Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
65 - 151
 (۲۷) محمد حسن خاں کی شہادت اس وجہ سے لغو ہے کہ اس تمام بیان میں کہیں تذکرہ نام مدعا علیہا کا نہیں، نہ کوئی ثبوت اس کی شناخت کا ہے بلکہ ایک حکایت ہے کہ کوٹھری میں سے جوآوازآرہی تھی اس کا اعادہ کیاہے، یہ اعتراض بھی تمام شبہات پر نظرنہ فرمانے سے ناشی ہے،



اولاًمحمد حسن خاں نے جہاں یہ کہا ہے کہ ایک کوٹھری جس میں کواڑ نہیں ہیں پردہ پڑا تھا اس میں سے یہ آواز آرہی تھی کہ میں اپنی خوشی سے آئی ہوں میری سوتیلی ماں سے ہمیشہ رنج رہتا تھا میرے والد مولوی مسعود خاں شہر میں نہیں ہیں حسن رضاکے ساتھ میرا بیڑا بھی ہوچکا تھا اس وجہ سے میں یہاں چلی گئی اور ان سے آکر کہا میرا آج ہی نکاح کردو نہیں تو میں جیسے پہلے چلی گئی تھی ویسے ہی چلی جاؤں گی، وہاں یہ بھی کہا ہے کہ پردہ سے منہ بھی نکالا تھا میں نے منہ بھی دیکھاتھا پھر ثبوت شناخت کی کیا ضرورت،یہاں بھی وہ مباحث پیش آئیں گے جوامر ۱۹و۲ میں نسبت شہادت جلال خاں گزرے محمد حسن خاں صرف کوٹھری کی آواز کا حاکی نہیں بلکہ آواز والی کو اسی وقت منہ دیکھ کرپہچانے ہوئے ہے۔

ثانیاً دربارہ نام مدعا علیہا وہ بحث جو زیر امر ۲۲گزری عائد ہے مولوی مسعود خاں کی بیٹی جو اس اظہار کے قابل ہو صرف عصمت جہاں بیگم ہے رفع جہالت کو اس قدر بس ہے اگرچہ نام نہ لیا گیا، یہ اور اس کو باپ کی گواہی ثبوت نکاح کے لئے نہ تھی بلکہ اس سے بیان عصمت جہان بیگم کی تکذیب مقصود ہے کہ وہ برضائے خود آئی ہے نہ کہ دوسری طرح۔

(۲۸) محمد حسن خاں نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ تھانہ دار نے نہال الدین خاں او محمود خاں سے کہا تم نے اس کوٹھری میں یہ بھی دیکھ لیا کہ کوئی اور تو نہیں انہوں نے کہا اس میں ہماری ہی بھانجی ہے اور کوئی نہیں یہ قول بھی محمد حسن خاں کاغلط ہے اس لئے کہ مسماۃ نہال الدین کی بہن اور محمود خاں کی بھتیجی ہے نہ کہ بھانجی۔

اولاً کسی امر عظیم میں اشغال کے وقت کی زبان ایک آدھ لفظ میں بہک جانا کچھ مستبعدنہیں ہوتا محمود خاں کےلئے اس واقعہ کا سخت امر عظیم ہونا باتفاق فریقین ثابت ہے فریق عصمت جہاں بیگم کے طور پر تو ظاہر حتی کہ ایک فیصلہ میں بیان کیا گیا ہے کہ مسعود خاں اسی صدمہ سے دوران مقدمہ مرگیا محمود خان ان کا حقیقی بھائی ہے اگر بھتیجی کا بھانجی شدت صدمہ میں زبان سے نکل جائے کیا جائے تعجب ہے اور فریق حسن رضاخاں کے طور پر یوں کہ معاذاﷲ حقیقی بھتیجی نوجوان کنواری باپ کے یہاں سے بھاگ کر ایک شخص کے یہاں چلی گئی اور خود نکاح کرلیا اور باپ بالجبر بلانا چاہتا ہے تو چچا اور بھائی کے سامنے یہ صاف صاف اظہار میں تھانے دار کو کہہ رہی ہے میں نہیں جانتی کون سے پیڑ پر رہتے ہیں کس باغ کی مولی ہیں عیاذ اباﷲ یہ کیا تھوڑے صدمہ کا مقام ہے، پھر اتنی زبان بہکنا کیا محال، اور جب یہ ممکن اور ضرور ممکن تو مجوز ذی علم نے کیونکر یقین کرلیا کہ یہ محمد حسن خاں کی غلطی ہے، کیا متحمل نہیں کہ محمود خاں ہی کی غلطی ہو اسی نے گھبراہٹ اور سخت رنج کی حالت میں بھانجی کہا محمد حسن خاں نے جو اس سے سنا وہی نقل کردیا اسے اپنی طرف سے تصرف کا کیا اختیار تھا مع ہذا کیا محال ہے کہ عصمت جہاں بیگم کی ماں محمود خاں کی رشتہ کی بہن ہو تو بھانجی کہنے میں کوئی غلطی بھی نہیں۔

