Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
71 - 151
عالمگیری میں ہے:
الاصح ان ھذہ الشہادۃ مقبولۃ علی کل حال کذافی المحیط۴؎۔
  یہ شہادت بہر صورت مقبول ہے جیسا کہ محیط میں ہے۔(ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیہ  کتاب الدعوٰی  الباب الحادی عشر  نورانی کتب خانہ پشاور  ۴ /۱۰۴)
اور یہاں طریق حکم واضح ہے جسے عنقریب بیان کریں گے ان شاء اﷲ تعالٰی ظاہر ہے کہ شہادت اس امر کے لئے درکار ہوتی ہے جس میں فریقین مختلف ہوں نہ کہ اس کے لئے جس میں اتفاق ہو ایک سو پندرہ روپے کے عوض زیور رہن رکھا جانا اور اس کا دو سو روپے بھر وزن میں ہونا مرتہن کو خود قبول ہے تو وزن پر شہادت کی اصلاً حاجت نہ تھی، اختلاف اس میں تھا کہ زیور چاندی کا تھا یا جرمن سلور کا، اس کی نسبت دونوں گواہوں نے بالاتفاق موافق دعوٰی شہادت ادا کی تویہ بینہ اس اقرار مرتہن سے مل کرثبوت دیتی ہے کہ چاندی کا زیور وزن میں دو سوروپے بھر(ما٭٭)کے عوض مرہون تھا اب طریق حکم میں کیا خفا ہے شہادتیں جب کہ موانع قبول نہ رکھیں مجوز پر لازم ہوا کہ دو سوروپے بھر نقرئی زیور (ما٭٭) لے کر راہن کو واپس دینا مرتہن پر لازم کرے اور اعداد زیور کا شہادت سے تحقیق نہ ہونا مانع حکم نہ ہوگا کہ جنس شیئ مدعی مع وزن وقدر زر رہن معلوم ہولی اسی قدر اس پر الزام حق کے لئے کافی ووافی ہے، 

