Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۱۸(کتاب الشھادۃ ،کتاب القضاء والدعاوی)
63 - 151
دیگر اعتراضات
(۱۹) جلال خاں نے تمام اظہار میں مدعا علیہا کا نام نہ لیا اس کا اظہار نسبت ایک عورت غیر معین کے قلمبندی ہوا ہے بعد پورا لکھا دینے اظہار کے اس نے کہا اور کچھ نہ لکھاؤں گا بعد سننے اظہار اور کرنے انکار کے اس نے بیان کیا کہ جس کا یہ نکاح ہوا تھا اس عورت نے اپنا نام عصمت جہاں بنت مولوی مسعود خاں بتایا تھا، 

اولاً یہاں جو نقل اظہار جلال خاں آئی اس میں شروع سے یہ لفظ ہیں، محمد رضاخاں نے مجھ سے کہا یہ عورت عصمت جہاں بیگم حسن رضاخاں کے ساتھ نکاح کرتی ہے تم گواہی دو۔ پھر یہ لفط ہیں میں گھر میں اندر گیا تو والدہ حسن رضاخاں نے عصمت جہاں کو مجھ کو دکھادیا، تو کیونکر صحیح ہو کہ اظہار میں مدعا علیہا کا نام نہ لیا۔

ثانیاً کچہریوں کاضابطہ یہ ہے کہ گواہ بیان کرتا ہے اور اہلکار لکھتا جاتا ہے ظاہر ہے کہ کہنے اور لکھنے میں بڑا فرق ہے کچھ الفاط کا رہ جانا مستبعد نہیں ولہذا یہ امر لازم رکھا گیا ہےکہ اظہار لکھ کر گواہ کو سنالیا جائے کہ کہیں کچھ فرق کچھ کمی بیشی ہو تو صحیح ہوجائے اظہار اس وقت مکمل سمجھا جاتا ہے جب بعد سنانے کے تطبیق ہوجائے اب اگر کچھ لفظ لکھنے سے رہ جائیں تو فرمائیے گواہ کیا کرے اگر سکوت کرتا ہے تو اظہار ناقص رہتا ہے بتاتا ہے تو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ تو بیان سننے کے بعد کہتا ہے اگر واقع ابتدائی اظہار جلال خاں میں وہ فقرے کہ ہم نے اوپر نقل کئے مکتوب نہیں توذی علم مجوز نے بہت مناسب تحریر فرمایا کہ اظہار ایک غیر معین عورت کی نسبت قلمبند ہوا ہے قلمبند یونہی ہوا ہوگا جس کی تصحیح جلال خاں نے سناتے وقت کردی۔

