Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
68 - 151
مسئلہ ۸۶: ازریاست رام پور محلہ ٹھوٹر مرسلہ محمد رفیق خاں ۱۱/شوال ۱۳۲۳ھ

کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ بمقدمہ عبدالعلی خاں ولدمحمد عمر خان بنام محمد رفیق خاں ولد محمد سعید خاں حاکم دیوانی نے یہ فیصلہ صادر فرمایا ہے کہ مع نقول اظہارات گواہان فریقین حاضر ملاحظہ ہے یہ فیصلہ شرعاً صحیح وقابل بحالی ہے یا باطل وقابل منسوخی؟ بینواتوجروا۔
الجواب

کاغذات نظر سے گزرے یہ فیصلہ محض مہمل ومختل واقع ہوا، عبدالعلی خاں نے وقت رجسٹری عندالبائع والمشتری طلب مواثبت واشہاد کا دعوٰی کیا رفیق خاں کا جو بیان مندرج فیصلہ ہے اس میں اس طلب کا نہ انکار نہ اقرار بلکہ جواب دعوٰی اس امر پر مبتنی ہے کہ مدعی کو قبل رجسٹری علم بالبیع ہوچکا اور اس نے نہ فقط تسلیم کیا بلکہ صراحۃً لینے سے انکار کردیایہاں جو مسئلہ اسناد الی الماضی فیصلہ میں مذکور ہوا اور اس میں شفیع کا مدعی ہونا ذکرکیا اس مسئلہ کے فہم میں سخت لغزش واقع ہوئی طلب خصومت سے پیشترکی طرف اسناد علم وہ اسناد الی الماضی نہیں کہ اس قدر سے تو شفیع کو چارہ نہیں، اگر عین وقت خصومت عندالقاضی اپنا علم بالبیع بیان کرے اور شفعہ کا مدعی باطل ہوجائے گا کہ اس نے طلب مواثبت واشہاد دونوں چھو ڑ کر طلب خصومت سے آغاز کیا اور طلب واحد کو تینوں طلب کے قائم مقام کیاچاہتا ہے یہ باطل ومبطل شفعہ ہے
کما بینہ المولی خیرالدین الرملی فی الفتاوی الخیریۃ ۱؎لنفع البریۃ
 (جیساکہ اس کا آقا خیر الدین الرملی نے فتاوٰی خیریہ لنفع البریۃ میں ذکر کیا ہے۔ت)
(۱؎ فتاوٰی خیریہ     کتاب الشفعۃ     دارالمعرفۃ بیروت    ۲ /۱۵۴)
بلکہ وہ اسناد الی ماقبل الاشہاد ہے اگر شفیع کہے کہ اشہاد سے پہلے مجھے علم نہ ہوا تھا تو یمین کے ساتھ مصدق ہوگا اورمشتری پر بینہ، اور اگر کہے کہ اس سے پہلے مجھے علم ہوا اور میں نے طلب مواثبت کی توشفیع پر بینہ
کما حققناہ فیما علقناہ علٰی ردالمحتار
 (جیسا کہ ہم نے ردالمحتار پر اپنے حاشیہ میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) مگر یہاں یہ مسئلہ اصلاً زیر بحث نہیں کہ طلب مواثبت واشہاد عند البائع والمشتری کا اقرار انکار مدعا علیہ نے کچھ نہ کیا یہ سکوت ہے اورمذہب اصح میں سکوت بے آفت بھی انکار ہے، 

درمختار میں ہے :
لوسکت کان انکارافتسمع البینۃ علیہ الا ان یکون اخرس، اختیار ۲؎۔
اگر خاموش ہوا تو انکار ہوگا جس پر گواہی سنی جائیگی لیکن اگر گونگا ہو تو پھر انکار نہیں، الاختیار۔(ت)
 (۱؎ درمختار کتاب الدعوی   مطبع مجتبائی دہلی  ۲/ ۱۱۵)
بحرالرائق میں ہے :
وبہ افتیت لما ان الفتوٰی علی قول الثانی فیما یتعلق بالقضاء۳؎۔
میں نے اسی پر فتوٰی دیاکیونکہ قضاء کے متعلق امام ابویوسف کے قول پر فتوٰی ہوتا ہے(ت)
 (۳؎ بحرالرائق     کتاب الشفعۃ   ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۷ /۲۰۳)
