Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
64 - 151
(۲۲) سید فضل علی شاہ قاضی نکاح خواں اگرچہ نیک آدمی اور بہت اچھا ہے لیکن شہادت بوجہ جہالت غیر مفید ہے کہ شہادت مذکور سے نہ تعین تاریخ ثابت ہے نہ مہینہ نہ اسمائے گوہان نہ وکالت نہ اسم منکوحہ جو شرط ہے اس مقدمہ میں، سید صاحب موصوف کی شہادت ضرورمحض نامسموع ہے اور یہی وہ شہادت ہے جس کاسننا اور اس میں اپنا اور شاہد ووکلائے فریقین کا وقت ضائع کرنا مجوز کا ہر گز جائز نہ تھا کہ جب وہ پیش از شہادت ہرگز صحیح نہیں اور اس کا سننا سنانا سب ناجائز وتضییع وقت تھا۔ اس شہادت پر اعتراض یہ ہے نہ یہ کہ تعین تاریخ و ماہ وذکر اسماء گواہان ووکالت سےخالی ہونےکے باعث بوجہ جہالت غیر مفید ہے شہادت نکاح میں ان اشیاء سے کسی کا ذکر اصلاً لازم نہیں، تاریخ وماہ کی نسبت عبارات نمبر ۲۰ میں گزریں اور وکالت واسمائے گواہان کا ذکر اس سے بھی زیادہ لغووغیرضروری، کیا ذی علم مجوز کسی کتاب سے ثبوت دے سکتے ہیں کہ شہادت نکاح جب تک اسماء گواہان ووکالت کا ذکر نہ ہومردود ہے؟ہرگز نہیں، رہا اسم منکوحہ اگرچہ قاضی صاحب نے عصمت جہاں بیگم کا نام زبانی نہ لیا صرف اتنا کہا کہ نام رجسٹرمیں لکھا ہے مگر یہ ضرور کہا کہ مسعود خاں کی دختر نے اپنے نفس کا اختیاردیا مسعود خان کی دختر جو اپنے نفس کا اختیار دینے کے قابل ہو ایک یہی عصمت جہاں بیگم ہے، اس کی دو چھوٹی بہنیں بہت صغیر سن ہیں کہ کسی تصرف کی اجازت دینے کے قابل نہیں اور مقصود منکوحہ کا تعین ہے اگرچہ کسی طرح ہوکچھ نام لینے ہی کی ضرورت نہیں مثلا گواہ گواہی دیں کہ زید نے اپنی بڑی لڑکی کا نکاح کیا شہادت مقبول ہے  یہاں تک کہ اگر گواہ یہ بھی کہیں کہ مگر ہم نہیں جانتے کہ یہ مدعا علیہا زید کی بڑی لڑکی ہے جب بھی گواہی مقبول ہوگی اور مدعی سے اس پر گواہ لئے جائیں گے کہ یہی مدعی علیہا ا سکی دختر کلاں ہے، 

عالمگیریہ میں ہے :
فی الخزانۃ قال زوج الکبری لکن لاندر الکبری یکلفہ باقامۃ البینۃ ان الکبری ھذہ۱؎۔
خزانہ میں ہے کہ گواہوں نے بڑی لڑکی کا ذکرکیا اور ساتھ ہی کہا لیکن ہمیں بڑی لڑکی کا تعارف نہیں ہے تو گواہوں کو پابند کیاجائیگا کہ بیان کریں کہ بڑی لڑکی یہ ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب السابع        الفصل الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۵۰۳)
جامع الفصولین میں ہے :
شھدا انہ زوج بنتہ منہ ولا نعرفہا بوجھھا فلو لم تکن لہ الابنت واحدۃ تقبل لزوال الجھالۃ۲؎۔
گواہوں نے شہادت دی کہ اس نے اپنی لڑکی کا فلاں سے نکاح کیا ہے لیکن ہم لڑکی کو چہرہ سے نہیں پہچانتے تو اگر اس شخص کی ایک ہی لڑکی ہو تو شہادت قبول کی جائیگی کیونکہ جہالت نہ رہی (ت)
 (۲؎ جامع الفصولین     الفصل العشرون فی دعوی النکاح الخ    اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۵۷)
 (۲۳) محمد جان کی شہادت ضرور لغو و مہمل ہے کہ وہ صراحۃً کہتا ہے میں نے نہ سنا کیا نام مسماۃ کا لیا تھا اور نام کے علاوہ بھی کوئی پتہ اصلاً نہیں بتایا مگر علی حسین کی گواہی اگرچہ لغو رہی کہ ناکح ومنکوحہ کسی کانام نشان نہیں لیکن انصافاً، وہ لغو رکھی گئی شاہد جب ایسی گول مجمل بات کہے تو حاکم کو حکم ہے کہ اس سے استفسار کرے تاکہ بات صاف ہوجائے ناتمام بات کہے تو اس سے پوچھے کہ  بات پوری ہوجائے۔ 

