فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
7 - 151
مسئلہ۸: ازریاست رامپور متصل زیارت شاہ ولی اﷲ صاحب مرسلہ مولوی ہدایت اﷲ خاں صاحب ۶ ذی الحجہ ۱۳۱۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ہندہ اور زید وعمرو میں ایک زمیں کے بابت تخالف ہے، ہندہ کا قول ہے کہ یہ زمیں مملوک ومقبوض ہندہ ہے۔،زید وعمرو کہتے ہیں کہ یہ زمیں بکر کی تھی اس نے عرصہ تخمینا ۵۵ سال کا گزرا کہ واسطے قبرستان کے وقف کردی تھی مگر کسی کو اس کا متولی نہیں کیا تھا اور یہ زمین موروثی بکر کی ہے وقف وموروثی ہو نے کی سماعی شہادت زید وعمرو کی ہے قابل تحقیق ودریافت یہ امر ہے کہ زید وعمرو کی صرف اس قدر سماعی شہادت سے کہ یہ زمین موروثی بکر کی ہے یہ زمین ملک بکر شرعاً قرار دی جائے گی یا نہیں؟ بعدہ زید وعمرو کی سماعی اس شہادت سے کہ وہ زمین بکرنے وقف کردی ہے شرعاً موقوفہ قراردی جائے گی یانہیں؟جواب اس کا بحوالہ کتاب ومسائل مفتی بہ درج ہو، بینواتوجروا۔
الجواب: صورت مستفسرہ میں اگر زید وعمرو شرائط شہادت کے جامع اور ان کا بیان جملہ شرائط عامہ وخاصہ کو مستجمع واقع ہوا تو زمین متنازعہ فیہا کا قبرستان کے لئے وقف ہونا ثابت ہوجائے گا کہ اصل وقف میں شہادت سماعی ضرور مقبول ہے اور صحت وقف مالکیت واقف پر موقوف، تو قبل وقف زمین کا مملوکِ بکر ہونا ضمن ثبوت میں رنگِ ثبوت پائے گا اگرچہ ابتداء اثبات ملک کے لئے شہادت سماعی کافی نہیں،
وکم من شیئ یثبت ضمنا ولایثبت قصدا کاخبار مجوسی اتی بلحم ان فلانا المسلم ارسلہ الیک بھذا ھدیۃ لک فانہ یقبل قولہ فی المعاملات والھدایا منہا، ثم یثبت الحل ضمنا وان کان قول الکافر لایقبل فی الدیانات ومنھا الحل والحرمۃ اصلا، ثم رأیت بحمد اﷲ التعلیل بعین ھذا فی تبیین الحقائق للامام الزیلعی حیث قال رحمہ اﷲ تعالٰی عاین ملکا بحدودہ ینسب الی فلان بن فلان الفلانی وھو لم یعرفہ بوجھہ ونسبہ ثم جاء الذی نسب الیہ الملک وادعی ان المحدود ملکہ علی شخص حل لہ ان یشھد استحسانا لان النسب یثبت بالتسامع، فصاۤر المالک معلوما بالتسامع والملک بالمعاینۃ، ولولم یسمع مثل ھذا الضاع حقوق الناس لان فیہم الحجوب ومن لایبرز اصلا ولایتصور ان یراہ متصرفا فیہ ولیس ھذا اثبات الملک بالتسامع وانما ھو اثبات النسب بالتسامع وفی ضمنہ اثبات الملک بہ وھو لایمتنع وانما یمتنع اثباتہ قصدا۱؎۔
بہت سی چیزیں ضمناً ثابت ہوتی ہیں قصداً ثابت نہیں ہوتیں جیسے کسی شخص کے پاس کھانا لانے والے مجوسی کا خبر دینا کہ اس کو فلاں مسلمان نے یہ کھانا تیرے لئے بطور ہدیہ دے کرتیرے پاس بھیجا ہے، بیشک مجوسی کا قول معاملات میں مقبول ہوتا ہے اور تحائف بھیجنا معاملات میں سے ہے، پھر اس کھانے کا حلال ہونا ضمناً ثابت ہوجائے گا اگرچہ امور دینیہ میں کافر کا قول بالکل مقبول نہیں ہوتا اور حلال وحرام ہونا امور دینیہ میں سے ہے، پھر میں نے بحمداﷲ یہی تعلیل بعینہ علامہ زیلعی کی تبیین الحقائق میں دیکھی جہاں آپ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ملک کو اس کی حدود کے ساتھ دیکھا کہ فلاں ابن