Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
69 - 151
مسئلہ۸۷: ازریاست رامپور محلہ گھیر فتح محمد خاں مرسلہ سعید الرحمٰن خاں ۲۰شعبان ۱۳۲۶ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین بیچ اس مسئلہ کے کہ مسمی زید نے جو مسلمان ہے مسمی بکر کے پاس جو ہندو ہے زیور نقرئی وزنی دو صدر روپیہ بھر بالعوض ایک سو پندرہ روپیہ کے بشرح سود فیصدی دو روپیہ ماہوار رہن کیا، بکر نے جانچ وزن زیور کا کرکے نقرئی سمجھ کر رکھ لیا اور زر سود زید بکر کو ماہ بماہ ادا کرتا رہا، اب جو زید نے بکر پر عدالت میں دعوٰی انفکاک رہن بادائے ایک سو پندرہ روپیہ زر رہن کے کیا تو بکر یہ عذر کرتا ہے کہ وہ زیور مرہونہ نقرئی نہیں تھا بلکہ قسم جرمن سلور کا تھا جو نہایت کم قیمت جنس بمقابلہ نقرہ کے ہے مگر بکر نے کوئی شہادت اس بارہ میں پیش نہیں کی زید کی طرف سے جو گواہ گزرے ہیں وہ متفق اللفظ زیور کا نقرئی ہونا بیان کرتے ہیں البتہ تفصیل زیور میں کچھ اختلاف بیانی ہے جو اس وجہ سے قابل لحاظ نہیں ہے کہ حسب دعوی زید زیور کا وزنی دو صدر روپیہ ہونا مسلمہ بکر ہے۔ بکر کو صرف عذر قسم زیور یعنی نقرہ وجرمن سلور ہونے میں ہے عدالت نے بلا کسی شہادت کے قول مرتہن کو تسلیم کرکے فیصلہ دیا ہے جس کی نقل شامل استفتاء ہذا ہے اور زید نے بناراضی اس فیصلہ عدالت کے مرافعہ بعدالت بالادست کیا ہے نقل وجوہات اپیل بھی منسلکہ استفتاء ہذا ہے، بعد ملاحظہ فیصلہ عدالت ووجوہات اپیل حسبۃً ﷲ فتوٰی تحریرفرمائیے عدالت جو بحوالہ ایک روایت فقہ کی ہے صحیح و درست ہے یاغیر صحیح اور قابل منسوخی ہے یہ ملحوظ فرمایا جائے کہ مرتہن ہندو اور راہن 

مسلمان ہے اور حسب رواج بازار جو کوئی زیور رہن رکھتا ہے اول جانچ اس کی بخوبی کرلیتا ہے کہ وہ کس قسم کا ہے اور کس مالیت کا ہے، بوقت رہن مرتہن نے جانچ کرکے اور اس کو قسم نقرہ تسلیم کرکے رہن کیا تھا فقط۔
الجواب

فیصلہ نظر سے گزرا، سخت افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ باستثناء اتنی بات کے کہ ذی علم فاضل مجوز نے اس میں دو تنقیحیں قائم فرماکر تنقیح دوم خلاف مدعا علیہ تجویز فرمائی، باقی وہ سرتاپاباطل و خلاف شرع واقع ہوا، تنقیحیں یہ ہیں:

(۱) آیا مدعی نے زیور نقرہ مندرجہ عرض دعوٰی بعوض(ما صہ عہ/) مدعا علیہ کے پاس رہن رکھتا تھا کہ اب تک بہ قبضہ مدعا علیہ ہے، اب مدعی بہ ادائے (ما صہ عہ/) زیور طلب کرتا ہے باوجود اقرار فک نہیں کرتا ثبوت ذمہ مدعی۔

(۲) آیا زیور جرمن سلور کا تھا نقرہ کہہ کر مدعاعلیہ کو دھوکا دے کر (ماصہ عہ/)لے لئے ثبوت ذمہ مدعا علیہ۔تنقیح اول کو فاضل مجوز نے تین وجہ سے خلاف مدعی فیصل کیا:

وجہ اول جہالت شہادت کہ کسی شہادت سے تفصیل زیور مطابق عرضی دعوی بقید وزن وقیمت ثابت نہیں جس کا اظہار و تعین ضروری ہے۔

وجہ دوم اختلاف باہمی شہود، او وہ دو ہیں:

(۱) پہلے گواہ نے مدعی کا دکان مدعا علیہ پر بہمراہی شفیع خاں آنا نہیں بیان کیا، گواہ نمبر۲ نے دکان مدعا علیہ کا آنا بہمراہی شفیع خاں بیان کیا ہے، حالانکہ جلسہ واحد کے گواہ ہیں۔