معین الحکام میں ہے :
ینبغی ان یسھل اذن البینات ولا یمطلھم فاذا حضرواانسھم وقر بھم وبسطھم و سالھم عن شہادتھم فان کانت تامۃ قیدھا وان کانت ناقصۃ سألھم عن بقیتھا وان کانت مجملۃ سألھم عن تفسیرھا۱؎۔
گواہوں کی اجازت کا معاملہ آسان بنانا مناسب ہے اس معاملہ میں گواہوں کو تاخیر میں مبتلا نہیں کرنا ہوگا جب وہ حاضر ہوجائیں تو قاضی ان کو انس، قرب اور فراخی دے کر ان سے شہادت لے اگر شہادت مکمل ہو تو نو ٹ کرلے ورنہ ناقص ہو تو بقیہ امور پوچھے اور اگر شہادت مجمل ہو ان سے تفسیر پوچھے۔(ت)
 (۱؎ معین الحکام     الفصل السادس فی سیرتہ مع الخصوم     مصطفی البابی مصر    ص۲۳)
اور یہ تلقین نہیں بلکہ نظر ہے جس کے لئے قاضی مقرر ہوا، اکثر ابنائے زمانہ جاہل ہیں و ہ نہیں جانتے کہ شہادت میں شرعاً کیا کیا ضرور ہے اگر انہیں کے بیان پر چھوڑ اجائے عام شہادتیں ناقص و ناتمام اتریں گی اور حقوق مسلمین ضائع ہوں گے ولہذا اگر حاکم جانے کہ مدعی دعوی بروجہ صحیح ادا نہ کرسکے گاتو اسے اجازت ہے مدعی کو دعوٰی کرنے کا طریق سکھادے ورنہ وہی حاصل ہوگا کہ صاحب حق حق سے محروم رہے گا، 

عالمگیریہ میں ہے :
رجل لایحسن الدعوٰی والخصومۃ فامر القاضی رجلین فعلماہ الدعوی الخصومۃ ثم شھداعلی تلک الدعوی جازت شہادتھما ان کانا عدلین ولاباس بذٰلک علی القاضی بل ھو جائز فیمن لایقدر علی الخصومۃ ولا یحسن الدعوی خصوصا علی قول ابی یوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کذا فی الظہیریۃ۔۲؎
اگر کوئی شہادت یا بحث کا طریقہ نہیں جانتا قاضی دو آدمیوں کو حکم دے کہ وہ اس کو شہادت اور بحث سکھائیں پھر وہی دو شخص اگراس دعوٰی کے گواہ ہوں تو ان کی شہادت جائز ہوگی بشرطیکہ وہ دونوں شخص عادل ہوں اس میں قاضی پر کوئی اعتراض نہ ہوگا بلکہ یہ جائز ہوگا جبکہ مدعی شخص دعوٰی اور بحث بہتر کرنے کی قدرت نہیں رکھتا خصوصاً امام ابویوسف رحمہ اﷲ تعالٰی کے قول پر ظہیریہ میں یوں ہے۔(ت)
 (۲؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات    الباب الرابع         نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۸۵)
 (۲۴) شفیع حیدر خاں کی شہادت پر اعتراض کہ وہ گواہ نہ توکیل کاہے نہ شناخت کا، جو الفاظ نکاح کے بابت گواہی دی ہے اس میں نہ نام ناکح کا لیا نہ منکوحہ کا، سخت تعجب خیز ہے نقل اظہار کہ یہاں آئی اس کا شروع ان لفظوں سے ہے، عرصہ کم و بیش سات ماہ کا ہوا کہ حسن رضاخاں کا نکاح مسماۃ عصمت جہاں بیگم مولوی مسعود خاں کی بیٹی سے ہوا میرے روبرو میں اس جلسہ نکاح میں شریک تھا، اب اسے کیا کہا جائے یہ تو کھلا گواہ نکاح ہے اور ناکح ومنکوحہ دونوں کانام لے رہا ہے، ہاں اخیر میں یہ لکھایا ہے کہ بوستاں خاں باہر آئے اورکہا کہ چندامیاں نکاح پڑھاؤ تب قاضی صاحب نے خطبہ پڑھا بعد ایجاب وقبول نکاح پڑھایا، یہاں بیشک زوجین کانام نہ لیا پھر کیا ضرور تھاجبکہ اول صراحۃً بتاچکا۔

(۲۵) نظام الدین خاں کی گواہی کا وہی حال ہے جو نمبر ۲۳میں علی حسین کی نسبت گزرا۔

(۲۶) جلال خاں کا حصہ بیان بابت انعقاد نکاح اس وجہ سے قابل لحاظ نہیں کہ جبکہ اس کی شہادت نسبت ثبوت توکیل جو اصل بنا وموقوف علیہ صحت دعوی ہے کالعدم ہے تو اس بارے میں اس کا حصہ بیان کیا معتبر ہوسکتا ہے،