فلاں کی طرف منسوب ہوتی ہے جبکہ اس نے مالک کو نہ تو چہرے سے پہچانا اور نہ ہی اس کے نسب کو جانا پھر وہ شخص آیا جس کی طرف ملک محدود کی نسبت کی جاتی ہے اور خاص اسی ملک محدود کے مالک ہونے کا دعوٰی کیا تو شاہد کو اس کی ملک پر گواہی دینا بطور استحسان حلال ہے کیونکہ نسب سماع سے ثابت ہوجاتا ہے لہذا مالک لوگوں سے سن کر اور ملک دیکھ کر معلوم ہوگیا، اور اگر اس طرح کی گواہی مسموع نہ ہو تو لوگوں کے حقوق ضائع ہوجائیں گے کیونکہ لوگوں میں کچھ نقاب پوش ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں بالکل سامنے نہیں آتے تو ایسے شخص کو ملک میں تصرف کرتے ہوئے دیکھنا شاہد کے لئے متصور نہیں، اور یہ تسامع سے ملک کو ثابت کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو تسامع سے نسب کا اثبات ہے اور اس کے ساتھ ضمن میں ملک کا اثبات ہے اور یہ ممتنع نہیں، ممتنع توقصداً تسامع سے ملک کا اثبات ہے۔(ت)
(۱؎ تبیین الحقائق کتاب الشہادۃ المطبعۃ الکبرٰی بولاق مصر ۴/ ۲۱۷)
مسئلہ کتب میں دوار اورمتون وشروح وفتاوٰی میں مستفیض وآشکار ہے،
تنویر میں ہے:
تقبل فیہ الشہادۃ بدون الدعوی والشہادۃ بالشھرۃ لاثبات اصلہ وان صرحوابہ لا لشرائطہ۱؎۔
وقف میں بلا دعوٰی شہادت قبول کی جاتی ہے اور اصل وقف کے اثبات کے لئے شہرت کی گواہی مقبول ہے اگرچہ گواہ اس کی صراحت کردیں اور شرائط وقف کے اثبات کے لئے شہر ت کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔(ت)
(۱؎ درمختار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۸۸۔۳۸۷)
ردالمحتار میں ہے:
فی المنح کل مایتعلق بصحۃ الوقف ویتوقف علیہ فہو من اصلہ وما لایتوقف علیہ فہو من الشرائط۲؎۔
منح میں ہے ہر وہ چیز جس کا تعلق صحت وقف کے ساتھ ہے اور وقف کی صحت اس پر موقوف ہے وہ اصل وقف سے ہے اور جس پر صحت وقف موقوف نہیں وہ شرائط وقف سے ہے۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۰۳)
اسی میں ہے :
بیان الجھۃ ھو بیان المصرف ویأتی انہ من الاصل لامن الشرائط فالمراد من الشرائط مایشرطہ الواقف فی کتاب وقفہ لاالشرائط التی یتوقف علیہا صحۃ الوقف کالملک والافرازوالتسلیم عند القائل بہ ونحو ذٰلک مما مر اول الباب۳؎۔
بیان جہت مصرف کا بیان ہے اورآگے آئے گا کہ وہ اصل وقف سے ہے نہ کہ شرائط سے، تو وہاں شرائط سے مراد وہ شرطیں ہیں جو واقف نے اپنے وقف نامے میں ذکر کی ہیں وہ شرطیں مراد نہیں جن پر صحت وقف موقوف ہے جیسے ملک، جداکرنا اور تسلیم اس کے نزدیک جو اس کے شرط ہونے کا قائل ہے اور دیگر شرائط جوباب کے شروع میں گزرچکی ہیں۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۰۴)