ثالثاً یہی سہی کہ گواہ نے اولاً تمام اظہار میں عصمت جہاں بیگم کا نام نہ لیا مگر ابھی کہ مجلس اظہار ختم نہ ہوئی گواہ نے وہاں سے قدم نہ ہٹایا اگر ایک امر کہ اگلے بیان کے کسی حرف سے اصلاً مخالف نہ تھا زائد کیاکیا گناہ ہوا خصوصاً وہ بھی کہ شاہد کو اس کا بیان نہایت ضرور تھا، ادائے شہادت کہ اﷲ عزوجل نے اس پر فرض کیا بے اس کے ناقص رہا جاتا تھا، بھلا یہاں تو ابھی مجلس نہ بدلی تھی شاہد وہاں سے ہٹنے بھی نہ پایا تھا، علماء کرام یہاں تک تصریح فرماتے ہیں کہ اگر شاہد عدل مجلس شہادت بدلنے کے بعد دوسری مجلس میں آکر کہے کہ جس کے باب میں میں نے گواہی دی اس مدعی کا یہ نام ہے یا مدعا علیہا کانام مجھ سے چھوٹ  گیا تھا اس کا یہ نام ہے جب بھی قبول کرلیں گے اور شہادت میں اصلاً نقص نہ جانیں گے کہ ان ناموں کا بیان سے رہ جانا کوئی محل تہمت نہیں اوراگرمجلس ہنوز نہ بدلی جب تو موضع شبہہ و تہمت کی تبدیلیں بھی قبول کرلیں گے مثلاً گواہی دی کہ اس مدعی کے اس مدعا علیہا پر ہزار روپے آتے ہیں، ختم شہادت کے بعد کہا میں بھول گیا تھا پانسو آتے ہیں یا مجھے یاد نہ رہا تھا دوہزار آتے ہیں ان تبدیلیوں سے قبول شہادت میں کچھ فرق نہ آئے گا جبکہ مجلس ہنوز نہ بدلی ہو اور شاہد شاہد شرعی ہو یہاں کہ نہ مجلس بدلی نہ شاہد نے کوئی تبدیلی کی صرف ایسی بات بیان کرتا ہے جس میں بتصریح علماء تہمت نہیں اور اس کا تدارک ادائے فریضہ شہادت کے لئے اس پر لازم تھا بعد سماع اظہار اس کے بڑھانے کو وجہ نقص قرار دینا اصلاً صحیح نہیں ہوسکتا،
کافی وبحرالرائق وعنایہ وعالمگیریہ وغیرہما میں ہے :
واللفظ لہذہ ان کان عدلا قبلت شہادتہ فی غیر موضع الشبھۃ مثل ان یدع لفظۃ الشہادۃ او یترک ذکر اسم المدعی او المدعی علیہ اوالاشارۃ الٰی احدھما سواء کان فی مجلس القضاء اوفی غیرہ اما فی موضع شبھۃ التلبیس کما اذا شہد بالف ثم قال غلطت بل ھی خمسمائۃ او بالعکس تقبل اذا قال فی المجلس، وبعد ماقام عن المجلس فلم تقبل ۱؎اھ باختصار۔
الفاظ عالمگیری کے ہیں،اگر گواہ عادل ہوتو موضع شبہہ کے غیر میں اس کی یہ شہادت کہ لفظ شہادۃ یا مدعی یا مدعی علیہ کانام یا دونوں میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ چھوٹ گیا مقبول ہوگی خواہ مجلس قضاء ہو یا غیر ہو لیکن مقام شبہہ میں مثلاً پہلے اس نے ہزار کی شہادت دی اب کہتا ہے یہ غلطی ہوئی بلکہ پانچ سو ہے یا اس کا عکس کرتا ہے تو مجلس قضاء میں قبول کی جائیگی اور مجلس قضاء ختم ہونے کے بعد قبول نہ ہوگی اھ اختصاراً(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیۃ    کتاب الشہادات    الباب الثالث    نورانی کتب خانہ پشاور    ۳ /۴۶۳)
رابعاً بفرض غلط یہ بھی سہی کہ جلال خاں کا پچھلا الحاق نہ مانا جائے گا پھر کیا ہو اسی قدر ناکہ عصمت جہاں بیگم کانام اس نے نہ لیا مگر اس سے غیر معین عورت پر شہادت کہاں سے لازم آئی وہ صراحۃً کہہ رہا ہے کہ میں نے اس عورت کا منہ دیکھاتھا، نام سے تو وہ تعیین ہو بھی نہیں سکتی جو منہ دیکھنے سے ہوتی ہے تو وہ ضرورایک معین عورت پر گواہی دے رہا ہے جو اس کی دیکھی ہوئی ہے ہاں مجوز کو معلوم نہ ہو اکہ عصمت جہاں بیگم ہی وہ عورت ہے جسے گواہ نے دیکھا اور اس پر گواہی ادا کی یا وہ کوئی اور عورت تھی ہم اوپر بیان کرآئے کہ اس کا چارہ کار مجوز کے ہاتھ میں تھا نہ کہ گواہ کے، مجوز نے عصمت جہاں بیگم کو کیوں نہ بلوایا شاہد کے سامنے اس کا منہ کیوں نہ کھلوایا کہ وہ شناخت کرتا عصمت جہاں بیگم اگر ذی عزت خاندان سے پردہ نشین مخدرہ تھی کہ کچہری میں اس کا آنا مناسب نہ تھا حاکم نے اپنے امین کے ساتھ جلال خاں کو عصمت جہاں بیگم کے مکان پر بھیج کر تکمیل شہادت کرائی ہوتی، خود شہادت کامل نہ ہونے دینا اور شاہد پر اعتراض کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ بالجملہ کچھ خاص اسم و نسب ہی کے ساتھ معرفت لازم نہیں بلکہ یا یہ ہو یا معرفت چہرہ۔