تو صورت دائرہ میں مدعی علی حالہ مدعی رہا اور بار ثبوت اسی پر ہوا اور اتنا خود مجوز کو بھی تسلیم ہے اگرچہ اس کی وجہ دوسری سمجھی تو مدار مقدمہ بینہ مدعی سے ثبوت دعوی پررہا اب اس کے گواہوں پر نظر ڈالئے تو ایک گواہی بھی اصلا اس کے مفید نہیں ، سید عطا ءالحق  ومحمد علی  خان تو بالکل خلاف دعوی وخلاف واقع شہادت دے رہے ہیں زمین بے عمارت بیع ہوئی اور اسی پر شفیع نے دعوی کیا مکان مشتری نے بعد شراء بنایا اور یہ دونوں گواہ شفیع کی طلب اس لفظ سے بیان کر رہے ہیں کہ مکان محمد توفیق خاں نے جولیا ہے میں نے اپنے شفعہ میں لیا اس مکان کا میں شفیع ہوں۔ فیاض خاں کہتا ہے کہ اسد علی خاں یعنی بائع نے کاغذ رجسٹرار کے سامنے پیش کیا رجسٹرار صاحب نے کاغذ پڑھ کر سنایا تو عبدالعلی خاں نے کہا کہ رفیق خاں نے جو زمین بیچی ہے میں نے اپنے شفعہ میں لی، اور بیان کرتا ہے کہ کاغذ رجسٹرار صاحب نے اول سے آخر تک مدعی مدعا علیہ کو سنایا تھا یہاں طلب شفیع کو سنانے پر مرتب کرتا ہے اور سنانا اول سے آخر تک کہتا ہے تو مواثبت کا ثبوت درکنار ظاہراً مواثبت فوت ہوئی غالباً انہیں وجوہ سے ذی علم مجوز نے بھی ان تین گواہوں کو نظر انداز کیا اگرچہ نہایت قابل افسوس یہ بات ہے کہ یہ گواہان مدعی ہوکر خود ان کے مقر اور بیان مدعا علیہ کے موافق شہادت دے رہے ہیں اسے نظر انداز کرنا قرین انصاف نہ تھا کچھ بیان اس کا عنقریب آئیگا ان شاء اﷲ تعالٰی، رہے تین گواہ اور فیصلہ کا سارا دار ومدار انہیں پر ہے ان میں رجسٹرار صاحب کی گواہی تومحض کالعدم ہے وہ طلب مدعی کے وقت بائع ومشتری کا موجودہونا ضروربیان کرتے ہیں مگر ان لفظوں کا نہ کہ ان کے مصداق کا۔ شہادت وہ ہے جو اپنے علم سے ناشی ہو اور وہ اتنا بھی نہیں کہتے کہ بائع ومشتری اگر میرے سامنے آئیں تو ان کو شناخت کرلوں گا بلکہ اسے بھی اس شرط پر مشروط کرتے ہیں کہ اگر یاد آگئے تو شناخت کرلوں گا پھر مدعی نے نہ ان سے شناخت کرانے کی کوشش کی نہ ظاہر ہوا کہ انہیں یاد آئے یا نہیں تو ایسی گواہی محض پادر ہوا ہے وقت رجسٹری نسبت حاضری تسلیم مشتری ہرگز اس کا اقرار نہیں کرتا کہ شفیع نے میرے سامنے طلب کی رجسٹری امر آنی نہیں امر ممتدزمانی ہے، اس ناقص گواہی کی تکمیل ذمہ مدعی تھی وکلائے مدعا علیہ پر کیا ضرور تھا کہ گواہی مدعی کے رفع نقصان کی درخواست کرتے تو فیصلہ کی یہ تحریر کہ رجسٹرار صاحب کی بابت نسبت شناخت عاقدین کے وکیل مدعا علیہ نے کوئی درخواست پیش نہیں کی اور سکوت کیا تو یہ سکوت دلیل تسلیم کی ہے، نہایت عجیب ہےجب گواہی مخالف میں صریح نقص موجود ہے تو سکوت کیا تو سکوت اس بنا پر ہوگا کہ وہ خود ہی ناقص و نامکمل ہے ہمیں اس گفتگو کی کیاحاجت، نہ یہ کہ سکوت کیجئے تو ناقص کو کامل مان لیجئے یہ کون ساقاعدہ عقل یا نقل کا ہے، نہیں نہیں بلکہ یوں کہئے کہ گواہی محض نامکمل تھی اور اس کی تکمیل اپنے نفع کےلئے مدعی پر لازم تھی تو مدعی کا سکوت صاف دلیل ہے کہ وہ اس کی تکمیل سے عاجز تھا یا کم از کم اس کو مکمل کرنا نہ چاہا اور ناقابل اسناد رکھا بلکہ غور کیجئے تو غالباً صاف ثابت ماننا پڑے کہ رجسٹرارصاحب کو نہ عاقدین یاد آئے نہ ان کی شناخت کرسکے، اظہارات سے ظاہر ہے کہ وہ بمواجہہ عاقدین لئے گئے متعدد گواہوں نے ان حاضرین کواشارہ سے