معین الحکام ص ۱۴۴میں ہے :
لو قالوانشھد ان لہ علیہ دراہم لانعرف عدد ھا فھی ثلثۃ، وکذالو شھدواان علیہ دریھمات جعلت ثلثۃ ثم حلف علی شہادتھم لان الشہود قد بینوابشھادتھم شیئا معلوماً وھی الدراہم ویحلف مع شہادتھم لجواز ان یکون اکثر من ذلک۱؎۔
اگر گواہوں نے کہا ہم شہادت دیتے ہیں کہ اس کے دوسرے پر دراہم ہیں جن کی مقدار معلوم نہیں تو تین درہم کا حکم ہوگا اور یونہی اگر انہوں نے دراہم کی جگہ دریہمات کہا یعنی جمع کی تصغیر بتائی تو بھی تین ہی ہونگے، پھر قاضی اس شہادت کے ساتھ ساتھ مدعاعلیہ سے قسم لے گا(کہ اس سے زائد نہیں)کیونکہ گواہوں نے ایک معلوم چیزکی شہادت دی یعنی دراہم جس کی تعداد معلوم نہیں، قسم اس لئے لی جائے گی کہ ہوسکتا ہے تعداد تین سے زیادہ ہو، زائد کے انکار پر قسم ہوگی۔(ت)
(۱؎ معین الحکام     الباب الحادی والعشرون  مصطفی البا بی الحلبی مصر  ص۱۱۶)
دیکھو فقط اتنی شہادت پر کہ مدعا علیہ پر مدعی کے کچھ روپے ہیں یا تھوڑ ے سے درم ہیں حالانکہ گواہ صاف کہہ رہے ہیں کہ ہمیں گنتی نہیں معلوم کہ کتنے روپے آتے ہیں شرع نے گواہی مقبول رکھی اور اقل درجہ یعنی تین روپے لازم کئے اور اسے ایک شے معلوم پر شہادت دینا فرمایا یعنی روپے جس سے فقط جنس مدعٰی بہ کا علم ہوا نہ کہ عدد وزن مجموع کا جس کے علم سے گواہوں نے صاف انکار کردیا، تو یہاں کہ شاہدوں نے جنس بھی بتائی کہ چاندی کا تھا اور مجموعی وزن بھی بتایا کہ دو سو روپے بھر تھا اور خود یہ مجموعی وزن فریقین کو تسلیم بھی ہے، یہ کیونکر شہادت مجہولہ قرار پاکر رد ہوسکتی ہے۔ غرض تنقیح اول کی تجویز سراسر غلط واقع ہوئی، اس کے بعد فیصلے میں اور سخت بھاری غلطیاں ہوئیں جن کا اندازہ بھی دشوار ہے، ذی علم فاضل مجوز نے یہاں مدعی اور مدعا علیہ کی شناخث میں غور نہ کیا عوام کا خیال یا عرف یہ ہے کہ جو کچہری میں پہلے آکر نالشی ہو مطلقاً وہی مدعی ہے اور جواب دینے والا مدعاعلیہ۔ مگر شرع مطہر میں ہزار بار اس کا عکس ہوجاتا ہے جو نالش لے کر آیا مدعا علیہ ٹھہرتا اور جواب دہندہ مدعی قرار پاتا ہے۔ ولہذا علماء فرماتے ہیں کہ مدعی اور مدعا علیہ میں تمیز کرنی ایک سخت مہم ودشوار کام ہے جس میں غور کامل حاکم پر فرض تام ہے مثلاً زید عمرو پر مدعی ہوا کہ اس پر میرے ہزار روپے قرض آتے ہیں، عمرو نے جواب دیا میں ادا کرچکا ہوں اب عمرو مدعی ہے کہ ادائے دین کا دعوی کرتا ہے اور زید مدعی علیہ کہ انکار کرتاہے ، ذی علم پر اس کے نظائر کا وفور مخفی نہیں یہاں جب کہ مرتہن نے دو سوروپے بھر وزن کا زیور رہن لے کر (٭٭) قرض دینے کا اقرار اور ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی دنیا دار علی الخصوص دادستد والا ہندو ہر گز دو روپے کا مال رہن لے کر (ما ٭٭) قرض نہ دے گا، ہندوؤں کا تو عام قاعدہ ہے کہ برابر قیمت کازیور بھی ہر گز قبول نہیں کرتے جب تک مقدار دین سے ڈیوڑھا دونانہ ہو، توظاہر یہی ہے کہ وہ زیور ضرور چاندی کا تھا اور ضرور (٭٭) سے زیادہ قیمت کا تھا جب تو ہندو نے اس پر( ما ٭٭) دے دئے۔ اب اس کا یہ ادعا کہ راہن نے مجھے دھوکا دے کر جرمن سلورکا زیور چاندی کا بتاکر(٭٭) مجھے سے لے لئے محض خلاف ظاہر ہے جو بے شہادت صحیحہ ہر گز قابل قبول نہیں ورنہ ہر شخص ہمیشہ ایسے ہی دھوکے کا ادعا کرکے لوگوں کا مال ہضم کرلیا کرے کہ آج کل شہادتوں کا معیار شرع پر ٹھیک اترنا بہت دشوار ہے خصوصاً جہاں فضول وزوائد محض باتوں کے ذکر وعدم ذکر پر گواہیاں رد ہوتی ہوں تو معاملہ خود ان کی قسم پر آکر پڑے گا جو ایسے پیچ کریں انہیں قسم کھاتے کیا لگتا ہے اور اس فیصلہ موجودہ کا سافیصلہ ہوا تو قسم کی بھی حاجت نہیں یوں ہی مال ہضم ہے، کیا شرع مطہر اسے گوارا کرسکتی ہے حاشا وکلا، سخت عجب ہے کہ فاضل مجوز کو خود معلوم تھا کہ جرمن سلور کازیور بتانے میں مرتہن ہی شرعاً مدعی ہوگیا اور راہن اس بارہ میں مدعا علیہ ہے جب تو اس تنقیح دوم کا بار ثبوت مرتہن پر رکھا تھا، ثبوت مدعی پر ہوتا ہے یا منکر پر۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
البینۃ علی من ادعی والیمین علی من انکر۱؎۔
گواہی مدعی کے ذمہ اور قسم منکر پر ہے۔(ت)
(۱؎ صحیح البخاری    کتاب الرھن     ۱/ ۲۴۲    و جامع الترمذی     ابواب الاحکام     ۱ /۱۶۰)

(سنن الدار قطنی     باب فی المرأۃ تقتل اذاارتدت    نشتر السنۃ ملتان    ۴ /۲۱۸)

