Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
72 - 151
مسئلہ۸۸تا۸۹:  ازریاست رام پور    محلہ گھیر مردان خاں   مرسلہ ضیاء الدین صاحب   ۸ رمضان المبارک ۱۳۲۵ھ

سوال اول: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں کہ ہندہ دعویدار مہرکی پدر اپنے سے بقدر حصہ فرائض کے ہے اور پدر اس کا ابراء دین مہر کا مجیب ہے ثبوت ابراء دین مہر میں دو مرد او ر دو عورتیں پدر ہندہ نے گزرا نے ہیں جن کا حرف بحرف بیان نقل کرکے گزارش ہے کہ بروایات فقہیہ بیان شہود مشمولہ فتوٰی ثبوت ابراء دین مہر میں کافی ہے یا نہیں؟

سوال دوم: ہندہ دعویدار اس امر کی ہے کہ میری ماں کا نکاح بتعداد مہر پچاس ہزار روپیہ بکر کے ساتھ ہوا ہے بکر سے بقدر حصہ فرائض دلادیا جائے بکر مجیب ہے کہ تعداد مہر مجھے یاد نہیں مگر والدہ ہندہ نے مہر مجھے معاف کردیا ابراء مہر کی شہادت بھی پیش کی لیکن شہادت مذکور عند العدالت کافی و مثبت نہ ہوئی ہندہ ثبوت تعداد مہر میں یہ کہتی ہے کہ مجھے ثبوت تعداد مہر کا اس وقت دینا تھا جب کہ مدعا علیہ یعنی بکر کمی بیشی تعداد مہر میں کلام کرتا بکر کو تعداد مستدعویہ سے اقرار و انکار نہیں بلکہ سکوت ہے صرف ابراء کا دعوٰی تھا جس کو ثابت نہ کرسکا، اب عندالشرع عدالت کو درصورت عدم ثبوت ابراء دین مہر ڈگری بحق مدعیہ باوجود نہ ثابت کرنے تعداد دین مہر کے دینی چاہئے یانہیں؟بینواتوجروا۔
بیانات متعلق سوال اول
بیان مرد اول کا: گواہی اﷲ کے واسطے دیتا ہوں کہ میں بکر کے یہاں بیٹھا تھا کہ عمرو بغرض فاتحہ پڑھنے کے آئے بعد فاتحہ کے عمرو نے زید برادر بکر سے دریافت کیا کہ بکر کی بی بی نے اپنا مہر بخش دیا یا نہیں میرے سامنے زید برادربکرنے کہا کہ میرے اور کریم کے سامنے بخش دیا اور عمرو سے کہا کہ تم سب لوگ گواہ رہنا وقت ۱۲ بجے دن کے بعد کا تھا بکر کی بی بی کے مرنے کے دوسرے یا تیسرے روز کا یہ ذکر ہے خوب یاد نہیں، سوال:عمرو نے دریافت کیا تھا کہ بکر کی بی بی نے مہر بخش دیا یا لڈن کی ماں نے؟مجھے یاد نہیں کہ کیا کہا تھا جس کے جواب میں زید نے کہا کہ مہر بخش دیا، زید نے اور بھی چند مرتبہ ہمارے روبرو بیان کیا کہ لڈن کی ماں نے مہر بخش دیا۔ سوال: بکر کی بی بی کے انتقال کو کس قدر مدت گزری؟تخمیناً اٹھارہ بیس سال ہوئے۔ سوال منجانب بکر:کریم مسماۃ کے حقیقی بھائی تھے؟جواب:میں جہاں تک خیال کرتا ہوں حقیقی تھے۔

