Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
70 - 151
عالمگیری جلد چہارم ص۲۵۰ :
لوادعی انہا لہ ورثھا من ابیہ ثم ادعی ھو مع اٰخر انھما ورثاھامن المیت واقاما البینۃ علٰی ذٰلک تقبل کذافی الخلاصۃ۱؎۔
کسی نے ایک حویلی کے متعلق دعوٰی کیا یہ میری ہے اور مجھے والد کی وراثت میں ملی ہے، پھر اس نے کسی دوسرے کے اشتراک سے دعوٰی کیا کہ یہ حویلی ان دونوں کو میت سے وراثت میں ملی ہے اور اس پر انہوں نے گواہی پیش کردی تو گواہی مقبول ہوگی۔ خلاصہ میں اسی طرح ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ        کتاب الدعوٰی     الباب الثامن     نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۷۱)
مدعی کی لغو بیانی کبھی ہر گز ثابت نہیں، چاندی کا نرخ کم ہونا اسے مستلزم نہیں کہ دو سو روپے کا قیمتی نہ ہوسکے، کیا صنعت کوئی چیز نہیں، کیا اس سے شے کی مالیت''اضعافا مضاعفہ'' نہیں ہوجاتی دہلی کے سادہ کاری کے چھلے، انگوٹھیاں، نونگے، تعویذ، وزن میں حباب کے مثل ہوتے ہیں اورقیمت کس درجہ زیادہ۔ ولہذا شرعاً حکم ہے کہ ان کی زکوٰۃ خلاف جنس سے دی جائے تو قیمت صناعی کا اعتبار ہوگا نہ کہ وزن کا ،

معراج الدرایہ و نہرالفائق وردالمحتار وغیرہا میں :
لہ ابریق فضۃ وزنہ مائتان وقیمتہ ثلثمائۃ۲؎۔
کسی کاچاندی کا کوزہ جس کا وزن دو سو درہم ہے اور اس کی قیمت تین سو درہم ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار     کتاب الزکوٰۃ    باب زکوٰۃ المال     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۳۰)
نیز جامع الرموز و شامی وغیرہما میں:
ابریق فضۃ وزنہ مائۃ درہم وقیمتہ بصناعتہ مائتان۳؎۔
چاندی کا کوزہ وزن سو درہم اور اس کی بناوٹی قیمت دو سودرہم ہے۔(ت)  وغیرہ ذلک تصریحات فقہائے کرام دیکھنے سے معلوم ہوسکتا ہے کہ سوروپے بھر زیور کی بھی قیمت دو سو روپے بلکہ زائدہوسکتی ہے نہ کہ دو سور وپے بھر کی قیمت دو سوروپے ہونا محال ٹھہرے،
 (۳؎ جامع الرموز    کتاب الزکوٰۃ         مکتبہ اسلامیہ گنبد قامو س ایران    ۲ /۳۱۱)

(ردالمحتار    کتاب الزکوٰۃ     باب زکوٰۃ المال    داراحیاء التراث العربی بیروت    ۲ /۳۰)
اختلاف گواہان کی وجہ اول تو سخت عجیب ہے، شفیع خاں کا اس وقت ہمراہ مدعی ہونا اگر ایک گواہ نے بیان کیا تو دوسرے نے اس سے انکار تو نہ کیاکہ باہم اختلاف گما ن کیا جائے اسے اصل مقدمہ سے کیا تعلق تھا جس کا بیان ہر گواہ رپر لازم ہوتا ہے اور بفرض باطل اگرلازم ہوتا بھی تو دوسرے کا بیان بوجہ ترک امر ضروری ناقص ٹھہرتا اختلاف شہادت اس وقت بھی نہ کہہ سکتے کہ ذکر وعدم ذکر تخالف نہیں بلکہ ذکر وذکر عدم، ہم بار ہافیصلہات ریاست کے ایسے خود قرار دادہ اختلاف پر بحث کرچکے اور آیات قرآنیہ سناچکے ہیں کہ ایک ہی قصے کے بیان میں رب عزوجل نے ایک جگہ ایک بات ذکر فرمائی دوسری جگہ ترک فرمائی کیا معاذاﷲ اسے قرآن عظیم کا اختلاف قرار دیاجائے گا حالانکہ رب عزوجل فرماتا ہےـ:
افلا یتدبرون القراٰن ولو کان من عند غیراﷲ لوجد وافیہ اختلافا کثیراo ۱؎۔
کیاقرآن میں تدبر نہیں کرتے اگر یہ غیراﷲ کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں کثیرا ختلاف پاتے۔(ت)
 (۱؎ القرآن الکریم ۴ /۸۲)
اور اسکی تو لاکھوں مثالیں ملیں گی کہ بہت باتیں جو قرآن عظیم نے ذکر قصص میں ترک فرمائیں رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام نے بیان فرمائیں، کیا یہ اﷲورسول کا اختلاف بیان ٹھہرے گا والعیاذ باﷲ تعالٰی۔ اختلاف دوم کی بھی حالت اسی کے قریب ہے گواہ اول نے مدعی کا ایک کاغذ لکھنا بیان کرکے صاف کہہ دیا کہ یادنہیں کس نے لکھا تھا تووہ اس کے کلام میں ذکر تحریر کالعدم ہوگیا، ایک شخص کہے زید نے فلاں کام کیا دوسراکہے یاد نہیں کس نے کیا تو اس میں کیا اختلاف بیان ہوا، معہذا اگر اس کا وہی قول لیجئے کہ مدعی نے ایک کاغذ لکھا تو اس کے کلام میں یہ کہاں ہے کہ مدعا علیہ نے کچھ نہ لکھا اسکا ترک ذکر ہے نہ ذکر نفی اور گواہ دوم مدعا علیہ کا ایک رقعہ لکھنا بیان کرکے کہتا ہے اور کوئی رقعہ نہیں لکھاگیا تھا یہ بظاہر اس تقدیر پر کہ گواہ اول کے بیان میں مدعی کا کاغذ لکھنا بالجزم فرض کرلیں اختلاف مذکورہ فیصلہ سے زیادہ اختلاف موہوم ہوسکتا ہے کہ وہاں اثبات تھا اس میں نفی ہے مگر ذی علم فاضل مجوز نے اسے قلم انداز فرمایا اور وجوہ اختلاف میں نہ لیا اور ایسا ہی چاہئے تھا کہ یہاں اثبات ونفی ایک شیئ پروارد نہیں جس سے اختلاف پیدا ہو عرف ناس سے آگاہ اول نے لفظ رقعہ نہ کہا کاغذ کہا وہ رقعہ سے عام ہے اور خاص کی نفی عام کی نفی کو مستلزم نہیں ممکن کہ عام دوسرے فرد کے ضمن میں متحقق ہو یعنی مدعی نے کوئی رقعہ لکھا ہو بلکہ اور کوئی کاغذمثل یا دداشت فہرست زیور وغیرہ تحریر کیا ہو، اس میں کیا تناقض ہوا، ذی علم مجوز کا یہ فرمانا کہ حالانکہ مدعا علیہ فارسی لکھنا نہیں جانتا معلوم نہیں کس بنا پر ہے کیا مدعا علیہ کا زبانی انکار ہوا وہ مان لیا، یا اس کی نفی پر کوئی شہادت گزری حالانکہ ایسی نفی پر شہادت اصلاً مسموع نہیں۔ شخص غیر اور خود مدعا علیہ کے لکھنے میں کیا منافات ہے اگر اظہار گواہ دوم میں یہ لفظ کہ اپنے ہاتھ سے لکھا نہ ہو جب تو ظاہر ہے کہ لکھوانے کو لکھنا بر ابر عرف شائع ہے خود اسی فیصلہ میں مجوز نے فرمایا کہ مدعی نے تفصیل زیور عرضی دعوی میں تحریر کی وزن ہر عدد کا تحریر کیا حالانکہ عرضی دعوٰی غالباً وکلاء لکھتے ہیں نہ کہ خود مدعی۔ اور اگر اظہار میں اپنے ہاتھ سے لکھنے کا ذکر ہے جب بھی کیا دونوں کا لکھنا جمع نہیں ہوسکتا۔ کیا اکثر ایسا نہیں ہوتا کہ آدمی خود مسودہ کرکے جس کے متعلق ہےاسے دکھا کر پسند کراکر دوسرے سے صاف کرادیتا ہے خصوصاً وہ کہ بدخط ہو۔ کیا ممکن نہیں کہ اس نے جو لکھ کردیا کہیں مشکوک تھا مدعی نے تبدیل چاہی اس نے دوسرے سے لکھوادیا اور اصل یہ ہے کہ ایسی فضول باتوں میں اختلاف پر نظر نامعتبر، اگر اس نے خود لکھا تو کیا فائدہ دوسرے سے لکھوایا تو کیا نقصان، مدعی نے لکھا  تو کیا نفع ، مدعی علیہ نے لکھا  تو کیا ضرر ، اور اگر دونوں نے لکھایا کسی نے نہ لکھا تو اس سے معاملہ پر کیا اثر۔ ہمارے ائمہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم کے مذہب مہذب وظاہر الروایۃ وقول امام و معتمد جماہیر کتب مستندہ میں اختلاف صرف وہ مضر ہے جو اصل معاملہ پر خلل انداز ہو، زائد وفضول باتیں کہ یوں ہوں تو دعوٰی میں خلل نہیں، یوں ہوں تو ضرر نہیں، محض نظر انداز ہیں ان میں اختلاف اصلاً قابل لحاظ نہیں ، ہم نے اپنے فتاوٰی میں ریاست رامپور ہی کے ایک فیصلہ پر اس مسئلہ کے متعلق کتب امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے لے کر بحرالرائق وغیرہ کتب معتمدہ متأخرین تک بائیس کتابوں کی سند پیش کی ہے یہاں اسی قدرکافی کہ فتاوٰی خلاصہ وفتاوٰی عالمگیری وغیرہمامیں تصریح ہےکہ
: التناقض فیما لا یحتاج الیہ لایضر۱؎۔
 اگر غیر ضروری چیز میں تناقض ہوتو مضرنہیں ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۳/ ۴۶۰)
ذی علم مجوز نے تو ایک کاہمراہی شفیع خاں بیان کرنا دوسرے کا اسے ذکر نہ کرنا اختلاف مضر قرار دیا اور فتاوٰی امام قاضی خاں و بحرالرائق وفتاوٰی ظہیریہ و فتاوٰی عالمگیریہ میں اور نص صریح امام محرر المذہب رضی اﷲتعالٰی عنہ سے تصریح ہے کہ اگر ایک نے کہا فلاں شخص اس وقت ساتھ تھادوسرے نے صاف انکار کیا کہ وہ ساتھ نہ تھا جب بھی شہادت میں خلل نہیں کہ مطلب سے زیادہ باتوں میں اختلاف ناقابل التفات ہے، عبارت یہ ہے:
قال احدھما کان معنا فلان وقال الاٰخر لم یکن معنا فلان ذکر فی الاصل انہ یجوز ولاتبطل ھذہ الشہادۃ۲؎۔
ایک نے کہا وہ فلاں ہمارے ساتھ تھا، دوسرے نے کہا ہمارے ساتھ نہ تھا، تو اصل میں امام محمدر حمہ اﷲتعالٰی نے فرمایاکہ شہادت باطل نہ ہوگی۔(ت)
(۲؎فتاوٰی ہندیہ   کتاب الشہادات   الباب الثامن  نورانی کتب خانہ پشاور۳ /۵۰۹)
جہالت شہادت بھی وہ مضر ہوتی ہے جس سے طریق حکم مسدود ہو ورنہ تصریح ائمہ ہےکہ مذہب اصح وا رجح ومعتمد میں ہرگز مضر نہیں، 

فتاوٰی امام قاضی خاں میں ہے:
رجل ادعی فی دار رجل طریقا و اقام البینۃ فشہدا الشہود بان لہ طریقا فی ھذہ الدار جازت شہادتھم وان لم یجدوا الطریق لان الجہالۃ انما تمنع قبول الشہادۃ اذا تعذر القضاء بھا وھٰھنا لایتعذر فان عرض الباب العظمی یجعل حکما لمعرفۃ الطریق ۱؎اھ مختصرا۔
ایک شخص نے دوسرے کی حویلی میں اپنے راستہ کا دعوٰی کیا اور اس پر گواہ پیش کئے تو گواہوں نے گواہی دے دی کہ اس حویلی میں اس کا راستہ ہے تو یہ شہادت جائز ہے اگر حویلی میں راستہ موجود نہیں پاتے، کیونکہ جہالت وہاں شہادت کی قبولیت میں مانع ہوتی ہے جب وہ قضا کو متعذر بنادے جبکہ یہاں متعذر نہیں ہے کیونکہ بڑے دروازے کی چوڑائی سے راستے کا فاصلہ معلوم ہوسکتا ہے اھ مختصراً۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی قاضی خاں    کتاب الدعوٰی     باب الیمین رجل ادعی     نولکشور لکھنؤ    ۳ /۵۱۱)
اسی میں ہے:
قدمت ماھوا لاظھر الاشھر۲؎۔
میں مشہور اور اظہر کو پہلے لاتا ہوں(ت)
 (۲؎فتاوٰی قاضی خاں    مقدمۃ الکتاب     نولکشور لکھنؤ    ۱ /۲)
طحطاوی وردالمحتار میں ہے:
قدمہ قاضی خاں فکان ھوالمعتمد ۳؎۔
قاضی نے اس مسئلے کو پہلے ذکر کیا ہے لہذایہی قابل اعتماد ہے(ت)
(۳؎ ردالمحتار         کتاب الزکوٰۃ     باب العشر         داراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۵۵)
Flag Counter