(السنن الکبرٰی     کتاب الدعوٰی والبینات    دار صادر بیروت    ۱۰ /۲۵۲)
تو قطعاً مانا کہ مرتہن مدعی ہے او رقطعاًجانا کہ اس کا ثبوت دینا اس پر ہے اور صاف تصریح فرمائی کہ وہ اصلاً ثبوت نہ دے سکا اور ظاہر ہے کہ راہن نے جرمن سلور ہونے کا اقرار نہ کیا نہ وہ اس پر قسم کھانے سے منکر ہوا تو بینہ اقرار نکول تینوں طریقے معدوم، اور محض اس مدعی یعنی مرتہن کے زبانی بیان جرمن سلور ہونا مقبول، یوں ہوتو لوگوں کے جان و مال ہلاک و تلف ہوں۔
رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
لو یعطی الناس بدعوٰھم لادعی ناس دماء رجال واموالھم ولکن الیمین علی المدعی علیہ ۱؎۔
لوگ اگر اپنے دعوٰی پر دے دئے جائیں تو لوگوں کے خون اور مال کا دعوٰی کر بیٹھیں ہاں یوں ہے کہ مدعا علیہ پر قسم ہے۔
 (۱؎ صحیح مسلم     کتاب الاقضیۃ     باب الیمین علی المدعی علیہ     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۷۴)
او ریہیں سے ظاہر ہوا کہ روایت درمختار کو اس سے علاقہ نہیں وہ وہاں ہے کہ مرتہن خلاف ظاہر کا مدعی نہ ہو تو آپ ہی اس کا قول معتبر ہوگا کہ وہ قابض ہے یہاں خود مجوز کو اعتراف ہے کہ مرتہن امر خلاف ظاہر کا مدعی ہے جب تو تنقیح دوم میں لکھا تھا کہ ثبوت ذمہ مدعا علیہ ہے، کیا جس کی بات ظاہر کے خلاف ہے، اگر ادعائے خلاف ظاہر کی حالت کو بھی یہ روایت شامل ہوتو بنیوں کی ایک ایک دیا سلائی لاکھ لاکھ روپے کی ہوجائے، زید نے کسی بنئے سے کچھ رہن رکھ کر لاکھ روپے قرض لئے جب وہ قرض ادا کرنے آئے بنیاد یا سلائی کی ایک ڈبیا دکھائے کہ یہ رہن رکھ کر لاکھ روپے مجھ سے لے گئے تھے مدیون گواہ پیش کرے ان میں کسی لفظ زائد و بیکار کے ذکر و ترک کا اختلاف پڑجائے جس سے عام شہادتوں کا خالی ہونا سخت ہی دشوار ہے گواہیاں تو یوں رد ہوگئیں اور اب قول مرتہن کا معتبر ہے، حکم ہوجائے کہ راہن کو ڈگری دی گئی مگر کیسی، یوں کہ یہی دیا سلائی قابل نفاذ حکم ہے لاکھ روپے ادا کرکے دیا سلائی گھر کو لے جائے، اس صورت کو باطل مانئے تو کیوں، حالانکہ روایت درمختار کا اطلاق اسے بھی شامل ہے اس میں اسی قدر تو ہے کہ:
قال الراھن الرھن غیر ھذا وقال المرتھن بل ھذا ھو الذی رھنتہ عندی فالقول للمرتھن لانہ القابض۲؎۔
یعنی راہن نے کہا مرہون اور چیز تھی، مرتہن نے کہا بلکہ یہی تھی، تو قول راہن کامعتبر ہے کہ وہ قابض ہے۔
 (۲؎ درمختار     کتاب الرہن     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۲۶۷)
اس سے لاکھ روپے اور دیا سلائی کی ڈبیہ کا مسئلہ کیونکر خارج کیجئے گا۔ رہن یہی تھی یا اور چیز تھی یہاں بھی صادق۔ لاجرم ماننا پڑے گا کہ یہ اس صورت کو شامل نہیں جس میں مرتہن خلاف ظاہر ادعاکرے تو بعینہ یہی علت یہاں بھی ہے، مرتہن خلاف ظاہر ہی کا مدعی ہوا ہے جب تو اس تنقیح کا بار ثبوت اس پر تھا،
لاجرم عالمگیریہ میں فرمایا:
الظاہر یکذبہ(ای المرتھن) فیما قال فلا یقبل قولہ اذا جحد الراھن ذٰلک کذا فی المحیط ۱؎۔
ظاہر حال اس کو یعنی مرتہن کو جھوٹا قرار دیتا ہے لہذا اس کا قول معتبر نہ ہوگا جبکہ راہن اس کا انکار کررہا ہے محیط میں یونہی ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الرہن     الباب الثانی عشر     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۴۹۲)
پھر اس سے بھی عجیب تر یہ ہے کہ اس روایت غیر متعلقہ کے بھی خلاف کیا گیا روایت میں قول مرتہن کیلئے مانا ہے اور قول کسی کا معتبر ہونے کے یہ معنی ہیں کہ اس سے حلف لیاجائے گا اگرحلف کرے اس کا قول مقبول ہو، خود فاضل مجوز کو اقرارہے کہ قول مرتہن معتبر ہے مگر بحلف، صورت دائرہ میں بے حلف ہی اسی کا قول معتبر ہوگیا اور اس کا عذر یہ تحریر فرمایا کہ مدعی نے اس کے حلف کی استد عا نہ کی، سبحان اﷲ اگر مدعی گواہ نہ دے سکے اور حلف مدعا علیہ کی خود استدعا بھی نہ کرے کہ ان کچہریوں میں یہ معمول کا لمنسوخ ہورہا ہے تو اب قاضی کو حکم ہےکہ بلا گواہ وبلا حلف خود بخود قول مدعا علیہ خلاف مدعی قبول کرکے فیصلہ دے دے، 