بیان دوسرے مرد کا: اﷲکو حاضر ناظرجان کر گواہی دیتا ہوں اﷲ کے واسطے یہ گواہی دیتا ہوں کہ  میں بعد مرنے محمد شفیع یعنی بکر کی بی بی کے میاں فیض اﷲ شاہ کی بیٹی کی فاتحہ کو گیا تھا میں نے زید برادر بکر سے دریافت کیا کہ کریم کی بہن، لڈن کی ماں نے مہر بکر کوبخش دیا زید اور کریم دونوں نے کہا لڈن کی ماں نے مہر معاف کردیا اور یہ کہا کہ اس بات پر گواہ رہنا اٹھارہ انیس سال کا عرصہ گزرا وقت دوپہر کا تھا یہ واقعہ مرنے سے دوسرے دن کا ہے۔

بیان عورت کا: عرصہ تخمیناًبیس سال کا گزرا کہ بکر کی بی بی نے اپنے خاوند بکر کو مہر بخش دیا تھا تین مرتبہ سوال کیا کہ کس کو بخشا، جواب دیا بکر کو سوال مہر کی تعداد معلوم نہیں تعداد مہر کی بابت اس وقت ذکر میرے سامنے نہیں ہوا زبیدہ بکر کی بی بی تھیں مہر بخشنے سے دو روز بعد انتقال ہوگیا دق میں مبتلا تھیں دو گھڑی رات گئی تھی عورتیں تھیں، مرد کوئی نہیں، فقط ان کے بھائی موجود تھے، خالد نے منجانب بکر دریافت کیا کہ زید اس وقت کہاں تھے؟کیا گھر میں موجود تھے؟

دوسری عورت کا بیان: گواہی دیتی ہوں اﷲکے واسطے میں بکر کے گھر ان کی بی بی کی دریافت حال کے واسطے گئی تھی بکرکی بیٹی نے ان سے کہا مہر کی بابت کیا کہتی ہو، انہوں نے آنکھ کھولی اور کہا میں نے مہر بخش دیا اور میرے حقوق بھی ان سے بخشوا دیجیو، دو گھڑی رات گئی تھی، کس قدر مرد تھے؟کوئی نہیں صرف عورتیں تھیں، جس نے پہلے گواہی دی ہے یہ تھیں؟کہا موجود تھی، مہر کے معاف کرنے سے دوروز بعد مرگئیں جس وقت مہر معاف کیا ہے اس وقت ہوش و حواس باقی تھے۔
الجواب

(۱) بیانات شہود اربعہ نظر سے گزرے ان میں ایک بیان بھی اس قابل نہیں کہ اس کی جانب کچھ بھی التفات کیا جائے محض مہمل ومختل ہیں۔ شہادت شہود ومشاہدہ وحضور معاینہ سے ہے دونوں مردوں میں کوئی خود اپنے سامنے زوجہ مدعا علیہ کا مہر معاف کرنا نہیں بیان کرتا بلکہ برادران زن و شو یا صرف برادر شوہر سے اپنا سننا بیان کرتے ہیں اور معافی مہران مسائل استثناء سے نہیں جن میں سماعی بات پر شہادت دینی جائز ہے۔ 

