Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
66 - 151
شریف زادیوں کا مکان سے جاکر باختیار خود نکاح کرلینا اگرچہ رسم عام نہیں مگر شرعاً ممنوع وحرام نہیں، اگر تلاش کیجئے تو رامپور ہی میں اس کی بیس نظیریں ملیں گی اور رات کو پیادہ گلی کوچوں پھرنا تو وہاں بکثرت شائع ہے جس طرح لکھنؤ میں، بریلی میں شریف خاندان اسے ضرور عیب سمجھتے ہیں مگر رام پور میں اگر یہ عیب ہے تو برائے گفتن ہے عملی طور پر اکثر خاندانوں میں عیب نہیں بلکہ وہاں بہت جگہ منگنی وغیرہ کی تقریبوں میں شب کو آپ ڈھول بجاتی ہوئی نکلنے کی رسم ہے ان میں کنواریاں بیاہیاں جوان بڑھیاں سب طرح کی ہوتی ہیں اور بعض بیباکیں تو مردانہ لباس پہن کر تپنچے کی جوڑی لگا کر نکلتی سنی گئی ہیں یہاں تک مسموع ہواکہ بعض اونچے گھر والیاں اسی وضع میں سڑک پر مقتول ملیں والعیاذ باﷲ رب العٰلمین مفتی وحاکم دونوں پر لازم کہ جہاں کی نسبت حکم یا فتوٰی دیں خاص وہاں کے رسم ورواج پر لحاظ کریں دوسرا رواج اگرچہ کیسا ہی عام ہو وہاں کے اپنے رواج کا معارض نہیں ہوسکتا۔

ثانیاً رسم ورواج کے قرائن تو اس وقت ڈھونڈھئے کہ خود اصل شخص مبحوث عنہ کے افعال و اقوال، حرکات واعمال پر اطلاع نہ ہوجب خود اس کی حالت معلوم، پھر دوسروں کے رواج سے اس پر حکم کیامعنی، یہاں دوباتیں حیرت خیز و تعجب انگیز اور عقل سلیم سے بعید سمجھی گئیں ایک تو عصمت جہاں بیگم کا پاپیادہ گھر سے تنہا چلاجانا،دوسرے اجنبی شخص بوستاں خاں سے بیباکانہ یہ گفتگو کہ بھائی بوستاں خان میں نے تمہیں اپنے نکاح کا وکیل کیا۔ ان دونوں باتوں کی زندہ نظریں بدرجہا ان سے زائد خود عصمت جہاں بیگم کے افعال واقوال میں موجود، یہی عصمت جہاں بیگم مدعا علیہا یہی عورت پردہ نشین ناکتخدایہی معزز نامی شخص کی بیٹی یہی نوجوان کنواری شریف زادی ابھی قریب زمانہ ہوا اس نکاح سے دو ہی مہینے پہلے اپنے مکان سے بلا اطلاع غائب ہوکر اسٹیشن ریلوے رامپور تک جاچکی ہے اس کا بہنوئی پھوپھی زاد بہن کا شوہر تلاش کرتا گیا اور منا لایا، سید مراد علی سب انسپکٹر اسٹیشن رامپور نے لکھایا ۲۵فروری ۱۹۰۴؁ء میں زبانی ضامن شاہ خاں ولد عادل شاہ خاں کے معلوم ہوا کہ میری حقیقی سالی اچھن بیگم مکان سے ناخوش ہوکر چلی آئی ہے، زنانے کمرہ میں تلاش کرلی جائے، میں نے تلاش کرایا زنانہ کمرے میں موجود ملی، ہمراہ لے کر واپس مکان خود ہوا، سروری بیگم جس کے مکان پر نکاح ہوا عصمت جہاں بیگم کی بھانجی ہے،اپنی بھانجی کے یہاں آنا آخر اسٹیشن تک پہنچنے سے کچھ کم ہی ہوگا، اچھن بیگم جس کاذکر اظہار مذکور میں ہے یہی عصمت جہاں بیگم ہے جیساکہ وہ خود اپنے اظہارمیں