اولاً بیانات سابقہ میں واضح ہوگیا کہ نہ ثبوت توکیل موقوف علیہ صحت دعوی تھا نہ جلال کی گواہی نسبت توکیل کالعدم، دونوں باتیں غلط ہیں۔

ثانیاً بالفرض اگر ایک حصہ بیان بوجہ عدم تعریف مقبول نہ ہو تو دوسرا حصہ بیان کہ امر جدا گانہ کے متعلق ہے کیوں مردود ہونے لگا، نمبر ۵ میں فصول عمادیہ و فتاوٰی عالمگیریہ سے گزرا کہ ایک گواہ نے صرف وکالت پر گواہی دی دوسرے نے وکالت وعزل دونوں پر یعنی وکیل بھی کیا پھر معزول بھی کردیا تو دوسرے کی گواہی دربارہ عزل مردود ہے کہ نصاب تام نہیں اور دربارہ وکالت مقبول کہ اس پر نصاب کامل ہے، 

درمختار میں ہے :
شھدا بالف وقال احدھما قضی خمس مائۃ قبلت بالف الااذا شھدمعہ اٰخر۱؎۔
دونوں نے ایک ہزار کی گواہی دی اور ایک نے یہ بھی کہہ دیا کہ اس نے پانچ سوا دا کر دئے ہیں تو ایک ہزار میں گواہی درست ہوگی مگر جب پانچ سو کی ادائیگی میں کوئی دوسرا ساتھ گواہی دے۔(ت)
 (۱؎ درمختار    کتاب الشہادات     باب الاختلاف فی الشہادۃ     مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۱۰۰)
دیکھو یہاں بھی ایک گواہ کا یہ حصہ شہادت کہ مدعی علیہ پر ہزار روپے آتے تھے مقبول ہوا اور دوسرا حصہ کہ ان میں سے پانچسو ادا کرچکا ہے نہ سنا گیا کتب فقہ میں اس کی بکثرت نظیریں ملیں گی،
اماقول الدرالشہادۃ اذا بطلت فی البعض بطلت فی الکل ۱؎ فقد حققنا فیما علقنا علی ردالمحتاران معناہ ان المشہود بہ الواحد لایقبل مرۃ ویرد اخری بل اذارد رد مطلقا ابدا الااذاکان لہ تعلق بامرین وقام بہ وجہ الرد نظر االی احدھمادون الاٰخر کما فی صور الاستثناء الثمان منہا شرب الخمر الثابت بشھادۃ رجل وامرأتین یقبل فی حق العتق والطلاق المعلقین بہ لا فی حق الحد اذلا شہادۃ للنساء فی الحدود وھکذا فی البواقی ولیس المراد ان الشاہد بعدۃ امور فردت شہادتہ فی احدھما لا یختص بہ لانقدح فی الشاھد ردت فی الامور الباقیۃ ایضا فان ھذا باطل قطعا۲؎ ثم ذکرت الفرعین المذکورین۔
لیکن در کا یہ قول کہ جب بعض شہادت باطل ہوئی تو کل باطل ہوجائے گی، تو اس کی تحقیق ہم نے ردالمحتار پر اپنے حاشیہ میں کردی ہے کہ اس کا معنٰی یہ ہے کہ ایک مشہود بہ(جس بات کی شہادت دی جارہی ہو) کو ایک دفعہ رد کرنے پر دوبارہ قبول کرنا جائز نہیں، جب کردیا تو رد ہی ہوگا دوبارہ قبول کرنا جائز نہ ہوگا بشرطیکہ اس ایک مشہود بہ کا تعلق دو مختلف صورتوں سے نہ ہو اور اگر اس کا تعلق دو مختلف صورتوں سے ہے اور ایک صورت رد کی ہے دوسری نہیں ہے، جیسا کہ آٹھ استثناؤں میں سے ایک یہ کہ شراب خوری جب ایک مرد ا وردو عورتوں کی گواہی سے ثابت ہو تو یہ شہادت شراب خوری سے معلق کردہ امور عتق اور طلاق میں مقبول ہے اور یہی شہادت شراب خوری پر حدکے لئے مقبول نہ ہے کیونکہ حد میں عورتوں کی شہادت جائز نہیں، یوں ہی باقی امور میں بھی۔ ردالمحتار کی عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ گواہ جب متعدد امور کی شہادت دے اور ایک میں شہادت اس کی خصوصیت کی بناء پر مردود ہوجائے تو باقی امور میں بھی شہادت مردود ہوجائے کیونکہ یہ بات قطعاً باطل ہے، پھر میں نے اس پر مذکور دوفرعیں ذکر کی ہیں۔(ت)
 (۱؎ درمختار     کتاب الشہادت    باب قبول الشہادۃ وعدمہ مطبع مجتبائی دہلی     ۲ /۹۱)

(۲؎ جدالممتارعلی ردالمحتار )
Flag Counter