ثانیاً بالفرض اگر یہ لغزش محمد حسن خاں ہی نے کی تو کیا الزام ہے کیایہاں عصمت جہاں بیگم کی نسبت وقرابت کاکوئی مقدمہ پیش تھا کہ بھتیجی کی جگہ بھانجی کہنے میں فرق پڑگیا یا شاید خواہ مدعی کا اس کے بھانجے ہونے میں کوئی نفع بھتیجی ہونے میں کوئی نقصان تھا پھر ایسے لغو و فضول امر سے جس کے لئے مقدمہ میں کوئی اثر نہیں اعتراض یعنی چہ۔

(۲۹) یہ بھی لغویت قول گواہ مذکور ہے کہ اس نے واقعہ کی مدت قطعی آٹھ ماہ کی بیان کی ہے اور بروئے حساب کہ تاریخ عقد۲۴/اپریل ۱۹۰۴؁ء ہے تاروزادائے شہادت کہ ۴/دسمبر ۱۹۱۴؁ء ہے مدت سات ماہ نو دن ہوتے ہیں تو یہ شہادت متعلق کسی واقعہ مقابل کے ہے،

اولاً سخت حیرت ہے کہ یہاں جو نقل اظہار آئی اس میں صاف یہ لفظ ہیں عرصہ تخمیناً آٹھ ماہ کا ہوا کہاں تخمیناً کہاں قطعاً۔

ثانیاً اﷲ عزوجل فرماتا ہے :
الحج اشھر معلومٰت۱؎
زمانہ حج چند ماہ معلوم ہیں۔
 (۱؎ القرآن الکریم     ۲ /۱۹۷)
اشھر بصیغہ جمع فرمایا جس کا اقل تین ہے حالانکہ وہ صرف یکم شوال سے دہم ذی الحجہ تک دو مہینے دس دن اور امام شافعی کے نزدیک نہم تک دومہینے نودن ہیں۔
ردالمحتار میں علامہ مصطفی رحمتی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہما کے حاشیہ درمختار میں سے ہے :
اطلق اشھر فی قولہ تعالٰی الحج اشھر معلومٰت علی شھرین وبعض الثالث۲؎۔
اشھر جمع کا اطلاق، اﷲ تعالٰی کے قول''اشھر معلومات'' میں دوماہ اورایک ماہ کے کچھ حصے پر کیاگیا ہے(ت)
(۲؎ ردالمحتار )
جب دو مہینے نو دن کو تین مہینے کہنا جائز ٹھہراتو سات مہینے نودن کو آٹھ مہینے کہنے میں کیاگناہ ہوا، ہاں اگرمحمد حسن خاں قید لگاتا کہ پورے آٹھ مہینے ہوئے یا بے کم وبیش یا کامل تو ضرور اعتراض کا محل تھا،

معالم التزیل میں ہے :
شوال وذوالقعدۃ وتسع من ذی الحجۃ وانما قال اشھر بلفظ الجمع لان العرب تسمی الوقت تاما بقلیلہ وکثیرہ فیقول اتیتک یوم الخمیس وانما اتاہ فی ساعۃ منہ ویقولون زرتک العام وانما زارہ فی بعضہ اھ۱؎مختصراً۔
شوال، ذوالقعدہ اور نودن ذی الحجہ ہیں، اس کے باوجود اشھر جمع کا لفظ فرمایا، کیونکہ عرب لوگ کچھ وقت کا تمام وقت پر اطلاق کرتے ہیں، وہ کہتا ہے میں جمعرات کو تیرے پاس آیا حالانکہ آنا صرف ایک ساعت میں ہوا، یوں ہی کہتے ہیں میں نے اس سال تیری زیارت کی حالانکہ زیارت کچھ حصہ میں کی ہے اھ مختصراً(ت)
 (۱؎ معالم التنزیل علٰی ہامش تفیسر الخازن    تحت آیۃ الحج اشھر    المصطفی البابی مصر    ۱ /۱۸۰)
ولہذا احتمال مجاز رفع کرنا چاہا قرآن عظیم نے قید کمال بڑھاکر
تلک عشرۃ کاملۃ۲؎
(یہ دس کامل ہیں۔ت)فرمایا کشاف میں زیر قولہ تعالٰی
حولین کاملین
(دوسال کامل۔ت) لکھا تو کید کقولہ تعالٰی :
تلک عشرۃ کاملۃ لانہ ممایتسامح فیہ فتقول اقمت عند فلان حولین و لم تستکملھما۔
یہ دس کامل ہیں، کیونکہ یہ ان امور میں سے ہے جن میں تسامح سے کام لیا جاتا ہے، تو کہتا ہے میں نے فلاں کے پاس دو سال قیام کیاحالانکہ تو نے پورے دو سال نہ کیا۔(ت)
 (۲؎ القرآن الکریم     ۲ /۱۹۶)

(۳؎ الکشاف للزمخشری     تحت آیۃ حولین کاملین     انتشارات آفتاب قم ایران    ۱ /۷۰۔۳۷۹)
شہادتوں پر دیگر اعتراضات کا بھی خاتمہ ہوگیا، اب قرائن سنئے:
قرائن :
 (۳۰) واقعہ حیرت خیز خلاف عقل ہے، عورت پردہ نشین ناکتخدا معزز نامی شخص کی بیٹی کا پاپیادہ تنہا شب میں بلا اعانت شخص دیگر کے محلہ مدرسہ سے باغ انگوری تک آنا پھر خواہش نکاح کی کرنا اور بلا علم و شرکت اعزا ومعززین محلہ بوکالت اجنب نا آشنا وشہادت اشخاص غیر شناسا نکاح ہونا اصلا قابل باور ہونے کے نہیں اور اس سے پہلے توکیل بوستاں خاں کی نسبت فرمایا مدعا علیہا پردہ نشین شریف زادہ ہے اس بیباکی وبے حیائی کے ساتھ ایک شخص اجنب سے ایسے شرم کے وقت جو ذلیل ترین عورت بھی ایسی باتیں نہیں کرسکتی بلحاظ رسم ورواج شرفاء اصلاً عقل سلیم اس کو باور نہیں کرسکتی یہ جملہ کار سازی مصلحتی و صنعتی ہے۔

اولاً صریح شہادتوں کے خلاف قرائن پر حکم ناممکن۔ 

علماء فرماتے ہیں :
ان البینۃ کاسمہا مبینۃ والثابت بالشہادۃ کالثابت بالمشاھدۃ۔
البینۃ اپنے نام کی بناء پر واضح کرنے والا ہوتا ہے، شہادت سے ثابت شدہ چیز مشاہدہ سے ثابت شدہ کی طرح ہے(ت)
آدمی جس طرح آنکھوں دیکھی بات کو محض اس بنا  پر رد نہیں کرسکتا کہ قرینہ اس کے خلاف ہے یوں ہی ثابت بالشہادۃ کو، قرائن سے غایت درجہ اگر ہوگا تو یہ کہ بیان شہود میں ریب و تہمت پیدا ہو اور محرر مذہب سید نا امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کتاب الاصل میں تحریر فرماتے ہیں کہ ریب و تہمت کے سبب گواہیاں رد نہیں ہوسکتیں،
فی الھندیۃ عن المحیط عن الاصل القاضی وان کان یتھمھم فالشہادۃ لاترد بمجرد التھمۃ۱؎۔
ہندیہ میں محیط سے اصل (مبسوط) کے حوالہ سے ہے کہ اگر قاضی گواہوں کو متہم بھی کرے تب بھی محض تہمت کی بنا پر شہادت مردود نہ ہوگی(ت)
(۱؎ فتاوی ٰ ہندیہ     کتاب ادب القاضی     البا ب الخامس عشر     نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۳۴۵)
Flag Counter