فتاوٰی امام قاضیخاں و اشباہ والنظائر وفتاوٰی خیریہ میں ہے :
القاضی لایقضی الابالحجۃ وھی البینۃ اوالاقرار والنکول۲؎۔
      قاضی صرف حجت کی بناء پر فیصلہ کرے گا اور وہ حجت گواہی یا اقرار یا قسم سے انکار ہے(ت)
 (۲؎ فتاوٰی قاضی خان     کتاب الوقف     فصل فی دعوٰی الوقف    نولکشور لکھنؤ    ۴ /۷۴۲)

(فتاوٰی خیریہ     کتاب الدعوٰی     دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۵۱)

(الاشباہ والنظائر     الفن الثانی     کتاب القضاء والشہادات     ادارۃ القرآن کراچی    ۱ /۳۳۸)
پھر لطف یہ کہ ساری بلا تو مدعی بیچارے کے سرپڑی کہ (٭٭) چہرہ دار دے کر دو روپے کا کھلونا لے لے اور نام یہ فرمایا گیا کہ مدعی کی ڈگری ہوئی۔ بالجملہ اس فیصلہ کا منسوخ کرنا لازم ہے بلکہ اسے تو منسوخ کرنابھی کیا کہئے منسوخ تو وہ ہو جو کچھ وجود بھی رکھتا ہو نہ یہ کہ تجویز کہ اصلاً کسی اصل شرعی، عقلی، عرفی سے لگاؤ نہیں رکھتی جس میں مرتہن کو کہ مدعی ہو لیا، مقبول القول مانا گیا اور وہ بھی ایسا کہ اس کی نری زبان بلا حلف مقبول،نسأل اﷲ العفو والعافیۃ انصافاً(ہم اﷲتعالٰی سے عفو و معافی کا سوال کرتے ہیں انصاف کے طور پر) یہاں طریق حکم یہ ہے کہ اگر گواہان راہن کی وہ دونوں شہادتیں بروجہ شرعی گزرچکی ہیں تو ان سے زیور نقرئی وزنی دو سوروپے بھر ہونا ضرور ثابت ہے۔ مرتہن پر لازم کیا جائے کہ چاندی کا زیور اتنے وزن کا پیش کرے اگر وہ لے آئے اور اسی تفصیل کے مطابق ہو جوراہن نے بیان کی فبہا، اور اگر راہن کہے کہ یہ وہ زیور نہیں تو اب روایت درمختار اس مسئلہ سے متعلق ہوگی راہن تفصیل پر گواہ نہ لایا تو مرتہن سے حلف لے، اگر وہ حلف کرے تو نقرئی دو سوروپے بھر کا زیور کہ مرتہن پیش کرے مرہون قرار پائے راہن(ماصہ عہ/0) دے کر وہ چاندی کا زیور لے لے، اور اگر مرتہن زیور نقرہ سے منکر ہی رہے تو یہ ٹھہرے گا کہ زیور اس نے تلف کردیا ایک سو پندرہ روپے بھر کے عوض تو مرتہن کا دین ساقط ہوگیا باقی( پچاسی صہ لہ ) روپے بھر چاندی راہن کو واپس دے۔

عالمگیری باب رہن الفضۃ بالفضۃ میں ہے :
یجوز رہن الدراہم والدنانیر فان رھنت بجنسہا فھلکت ھلکت بمثلھا من الدین وان اختلفا فی الجودۃ وھذا عند ابی حنیفۃرضی اﷲتعالٰی عنہ ۱؎الخ۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
دراہم ودیناروں کا رہن رکھنا جائز ہے تو اگر یہ بجنسہا رہن رکھے گئے ہوں تو ہلاک ہوجانے پر ان کی مثل لازم ہوگی اگرچہ دونوں فریق جید اور ردی ہونے میں اختلاف بھی کریں اور یہ امام ابوحنیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے ہاں ہے۔الخ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیۃ     کتاب الرہن     الباب العاشر    نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۴۷۳)
Flag Counter