جامع الفصولین میں ہے :
المعرفۃ بالوجہ او بالنسب لابد منھا لاداء الشہادۃ۱؎۔
شہادت کی ادائیگی میں چہرے یا نسب کی شناخت ضروری ہے(ت)
 (۱؎ جامع الفصولین     الفصل التاسع        اسلامی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۱۲۲)
اس اظہار میں اگر قسم اول متروک تھی، ثانی مذکور تھی اوراس کی تکمیل بدست حاکم تھی فافھم۔
 (۲۰) سروری بیگم وامجدی بیگم کی شہادتوں پر اعتراض فرمایا کہ مدت واقعہ کی بلاایرادحرف یا کے اس طرح بیان کی ہے کہ عرصہ سات آٹھ ماہ کا ہوا جو محمول دو مدت پر ہے ایسی شہاد ت بوجہ جہالت شرعاًقابل قبول نہیں، بلاایرادحرف یا کا ذکر تو بیکار ہے حرف یا کے ساتھ ہوتا جب بھی تعیین نہ ہوتا بلکہ جب تعیین نہ ہونا اوراظہر تھا مگر ذی علم مجوز نے اتنا خیال نہ فرمایا کہ ثبوت نکاح تعین زمان پر موقوف نہیں، نہ جہالت زمانہ اس کو مضر، تردد تردید سے آخر اسی قدر تو مفہوم ہوگا کہ گواہ کو تاریخ یاد نہیں پھر کیا حرج ہوا۔ علماء تو فرماتے ہیں اگر حاکم گواہ سے وقت پوچھے اور وہ صراحۃً اپنی بے علمی بیان کرے کچھ مضر نہیں کہ یہ لغووزائد بات ہے جس کی تعیین کی ضرورت نہیں،

 وجیز کردری پھر قرۃ العیون میں ہے :
لوسألھما القاضی عن الزمان اوالمکان فقال لا نعلم تقبل لھما لم یکلفا بہ۲؎اھ وفیہا عن الدرالمنتقی عن الفتح وغیرہ لایکلف الشاھد الی بیان الوقت والمکان ۳؎ اھ اقول:  وبون بین بین اختلافھما فی المکان اوالزمان وبین تردد احدھما فی احدھما فان کلا المختلفین قاطع بمقالہ وباختلاف الزمان والمکان یختلف الفعل وما الحق بہ اما المردد فلم یقطع بشیئ فلم یکن الاکعدم البیان فلاخلف فلا محذور۔
اگر قاضی جگہ یا زمانہ کے متعلق گواہوں سے سوال کرے اور وہ لاعلمی ظاہر کریں تو گواہی قبول ہوگی کیونکہ وہ اسکے پابند نہیں ہیں اھ۔ اسی میں الدرالمنتقی سے فتح وغیرہ کے حوالہ سے مذکور ہے کہ گواہ کو مکان یا زمان کے بیان کا پابند نہیں کیاجائے اھ، میں کہتا ہوں گواہوں کازمان یا مکان کے بیان میں اختلاف اور دونوں میں سے ایک کا بیان میں تردد کرنا، ان دو صورتوں میں واضح فرق ہے، اختلاف کی صورت میں دونوں کی بات ایک دوسرے کی بات کیلئے قاطع ہے جبکہ تردد کرنیوالا دوسرے کی بات کا قاطع نہیں ہے تو یہ عدم بیان کی طرح ہے جس سے دوسرے کا خلاف نہ ہوا تو خرابی نہ ہوئی۔(ت)
(۲؎ و ۳؎ قرۃ عیون الاخیار    کتاب الشہادات    باب الاختلاف فی الشہادۃ    مصطفی البابی مصر    ۱ /۱۵۱)
 (۲۱) بوستاں خان کی شہادت غیر معتبر کہ وکیل نکاح ہے بذریعہ وکالت خود عقد کرانا مدعاعلیہا کا بیان کیا ہے اور وکیل کی شہادت جس امر میں وہ وکیل ہونا جائز ہے۔ یہ اعتراض اگر کچھ اصلیت رکھتا تو نہ فقط شہادت بوستاں خاں بلکہ خود حاکم مجوز پر بھی تھا، بیان مدعی وتنقیحات مجوز سے ظاہر ہے کہ پیش از شہادت علم مجوز میں آچکا تھا کہ اسے وکیل بتایا گیا ہے اور یہ اپنی وکالت سے وقوع تزویج کی شہادت دے گا تو اسی وقت مجوز پر لازم تھا کہ اسے ہرگز شہود میں نہ لیں اور نہ اتنی طویل دیر تک سماع شہادت وجرح وغیرہ میں اپنا اور اس کا اور وکلائے فریقین کا وقت ضائع نہ فرمائیں کہ جوامر اصلاً صحیح نہیں اس سے اشتغال تضییع وقت کے علاوہ ممنوع وناجائز وگناہ ہے، 