کہتی ہے کہ میرے چچاکبھی اچھی کہتے ہیں کبھی اچھن صاحب کبھی اچھن،ضامن شاہ خاں مذکور اسی کا بہنوئی ہے، جیسا کہ وہ خود اپنے اظہار میں کہتی ہے کہ ضامن شاہ خاں میرے داماد جن کے باپ کا نام عادل شاہ خاں ہے عصمت جہاں بیگم کے اس خفیہ چلے جانے کے ذی علم مجوز جج ریاست نے بھی اپنے فیصلہ میں اخذ کیا اور اس سے عصمت جہاں بیگم کے باب میں وہ نتیجہ نکالا جسے فتوٰی میں ذکر کرنا مناسب نہیں، اس کا چند روز تک حسن رضاخاں کے مکان پر رہنا اس کے حقیقی بھائی کا وہیں اس سے ملنے کو جانا اور اس کے باپ کے بمبئی سے آنے تک اس کے حقیقی بھائی حقیقی چچا سب کا چپ رہنا استغاثہ درکنار اطلاع بھی نہ کرنا پھر بمبئی سے آنے کے بعد بھی کئی دن کی خاموشی ہوکر کارروائی چلنا اور عصمت جہاں بیگم کا بجبر پولیس حسن رضاخاں کے مکان سے نکلنا یہ واقعات تو ایسے ہیں جن میں کسی کو انکار کی گنجائش نہیں، ہاں فریقین اس میں مختلف ہیں کہ یہ جانا بجبر تھا یا بخوشی، عصمت جہاں بیگم جبر بتاتی ہے اور وہ شرعاً اس میں مدعی ہے بارثبوت اس کے ذمے تھا اور وہ اس میں محض ناکام رہی، اس کے اور اس کے باپ اور اس کے گواہوں کے اظہار سب عجب عجب تناقضوں اور خلاف عقل و بعید از قیاس باتوں پر مشتمل ہیں جن کو دیکھ کر صاف مترشح ہوتا ہے کہ صنعتی و مصلحتی کہنا انہیں بیانوں کو شایاں ہے ان کے نقائض وقبائح کی تفصیل آسان تھی مگر اس کے ذکر سے حاجت تطویل نہیں کہ خود ذی علم مجوز نے ان پر اعتبار نہ کیا اور عصمت جہاں بیگم کا بالجبر اپنے باپ کے مکان سے لایا جانا مسلم نہ رکھا، آخر فیصلہ میں فرمایا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مدعا علیہا حسب رسم ورواج زمانہ اپنی بھانجی کے گھر کسی ضرورت سے گئی مگر جبر نہ مان کر بیان مدعی و گواہان مدعی مردود ہونے پر قرائن عقلیہ کی کوئی کافی شہادت نہیں، جب عصمت جہاں بیگم کا اس کے یہاں بخوشی جانا مسلم تو مدعی کا اس میں کیا نفع تھا کہ اس کا رات کو پاپیادہ مردانہ لباس میں آنا بیان کرتا کیا اگر ڈولی میں آنا بتاتا تو ثبوت نکاح میں اشکال ہوتا نہیں نہیں بلکہ بظاہر اسی بیان میں شکل اشتباہ تھی جیسا کہ ذی علم مجوز کو واقع ہوا کہ اس کا یوں آنا بعید ازعقل سمجھا تو خلاف واقع ایسی بات کہ اپنے دعوٰی میں شبہہ پید اکرے بیان کرنا اور مطابق واقع صاف صاف بے اشتباہ کو چھوڑدینا اصلاً کوئی وجہ نہ رکھتا تھا۔لاجرم قرین قیاس یہی ہے کہ جیسا وہ کہتا ہے وہی واقع ہوا اور اس نے اپنی دیانت خواہ سادگی سے بیان واقعہ میں کوئی تصنع نہ کیا جو گزرا تھا بے کم و بیش وہی بیان کردیا ورنہ وہ بناوٹ چاہتا تو اسے یہ کہنا بہت آسانیاں دیتا کہ عصمت جہاں بیگم ڈولی میں اپنی بھانجی کے پاس آئی اور نکاح کی خواستگار ہوئی، ہم نے دیوانی و ججی دونوں مقدموں کے کاغذات فریقین وگواہان فریقین کے اظہارات بتفصیل دیکھے اصلاًکسی حرف سے نہ تو عصمت جہاں بیگم کے دامن عصمت میں کوئی لوث و التباس نظر آتا ہے نہ بیان حسن رضاخاں میں کوئی امر بعید از قیاس، غیب کا علم عالم الغیب عزجلالہ کو ہے مگر رو دادوں کا ملاحظہ بے رو رعایت حالت واقعہ یہ بتاتا ہے کہ عصمت جہاں بیگم ضرور اپنے نام کی عصمت جہاں ہے حاشا اس پر کسی بدوضعی کا ثبوت نہیں مگر اس کی طبیعت خلقۃً خوش باش وآزادی پسند و لطیف وظریف واقع ہوئی ہے وہ صدموں کا تحمل درکنار محکومی ودست نگری سے بھی بیزار ہے حبیب النساء بیگم اس کی سوتیلی ماں ہے حسب عادت زنان بلکہ رواج عام ہر زمان اس عداوت کے رشتے سے عصمت جہاں بیگم کو اذیت پہنچتی تھی اور کچھ نہ ہو تو کم از کم وہ محض محکوم ودست نگررکھی گئی تھی اس کی آزاد طبیعت اس قید و بند سے بھاگتی تھی جیسا کہ وہ خود اپنے اظہار میں درپردہ شاکی ہے کہ میرے پاس روپیہ علیحدہ نہیں رہتا ہے چچاماں بھائی سے کہہ کر چیز منگاسکتی ہوں ایسی چیز جس کو میرا جی چاہے اور یہ لوگ منع کریں نہیں منگاسکتی ہوں، انہیں وجوہ سے وہ ایک بارتنگ آکر اسٹیشن تک فرار کرچکی اس بار پکڑی گئی اور پھر اس کو اسی قید کا سامنا ہوا اور مظنون ہے کہ اب بوجہ فرار قید وتشد د میں اور اضافہ ہوا ہو، وہ وقت کی منتظر تھی اس کا باپ بمبئی گیا ادھر سوتیلی ماں کو ستانے کا زیادہ موقع ملا ہوگاادھر اس نے اپنی آزادی قائم کرنے کا اچھا وقت پایا سوچی کہ اب کی بار بھی پہلا ہی سا فرار ہوا تو اسی طرح بیکار جائے گا وہ تدبیر کیجئے کہ ہمیشہ کو آزاد ہوجائیے۔حسن رضاخاں سے اس کا بیڑا ہوچکا تھا جیساکہ خود اس کی ماں نے اپنے ایک اظہار میں اقرار کیا ہے اسے سب کے ظاہر ڈولی منگا کر حسن رضا خاں کے یہاں جانے کا حسب رسم زمانہ کوئی موقع نہ تھا لہذا اس کا پاؤں ایک بار کھل چکا تھا رات آنے کی منتظر تھی اس کے یہاں معمولاً آٹھ یا نو بجے رات کو سوجاتے ہیں جیساکہ خود اس نے اپنے اظہار میں لکھایا ہے باپ گھر میں نہ تھا ماں بھائی نوبجے سوگئے اس نے دس بجے راہ مقصود لی اس کے بھائی نے سوتے وقت اچکن ٹوپی اتارکر رکھ دی تھی یہ سمجھی کہ چاندنی رات ہے کہ صفر کی آٹھویں شب تھی اور ابھی راستہ چل رہا ہے جیسا کہ خود اس کی طرف کے اظہاروں میں ہے کہ راہ میں اس کے چچا وغیرہ لوگ ملے تھے اپنے لباس میں کہیں پہچانی نہ جائے لہذابھائی کی شکر گزاری کے ساتھ اس کی اچکن ٹوپی زیب بدن کی اور وہی ہوا جو وہ سمجھتی تھی کہ اب کسی نے نہ پہچانا یہاں تک کہ وہ اپنی بھانجی کے گھر میں آگئی، یہاں کی عورتیں اجنبی جوان کو آتے دیکھ کر ضرور گھبرائی ہوں گی مگر یہ محل اس کے کھل جانے کا تھا اس کے اتنے کہنے پر کہ میں ہوں عصمت جہاں بیگم، وہ گھبراہٹ اب اس تعجب سے بدل گئی ہوگی کہ تم اس وقت اس وضع میں کہاں، اور اس کا اس نے وہی جواب دیا ہوگا جو اپنی خود مختاری کے اظہار میں کہہ چکی تھی کہ میری سوتیلی ماں مجھے زہر دئے دیتی ہے میرا نکاح کردو ورنہ پہلے کی طرح پھر چلی جاؤں گی وہ خوب سمجھ لی تھی کہ اس کی آزادی قائم کرنے کا اگر کوئی ذریعہ ہے تو یہی نکاح ہے کہ اس کے بعد وہ لوگ مجبور ہوجائیں گے، شوہر کا گھر اسٹیشن کا کمرہ نہ ہوگا جہاں سے ضامن شاہ خاں پکڑلے جائیں اس نکاح کے لئے ضرورتھا کہ اس کے اعزہ واقارب واہل محلہ نہ بلائے جائیں کہ یہ تو بالکل برعکس مراد ہوتا تو اس کو یہاں قرینہ بے اصل دعوٰی ٹھہرانا اصل مطلب سے غفلت پر مبنی ہے۔ تلاشی کے وقت اچکن ٹوپی کا مدعی کے یہاں سے بر آمدن ہونا بھی اسی کا مؤ ید ہے کسی طرح قرین قیاس نہیں کہ لوگ ڈاکہ ڈالنے جائیں اور فقط روپے آٹھ آنے کے دو استعمالی کپڑے لے کر چلے آئیں پھر انہیں اپنے یہاں رکھ چھوڑیں یہاں تک کہ کئی دن بعد تلاشی میں نکلیں حالانکہ کپڑا فوراً پہچانے جانے کی چیز ہے، لاجرم وہ اسی طرح آلئے جس طرح مدعی بیان کرتا ہے اور انہیں گھر میں رکھنے سے احتراز نہ کیا کہ خود پہننے والی ہی موجودتھی اوراس نے اپنی خوشی سے نکاح کیا تھا مدعی مطمئن تھا کہ فساد نہ اٹھے گا آخر کئی روزتک اس کے چچا، بھائی خاموش رہے۔ تھانے میں بھی خبر نہ کی بلکہ چچا اور بھائی اور بہنوئی خود یہاں آکر اس سے مل گئے جیسا کہ حبیب النساء بیگم و عصمت جہاں بیگم و نہال الدین خاں کے اظہار سے ثابت ہے وہ اقرار کرتا ہے کہ محمد رضاخاں مجھ کو اندر مکان کے لے گئے تھے اوردوسرے اظہار میں یہ بھی لکھایا ہے کہ محمد رضاخاں نے لڑکی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے بھائی آتے ہیں ، کیا جو کوئی بھگا کر لاتا ہے اس کے بھائی کو یوں مکان کے اندر لے جاتا ہے، آگے نہا ل الدین خاں کا کہنا کہ بعد لے جانے کے محمد رضاخاں نے مجھ سے کہا کہ تم کیوں آئے ہو چلے جاؤ ہم تم کو ماریں گے، محض نامقبول ہے، ان لوگوں کو نامنظور ہوتا تو پہلے ہی مکان میں کیوں جانے دیتے، ہاں شاید اس نے اندر جاکر اپنی بہن کو کچھ بھکانا یا دھمکانا شروع کیا ہو، اس  پر محمد رضاخاں نے ایسا کہا ہو، نیز مدعی کو اطمینان تھا کہ کسی نے فساد چاہا بھی تو عصمت جہاں بیگم جوان عورت خود مختار ہے، اس پر کسی کی ولایت جبر یہ نہیں وہ اپنی عصمت پر تہمت نہ رکھے گی، اور ہوا بھی ایسا ہی، وہاں جواس