یہاں واجب اللحاظ بات یہ ہے کہ وقف پر شہادت شہادت لوجہ اﷲہے جسے شہادت حسبہ کہتے ہیں اور شاہد حسبہ اگر بلاعذرشرعی ادائے شہادت میں تاخیر کرے مثلاً وقف پر ناجائز قبضہ ناروا تصرفات دیکھا کرے اور خاموش رہے پھر کھڑا ہو اور گواہی دے کہ یہ وقف ہے تو اس کی شہادت مردود ہے کہ وہ اتنے دنوں باطل پر سکوت کرنے اور وقف پر ظلم روارکھنے سے فاسق ہوگیااور فاسق کی گواہی قبول نہیں تو اس کی شہادت کا ماننا ہی اس کی شہادت نہ ماننے کو مستلزم ہے ہاں اگر قاضی ایسی گواہی مان کر قضاکردے تو نافذ ہوجائے گی جبکہ اسے ایسی قضا کا اختیار ہو اور اگر مقید وپابند کیاگیا ہے کہ مذہب حنفی صحیح ومفتی بہ کے موافق فیصلہ کرے تو ایسی شہادت کی بناء پرقضائے قاضی بھی مردود،اور فیصلہ واجب الرد ہے کہ خلاف تقیید میں وہ قاضی نہیں بلکہ احدمن الرعایا ہے۔
ردالمحتا رمیں ہے:
شاھد الحسبۃ اذااخرھا بغیر عذر لاتقبل لفسقہ اشباہ من القنیۃ وقال ابن نجیم فی رسالۃ المؤلفۃفیما تسمع فیہ الشہادۃ حسبۃ ومقتضاہ ان الشاہد فی الوقف کذالک۱؎۔
شاہد حسبہ (لوجہ اﷲ شہادت دینے والا) اگر بلاعذر شہادت میں تاخیر کرے تو فسق کی وجہ سے اس کی شہادت مقبول نہ ہوگی(اشباہ بحوالہ قنیہ)، ابن نجیم نے ان امورکے بارے میں جن میں شہادت حسبہ مسموع ہوتی ہےتالیف کردہ اپنے رسالے میں فرمایا کہ اس کا مقتضایہ ہے کہ وقف میں گواہی دینے والے کاحکم بھی ایسا ہی ہو۔(ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الوقف فصل یراعی شرط الواقف فی اجارتہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۳/ ۴۰۳)
عقود الدریہ میں ہے:
سئل فیما اذا باع زید عقارہ المعلوم من عمرو وتصرف بہ عمر و مدۃ مدیدۃ ورجلان معاینان مشاھدان لذلک کلہ ومطلعان علیہ ویریدان الآن ان یشھداحسبۃ بان العقار وقف کذاوقد اخرا شھادتہما بلاعذر شرعی ولاتاویل فہل حیث کان الامر کما ذکر لاتقبل شہادتھما الجواب شاہد الحسبۃ اذااخر شہادتہ بلاعذر شرعی مع تمکنہ من ادائھا لاتقبل شہادتہ کما فی الاشباہ وغیرہا۲؎۔
سوال کیا گیا کہ زید نے اپنی مشہور و معروف زمین عمرو کے ہاتھ فروخت کی اور عمرو عرصہ دراز تک اس میں تصرف کرتا رہا جبکہ دو مرد اس سب کچھ کو دیکھتے رہے اور اس پر مطلع رہے اب وہ دونوں لوجہ اﷲگواہی دینا چاہتے ہیں کہ یہ زمین وقف شدہ ہے اور ان دونوں نے بغیر کسی عذر شرعی اور بغیر کسی تاویل کے گواہی میں تاخیر کی تو کیا یہاں بھی معاملہ وہی ہے جو مذکور ہوا کہ ان دونوں کی گواہی قبول نہیں کیجائیگی، جواب:شاہد حسبہ اگر بلاعذر شرعی شہادت میں تاخیر کرے باوجودیکہ وہ اس کی ادائیگی پر قادر ہو تو ا س کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی جیسا کہ اشباہ وغیرہ میں ہے(ت)
(۲؎ العقود الدریۃ کتا ب الشہادۃ ارگ بازار قندھار افغانستان ۱/ ۳۴۶)
درمختار میں ہے:
(لوقضی بشھادۃ فاسق نفذ) واثم فتح (الاان یمنع منہ) ای من القضاء بشھادۃ الفاسق(الامام فلا) ینفذ لمامرانہ یتأقت ویتقید بزمان و مکان وحادثۃ وقول معتمد حتی لاینفذ قضاؤہ باقوال ضعیفۃ۱؎۔
اگر قاضی فاسق کی شہادت پر فیصلہ کردے تو نافذ ہوگا اور قاضی گنہگار ہوگا(فتح) لیکن اگر حاکم نے قاضی کو فاسق کی شہادت پر فیصلہ کرنے سے منع کیا تو نافذ نہ ہوگا کیونکہ قاضی کو مخصوص زمانے مخصوص جگہ،مخصوص حادثے اور معتمد قول پر فیصلہ کرنے کے ساتھ مقید کیا جاسکتا ہے یہاں تک کہ اقوال ضعیفہ کی بنیاد پر کیا ہوا اس کا فیصلہ نافذ نہ ہوگا۔(ت) ان سب امور کا لحاظ ضرور ہے، واﷲتعالٰی اعلم