بتایا رجسٹرار صاحب اگر پہچان سکتے تو صاف کہتے کہ وہ دونوں یہ ہیں مولوی نعمت اﷲنے اتنا بھی نہ کہا کہ طلب مدعی کے وقت بائع ومشتری موجود تھے صرف اس قدر کہا کہ یہ یاد نہیں کہ سوا ملازمین رجسٹری اوربائع ومشتری اور عبدالعلی خاں کے کوئی اوراس وقت تھا یانہیں، قطع نظر اس سے کہ یہاں بائع ومشتری مستثنٰی میں ہیں اور جمہور حنفیہ کے نزدیک مشتثنی سکوت عنہ ہوتا ہے اور سکوت بیان نہیں تو بائع ومشتری کی نسبت گواہ کو کچھ یاد ہونا اصلاً ثابت نہ ہوا یہاں جب گواہ نے یہ کہا کہ یاد نہیں کہ کوئی اور تھا یا نہیں، تو اس ''یانہیں''نے حکم کو مردود کردیا اور یہ استثناء حکم مردود سے ٹھہرا جس کا حاصل یہ ہوا کہ مستثنے لوگوں کی نسبت احدالامرین یاد ہے، ہونا یانہ ہونا، نہ یہ کہ خاص ہونا یاد ہے، اس کی تو زیع یوں ہوسکتی ہے کہ ملازمین رجسٹری کی نسبت ہونا یاد ہو اور بائع ومشتری کی نسبت نہ ہونا پس دونوں مذہب پر یہ شہادت بالاتفاق مہمل وناکافی ہے معہذا مولوی نعمت اﷲکا بیان صراحۃً مدعی ودیگر گواہان مدعی کی تکذیب کرتا ہے وہ لفظ طلب یہ بیان کرتا ہے کہ صاحبو تم گواہ رہناکہ یہ بیعہ میں نے اپنے شفعہ میں لیا اور صاف تصریح کرتا ہے کہ یہ لفظ کہے تھے یعنی نقل بالمعنٰی نہیں نقل باللفظ ہے، اور اسی پر قناعت نہ کی بلکہ صریح حصر کردیا کہ یہی لفظ کہے تھے حالانکہ مدعی و دیگر گواہان سب کے بیان میں لفظ طلب ان کے غیر اور ان سے زائد ہیں، نیاز علی خاں کی گواہی اگر صاف بھی ہوتی تو ایک تنہا کیا قابل سماعت تھی مگر اس نے صرف عبدالعلی خاں کہا ہے مجرد اسم کے سوا کوئی تعیین تمیز کا بیان نہ کیا نہ وقت اظہار اس کو اشارہ سے بتایا یہ اعتراض نہ تنہا اس پر بلکہ باقی سب گواہوں پر بھی ہے فریقین میں کسی نہ کسی کی تعیین ہر ایک کے اظہار میں متروک ہوئی ہے اور شرعاً ایسی نامعین گواہی معتبر نہیں، ائمہ کرام تو حاضر پر اشارہ شرط بتاتے ہیں۔ 

عالمگیری میں ہے :
یحتاج فی الشہادۃ علی الحاضرالی الاشارۃ الی المدعی علیہ والمدعی الخ۱؎۔
کسی حاضر پر شہادت میں مدعی  یا مدعی علیہ کی طرف اشارہ ضروری ہے الخ (ت)۔
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۴۵۹)
اور آج کل عامیانہ روش میں جو تو صیف بلفظ مدعی و مدعا علیہ پر قناعت کی جاتی ہے ان شہود نے یہ لفظ بھی بعض فریقین کی نسبت نہ کہے تو صرف نام کیا کافی ہوسکتا ہے عبدالعلی خاں ہزاروں ہیں بالجملہ گواہان مدعی میں اصلاً کوئی گواہی قابل التفات نہیں، تو یہاں اس مسئلہ سے استناد کہ بینہ مشتری سے بینہ شفیع اولٰی ہے محض باطل و بے معنی ہے پہلے بینہ ہو بھی تولے جب تو اولویت وعدم اولویت میں بحث کی جائے۔ علاوہ بریں روایات منقولہ فیصلہ اس صورت میں ہیں کہ جب یہ دعوٰی طلب کرے اور وہ انکار کہ اس کو علم ہوا اور طلب نہ کی فیصلہ میں درمختار سے منقول کیا :
انکرالمشتری طلب المواثبۃ فانہ یحلف علی العلم وان انکر طلب الاشھاد حلف علی البینات ولو برھن فبینۃ الشفیع احق۔۱؎
  مشتری نے مواثبہ کے طلب سے انکار کیا تو علم کے متعلق حلف لیاجائے اور اگر گواہی کے طلب سے انکار کرے تو بینہ پر حلف لیاجائے اور اگر بینہ پیش کریں تو شفیع کا بینہ اولی ہوگا۔(ت)