کا اظہار ہوا ہے اس میں سارا واقعہ کہہ سنایا مگر جب بالجبر باپ کے یہاں بھیج دی گئی یہاں اسے پڑھایا ہوا سبق پڑھنا پڑا، اس سلسلہ وار قرین قیاس واقعہ کو دیکھ کر کچھ بھی ا س کا تعجب نہیں رہتا کہ عصمت جہاں بیگم نے کیونکر بوستاں خاں سے خطاب توکیل کیاہوگا مگر زیادہ تعجب تو اس کا ہے کہ عصمت جہاں بیگم نے اظہارات جو اس نے اجنبی مردوں حکام وغیرہم کے سامنے دھڑلے کی صفائی سے آٹھ دس صفحہ مطول پر لکھا ئے ہیں جن میں وہ عندلیب ہزار داستان بن  کر چہکی ہے جن میں کہیں نہ تو اس کی تیوری پر میل آیا نہ اس کی آنکھ جھپکی نہ اس کی زبان بہکی ہے انہیں ملاحظہ فرماکر اتنی بات کو بعیداز عقل سلیم کہا جاتا ہے کہ بھائی بوستاں خاں میں نے تمہیں اپنے نکاح کا وکیل کیا، ان اظہاروں کا دیکھنے والا انگشت بدنداں رہ جاتا ہے کہ کمسن نوجوان پردہ نشین شریف زادی جسے غیر مردوں سے بات کرنے کا اتفاق تو بالائے طاق بقول اس کے یہ بھی نہیں جانتی کہ میرے مکان کے دروازہ کے سامنے کس کا مکان ہے وہ اور خاص اہلکاران حکومت کے سامنے چالاک وکیلوں کے پیچ در پیچ جرحوں کے مقابل یہ کچھ طراریں دکھانا یوں صفائی سے نکل جانا سچ پوچھئے تو بعیداز عقل سلیم اسے کہئے اس کے ابتدائی اظہار پر لچھے دار بیان کا تسلسل دیکھ کر وکلائے مدعی کو گمان ہو اتھا کہ شاید اس کے قانون دان باپ نے اسے اظہار لکھ کر دے دیا ہے جسے پڑھ کر سنارہی ہے جس کا جواب اس نے وہ چمک کر دیا کہ کاغذ دیکھنے والے پرلعنت ہے، کتنا پہلو دار جواب ہے، معلوم نہیں اس کاغذ کوکہتی ہے جس کی نسبت وکیل مدعی نے شبہہ کیا یا اس کاغذ کو جس پراظہار لکھا جارہا ہے اوروکیل وغیرہ کے پیش نظر ہے، خیر یہاں تو شبہہ صحیح تھا خواہ بے اصل، مگر جرحوں کے جواب تو وہ لکھواکر نہ لاسکتی تھی وہاں اس کی تیز زبانیاں شیوابیانیاں قابل تماشہ ہیں اس کے باپ کی نسبت کو توال ریاست نے لکھایا ہے کہ تجربہ کار قانون دان مشہور ہے مگر موازنہ تو صاف کہہ رہا ہے کہ عصمت جہاں بیگم کا اظہار اس کے باپ کے اظہار سے کہیں زیادہ چاق وباطمطراق  ہے وہ ان اجنبی مردوں نہ صرف اجنبی بلکہ حاکمانہ اظہار لینے والوں اور مخالفانہ جرحیں کرنے والوں کے مجمع میں اپنی ظریف طبیعت کے رنگ کو بھی نہ بھولی زہر یا دھتورے کے لڈو جنہیں کھلا کر اسے اور اس کے سارے کو بیہوش کردینا بتایا گیا ہے ان کی تعداد و وزن تخمینی سے وکلانے سوال کیا تھا جس کا جواب لکھاتی ہے کتنے نہیں بتاسکتی نہ یہ بتاسکتی ہوں کہ پانچ تھے یا پانچ سے زیادہ تھے، آٹھ تھے یا آٹھ سے زیادہ تھے ، تخمینہ سے بھی نہیں بتا سکتی کہ دس تھے یا اس سے زیادہ تھے ، چار یا پانچ تخمیناً تھے، ان چار پانچ کا وزن نہیں بتاسکتی، نہ ایک لڈو کا وزن تخمیناً بتاسکتی ہوں کہ ماشہ بھر یا تو لہ بھر یا چھٹانک بھر تھا یا سیر بھر تھا یا من بھر تھا۔ سوال تھا کہ ایک لڈو کتنے نوالوں میں کھا لیتی تھیں ، جواب دیا نہیں بتا سکتی ، نہ یہ کہہ سکتی ہوں کہ ایک لڈو کے آٹھ یا دس یا بیس یا پچاس نوالے ہوتے تھے۔ سوال تھا کہ لڈو کھانے کے کتنی دیر بعد یہاں سے روانہ ہوئی، کہا تخمیناً بھی نہیں بتاسکتی۔ وکیل نے پوچھا ایک گھنٹے بعد یا ڈیڑھ گھنٹے بعد۔ کہا میں کچھ 

نہیں کہہ سکتی سب گھنٹے بعد، پھر ایک سوال کے جواب میں کہاآنے میں اور کھاناکھانے کے وقت تک چار پانچ گھنٹے ہوئے یہ نہیں کہہ سکتی مجھ کو متشابہ تھا، وکیل نے پوچھا متشابہ آپ کو کیوں تھا، اس پر بولی آپ نے لفظ ''ہ''زیادہ کردیا مجھ کو کتاب سے بتلا دو یہ میر ی سمجھ میں نہیں آتا، زہر کے لڈو کھانے کے آثار سے سوال ہوا، اس کا جواب دیتی ہے ہم کو یاد نہیں کہ کلیجے پر جلن تھی یا نہیں ہم کو یاد نہیں کہ پیٹ میں درد ہوا تھا یانہیں، یہ بھی یاد نہیں کہ گلے میں سوزش ہوئی تھی یانہیں، آئینہ ہمارے ہاتھ میں نہ تھا کہ میں دیکھتی کہ آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں یا کیا، مجھے یاد نہیں کہ میرے گلے میں خشکی تھی یانہیں، تین مہینے سے اونچا عرصہ ہوا۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ کسی کو پیاس تھی کہ نہیں، میں نہیں کہہ سکتی میرے سر میں درد ہوا یانہیں، میں نہیں کہہ سکتی کہ چکا چوند ہوا یا نہیں، نہ میں نے پاگل دیکھا، نہ میں جانوں ،نہ کودنا، اچھلنا، جنون لڑکھڑانا، پاؤں کا پھدکنا ناچنا، واہی تباہی، ہوامیں ہاتھ مارنا، ان سب باتوں کو میں نہیں جانتی، یہاں تک کہ لکھاتی ہے کسی مرد نے کہا پلنگ پر لیٹ جاؤ میں لیٹ گئی پلنگ پر لیٹنے کے بعد صبح تک ہوش نہ ہوا صبح کو اٹھی جب معلوم ہوا کہ مجھے خراب و بے عزت کیا پاجامے کی کلیوں پر خون لگا تھا یہ نہیں معلوم کس نے خراب کیا، جب تک مظہرہ ملزمان کے قبضہ میں رہی مظہرہ سے براکام حسن رضاخاں ڈرادھمکا کر کرتا رہا، کچہریوں کے اظہار اور وکلاء کی چتھاڑ میں بڑ ے بڑے مرد گھبراجاتے ہیں نہ کہ عورت نہ کہ کمسن نہ کہ پردہ نشین نہ کہ ناکتخدا نہ کہ ایسے بھنورے کی پلی جسے یہ بھی خبر نہیں کہ اس کے دروازے کے سامنے کس کا مکان ہے نہ کہ ایسی گلفشانیاں یہ حرف گیریاں نہ کہ کلیوں کے خون تک کاصفائی سے بیان، یہ سب اس کی آزاد بیباک طبیعت کے چہچہے تھے، پھر اسے اتنا کہنا کیا محال تھا کہ بھائی بوستاں خاں !میں نے تمہیں وکیل نکاح کیا غرض یہاں مدعائے مدعی کے خلاف کوئی قرینہ نہیں بلکہ قرائن بھی اس کی طرف ہیں۔