Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
67 - 151
تنقیحات
فیصلے کے تمام اعتراضات متعلق دعوٰی و شہادات سے فروغ پایا اتنے مختصر لفظ تنقیحات کی نسبت بھی گذارش ہیں کہ ذی علم مجوز نے تین تنقیحیں کیں:

(۱) عصمت جہاں بیگم بالغہ کا نکاح اس کی رضا وتوکیل سے ہوا یا نکاح نہ ہوا اور وہ نابالغہ تھی اورحسن رضاخاں اس کا کفو نہ تھا۔

(۲) آیا پیش از نکاح بیڑا ہوا۔

(۳) آیا مدعا علیہا اپنے باپ کے گھر سے تنہا پیدل رات کو آئی یا بالجبر بھگالی گئی۔ پچھلی دوتنقیحوں پر تجویز

دی ہے کہ سوا محمد حسن خاں کے کوئی شہادت نسبت امر دوم نہ گزری شہادت مذکورہ صحیح ہوتی تو بوجہ عدم کفایت کالعدم  تھی پس امر دوم بھی غیر ثابت ہے اور امر سوم بھی کوئی ثبوت سوا ایک حصہ بیان شفیع حیدر خاں کے پیش نہ ہوا وہ بھی غیر ثابت ہے اگر شہادت صحیح بھی گزرتی تو بوجہ عدم کفایت کالعدم ہوتی،ہماری رائے میں اولاً امراخیر کی تنقیح قائم کرنی اوراس پر تجویز دینی ہی محض فضول تھی، اس محکمہ میں حسن رضاخاں کی طرف سے دعوٰی نکاح ورخصت تھا نہ کہ عصمت جہاں بیگم کی طرف سے دعوٰی جرم، تو آنا بخوشی ہو ایا بالجبر اس کی بحث یہاں محض بیکارتھی، آنا درکنار خود نکاح اگر بالجبر ہوصحیح و نافذ ہے کہ نکاح وطلاق میں اکراہ ان کی صحت میں مخل نہیں۔ 

درمختا ر کتاب الاکراہ میں ہے :
صح نکاحہ وطلاقہ وعتقہ ۱؎الخ۔
اس کا نکاح، طلاق اور عتق صحیح ہے الخ(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الاکراہ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۱۹۷)
ثانیاً تنقیح دوم اس سے زیادہ عبث و لغو تھی کہ نکاح میں بیڑاہونے نہ ہونے کو تو اصلاً دخل ہی نہیں کیا اگر بیڑا پہلے ہوجاتا تو نکاح صحیح وجائز تھا۔ نہ ہوتا تو نہ تھا پھر اسے معرض بحث میں لانا اور اس پر تجویز سنانا یعنی چہ۔

ثالثاً ان دو بیکار تنقیحوں کی جگہ پہلی تنقیح کے ہی دو جز اخیر کو یعنی عصمت جہاں بیگم کا نابالغہ ہونا، حسن رضاخاں کا اس کے لئے کفونہ ہونا مستقل تنقیحیں کرنا تھا کہ نفس حکم میں شرعاً ان باتوں کو دخل عظیم تھا مگر وہ ایک بے التفاتی کے ساتھ پہلی تنقیح میں ضمناً ذکر کردی گئیں اور مطلقاً ان کی نسبت تحریر فرمادیا کہ ثبوت ذمہ مدعی و تردید ذمہ مدعا علیہا، حالانکہ ان میں جزء اخیر یعنی عدم کفائت کا بار ثبوت ذمہ مدعا علیہا تھا وہ اس میں مدعیہ تھی کہ اصل کفاءت ہے
لان الناس بنواب وام
 (کیونکہ تمام لوگ باپ اور ماں کی اولاد ہیں۔ت)
رابعاً فیصلہ میں ان دونوں ضروری جزء تنقیح کی نسبت کسی تجویز کا ذکرنہیں عدم کفاءت کا تو کوئی ثبوت عصمت جہاں بیگم کی طرف سے نہ گزرا وہ قابل ثبوت تھی بلکہ وہ کاغذات دیکھنے میں آئے ہیں جن سے معاملہ عدم کفاءت بالعکس معلوم ہوتا ہے یعنی عصمت جہاں بیگم بہ نسبت حسن رضاخاں کے بہت کم قوم ہے اور ضرور ذی علم مجوز نے بھی اس کی یہ مہمل بات ناقابل التفات جانی اور خود اس کی طرف سے ا س کی بحث سے مطلق سکوت نے ظاہر کردیا کہ وہ صرف برائے گفتن کچھ الفاظ تھے جن کے نیچے معنی نہ تھی بلوغ کے بارے میں مسل میں نظیرن ومحبوبن دائیوں کے اظہار ہیں جن میں وہ لکھاتی ہیں  کہ عصمت جہاں بیگم جس کو ہم نے ابھی دیکھا ہے عرصہ ڈھائی تین سال سے بالغ ہےمجوز نے سوال فرمایا کہ بلوغ کے آثار بتاؤ، اس پر جواب دیا کہ جوان عورت کی چھاتیاں پوری ہوتی ہیں چنانچہ اس کی چھاتیاں پوری ہیں عارضہ جوعورات کو ہوتا ہے وہ عارضہ بھی اس کو موجود ہے، اور اسی قسم کا ایک بیان بوستاں خاں نے اپنے اظہارمیں کیا ہے وہ کہتا ہے علامات بلوغ کے میں نے دیکھے ہیں کیونکہ وہ میرے سامنے آئی تھی اس وجہ سے میں کہتا ہوں کہ وہ بالغ ہے وہ جسیم عورت تھی اور سینہ کی چوڑائی وغیرہ اور جسم اس کامعمولی عورت سے زیادہ تھا اور چھاتیاں اس کی مثل  انار بڑے کے تھیں نکاح ہونے کے بعد دیکھی تھی یہاں اعتراض کو گنجائش تھی کہ جب ذی علم مجوز نے دائیوں کے اس بیان پر کہ وہ ڈھائی تین سال سے بالغہ ہے قناعت نہ کی تھی تو انہوں نے جو علامات بتائیں بدرجہ اولٰی قابل قناعت نہ تھیں پستان کا ابھار شرعاً مثبت بلوغ نہیں۔ 

ردالمحتار میں ہے :
لااعتبار لنبات العانۃ ولااللحیۃ واما نھود الثدی فذکر الحموی انہ لایحکم بہ فی ظاہر الروایۃ وکذاثقل الصوت کما فی شرح النظم الھا ملی ابوالسعود وکذا شعر الساق والابط والشارب۱؎۔
زیر ناف بالوں یا داڑھی اگنے کا اعتبار نہیں لیکن پستانوں کا ابھرنا، تو حموی نے ذکرکیا ہے کہ اس سے بلوغ کا حکم نہ کیا جائے گا ظاہر روایت میں، یوں آواز کا ثقل بھی جیسا کہ شرح نظم الہاملی ابوسعود میں ہے اور یوں ہی پنڈلی، بغل اور مونچھوں کے بال کا حکم ہے(ت)
(۱؎ ردالمحتار     کتاب الحجر    فصل بلوغ الغلام بالاحتلام     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۵ /۹۷)
اور عورتوں کاعارضہ نہیں معلوم انہوں نے حیض کو کہا یا کسی اورعارضہ نسائی کو، شہادت میں ایسی گول بات نہیں لی جاتی، تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس کا بالغہ ہونا ذی علم مجوز کو تسلیم ہے جب تو اس کی توکیل پر صحت نکاح کو موقوف فرمایا ورنہ نابالغہ کی توکیل وعدم توکیل یکساں ہے اور جب یہ دونوں بحثیں ذی علم مجوز کے نزدیک طے شدہ تھیں اور بیشک ثبوت نکاح وتوکیل پر کافی شہادتیں گزرگئیں، صرف شہادت توکیل میں اتنا قصور خود منجانب مجوز باقی رہا کہ عصمت جہاں بیگم کو جلال خاں کے سامنے لاکر منہ دکھا کر شناخت کرائی جاتی، اگر وہ شناخت کردیتا مقدمہ اس روش پر جو آج کل اسلامی ریاستوں اور خود رام پور میں شائع ہورہی ہے بہمہ وجوہ مکمل ہوجاتا اور فیصلہ بحق مدعی لازم تھا۔ بالجملہ فیصلہ ناتمام وناقص اور سراسر پیش از وقت ہے، اور جتنی وجوہ شہادات مدعی و ثبوت دعوٰی پر اعتراض فرمائے ہیں سب بے اصل ہیں، مقدمہ اس تکمیل کا محتاج ہے جس کا ہم نے ذکر کیا اور اس کے بعد فیصلہ بحق مدعی ہونا لازم۔واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۸۴:ازلاہور محلہ بازارحکیماں مرسلہ مولوی عبداﷲ صاحب ٹونکی ۲۳/شعبان ۱۳۲۳ھ

سوال اول:کیافرماتے ہیں علمائے دین اس صورت میں کہ جس قاضی کو تقلید قضا از جانب سلطان وقت یا از جانب عام رعایا حاصل ہوا اور وہ ازجانب مقلد خود ماذون بخلافت ونیابت بھی ہو وہ قاضی حاکم عدالت شریعت کو کسی مقدمہ خاص میں یہ تحریر لکھیں حال یہ کہ وہ حاکم عدالت شریعت بھی قاضی کے ماتحتوں میں سے ایک حاکم ہے(کہ اگر ہمشیرگان زید کا حصہ مال زید میں ہو تو بعد تحقیق دلایاجائے) اور بعد چند روز حاکم مذکور کو یہ تحریر بھیجے کہ فلاں مقدمہ کافیصلہ بہت جلدی کرکے حکمنامہ بعجلت میرے حضور میں پیش کریں پس حاکم شریعت نے بعد تحقیقات شرعی باتفاق مفتیان عدالت کل عذرات مدعا علیہ دفع کرکے ہمشیرگان زید کو متروکہ زید میں ڈگری دلائی، اب یہ امر دریافت ہے کہ اس ڈگری دلانے کو حکم قاضی کہنا چاہئے یا کیا، اور اس حکم مجمع علیہ کو تاوقتیکہ خلاف کتاب اﷲ وسنت مشہورہ واجماع نہ ہو خودحاکم شریعت مذکور یا قاضی دیگر اس کا نقض کرسکتا ہے شرعاً بعد ایک زمانہ کے یانہیں، اور اگر حاکم مذکور نے حکم مذکور نقض کرکے خلاف حکم اول حکم دے دیا تو قابل اجراء شرعاً حکم اول رہے گا یاثانی۔

سوال دوم: ایک شخص رئیس ریاست اسلام ہے جس کو عزل ونصب اہلکار وعمالان ریاست کا اختیار حاصل ہے اور اس کو قاضی ماذون بالخلافت بھی کہہ سکتے ہیں اس رئیس نے کسی ایسے شخص کو جو اس رئیس کا نائب فی التحریر ہے یہ حکم دیا کہ یہ شخص فلاں مقدمہ کا فیصلہ شرعی کردے اس حکم کے بعد اس نائب نے اس مقدمہ میں فیصلہ شرعی کردیا پس دریافت طلب امر یہ ہے کہ یہ نائب، رئیس کے اس حکم دینے کے بعد نیابت فی القضا کا مصداق ہوسکتا ہے یانہیں اور اس نائب کا حکم شرعی دیا ہوابجائے حکم رئیس کے ہے یانہیں؟نقض اس حکم کا رئیس یا وہ خود نائب کرسکتا ہے یانہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب 

(۱) والی ملک رئیس خود مختار حاکم اسلام یا بحال حسب روایات جامع الفصولین وتتارخانیہ وردالمحتار وغیرہا اتفاق رعایا سے قاضی مطلق بنایا ہوا یا ان کا مقلد قاضی ماذون بالاستخلاف جس مقدمہ میں کسی اہل قضا کے فیصلہ کا حکم دے وہ فیصلہ فیصلہ قاضی شرع ہے کسی کو اس کے نقض کا اختیار نہیں مگر جبکہ اپنے مذہب معتمد مفتی بہ کے خلاف واقع ہواہو تو منقوض ہوگا بلکہ راساً صحیح نہ ہوااگرچہ خلاف اجماع نہ ہو۔

ردالمحتار میں ہے:
القاضی مامور بالحکم باصح اقوال الامام فاذاحکم بغیرہ لم یصح۱؎۔
قاضی امام صاحب رحمہ اﷲ تعالٰی کے صحیح ترین قول پر حکم کا مامور ہے اگر اس کے بغیر حکم کیا تو وہ حکم صحیح نہ ہوگا۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۴۶)
درمختار میں ہے:
لایخیرالااذاکان مجتہدا بل المقلد متی خالف معتمد مذہبہ لاینفذ حکمہ وینقض ھوالمختار للفتوی کما بسطہ المصنف فی فتاواہ وغیرہ۱؎۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
اختیار نہ ہوگا مگر مجتہد کو بلکہ مقلد جب اپنے قابل اعتماد مذہب کے خلاف حکم کرے گا تو وہ نافذ نہ ہوگا اور اس کو کالعدم قرار دیا جائے گا، یہی فتوٰی کیلئے مختار ہے جیسا کہ مصنف وغیرہ نے اس کو اپنے فتاوٰی میں مبسوط کیا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب القضاء     مطبع مجتبائی دہلی     ۲/ ۷۲)
 (۲) فی الواقع وہ حکم میں استجماع شرائط صحت منقوض نہیں ہوسکتا ہاں اگر خلاف مذہب معتمد ہو رد کردیا جائے گا اور نفاذ نہ پائے گا فتاوٰی علامہ قاسم بن قطلوبغا میں ہے :
لیس للقاضی المقلد ان یحکم بالضعیف ولو حکم لاینفذ۲؎اھ مختصرا وتمامہ فی فتاوٰنا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔
مقلد قاضی کو جائز نہیں کہ وہ ضعیف قول پر حکم دے اوراگر اس نے ایسا کیا تو نافذ نہ ہوگا اھ مختصرا ً، اور اس کی مکمل بحث ہمارے فتاوٰی میں ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم(ت)
(۲؎ ردالمحتار     بحوالہ فتاوٰی علامہ قاسم بن قطلوبغا    کتاب القضاء     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۳۳۵)
Flag Counter