(۲) گواہ نمبر۱نے ایک کاغذ مدعی کا لکھنا اور نمبر۲ نے اس کے خلاف مدعا علیہ کا ایک رقعہ فارسی میں اپنے ہاتھ سے لکھ کر مدعی کو دینا تحریر کرایا ہے حالانکہ مدعا علیہ فارسی لکھنا نہیں جانتا، نہ مدعی نے مدعا علیہ کا رقعہ لکھنا عرضی دعوی نہ اظہار میں لکھایا بلکہ مدعی نے اپنے اظہار میں ایک شخص غیر سے رقعہ لکھانامدعا علیہ کا اقراری اپنا بیان کیا ہے حالانکہ توافق درمیان شہادت کے شرط ہے۔

وجہ سوم تناقض دعوٰی کہ مدعی نے جو تفصیل زیور عرضی دعوٰی میں تحریر کی اس کو مالیتی دو سو روپیہ تحریر کی اور جو وزن ہر عدد کا تحریر کیا از روئے میزان کل زیور (مااصہ۔عہ)بھر ہوتا ہے اور جو  بیان مدعی عدالت میں تحریر ہوا اس نے وزن زیور دو سورو پیہ بھر ہونا لکھایا ہے لغو بیانی مدعی بداہۃً واضح ہے کہ فی زماننا زیور نقرہ دوسوروپیہ بھر قیمتی دو سوروپے کا کسی عنوان نہیں ہوسکتا۔ یوہیں تنقیح دوم کو خلاف مدعا علیہ فیصل فرمایا اور تصریح کی کہ امر مذکور بحق مدعا علیہ غیر ثابت ہے کہ اس قول کی کہ مدعی زیور جرمن سلور نقرئی ظاہر کرکے رہن رکھا کوئی شہادت منجانب مدعا علیہ نہ گزری نہ مثل آمدہ فوجداری میں کوئی ثبوت قول مدعا علیہ کا ہے اس وجہ سے کہ مسل مذکور بربنائے عدم پیروی خارج ہوئی ہے۔ تنقیحوں کی نسبت یہ تجویزیں دیکھ کر فرمایا لیکن چونکہ مدعا علیہ کو اقبال ہے کہ مدعی زیور وزنی دو سوروپیہ بعوض(ماصہ عہ/) رہن رکھ کر وپیہ لے گیا مگر زیور مرہونہ جرمن سلور کا ہے اور مدعی کو دعوٰی ہے کہ میں نے زیور چاندی کا رکھا یعنی غیر اس کے جو عدالت میں مدعا علیہ نے پیش کیا تولائق تصفیہ یہ ہے کہ بصورت عدم ثبوت قول فریقین بحالت اقبال فریقین بصراحت مذکورہ کس کا قول لائق اعتبار ہے،مسئلہ یہ ہے کہ جس ایسے دعوٰی میں کہ راہن کہے میں نے زیوراس کا غیر رہن رکھا ہے اور مرتہن کہے یہی رکھا ہے، قول مرتہن معتبر ہے کہ وہ قابض ہے(ترجمہ دمختار جلد رابع ص۴۸۰) چونکہ نفس رہن و تعداد زر رہن میں اختلاف نہیں پس جبکہ قول مرتہن معتبر ہے مگر بحلف، لیکن یہاں استدعامدعاعلیہ کی نسبت اخذ حلف مدعی کے نہیں تو قابل نفاذ حکم حسب قول مدعا علیہ زیور مرہونہ یہی جرمن سلور کارہا جو بادائے (ماصہ عہ/) دعوٰی مدعی لائق ڈگری ہے بنابراں حکم ہوا کہ دعوٰی مدعی واسطے دلائے جانے اسی زیور موجودہ کے بادائے (ماصہ عہ/) کے بحق مدعی ڈگری ہو انتہی تمام تجویز و فیصلہ کا حاصل اس قدر ہے، اس میں تنقیح دوم خلاف مدعی علیہ تجویر ہونا ضرور حق و بجا ہے باقی تما م تجویر میں براہ بشریت غلطی ہوئی تنقیح اول کو خلاف مدعی تجویز فرمانے کی تینوں وجہیں محض ناکافی۔ تناقض دعوٰی جس کا ضرر خود جانب مدعی عائد ہو ہر گز مانع صحت دعوٰی نہیں، پہلے وہ زیور نقرہ وزنی مال(مااصہ عہ/)کا مدعی تھا پھر صرف وزنی مال بیان کیا اس میں اپنے ہی لئے(صہ ۔عہ/) بھر چاندی کی کمی کرلی اسے جزء متروک کہتے ہیں نہ کہ تناقض جس کا حاصل یہ کہ اب اس کا دعوٰی صرف دو سو روپے بھر زیور نقرئی کی نسبت رہا زیادہ کا دعوٰی متروک ہوگیا نہ کہ تمام وکمال باطل ٹھہرا۔
جامع الفصولین جلد اول ص۱۳۵میں ہے :
التناقض علی نفسہ لایمنع صحۃ الدعوی لانہ ادعی اولا کل المال لنفسہ ثم ادعی بعضہ فقد ادعی انقص من الاول فتسمع۱؎۔
اپنے معاملہ میں تناقض صحت دعوٰی کےلئے مانع نہیں ہے اس لئے کہ پہلے کل مال کا دعوٰی اپنے لئے کیا پھر بعض مال کا، تو یہ پہلے مال سے کم ہے تو قابل سماعت ہوگا۔(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین    الفصل العاشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۵۳)
ایضاً ص۱۲۷ :
ادعاہ مطلقا فقال المدعی علیہ فی دفعہ انہ کان ادعاہ بسبب فقال المدعی انا ادعیہ الاٰن بذٰلک السبب وترکت دعوی الملک المطلق تسمع دعواہ ثانیا ویبطل الدفع۲؎۔
کسی نے مطلقاً دعوٰی کیا تو مدعی علیہ نے دفاع میں کہا اس نے تو سبب سے متعلق دعوٰی کیا تھا اس پر مدعی نے کہامیں اسی سبب کے متعلق دعوٰی کررہا ہوں اور پہلا مطلق دعوٰی ترک کرتا ہوں تو سماعت دوبارہ ہوگی اور مدعی علیہ کا دفاع باطل ہوجائیگا۔(ت)
(۲؎جامع الفصولین    الفصل العاشر    اسلامی کتب خانہ کراچی   ۱ /۱۲۷)
ایضاً ص۱۴۵ :
ادعی علیہ اربعۃ اشیاء سماھا فانکر فحلف ثم قال المدعی کنت اخذت الاثنین من الاربعۃ وبرھن علی الاثنین تقبل ۳؎۔
ایک نے دوسرے پر چار چیزوں کا دعوٰی کیا مدعا علیہ نے انکار کردیا اور قسم اٹھالی، پھر مدعی نے دعوٰی میں کہا کہ میں نے دو چیزیں چار میں سے لے لی تھیں اور باقیماندہ پر دو گواہ پیش کئے تو گواہی قبول ہوگی(ت)
 (۳؎جامع الفصولین   الفصل العاشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۴۵)
ایضاً ص۱۲۵:
التناقض انما یمنع اذا تضمن ابطال حق علی احد۴؎۔
تناقض اس وقت مانع ہوگا جب اس سے کسی کا کسی پرحق باطل ہوتا ہو۔(ت)
  (۴؎جامع الفصولین    الفصل العاشر    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۲۵)
فتاوٰی خلاصہ میں ہے :
ادعی علی آخر نصف دار معین ثم ادعی بعدذلک جمیع الدار لایسمع (عہ) وعلی القلب یسمع۱؎۔
         ایک نے دوسرے پر کسی معین دار کے نصف کادعوٰی کیا پھر کل دار کا دعوٰی کردیا تو یہ دعوٰی قابل سماعت نہیں، گر اس کا عکس ہوتو قابل سماعت ہوگا۔(ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی     کتاب الدعوٰی     الفصل الاول    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۴/ ۸۹)
عہ:  والصواب انہ یسمع فی الوجھین جمیعا الا اذاکان قال وقت دعوی النصف لاحق لی فیہا سوی النصف فحینئذ لاتسمع دعویاہ جمیعا کذافی المحیط۲؎اھ ھندیۃ،
عہ:  درست یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں قابل سماعت ہے ہاں اگر نصف کے دعوٰی کے وقت یہ کہہ دیا ہو کہ باقی میں میرا حق نہیں تو اس صورت میں دونوں دعوے قابل سماعت نہ ہوں گے، جیسا کہ محیط میں ہے اھ ہندیہ۔
 (۲؎فتاوٰی ہندیہ     کتاب الدعوٰی    الباب الثامن    نورانی کتب خانہ پشاور    ۴ /۷۰)
اقول: وذٰلک للتناقض الصریح بین قولیہ وقد عادیدعی اکثر مما ادعی اولا فبطل القولان بخلاف مااذاادعی اولا جمیع الدار ثم ادعی نصفہا وقال لاحق لی فیہا سوی النصف حیث تقبل الدعوی الثانیۃ لانہ من باب ترک بعض الدعوی والتناقض علی نفسہ لایضر صحۃ الدعوی کما اسمعناک من جامع الفصولین ۱۲منہ۔
میں کہتا ہوں یہ اس لئے کہ اس صورت میں اس کے دونوں قول میں تناقض ظاہر ہے کہ پہلے دعوٰی کے مقابلہ میں دوسرے میں زیادہ کا مدعی ہے لہذا دونوں قول باطل ہوں گے اس کے برخلاف جب پہلے کل دار کا مدعی ہو اور بعدمیں نصف کا، اور ساتھ ہی کہہ دیا ہو کہ باقی میں میرا حق نہیں ہے تو دوسرا قبول کیا جائے گاکیونکہ پہلے دعوٰی کے بعض کو اس نے ترک کردیا جبکہ اپنے حق میں تناقض صحت دعوٰی کو مضر نہیں ہے جیسا کہ قبل ازیں ہم نے آپ کو جامع الفصولین سے سنایا ہے۱۲منہ(ت)
Flag Counter