قنیہ ودرمختار وغیرہمامیں ہے :
تکرہ تحریما لانہ اشتغال بمالا یصح۱؎۔
مکروہ تحریمہ ہے کیونکہ یہ غیر صحیح امر میں اشتغال ہے۔(ت)
(۱؎ درمختار    کتاب الصلوٰۃ     باب العیدین         مطبع مجتبائی دہلی     ۱ /۱۱۴)
مگر بحمد اﷲ نہ ذی علم مجوز کا وقت ضائع ہوا نہ گواہ کا، نہ اس سماع شہادت میں مجوز نے کوئی شرعی گناہ کیا کہ شرعاً بوستاں خاں کی شہادت اس مقدمہ میں ضرور قابل سماعت و قبول تھی وکیل کی شہادت جس امر میں وہ وکیل ہو اس وقت ناجائز ہے کہ مشہود بہ یعنی امر مقصود بالشہادت خود اس وکیل کا فعل ہو کہ انسان کی شہادت اپنے فعل پر مقبول نہیں،

 خود عبارات منسلکہ فیصلہ میں قرۃ العیون سے ہے :
قولہ والوکیل ای بالنکاح قولہ لو باثبات النکاح ای لا تقبل باثبات النکاح لانھا شہادۃ علٰی فعلہ۲؎۔
اس کا قول، اور وکیل یعنی نکاح کا۔ اس کا قول اگر نکاح کے اثبات میں ہو، یعنی اثبات نکاح میں قبول نہ کیاجائے گا کیونکہ یہ اپنے فعل پر شہادت ہے۔(ت)
(۲؎ قرۃ عیون الاخیار    کتا ب الشہادات   باب القبول وعدمہ  مصطفی البابی مصر ۱/ ۱۱۱)
نیز یہی علت درمختار سے نقل فرمائی مگر یہاں ایسا نہیں، یہاں فعل ومشہود بہ دو ہیں نکاح کی اجازت دینی 

کہ عصمت جہاں بیگم کا فعل تھا اور تولی عقد یعنی ایجاب یا قبول کرنا کہ قاضی نکاح خوان کا فعل تھا ان دونوں میں بوستاں خاں کا کوئی فعل نہیں وہ بیچ میں صرف مبلغ اجازت تھا جیسا کہ ان بلاد کے عرف عام میں ہر وکیل نکاح کا حال ہےکہ نکاح پڑھوانا قاضی سے مقصود ہوتا ہے اور یہ وکیل صرف مبلّغ اجازت، نہ یہ کہ آپ تولی عقد کرے "والمعہود عرفا کالمشروط لفظا کما نصواعلیہ قاطبۃ"(عرف میں معینہ چیز لفظوں میں مشروط کی طرح ہے جیسا کہ اس پر سب نے نص کی ہے۔ت) ولہذا ذی علم مجوز نے بھی عقد کرانا کہا  نہ کہ عقد کرنا، اور مبلغ کی شہادت مقبول ہے اگرچہ وہ اپنا فعل تبلیغ بھی شہادت میں بیان کرے۔

فتاوٰی عالمگیریہ میں ہے :
عن ابی یوسف فی النوادر اذا شھد شاھدان ان فلانا امرنا ان نبلغ فلانا انہ قد وکلہ ببیع عبدہ وقد اعلمناہ او امرنا ان نبلغ امرأتہ انہ جعل امرھا بیدھا فبلغناھا و قد طلقت نفسہا جازت شہادتھما ولو قال نشھد انہ قال لنا خیرا امرأتی فخیرناھا فاختارت نفسھا لاتقبل شہادتھما کذا فی المحیط۱؎۔
امام ابویوسف رحمہ ا ﷲ تعالٰی سے نوادر میں مروی ہے کہ جب کوئی گواہ یہ شہادت دے کہ مجھے فلاں نے حکم دیا ہے کہ ہم فلاں کو یہ بات پہنچا دیں کہ اس نے اس فلاں کو بیع کا وکیل بنایا ہے او ہم نے اس تک وہ بات پہنچا دی، یا یہ شہادت دی کہ ہمیں حکم دیا کہ ہم اس کی بیوی کو اطلاع دیں کہ اس نے طلاق کا اختیار اسے تفویض کیا ہے تو ہم نے بیوی کو اطلاع کردی ہے اور اس نے اپنے آپ کو طلاق دے دی ہے، یہ گواہی جائز ہے اور اگر گواہوں نےکہاہم شہادت دیتے ہیں کہ اس نے ہمیں اپنی بیوی کی طلاق کا اختیار سونپا ہے اور ہم نے اس کی بیوی کو اختیار دے دیا اور اس نے اپنے آپ کو طلاق دے دی ہے تو یہ شہادت قبول نہ ہوگی، محیط میں ایساہی ہے۔(ت)
 (ا؎ فتاوٰی ہندیہ     کتاب الشہادات     الباب الرابع     نورانی کتب خانہ پشاور     ۳ /۴۶۲)
Flag Counter