ہدایہ میں ہے:
لایجوز للشاھدان یشھد بشیئ لم یعاینہ الاالنسب والموت والنکاح والدخول و ولایۃ القاضی، وھذااستحسان والقیاس ان لاتجوز لان الشہادۃ مشتقۃ من المشاہدۃ وذٰلک بالمعاینۃ ولم یحصل فصار کالبیع، وجہ الاستحسان ان ھذہ الامور تختص بمعاینۃ اسبابھا خواص من الناس ویتعلق بھا احکام تبقی علی انقضاء القرون فلو لم یقبل فیہا الشہادۃ بالتسامع ادی الی الحرج وتعطیل الاحکام بخلاف البیع لانہ یسمعہ کل واحد۱؎۔
گواہوں کو جائز نہیں کہ بغیر دیکھے کوئی گواہی دیں ماسوائے نسب، موت، نکاح، دخول یعنی جماع اور قاضی کی ولایت کے، یہ استحسان ہے جبکہ قیاس یہ ہے کہ ان امور میں بھی جائز نہ ہو کیونکہ لفظ شہادت مشاہدہ سے مشتق ہے اور یہ معاینہ سے ہی ہوسکتا ہے جبکہ یہاں معاینہ نہیں ہے لہذا یہ امور بھی دیگر معاملات بیع وغیرہ کی طرح ہوتے ہیں، لیکن استحسان اس لئے کہ یہ امور اپنے اسباب کے معاینہ سے مختص ہوتے ہیں جن کا معاینہ خاص لوگ کرتے ہیں انہی اسباب کی بناء پر ان امور کے احکام زمانہ بھر باقی رہتے ہیں تو اگران میں سننے سنانے پر شہادت قبول نہ کی جائے تو حرج اور احکام کی تعطیل تک معاملہ پہنچ جائے بخلاف بیع وغیرہ امو رکہ ان کو ہر ایک سنتا ہے۔(ت)
(۱؎ الہدایۃ     کتاب الشہادات    مطبع یوسفی لکھنؤ    ۳ /۱۵۸)
بزازیہ میں کہ دربارہ مہر شہادت سماعی کی اجازت دی اس کے معنی یہ ہیں کہ مقدار مہر پر حاضران جلسہ نکاح سے جماعت عظیم یا ثقہ عادل دو مردوں یا ایک مرد دو عورتوں کے بیان سن کر گواہی دینی جائز ہے کہ جب نکاح پر شہادت بالتسامع  رواہوئی تو مہر بھی اس کا تابع ہے نہ یہ کہ سنی سنائی معافی مہر پر شہادت جائز ہو، علما نے مہر کو گنا ہے نہ کہ معافی مہر کو، اور ان دونوں میں فرق بدیہی ہے،

 درمختار میں ہے :
لایشھد احدبما لم یعاینہ بالاجماع الافی عشرۃ منھا العتق والولاء عند الثانی والمھر علی الاصح بزازیۃ ۲؎الخ۔
کوئی بھی بغیر معاینہ شہادت نہ دے گا بالاجماع، مگر صرف دس چیزوں میں جن میں عتق، ولاء اور امام ابویوسف رحمہ اﷲتعالٰی کے ہاں مہر بھی اصح قول کے مطابق شامل ہے، بزازیہ الخ۔(ت)
 (۲؎ درمختار   کتاب الشہادات   مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۲)
طحطاوی میں ہے:
لان المھر تبع للنکاح ذکرہ عبدالبر۳؎۔
کیونکہ مہر نکاح کے تابع ہے، اس کوا مام عبدالبر نے ذکر کیا ہے۔(ت)
(۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    کتاب الشہادات    دارالمعرفہ بیروت    ۳/ ۲۳۶)
قرۃ العیون میں ہے:
لانہ من توابع النکاح فکان کاصلہ۴؎۔
کیونکہ یہ نکاح کے توابع میں سے ہے لہذا اس کا وہی حکم ہے جو اصل کا ہے۔(ت)
(۴؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الشہادات  مصطفی البابی مصر    ۱/ ۶۹)
جامع الفصولین میں ہے:
الشہادۃ بالسماع من الخارجین من بین جماعۃ حاضرین فی البیت عند النکاح بان المہر کذا تقبل لاممن سمع من غیرھم۱؎(بالمعنی)۔
نکاح والے کمرے سے نکلنے والے لوگوں سے سن کر ہی یہ شہادت جائز ومقبول ہے کہ مہر اتنا ہے دوسرے لوگوں سے سن کر یہ شہادت جائز نہیں، (بالمعنی)(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل الثانی عشر    اسلامی کتب خانہ کراچی     ۱ /۱۷۲)
بفرض باطل اگر یہاں شہادت بالسماع جائز بھی ہوتی تو جبکہ شاہدوں نے اپنی شہادت میں سماع ہونے کی تصریح کردی قابل قبول نہ رہی،
ہدایہ میں ہے :
وینبغی ان یطلق اداء الشہادۃ ولایفسر، امااذا فسر للقاضی انہ یشھد بالتسامع لم تقبل شہادتہ کماان معاینۃ الید فی الاملاک مطلق للشہادۃ،ثم اذا فسر لاتقبل کذاھذا۔۲؎
مناسب ہے کہ گواہ شہادت کو مطلق رکھیں اور تفسیر نہ کریں اور اگر قاضی کے ہاں تفسیر کردی کہ میں سن کر شہادت دے رہاہوں تو یہ شہادت مقبول نہ ہوگی جیسا کہ قبضہ کا بیان املاک میں مطلق ہے پھر اگر کوئی اس کو بیان کردے کہ صرف قبضہ معلوم ہے ملکیت معلوم نہیں تو ملکیت میں یہ شہادت قبول نہ ہوگی، اسی طرح یہاں ہے۔(ت)
(۲؎ الہدایۃ        کتاب الشہادات    مطبع یوسفی لکھنؤ      ۳ /۱۵۸)
درمختار میں ہے :
وان فسرالشاھد للقاضی ان شہادتہ بالتسامع او بمعاینۃ الید ردت علی الصحیح الا فی الوقف والموت۳؎۔
     اگر قاضی کے ہاں گواہ نے تفسیر کردی میری شہادت سماع یا قبضہ پر مبنی ہے تو رد کردی جائے گی صحیح قول پر، ماسوائے موت اور وقف کے۔(ت)
(۳؎ درمختار       کتاب الشہادات     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۹۲و۹۳)
ان دونوں شہادتوں کی حقیقت تو اس قدر ہے مگر شاہدین نے یہ چاہا کہ اپنی سماعی گواہی کو شہادۃ علی الشہادۃ کے دائرہ میں لے آئیں اور غالباً اسی لئے بیان اصول میں یہ لفظ ذکر کئے کہ تم لوگ گواہ رہنا تاکہ شرط تحمیل کریں لیکن ان سے بہت باتیں رہ گئیں جن کے سبب یہ مقصد بھی پورا نہ ہوا اور شہادت بدستور نا کارہ رہی،