 (۱؎ درمختار کتاب الشفعۃ  مطبع مجتبائی دہلی  ۲/ ۲۱۷)
نیز نقل کیا:
مشتری میگویدکہ تو روز پنجشنبہ دانستہ وطلب نکردہ قول قول مشتری بود لانہ ینکر الطلب والبینۃ علی الشفیع۔
مشتری کہتا ہے تو نے جمعرات جان لیا اور مطالبہ نہ کیا تو مشتری کا قول معتبر ہوگا کیونکہ وہ طلب کا منکر ہے اور بینہ شفیع پر ہے۔(ت)
نیز عالمگیری سے لکھا:
اقام المشتری بینۃ ان الشفیع علم بالبیع ولم یطلب الشفعۃ واقام الشفیع البینۃ انہ طلب حین علم فالبینۃ بینۃ الشفیع۳؎۔
مشتری نے گواہی پیش کی کہ شفیع نے بیع کا علم ہونے کے باوجود شفعہ کا مطالبہ نہ کیا اور شفیع نے گواہی پیش کردی کہ اس نے علم ہوجانے پر شفعہ کا مطالبہ کیا ہے تو شفیع کی گواہی معتبر ہے۔(ت)
 (۳؎ فتاوی ہندیہ     الباب الثالث     نورانی کتب خانہ پشاور    ۵ /۱۷۴)
اسی طرح بقیہ عبارت میں تصویر مسئلہ دعوٰی طلب وانکار طلب میں ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے کہ نفی مجرد پر گواہی مقبول نہیں
فان البینات للاثبات کما اثبتہ الائمۃ الاثبات
 (تو بیشک شہادت اثبات کےلئے ہوتی ہے جیسا کہ ائمہ نے اسکوثابت کرنا ہے) مگر یہاں مشتری یا اسکے گواہوں نے صرف انکار طلب پر قناعت نہ کی بلکہ صاف یہ کہا کہ بعد بیع شفیع کو اطلاع دی گئی اور اس نے لینے سے صریح انکار کیا یہ شہادت نفی نہیں شہادت اثبات ہے اور اس کی تاریخ مقدم ہے اور گواہی گواہان شفیع اس کے معارض نہیں ہوسکتی ان کا علم اس قدر کو محیط ہے جتنا شفیع سے وقت رجسٹری صادر ہوا انہوں نے ہر گز نہ کہا کہ اس سے پہلے شفیع نے لینے سے انکار نہ کیا تھا یا شفیع کو اس سے پہلے علم بالبیع نہ ہوا تھا اور نہ وہ ایسا کہہ سکتے تھے اور اگر کہتے تو مقبول نہ ہوتاکہ اب انکی شہادت شہادت علی النفی ہوتی
وانما البینات للاثبات
 (حالانکہ گواہی اثبات کیلئے ہوتی ہے۔ت) یہاں اگرچہ کلام بروجہ دیگر ممکن مگر مقصود یہ ہے کہ روایات منقولہ فیصلہ یوں بھی صورت مقدمہ سے جدا ہیں نظر بروئداد ظاہر یہی ہے کہ واقع میں شفیع کو پہلے سے علم ہوچکا تھا اب کہ نگاہ عوام میں وقعت دعوٰی پیدا کرنے کےلئے اس کا منتظر رہا کہ جب بیعنامہ رجسٹری میں پیش ہوتو رجسٹرار کے سامنے طلب بجا لائے تا کہ ایک قیمتی گواہ طلب کامل جائے ولہذا وہ خاص اسی دن اسی وقت محکمہ رجسٹری میں پہنچا جبکہ بیعنامہ رجسٹری ہونے کوتھا اگر اسے پہلے سے کچھ علم نہ تھا تو خالص اس دن تاریخ وقت کی تعیین کسی الہام کے ذریعہ سے ہوئی یا خواب سے اور خود اس کے گواہوں سے دو گواہ صاف بتارہے ہیں کہ پیش از طلب اسے علم ہولیا تھا، سید عطاء الحق نے کہا کہ عبدالعلی خاں قبل پیش ہونے بیعنامہ کے گھنٹہ بھر اول یہ کہہ گئے تھے کہ میں طلب شفعہ کروں گا، مشفوعہ کاکاغذ آج تصدیق ہوگا ایسی صریح باتوں کو جن سے خود گواہان مدعی بطلان شفعہ کی شہادت دے رہے ہیں نظر انداز کرنا بہت نامناسب تھا اس فیصلہ کے بطلان پر اور بھی وجوہ ہیں مگر جس قدر مذکور ہوا اظہار حق کے لئے ان شاء اﷲ کافی و وافی ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter