈگری پائے اور اب بھی اسے اثبات مقدار کی حاجت نہ رہی اور اگر کم مانے تو حاکم نظر کرے کہ جو مقدار اس نے مانی عورت کے مہر مثل سے تو کم نہیں اگرکم نہ ہو تو اب مہر مثل بکر کا شاہد ہوگا او وہ خالص مدعا علیہ رہے گا اور بار ثبوت ہندہ پر آئے گا اگر گواہان عادل دے دے گی پورے دعوٰی کی ڈگری پائے گی اور اس صورت میں اگر بکر اقل کے گواہ بھی دے گا تو اسی وجہ سے جو اوپر جانب ہندہ میں مذکور ہوئی شاہدان ہندہ کے مقابل مسموع نہ ہونگے ہاں اگر ہندہ گواہ نہ لاسکی تو بکر کے گواہ سن لئے جائیں گے اور ہندہ مقدار اقل کا حصہ پائے گی اور دونوں گواہ نہ دے سکے تو بکر سے قسم لی جائے اگر قسم کھالے تو مقدار اقل کا حصہ ہندہ کو دلایا جائے قسم سے انکار کرے تو پھر بے حاجت گواہان پورادعوی ڈگری ہو اور اگر یہ مقدار کہ بکر نے مانی مہر مثل سے بھی کم ہے تو اب مہر مثل کسی کا شاہد نہیں اس لئے کہ دعوٰی بکر سے زائد اور دعوٰی ہندہ سے کم ہے اب ان میں جو گواہ دے دے گا اسی کا قول ثابت ہوگا اور دونوں گواہ دے دیں تو مہر مثل کے حصہ کی ڈگری دی جائے گی اور کوئی نہ دے سکے تو بکر سے قسم لی جائے اگر انکار کرے تو ہندہ کا پورا دعوی ڈگری ہو اور قسم کھالے تو ہندہ سے قسم لی جائے اگرانکار کرے تو حصہ اقل دلایا جائے اور وہ بھی قسم کھالے تو مہر مثلا کے حصہ کی ڈگری ہو۔ یہ سب تفصیل اس صورت میں کہے کہ مادر ہندہ کا مہر مثل معلوم ہو اور اگر نہ معلوم ہو تو حاکم کو اختیار ہے چاہے ہندہ سے پچاس ہزار کے گواہ طلب کرے چاہے اپنے معتمدوں کے ذریعہ سے عورت کا مہر مثل تحقیق کرکے کارروائی بالا عمل میں لائے۔

جامع الفصولین میں مختلفات امام ابی اللیث سے ہے:
ادعت الفامن مھر ھا علی ورثۃ زوجھا تصدق الی تمام مھر مثلہا عندح لان مھر المثل یحکم عندہ فمن شھد لہ فلہ القول ۱؎۔
اگر عورت نے خاوند کے ورثاء پر ایک ہزار مہر کا دعوٰی کیا تو مہر مثل کی مقدار تک عورت کی تصدیق کی جائیگی امام صاحب رحمہ اﷲ تعالٰی کے ہاں، کیونکہ ان کے ہاں مہر مثل فیصل ہوتا ہے، تو مہر مثل جس کی تائید کرے اس کا قول معتبر ہوگا۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل العشرون     اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۵۹)
اسی میں عدہ سے ہے:
ادعت مھرا علی وارث الزوج وانکر وارثہ یوقف قدر مھر مثلہا ویقول القاضی لورثہ کان مھرھا کذا ام اعلی من ذٰلک لو قال لا قال کان کذادون ماقالہ فی المرۃ الاولی الی ان ینتھی الی مقدار مھر مثلھا۱؎۔
عورت نے خاوند کے وارث پر مہر کا دعوٰی کیا اور وارث انکار کرتا ہے تو مہر مثل معلوم کرکے قاضی وارث سے مہر مثل سے زائد مقدار ووارث سے پوچھے گا کہ اس کا اتنا مہرہے یا اس سے زائد ہے اگر وارث انکار کرے تو پھر قاضی پہلے سے کم مقدار پوچھے حتی کہ مہر مثل تک پہنچ کر وارث سے سوال ختم کردے۔(ت)
(۱؎ جامع الفصولین     الفصل العشرون     اسلامی کتب خانہ پشاور     ۱/ ۲۵۹)
Flag Counter