اولاًاصول یعنی برادران زن شو کا بیان شہادت نہیں، حکایت ہے کہ ان کے بیانوں میں ''گواہی دیتا ہوں'' کالفظ نہیں تو یہ شہادت علی الحکایۃ ہوئی جس کا حاصل وہی شہادت بالتسامع ہے نہ کہ شہادۃ علی الشہادۃ۔ 

درمختار میں ہے :
کیفیتہا ان یقول الاصل مخاطبا للفرع اشھد علی شہادتی انی اشھد بکذا۱؎۔
اس کی کیفیت یہ ہے کہ اصل گواہ فرع کو خطاب کرتے ہوئے کہے کہ میں یہ گواہی دیتا ہوں تومیری اس گواہی پر گواہ بن جا۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الشہادات    باب الشہادۃ علی الشہادۃ    مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۰۰)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ انی اشھد بکذا قید بقولہ اشھد لانہ بدونہ لایسعہ ان یشھد علی شہادتہ۲؎۔
     اس کا قول''انی اشھد بکذا''یہ س کے قول ''اشھد''کے لئے قید ہے کیونکہ اس قید کے بغیروہ اپنی گواہی پر گواہ نہیں بناسکتا۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الشہادات    باب الشہادۃ علی الشہادۃ    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴ /۳۹۳)
ہدایہ وطحطاوی میں ہے :
لابد ان یشھد عندہ کما یشھد عند القاضی لینقلہ الی مجلس القاضی وھو بالشین الثالثۃ۳؎۔
اصل کےلئے ضروری ہے کہ فرع کے سامنے اس طرح شہادت دے جس طرح قاضی کےہاں شہادت دیتا تاکہ فرع اسی کو مجلس قضاء میں نقل کرسکے اس طرح کے تیسرے شین یعنی اصل کی شہادت کو دہرائے(ت)
 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار   کتاب الشہادات    باب الشہادۃ علی الشہادۃ   دارالمعرفۃ بیروت    ۳ /۲۵۹)
Flag Counter